کس قدر ضرورت ہے کہ تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ۔دنیا تمہاری مقصود بالذّات نہ ہو۔مَیں اس لئے بار بار اس ایک امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دور پڑا ہوا ہے۔مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔بیوی بچوں سے الگ ہوکر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشا نہیں۔اسلام تو انسان کو چُست اور ہوشیار اور مُستعد بنانا چاہتا ہے اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردّد نہ کرے تو اس سے مواخذہ ہوگا۔پس اگر کوئی اس سے یہ مُراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جائے وہ غلطی کرتا ہے۔نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اُس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدّم نہ کرے۔ پس اگر انسان کی زندگی کا مدّعا یہ ہوجائے کہ وہ صرف تَنَعُّم ہی میں زندگی بسر کرے اور اس کی ساری کامیابیوں کی انتہا خورونوش اور لباس و خواب ہی ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے کوئی خانہ اُس کے دل میں باقی نہ رہے تو یہ یاد رکھو ایسا شخص فطرۃ اللہ کا مُقلّب ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ رفتہ رفتہ اپنے قویٰ کو بیکار کرلے گا۔یہ صاف بات ہے کہ جس مطلب کے لئے کوئی چیز ہم لیتے ہیں اگر وہ وہی کام نہ دے تو اُسے بیکار قرار دیتے ہیں۔مثلاً ایک لکڑی کُرسی یا میز بنانے کے واسطے لیں اور وہ اس کام کے ناقابل ثابت ہو تو ہم اُسے ایندھن ہی بنالیں گے۔ اسی طرح پر انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادتِ الٰہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کرکے بیکار کرلیتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس کی پروا نہیں کرتا۔اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُابِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ (الفرقان:۷۸) مَیں نے ایک بار پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مَیں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں۔شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پر مسلّط ہے ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے اُن کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف مُنہ کیا ہوا ہے۔مَیں اُن کے پاس ٹہل رہا ہوں۔مَیں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں تو میں نے یہی آیت پڑھی قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ۔یہ سنتے ہی اُن قصابوں نے فی الفور چھریاں چلادیں اور یہ کہا کہ تم ہو کیا؟ آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ غرض خدا تعالیٰ متّقی کی زندگی کی پروا کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے اور جو اُس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پروا نہیں کرتا اور اُس کو جہنم میں ڈالتا ہے۔اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے۔جیسے کلوروفارم نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سُلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کردیتا ہے۔(ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۱۷۰، ۱۷۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں