https://youtu.be/wu_KE2MaqsM (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍نومبر ۲۰۰۶ء) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا (النّسآء: 2) آجکل پھرعائلی جھگڑوں کی شکایات بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ میاں بیوی کے جو معاملات ہیں، آپس کے جھگڑے ہیں ان میں بعض دفعہ ایسے ایسے بیہودہ اور گھناؤنے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی ہوتی ہیں یا مردوں کی طرف سے یا سسرال کی طرف سے ایسے ظالمانہ رویے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا حکم ذَکِّرْ سامنے نہ ہو کہ نصیحت کرتے رہو، نصیحت یقیناً فائدہ دیتی ہے تو انسان مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ ان بگڑے ہوؤں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ سب حدیں پھلانگ چکے ہیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح و مہدی کی غلامی اور نمائندگی میں نصیحت کرنے کے فرمان الٰہی کے مطابق نصیحت کرتے چلے جانے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے یقیناً ان میں شرافت کا کوئی بیج تھا جس سے یہ نیکی کا شگوفہ پھوٹا ہے کہ احمدیت قبول کرلی اور اس پر قائم ہیں۔ پس اللہ کے حکم کے مطابق اور جو کام ذمہ لگا یا گیا ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہ نصیحت کرو یقیناً اللہ برکت ڈالے گا، میں اللہ تعالیٰ کے اس برکت ڈالنے کے سلوک کی امید کرتے ہوئے آج پھر اس بارے میں کچھ سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ میرے الفاظ میں اثر پیدا کر دے کہ اجڑتے ہوئے گھر جنت کا گہوارہ بن جائیں گو کہ مَیں گزشتہ خطبات میں اشارۃًبھی اس طرف توجہ دلاتا رہا ہوں لیکن آج ذرا کچھ وضاحت سے یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کرکن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کر دار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اَناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخر کار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں۔ ‘‘ پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں۔ انسان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل اس کو ملیں جن کے رو سے اس کو یقین آ جائے کہ خدا ہے‘‘۔ پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کو جستجو رہنی چاہئے۔ اور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اَناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں۔ اگر ہمارے اپنے گھروں میں نرمی اور اعلیٰ اخلاق کے نظارے نظر نہیں آ رہے تو ہم نے گم گشتہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ کیا دکھانا ہے؟ ہم تو خود ان گم گشتہ لوگوں میں شامل ہیں، ہم تو خود اپنی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے؟ اپنی اَناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہو گا اور لڑکی کو بھی لینا ہو گا، مرد کوبھی لینا ہو گا، عورت کو بھی لینا ہو گا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہو گا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں۔ تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 30-40 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں اور لڑکے کے ماں باپ اپنی ملکیت کا حق جتانے کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے پھر لڑکیاں ناراض ہو کر گھر چلی جاتی ہیں۔ یہ بھی غلط طریقہ ہے، لڑکے کا کام ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرے لیکن بیویوں کو بھی ان کا حق دے۔ جب ایسی صورت ہو گی تو پھر بیویاں عموماً خاوند کے ماں باپ کی بہت خدمت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسی بھی بہت ساری مثالیں ہیں کہ ساس سسر کو اپنے بچوں سے زیادہ اپنی بہوؤں پر اعتماد ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ خدانخواستہ جماعت میں نیکی اور اخلا ق رہے ہی نہیں، بالکل ختم ہی ہو گئے ہیں، اکثریت اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیکی پر قائم ہے۔ مگر جو مثالیں سامنے آتی ہیں وہ پریشان کرتی ہیں کہ یہ اتنی بھی کیوں ہیں؟ جو جائزہ میں نے یہاں لیا ہے اگر کینیڈا میں، امریکہ میں یا یورپ کی جماعتوں میں لیا جائے تو وہاں بھی عموماً یہی تصویر سامنے آئے گی۔ پس شعبہ تربیت کو ہر جگہ، ہر لیول (Level) پر جماعتی اور ذیلی تنظیموں میں فعال ہونے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اسلام نے ہمیں اپنے گھریلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو۔ تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔ میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ مزید پڑھیں: توکّل علیٰ اللہ