https://youtu.be/7vNglGFxu-U ٭… آپ(ﷺ)کی یہ بات بےحد تعریف کے لائق ہے کہ جس موقع پر ماضی کے مکینوں کے مظالم کی یاد آپ کو انتقام لینے پر اُکسا سکتی تھی، آپ نے اپنی فوج کو ہر قسم کی خون ریزی سے منع فرمایا اور عاجزی اور خدا تعالیٰ کے شکر کا ہرممکن اظہار کیا(آرتھر گلمے) ٭… مکے کی فتح کے ذریعےمحمد(ﷺ)نے نبوت کے اپنے دعوے کو سچ ثابت کردیا۔ یہ فتح بغیرکسی قسم کی خون ریزی کے حاصل ہوئی تھی اور محمد(ﷺ)کی پُرامن پالیسی کامیاب رہی۔ چند ہی سالوں میں مکے میں بُت پرستی کا خاتمہ ہوگیا اور عکرمہ اور سہیل جیسے سخت ترین مخالفین مخلص اور پُرجوش مسلمان بن گئے(کیرن آرم سٹرانگ) ٭… اگلے جمعے سے ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کاجلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے ،اس کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس جلسے کو کامیاب فرمائے اور اپنے فضلوں سے اسے نوازتا رہے۔اللہ تعالیٰ ہر شریر اور نقصان پہنچانے والے، اور نقصان پہنچانے کی نیّت رکھنے والے کے شر سے بچائے خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍جولائی ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۸؍وفا ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۸؍جولائی ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: آج بھی فتح مکّہ کے واقعات کی مزید تفصیل بیان کروں گا۔ آپؐ کے مکّے میں قیام کے متعلق اختلاف ہے۔بخاری میں درج روایت کے مطابق آپؐ مکے میں انیس۱۹ دن ٹھہرے۔ آپؐ دو رکعت نماز پڑھتے،یعنی قصر کرتے تھے۔ بعض روایات میں ۱۸،۱۷؍یا ۱۵؍دن کا تذکرہ بھی ہے۔ بعض مستشرقین نے بھی فتح مکہ کے متعلق اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ مثلاً ولیم میور جو ایک مشہور مستشرق ہے۔اس کا تعلق سکاٹ لینڈ سےتھا۔ وہ فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب دی لائف آف محمد(ﷺ) میں لکھتا ہے کہ محمد(ﷺ)کا ماضی کے تمام پرانے قصوروں کو معاف کرنا اور اُن کی تمام چھوٹی بڑی تکالیف کو فراموش کردینا دراصل آپ(ﷺ) کے اپنے فائدے کےلیے تھا لیکن اس کے لیے ایک بڑے اور گداز دل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ولیم منٹگمری، جو ایک سکاٹش مستشرق تھا اور اس نے اسلام اور نبی اکرمﷺ کے خلاف بہت سخت باتیں کی ہیں وہ کہتا ہےکہ مکّہ کے رؤساء کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا، یہ رؤساء اور دیگر بہت سے لوگ کفر پر قائم رہے۔ سب سے بڑھ کر وہ مہارت جس کے ساتھ انہوں نے (یعنی آنحضورﷺ نے)اپنی سربراہی میں موجود اتحاد کو سنبھالا اور تقریباً تمام افراد کو یہ احساس دلایا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جارہا ہے اس چیز نے اسلامی معاشرے میں ہم آہنگی، اطمینان اور جوش کے جذبات کو نمایاں کردیا۔ پھر ایک مستشرق ہے آرتھر گلمے اس کا تعلق امریکہ سے تھا، وہ کہتا ہے کہ آپ(ﷺ)کی یہ بات بےحد تعریف کے لائق ہے کہ جس موقع پر ماضی کے مکینوں کے مظالم کی یاد آپ کو انتقام لینے پر اُکسا سکتی تھی، آپ نے اپنی فوج کو ہر قسم کی خون ریزی سے منع فرمایا اور عاجزی اور خدا تعالیٰ کے شکر کا ہرممکن اظہار کیا۔ ایک خاتون مستشرق، روتھ کرینسٹن کا تعلق بھی امریکہ سے تھا۔ وہ لکھتی ہے کہ سال ۶۳۰ءکے آغاز میں ایک دن وہ شخص جسے صرف دس سال پہلے شہر سے پتھر مار کر نکال دیا گیا تھا اور جسے مذاق کا نشانہ بنایا گیا تھا، اب اپنے دس ہزار تجربہ کار سپاہیوں کے ساتھ شہر میں داخل ہوا۔ محمد(ﷺ) نے حکم دیا تھا کہ کسی کو قتل نہ کیا جائے، شہریوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کیا جائے۔ کیرن آرم سٹرانگ برطانیہ کی ایک اچھی مستشرق ہیں، عام طور پر بڑے انصاف سے لکھنے والی ہیں وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ آپ (ﷺ) کو خون ریز انتقام لینے کی کوئی خواہش نہیں تھی،کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسا لگتا ہے کہ کسی پر کوئی دباؤ ڈالا گیا۔ محمد(ﷺ) مکہ اس لیے نہیں آئے تھے کہ قریش کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اس مذہب کو ختم کردیں جو اُن کے لیے ناکام ثابت ہوا تھا۔ مکے کی فتح کے ذریعےمحمد(ﷺ)نے نبوت کے اپنے دعوے کو سچ ثابت کردیا۔ یہ فتح بغیرکسی قسم کی خون ریزی کے حاصل ہوئی تھی اور محمد(ﷺ)کی پُرامن پالیسی کامیاب رہی۔ چند ہی سالوں میں مکے میں بُت پرستی کا خاتمہ ہوگیا اور عکرمہ اور سہیل جیسے سخت ترین مخالفین مخلص اور پُرجوش مسلمان بن گئے۔ فتح مکہ کی تفاصیل میں عبداللہ بن ابی سرح کے قبولِ اسلام کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ یہ شخص پہلے مسلمان تھا، کاتبِ وحی بھی تھا۔ لیکن اسے ٹھوکر لگی اور یہ مرتد ہوکر مکہ آگیا۔ فتح مکہ کے موقع پرجن لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا اُن میں عبداللہ بن ابی سرح کا نام بھی تھا، مگر حضرت عثمانؓ نے اسے پناہ دے دی اور وہ آپؓ کے گھر میں کہیں چھپا رہا۔ ایک روز جب آپؐ بیعت لے رہے تھے تو حضرت عثمانؓ اسے بھی لے آئے۔ آنحضورﷺ نے کچھ دیر تو تامل فرمایا اور پھر اس کی بیعت لے لی۔ یہ بعد میں مصر کے گورنر بھی رہے اور افریقہ کے ایک علاقے کو فتح کرنے والے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے رضاعی بھائی تھے مگر آپؓ کی شہادت کے بعد فتنوں سے الگ ہوگئے تھے۔ ذکر آتا ہے کہ انہوں نے دعا کی تھی کہ ان کا آخری عمل نماز ہو چنانچہ ایک روز صبح کی نماز کے وقت سلام پھیرتے ہوئےان کی وفات ہوگئی۔ عکرمہ بن ابو جہل کو بھی یقین تھا کہ اسے ضرور سزا ملے گی ۔چنانچہ اس نے بھی سمندر کے راستےسے یمن جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی ام حکیم نے اسلام قبول کرلیا تھا، وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ عکرمہ کو خطرہ ہے کہ آپؐ اسے قتل کروا دیں گے آپؐ اسے امان دے دیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ امان میں ہے۔ چنانچہ عکرمہ کی بیوی اس کے پاس پہنچی اور اسے کہا کہ مَیں تمہارے پاس اُس انسان کی طرف سے آئی ہوں جو لوگوں میں سب سے زیادہ جوڑنے والا اور لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور لوگوں میں سب سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ تُو اپنی جان کو ہلاکت میں مت ڈال کیونکہ مَیں تمہارے لیے امان طلب کرچکی ہوں۔ چنانچہ عکرمہ واپس آیا اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔ جن لوگوں کے قتل کا حکم ہوا تھا اُن میں وہ شخص بھی شامل تھا جو آنحضورﷺ کی بیٹی حضرت زینبؓ کی ہلاکت کا موجب ہوا تھا۔اس شخص نے حضرت زینبؓ کے اونٹ کی زِین کا چوڑا تسمہ جس سے اُسے کسا جاتا ہے کاٹ دیا تھا، اور آپؓ اونٹ سے نیچے جاگری تھیں جس کی وجہ سے اُن کا حمل ضائع ہوگیا اور کچھ عرصے بعد وہ شہید ہوگئیں۔ یہ شخص بھاگ کر ایران چلا گیا تھا مگر پھرآپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور معافی کا طلب گار ہوا۔ آنحضورﷺ نے اس شخص کو بھی معاف فرمادیا۔ اسی طرح کعب بن زہیر کے قبولِ اسلام کا واقعہ ہے۔ یہ شخص بھی آنحضورﷺ کا سخت معاند تھا،شاعر تھا اور اپنی شاعری سے اسلام اور آنحضورﷺ کے خلاف شر پھیلایا کرتا تھا۔ یہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی شناخت ظاہر کیے بِنا کعب بن زہیر کے لیے معافی کا طلب گار ہوا۔ آپؐ نے جب اسے معاف فرمایا تو اس نے کہا کہ کعب مَیں ہی ہوں۔ آنحضورﷺ نے اسے معاف فرمادیا۔ کعب نے آپؐ کی خدمت میں ایک شاندارقصیدہ بھی پیش کیا اور آپؐ نے اسے اپنی چادر عطا فرمائی۔ اسی وجہ سے یہ قصیدہ بردہ کہلاتا ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ تاریخ میں امام بوصیری کا قصیدہ بھی قصیدہ بردہ کہلاتا ہے۔ معاندین اور مخالفین کی معافی کی ان تفاصیل کے آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبے کےآخری حصے میں فرمایا کہ اگلے جمعے سے ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کاجلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے ،اس کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس جلسے کو کامیاب فرمائے اور اپنے فضلوں سے اسے نوازتا رہے۔اللہ تعالیٰ ہر شریر اور نقصان پہنچانے والے، اور نقصان پہنچانے کی نیّت رکھنے والے کے شر سے بچائے۔ جو مہمان اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سےآرہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں خیروعافیت سے پہنچائے اور یہاں بھی خیریت سے رکھے۔ آمین لوگوں کے جو ذاتی مہمان جلسے کے لیے آرہے ہیں یا جو جماعتی انتظام سےآرہے ہیں ، مہمان نوازی کے شعبے کےتحت ان کا انتظام ہوگا، اللہ تعالیٰ ہر میزبان کو اِن مہمانوں کی مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین کارکنان بڑے شوق اور جذبے سے ڈیوٹیوں کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کارکنان کو بھی خدمت کی توفیق دے نہایت عزت و احترام اور نرمی اور خوش مزاجی سےیہ مہمانوں کی خدمت کریں۔ بعض دفعہ کام کی زیادتی اور نیند کی کمی کی وجہ سے بعض کارکنان کی خوش مزاجی متاثر ہوجاتی ہے مگر ہر کارکن کو یہ سوچ کر یہ دن گزارنے چاہئیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دی ہے اس لیے اس کے لیے ہم ہر قربانی کرنے کےلیے اپنے آپ کو تیار رکھیں گے اور ہر صورتِ حال میں ہمارے چہروں پر مسکراہٹ رہے گی۔ کارکنان افسرہو یا معاون، لڑکیاں،لڑکے، مرد، عورتیں خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہیں سب کو ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کام انجام دینے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے،آمین۔ لیکن ساتھ ہی ہر ایک پر گہری نظر بھی رکھنی چاہیے تاکہ کسی کو کبھی کوئی شر پھیلانے کی جرأت پیدا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سب کارکنان کو احسن رنگ میں خدمت کی توفیق دے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنیں۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: غزوہ فتح مکہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۱؍جولائی ۲۰۲۵ء