https://youtu.be/CxnwM97zPAs (خطاب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۵؍جون ۱۹۵۳ء بر موقع افتتاح فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ربوہ) ۱۹۵۳ء میں حضورؓ نے فضل عمر انسٹیٹیوٹ ربوہ کے افتتاح کے موقع پر ایک خطاب ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے یہ ثابت فرمایا کہ قرآن کریم سائنس کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔علاوہ ازیں حضورؓ نے مسلمان ریسرچرز کو محنت کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطاب شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) اپنے اندر قرآنی روح پیدا کرو۔ زیادہ محنت اور زیادہ وقت لگا کر کام کرنے کی عادت ڈالو۔ تب بہت سی چیزیں جو دنیا کے لئے ناممکن ہیں تمہارے لیے ممکن ہو جائیں گی۔ تمہارے سامنے کائنات عالم کی کوئی دیوار بند نہیں۔ تم جس طرح بڑھنا چاہو۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے دروازہ کھول دے گی تشہد تعوّذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ’’آٹھ سال ہوئے میں نے قادیان میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ وہاں پر اس کا کام شروع ہو گیا تھا لیکن ۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد ہمارے پاس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ میں نے ایک دوست کو تحریک کی کہ وہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ربوہ میں بنانے کے لیے ایک لاکھ روپیہ جمع کریں۔ ایک لاکھ مَیں جمع کروں گا۔ ابھی تک میں تو اس بارے میں تحریک نہیں کر سکا کیونکہ جماعت کے سامنے اَور بہت ساری تحریکات ہیں لیکن اس دوست نے باون ہزار روپیہ کے قریب جمع کر دیا ہے جس سے یہ عمارت تیار کی گئی ہے اگر بقیہ رقم بھی جمع ہوگئی تو انشاءاللہ العزیز وسیع پیمانے پر کام جاری ہوجائے گا اور بلڈنگ بھی مکمل ہو جائے گی۔ سر دست اس انسٹیٹیوٹ میں پانچ ریسرچ سکالر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس آسمانی کتاب نے کائنات عالم پر غور کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دلائی ہے وہ قرآن کریم ہے۔ دنیا کی کوئی آسمانی کتاب ایسی نہیں جس نے انسان کو کائنات عالم پر غور کرنے کا اس طرح واضح حکم دیا ہو جس طرح قرآن کریم نے دیا ہے۔ قرآن مجید نے اس بارے میں تین بنیادی امور بیان فرمائے ہیں اوّل۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا کی تمام چیزیں مرکب ہیں کوئی چیز مفرد نہیں ہے۔ سب اشیاء میں ترکیب پائی جاتی ہے۔ فرمایا:وَمِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَیۡنِ ( الذٰریت: ۵۰) دوم۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اشیاء کی وہ ترکیب ہر وقت عمل (work) کر رہی ہے۔یعنی اس کے نتائج کا ایک سلسلہ جاری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمان: ۳۰) کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت نئی شان اور ترکیب کے ساتھ تجلی فرماتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ کائنات عالم کی تمام چیزیں اس کی اس تجلی سے متاثر ہوتی ہیں اور ان مرکب اشیاء کا سلسلہ کسی جگہ پر ٹھہر نہیں جاتا بلکہ آگے ہی آگے چلتا ہے۔ گویا ہر وقت نئے نتائج پیدا ہو رہے ہیں۔ الفؔ اور بؔ سے جؔ پیدا ہوتا ہے پھر جؔ اور دؔ کے ملنے سے سؔ پیدا ہوتا ہے۔ غرض اسی طرح ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ سوم۔قرآن کریم کہتا ہے کہ ان تمام اشیاء اور ان کی ترکیب اور اس ترکیب سے پیدا ہونے والے نتائج کے اسرار کو معلوم کرنا تمہارا کام ہے اس کام کو سر انجام دینے والے ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک عقلمند ہیں۔اَلَّذِينَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (آل عمران:۱۹۲) وہ لوگ جو آسمان و زمین کی پیدائش کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اے خدا! تُو نے اس کارخانہ کو بے حکمت پیدا نہیں کیا۔ تُو پاک ہے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔ پھر قرآن مجید بھی وعدہ کرتا ہے کہ جو لوگ قوانینِ الٰہی میں غور کریں گے اور کائناتِ عالم کی حکمتوں کو سوچیں گے ان پر ان کے اسرار ضرور کھولے جائیں گے اور دنیا کے ذرّہ سے لے کر خود خدا تعالیٰ تک ان لوگوں کے لئے کامیابی کا راستہ کھلے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَالَّذِينَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۷۰) کہ جو لوگ ہمارے پیدا کردہ عالم کے متعلق اور ہم تک پہنچنے کے لئے صحیح طریق سے کوشش کریں گے ہم ان پر کامیابی کے راستے ضرور کھولیں گے۔ یہ تین اہم صداقتیں ہیں جن کا قرآن کریم اعلان کرتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہی تین امور سائنس کی بنیاد ہیں۔ ان حالات میں کس قدر تعجب کی بات ہو گی کہ مسلمان کائنات عالم سے غفلت اختیار کریں۔ دنیا میں مختلف خیال کے لوگ بستے ہیں بعض لوگ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کی طرف توجہ کرنا مذہب کا کوئی حصہ نہیں۔ بلکہ ان کے نزدیک دنیا سے بے توجہ رہنا مذہبی آدمی کے لئے ضروری ہے جیسا کہ بدھوں کا خیال ہے یا عیسائیوں کے بعض فرقے سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ دنیا کو صرف دنیا کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کو ہی اپنا منتہائے مقصود سمجھتے ہیں۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں کہ وہ کائنات عالم پر غور کرتے ہیں اور بعض ایجادات بھی ایجاد کرتے ہیں لیکن ان کے مذہب نے انہیں اس بارے میں کوئی ہدایت نہیں کی۔ ان کے مذہب اس پہلو سے سراسر خاموش ہیں۔ انہوں نے یہ طریق اپنے لیے ازخود ایجاد کر لیا ہے لیکن قرآن کریم تو مسلمانوں کو نہ صرف کائنات عالم پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے بلکہ وہ اس کام کو مذہب کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اور اس کوشش کے نتیجہ میں ثواب اور روحانی بدلے کی امید دلاتا ہے۔ اگر مسلمان اس پہلو سے غفلت اور سستی کریں تو وہ صریح طور پر قرآن کریم کے احکام سے منہ پھیر نے والے قرار پائیں گے۔ جو لوگ صحیح طور پر کائنات عالم پر غور کرنے والے ہیں وہ بڑی محنت سے کام کرتے ہیں۔ مَیں نے بہت سے سائنس دانوں کے حالات پڑھے ہیں وہ بڑے انہماک سے بارہ بارہ گھنٹے تک کام کرتے ہیں اور پھر شاندار نتایج پیدا کرتے ہیں لیکن مسلمان بالعموم پانچ چھ گھنٹے کے کام کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اسی لئے اپنے کام کی رپورٹ کرنے اور ڈائری لکھنے سے گھبراتے ہیں۔ تبلیغی کام کرنے والے اور ریسرچ میںکام کرنےوالے اگر اپنے کام کی ڈائری لکھیں تو اس سے انہیں صحیح طور پر احساس ہو جائے کہ انہیں کتنا کام کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے کتنا کیا ہے۔ سست لوگ اس بارےمیں عذر کیا کرتے ہیں کہ ہم نے کام کرنا ہے یا ڈائری لکھنا ہے۔ ڈائری لکھنے اور رپورٹ کرنےمیں وقت ضائع ہوتا ہے۔ یہ عذر درحقیقت نفس کا دھوکا ہوتا ہے۔ ڈائری وہی لکھ سکتا ہے جو صحیح طور پر کام کرتا ہے اور جو شخص کام نہیں کرتا وہ ڈائری لکھنے سے گریز کرتا ہے۔ ہمارا دنیا سے بہت بڑا مقابلہ ہے۔ ہماری یہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ دنیا کی لیبارٹریوں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹوں کے مقابلہ میں بلحاظ اپنے سامان اور کارکنوں کے کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اصل کام یہ ہے کہ انسان میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی روح پیدا ہو جائے اور یہ روح محنت اور ایثار سے پیدا ہوتی ہے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم نے بہت بڑے دشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو ہمارے اندر کام کرنے کی روح بڑھ جائے گی۔ ہمارے اس مقابلہ کی بنیاد روپے پر نہیں ہے۔ دنیا کے مقابلہ میں ہمارے پاس روپیہ ہے ہی نہیں۔ نپولین کا قول ہے کہ ناممکن کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے۔ اس کے یہی معنی تھے کہ نپولین کسی کام کو ناممکن نہیں سمجھتا تھا۔ ہاں وہ اسے مشکل ضرور سمجھتا تھا اور پھر ہمت سے اس کام کو سر انجام دیتا تھا۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں کہ وہ اپنی اولوالعزمی سے سامانوں کے مفقود ہونے کے باوجود کامیابی کا راستہ نکال لیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت مسلمانوں پر جو غفلت اور جمود کی حالت طاری تھی اس کو بیداری سے بدلنا ناممکن سمجھا جاتا تھا لیکن آپؑ نے مسلمانوں کے اندر امید کی کرن پیدا کر دی اور انہیں بیدار کر دیا۔ یورپین مصنفین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پہلے کے ہندوستانی مسلمان لیڈروں یعنی سرسید احمد خان، امیر علی وغیرہ کو اپالوجسٹ (Apalogist) یعنی معذرت کرنے والے قرار دیتے تھے۔ لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا طریق اسلام کی طرف سے معذرت خواہانہ نہیں بلکہ جارحانہ حملے کا طریق ہے۔ ابھی ایک مشہور مغربی مصنف نے تحریک احمدیت کا ذکر اسی انداز میں کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مستقبل کے متعلق ایک ایسی جگہ بھی آتی ہے جہاں پر مؤرخ کو خاموش ہونا پڑتا ہے۔ تحریک احمدیت کے مستقبل کے ذکر میں اس نے لکھا ہے کہ بہت سے گھوڑے جو گھوڑ دوڑ کی ابتداء میں کمزور نظر آتے ہیں وہی بسااوقات اول نکلتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت مذہبی دنیا میں جو تغیرات پیدا ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں جس قدر بیداری نظر آتی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے نتیجہ میں ہے۔ اب مسلمانوں میں سے ننانوے فیصدی لوگ وفات مسیحؑ کے عقیدہ کو ماننے لگ گئے ہیں، عصمت انبیاءؑ کو ماننے لگ گئے ہیں، عدم نسخ قرآن کے نظریے کو بھی ننانوے فیصد ی لوگ ماننے لگ گئے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ بارہ سو سال میں علمائے اسلام قرآنی آیات کے منسوخ ہونے کا عقیدہ رکھتے آئے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت لطیف رنگ میں انہی آیات سے بہت سی حکمتیں بیان فرمائیں جنہیں لوگ منسوخ سمجھتے تھے اس طرح مسئلہ نسخ قرآن کی بنیاد کو آپ نے توڑ کر رکھ دیا۔ تمام وہ مسائل جو باقی دنیا اور مسلمانوں کے لئے مشکوک بلکہ مخالفانہ طور پر تسلیم کئے جاتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو بدل دیا۔ پس ناممکن بات کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو خود جماعت کا ایک بڑا حصہ کہتا تھا کہ اب ہمارے پاؤں کس طرح جمیں گے لیکن دیکھ لو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ہمارا بجٹ پہلے سے زیادہ ہے اور مخالفت کے باوجود جماعت کی ترقی ہو رہی ہے۔ اقتصادی حالت بھی پہلے سے بہتر ہے۔ اگر جماعت کی صحیح تربیت کی جائے تو چندے دگنے ہو سکتے ہیں۔ میرے نزدیک ریسرچ سکالر کو یہ کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ کوئی ایسی بات بھی ہے جو نہیں ہو سکتی۔ اس کو اپنی تحقیقات کے سلسلہ کو پھیلانے میں یہ بھی نہ ماننا چاہیے کہ میں دنیا کو پیدا نہیں کر سکتا۔(گو یہ پیدا کرنا مجازی رنگ میں ہی ہو گا) یہ تو درست ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ناممکن قرا دے دیا ہے وہ بہر حال ناممکن ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ جن چیزوں کو انسان کسی وقت ناممکن کہہ دیں وہ فی الواقع ناممکن ہوتی ہیں۔ ابھی جب ایٹم بم ایجاد ہوا تو وہ سائنس دان جو کہتے تھے کہ دنیا کا کبھی خاتمہ نہیں ہو سکتا وہ کہنے لگ گئے کہ اس ایجاد سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دنیا ختم ہو سکتی ہے چار پانچ ماہ تک وہ لوگ Chain Reaction (تسلسل رد عمل) کے نظریہ کے ماتحت دنیا کے خاتمہ کے قائل رہے ہیں۔بہرحال ریسرچ کرنے والے انسان کے لئے بہت بڑی وسعت ہے۔ دنیا میں ایک وقت میں ایک چیز ناممکن سمجھی جاتی ہے اور پھر وہ ممکن ہو جاتی ہے۔ گویا قدرت بھی اپنے دائرہ کو لمبا کرتی رہتی ہے۔ پہلے لوگ دنیا کی لمبائی کا اندازہ روشنی کے تین ہزار سال سمجھتے تھے۔ جنگ کے بعد یہ اندازہ چھ ہزار سال تک پہنچ گیا اور اب نیا نظریہ یہ ہے کہ دنیا کی لمبائی روشنی کے چھتیس ہزار سال کے برابر ہے۔ اس وقت محققین کے دو نظریے ہیں بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ دنیا Expand ہو رہی ہے۔ جوں جوں ہم علمی طور پر آگے بڑھتے ہیں دنیا کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ درحقیقت ابھی تک ہم نے صحیح اندازہ ہی نہیں کیا۔ ہمارے سارے اندازے ناقص اور کم ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے اِلٰی رَبِّکَ مُنۡتَہٰٮہَا(النازعات:۴۵) کہ ہر چیز کی الجھنیں اللہ ہی حل کر سکتا ہے اور ہر چیز انجام کار تیرے رب کی طرف پہنچتی ہے۔ گویا ہمارے سامنے Unlimited Sources (غیر محدود خزانے) موجود ہیں جن کی ریسرچ ہم نے کرنی ہےلیکن ہمارے پاس سامان نہیں۔ ایٹم بم کے متعلق پانچ ہزار ورکر کام کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہاں صرف پانچ کارکن ہیں۔ پھر ان کے سامانوں کی فراوانی سے بھی ہمیں کوئی نسبت نہیں۔ ان لوگوں کا بجٹ دو دو ارب کا ہوتا ہے۔ ہمارے ریسرچ کے بجٹ کو ان کے بجٹ کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب سامان تھوڑے ہوں اور کام کرنے والے آدمی تھوڑے ہوں تو کام کی نسبت زیادہ ہونی ضروری ہے۔ کم ہمت آدمی کام کی زیادتی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ بہت کام ہے مجھ سے تو یہ ہو ہی نہیں سکے گا۔ اس لئے وہ کام چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور مختلف جھوٹے عذرات پیش کرتا ہے لیکن اچھا آدمی کام کی زیادتی کی وجہ سے گھبراتا نہیں بلکہ کہتا ہے کہ میں کام کے لئے وقت کی مقدار کو بڑھا کر اورمحنت میں اضافہ کر کے اس کام کو کروں گا۔ سوچ لو کہ جب دنیا کے سامنے یہ حقیقت واضح طور پر پیش ہو کہ ایک شخص ایسا ہے کہ زیادہ کام کو دیکھ کر اس نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اور دوسرا ایسا ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے اس نے زیادہ محنت اور زیادہ ہمت سے کام کو سر انجام دیا تو دنیا ان میں سے کس کو اچھا سمجھے گی اور کس کو برا قرار دے گی۔ صحابہ ؓکی کامیابی تو خاص خدائی نصرت کا نتیجہ تھی۔ دنیوی طور پر بھی بعض لوگ ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے بظاہر ناممکن کاموں کو ممکن کر دکھایا۔ سکندر، چنگیز خان، تیمور، بابراور ہٹلر وغیرہ ایسے ہی لوگ تھے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قربانی اور ایثار سے بڑے بڑے کام کر دکھائے ہیں۔ ترکی کی گزشتہ جنگ میں ایک کرنیل کا واقعہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک قلعے کے فتح کرنے کے لئے وہ اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑی پر چڑھ رہا تھا کہ درمیان میں اسے گولی لگی اور وہ زخمی ہو گیا۔ اس کے سپاہی محبت کی وجہ سے اس کی خبر گیری کے لئے بڑھے مگر اس نے کہا کہ تم لوگ مجھے ہاتھ مت لگاؤ، وہ سامنے قلعہ ہے جس کا فتح کرنا ہمارا مقصد ہے جاؤ اور اس قلعہ کو فتح کرو۔ اگر فتح کر لو تو اس قلعے کے اوپر میری لاش کو دفن کرنا ورنہ اسے کتوں کے کھانے کے لیے چھوڑ دینا۔ اس کے اس جذبہ کا اس کے ساتھیوں میں وہ اثر ہؤا کہ سب نے نہایت ہمت کے ساتھ جنگ کی اور قلعے کو فتح کر لیا۔ پس دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں۔ صرف وہی کام ناممکن قرار دیا جائے گا جسے ہمارا خدا ناممکن قرار دے لیکن جیساکہ میں نے بتایا ہے قرآن کریم نے کائنات عالم کے رازوں کو جاننے کی طرف خود توجہ دلائی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ صحیح روح سے اس راستے میں کام کریں گے وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔ پس میں اس انسٹیٹیوٹ کے افتتاح کے وقت توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر قرآنی روح پیدا کرو۔ زیادہ محنت اور زیادہ وقت لگا کر کام کرنے کی عادت ڈالو۔ تب بہت سی چیزیں جو دنیا کے لئے ناممکن ہیں تمہارے لیے ممکن ہو جائیں گی۔ تمہارے سامنے کائنات عالم کی کوئی دیوار بند نہیں۔ تم جس طرح بڑھنا چاہو۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے دروازہ کھول دے گی۔ تمہارا یہ کام کوئی دنیوی کام نہیں بلکہ حقیقتاً دینی کام ہے۔ قرآن مجید کے حکم کی تعمیل ہے اور پھر اس ریسرچ میں حقیقی طور پر کام کرنے والے کارکن سلسلہ کے لیے مالی طور پر بہت ممد ہو سکتے ہیں اور اخلاقی طور پر بھی۔ ان کے زیادہ محنت سے کام کرنے کو دیکھ کر ان کے اس کریکٹر کا اثر باقی افراد اور خصوصاً تبلیغی کام کرنے والوں پر بھی پڑے گا اور اسی میں ہماری کامیابی کا راز ہےکہ ہم اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے ہمت اور عزم کے ساتھ زیادہ وقت لگا کر اور زیادہ محنت کے ساتھ کام کریں خدا تعالیٰ کی نصرت ہمارے شامل حال ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے۔ آمین۔‘‘ (الفرقان جولائی ۱۹۵۳ء۔انوار العلوم۔ جلد ۲۳ صفحہ ۴۶۹ - ۴۷۶) مزید پڑھیں: اللہ کی نعمت سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں