اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ………………………… حضرت مولوی سید محمد رضوی صاحبؓ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3اگست 2011ء میں حضرت مولوی سید محمد رضوی صاحبؓ (یکے از 313) کا مختصر سوانحی خاکہ شامل اشاعت ہے۔ حضرت مولوی سید محمد رضوی کے والد صاحب کا نام نواب امیر ابو طالب تھا۔ آپ 1862ء یا 1864ء میں بمقام ایلور علاقہ مدراس میں پیدا ہوئے۔ آپ بڑے وجیہ اور خوبصورت تھے۔ حیدر آباد میں ہائی کورٹ کے وکیل تھے۔ آپ کی بیعت ابتدائی ایام کی ہے۔ آپؓ نے سلسلہ کی بہت ہی مالی معاونت کی۔ حضورؑ کی زندگی میں مسجد اقصیٰ کے لئے دریوں کاتحفہ بھی لائے۔ ایک د فعہ آپ ایک جماعت لے کر قادیان آئے۔ چونکہ حیدر آباد کے لوگوں کو عموماً ترش سالن کھانے کی عادت ہوتی ہے اس لئے آپ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ نے ارشاد فرمایا کہ ان کے لئے کھٹے سالن تیار ہوا کریں تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔ حضرت اقدس نے ’کتاب البریہ‘ میں پُر امن جماعت کے ضمن میں آپ کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے اُن معاصر علماء میں تذکرہ کیا ہے جنہوں نے آپؑ کی بیعت کی۔ آپؓ حیدر آباد سے 1909ء میں بمبئی منتقل ہو گئے تھے اور 3؍ اگست 1932ء کو بمبئی میں ہی وفات پائی۔ …٭…٭…٭… محترم چودھری محمد الدین عادل صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍اگست 2011ء میں مکرم چودھری احمد علی صاحب کے قلم سے محترم چودھری محمدالدین عادل صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ امام الصلوٰۃ حضرت مولوی نظام دین صاحبؓ کے قبول احمدیت کے بعد ادرحماں کا سارا گاؤں جماعت احمدیہ میں شامل ہو گیاتھا۔ حضرت مولوی نظام دین صاحبؓ کے بڑے بیٹے حضرت حافظ عبدالعلی صاحبؓ (B.A;L.L.B.) ایڈووکیٹ سرگودھا اور دوسرے حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ (B.A.) تھے ۔ گاؤں کی اکثریت ہماری لنگاہ برادری پر مشتمل تھی۔ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لئے اکٹھے گروپ کی صورت میں جایاکرتے تھے۔ روزانہ ڈیرہ پر مجلس لگتی اور دینی باتوں کا ذکر ہوتا۔ اسی طرح کی ایک مجلس میں محترم سیّد مہدی حسین صاحب معلّم اصلاح و ارشاد بھی آئے ہوئے تھے کہ میرے چچا چوہدری محمدالدین عادلؔ مرحوم نے جماعتی عقائد کے بارہ میں کوئی نازیباجملہ کہہ دیا۔ اس پر اُن کے بڑے بھائی عبدالرحمن صاحب نے غصہ میں آکر اُنہیں تھپڑرسید کر دیا۔ اس پر وہ روتے ہوئے ڈیرہ سے اٹھے اور گھر کی طرف چل پڑے۔ لیکن معلّم سیّد مہدی حسین صاحب جلدی سے اُن کے پیچھے جاکر عادل صاحب کو اپنے ساتھ ڈیرہ پر واپس لے آئے اور پھر عبدالرحمن صاحب سے کہا کہ آپ نے کتنی غلطی کی ہے، یہ نوجوان تو جماعت کاداعی الی اللہ بننے والا ہے۔ اُس دن سے چوہدری محمدالدین عادل صاحب نے لٹریچر کا گہرا مطالعہ شروع کردیا اور پھر تبلیغ کا ایسا جنون پیدا ہوا کہ کچھ عرصہ بعد ہی دیہاتی رواج کے مطابق پنجابی زبان میں بطرز ’’ڈھولے‘‘ ایک کتابچہ بعنوان ’’جٹ جپھہ‘‘ لکھ کرشائع کردیا۔ سادہ پنجابی زبان میں یہ ڈھولے تبلیغ کے میدان میں بے حد مؤثرثابت ہوئے۔ 1937ء میں محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے چچا میاں محمدمراد صاحب نے مسجد مبارک قادیان میں حضرت مصلح موعودؓ سے اجتماعی ملاقات کے دوران محترم چوہدری محمدالدین عادل صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس نوجوان نے دیہات میں تبلیغ کے لئے ڈھولے لکھے ہیں۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ کچھ نمونہ ہمیں بھی سنائیں۔ چنانچہ عادل صاحب نے کھڑے ہو کر کانوں میں انگلی ڈال کر خاص دیہاتی طرز میں ایک ڈھولہ سنا دیا جسے سن کر حضورؓ بہت خوش ہوئے ۔ ادرحماں کے قریب ایک بڑی سیم میں پانی مستقل کھڑا رہتا تھا اور بڑی بڑی گھاس (ڈِب) وہاں اُگی رہتی تھی۔ اس سیم پر سے شیرشاہ سوری کی بنوائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی لیکن عملاً یہ راستہ انتہائی دشوارگزار ہوچکا تھا۔ محترم عادل صاحب 1943ء میں جب بطورمدرّس مڈل سکول بھابڑا میںتعینات تھے تو آپ نے سکول کے لڑکوں کو ساتھ لے کر لمبے اور مسلسل وقارعمل کے ذریعہ یہ راستہ صاف کرکے قابل استعمال بنوایا۔ جب دوبارہ یہ کچا راستہ طے کرنا مشکل ہوگیا تو اُس وقت عادل صاحب مجلس خدام الاحمدیہ ادرحماں کے قائد تھے۔ اُس وقت آپ نے خدام کو ساتھ لے کر وقارِ عمل کے ذریعہ اس جگہ مٹی ڈالناجاری رکھا اور پھر مستقل طور پر یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے پختہ پلیاںبنوانے کی طرف بھی توجہ کی۔ چنانچہ پختہ اینٹوں، سیمنٹ اورمستریوں کی اُجرت وغیرہ کے لئے وہاں سے گزرنے والوں سے عطیات وصول کرنے شروع کردیئے اور اس کا باقاعدہ حساب رکھا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے کاغذات میں سے ان عطیات کو دینے والوں کے اسماء اورعطیہ کی رقم بھی لکھی ہوئی ملی۔ بہرحال اس راستہ کو قابل استعمال بنانے کے نتیجہ آپ نے بے شمار لوگوں کی دلی دعائیں حاصل کیں۔ 1949ء کے اوائل میں محترم چوہدری محمدالدین عادل صاحب کی وفات ہوگئی تھی۔آپ کے اکلوتے بیٹے محترم الحاج چودھری ناز احمد ناصرؔ صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی وقف کرکے اس وقت ایڈیشنل وکالت تبشیر لندن میں خدمت بجا لارہے ہیں۔ ان کا ایک نواسہ نصیراحمد چودھری صاحب، ربوہ کے دفاتر میں اورایک نواسہ ملک طاہرحیات نسوانہ صاحب، سوویت ریاستوں میں خدمت دین میں مصروف ہیں۔ محترم عادل صاحب کی وفات کے بعد کئی افراد تبلیغ کی غرض سے اُن کا کتابچہ تلاش کرتے رہے۔ اب یہ کتابچہ دیدہ زیب صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ …٭…٭…٭… محترم سید رفیق احمد شاہ صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19؍اگست 2011ء میں مکرمہ و۔ حنیف صاحبہ نے اپنے سسر محترم سیّد رفیق احمد شاہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ آپ لکھتی ہیں کہ جب میں پیدا ہوئی تو ان کی بھتیجی بن کر پیار سمیٹا ۔ 22سال قبل انہوں نے مجھے اپنی بیٹی بنا لیا اور کبھی مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ میرے حقیقی والدین میرے پاس نہیں۔ حتیّٰ کہ میری شادی کے لئے کپڑوںاور زیور کا انتخاب، ڈیزائننگ کے مشورے اور رنگوں کے لئے انتخاب بھی آپ کا تھا۔ آپ کی عادت تھی کہ تہجد کے وقت سب کے کمروں پر دستک دے کر جگاتے ۔ گھر کے ساتھ جب تک مسجد نہ بنی تھی تمام خاندان گھر میں ہی باجماعت نماز ادا کرتا اور تلاوت قرآن کریم سے فضا کو معطّر کرتا۔ یہ روحانی ماحول میرے میکے میں بھی خدا کے فضل سے موجود تھا ۔ فرق یہ تھا کہ وہاں صرف ہمارا گھر اکیلا احمدی تھا جبکہ یہاں گاؤں میںتین چچاؤں کی فیملیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ میرے سسر کی بہت سی یادیں زندہ ہیں۔ بچوں کی پیدائش سے قبل ہر طرح سے خیال رکھنا، تہجد کی نماز کے بعد اور فجر کی نماز سے قبل کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھوں سے پکا کر میرے لئے لانا ، دودھ کا گلاس بھر کر دینا۔ اس قدر اصرار کرنا کہ دل نہ چاہنے کے باوجود مجھے لینا پڑتا۔ ہومیو دوائیوں میں تسہیل ولادت کی دوائیں دعاؤں کے ساتھ کھلانا۔ تہجد کے وقت نماز میں گڑ گڑا کر خدا کے حضور دعائیں کرنا بھی یاد ہے۔ بچیوں کو سکول لے جاتے اور لاتے وقت راستے میں دعائیں سکھانا اور درودشریف پڑھنے کی عادت پیدا کرنا۔ میرے خاوند مکرم سیّد حنیف احمد قمر صاحب جب تبلیغ کے لئے سیرالیون گئے تو میری بچیاں 1تا 5سال کی عمر میں تھیں۔ میرے سسر نے ان کو بہت پیار دیا اور ان کی تعلیمی اور تربیتی ضروریات ہر لحاظ سے پوری کیں۔ جب ہم کوارٹر میں شفٹ ہوئے تو اس میں کوئی درخت نہ تھا ۔ آپ نے نیم کے تین پودے لا کر لگائے اور کہتے تھے کہ جس گھر میں نیم ہو وہاں بیماریاں کم ہوتی ہیں۔ نیز تین پھلدار پودے لگانے کی تحریک پر لیموں ، امرود اور مالٹے کے پودے لگائے جو اَب پھل دے رہے ہیں۔ نماز عصر کے بعد مسجد مبارک میں بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ طبیعت میں نرمی تھی اور پڑھانے اور سمجھانے کا انداز بہت اچھا تھا۔ ترجمہ پڑھنے کی عمر کی بچیاں میرے پاس گھر پر بھجوا دیتے تھے ۔ یہ سلسلہ آج بھی ہمارے گھر پر جاری ہے۔ وقت ضائع کرنا بالکل پسند نہ تھا ۔ آخری بیماری میں جب خود مطالعہ نہ کرسکتے تھے تو دوسروں کو کہتے کہ جماعتی نظام کے تحت اُس مہینہ کی مقررہ روحانی خزائن کی جلد پڑھ کر سنائیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کے لئے بھی کہتے۔ جب تک صحت نے اجازت دی جلسہ یوکے میں شمولیت کرتے اور خلیفۂ وقت سے ملاقات کی سعادت پاتے رہے۔ وفات سے 8 دن قبل Coma میں چلے گئے۔ روزانہ 4گھنٹے میری آپ کی خدمت کے لئے رُکنے کی روٹین تھی ۔ اس دوران روزانہ ایک بار سورۃ یٰسین اور پھر دعائیہ آیات بہ آواز بلند تلاوت کرتی تھی۔ وفات سے ایک روز قبل مَیں نے تلاوت شروع کی تو آپ نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ میں نے السلام علیکم کہا تو سر ہلا کر جواب دیا۔ مَیں نے پوچھا: پڑھوں؟ سر کے اشارہ سے جواب دیا کہ ہاں۔ میں پڑھتی رہی میری طرف آنکھیں کھول کر دیکھتے رہے۔ مشینیں ساری اسی طرح اپنا کام کر رہی تھیں ہاسپٹل جانے سے شروع ہی سے گھبراتے تھے۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے اور اسی طریقۂ علاج کو ترجیح دیتے تھے۔ہمیشہ دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ محتاجی کی زندگی سے بچائے اور میری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ 20؍مارچ 2011ء کو آپ نے وفات پائی۔ …٭…٭…٭… حضرت چودھری دولت خاں صاحب ؓ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اگست 2011ء میں مکرم رانا عبدالرزاق خاں صاحب کے قلم سے حضرت چوہدری دولت خاں صاحب ؓ آف کاٹھگڑھ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ حضرت چودھری دولت خاں صاحب قریباً 1870ء میں حضرت چودھری بلند خاںصاحبؓ کے گھر کاٹھگڑھ ضلع ہوشیار پورمیں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم آریہ سکول سے حاصل کی۔پھر برٹش انڈین آرمی میں بھرتی ہوگئے۔آپ چار بھائی تھے۔ آپ اور آپ کے والد نے اپنی برادری کے ساتھ1903ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی تھی۔ حضرت چودھری صاحبؓ 1947ء میں جماعت کاٹھگڑھ کے سیکرٹری مال تھے۔ قادیان جلسہ پر باقاعدہ جایا کرتے تھے۔ آپؓ کے تین بھائی تھے۔ ایک بھائی حضرت چودھری ہدایت خاں صاحبؓ قادیان میں حضرت اماںجانؓ کی ڈیوڑھی پر دربان بھی رہے۔ تقسیم ملک کے بعد چند سال فیصل آباد کے ایک گاؤں میں رہائش رکھی۔ بعد ازاں آپ کو شورکوٹ کے ایک گاؤں میں زمین الاٹ ہوگئی۔ آپ نے وہاں جماعت کو منظم کیا اور عرصہ دراز تک اس جماعت میں صدر بھی رہے۔ آپ نہایت متقی، پرہیزگار ، پابند نمازو روزہ اور باکردار احمدی تھے۔ یہاں مسجد بھی تعمیر کروائی۔ آپؓ موصی تھے۔ 21؍اپریل 1965ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپؓ کے بڑے بیٹے مکرم چوہدری محمد علی خاں صاحب 1906ء میں پیدا ہوئے تھے اور 11 مئی 1982ء کو انہوں نے وفات پائی۔ انہیں خوشاب میں اپنی جماعت کے سیکرٹری مال کے طور پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ جبکہ آپؓ کے ایک چھوٹے بیٹے چوہدری علی محمد صاحب بھی آپؓ کی وفات کے بعد اپنی جماعت کے صدر اور سیکرٹری مال وغیرہ رہے۔ وہ 1914ء میں پیدا ہوئے تھے اور 10 مارچ 1975ء کو انہوں نے وفات پائی۔ موصی تھے۔ مکرم رانا نعیم الدین صاحب مجاہد ساہیوال حضرت چودھری دولت خاں صاحبؓ کے داماد ہیں ۔ …٭…٭…٭… ’’نشیمن‘‘ مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مئی جون 2011ء میں خاکسار فرخ سلطان محمودکے قلم سے محترمہ امۃالباسط ایاز صاحبہ کی کتاب ’’نشیمن‘‘ کا تعارف شامل اشاعت ہے۔ اس دلچسپ کتاب میں مختصر لیکن نہایت سبق آموز اور ایمان افروز مضامین جمع کردیئے گئے ہیں۔ گویا جس طرح رنگ برنگے تنکوں، دھاگوں اور پھولوں کی پتیوں سے ایک پرندہ اپنا آشیانہ تعمیر کرتا ہے، اسی طرح مصنفہ نے نہایت قابلیت سے مختلف النوع کہانیوں کو ترتیب دے کر ایک خوبصورت نشیمن بنانے کی نہایت کامیاب کوشش کی ہے۔ علمی، ادبی، دینی اور معلوماتی مضامین کا یہ مجموعہ کئی سال پہلے شائع ہوا تھا اور اس میں مختلف النّوع دلچسپ مضامین میں سے بعض میں ایسے پہلوؤں کو مختلف انداز میں اجاگر کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے جن سے گھروں میں امن و سکون اور شادمانی کی فضا قائم ہوسکے۔ ایسے امور بھی بیان کئے گئے ہیں جنہیں مائیں اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے پیش نظر رکھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ اُن کی آئندہ نسل اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی۔ کئی بزرگوں کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو احتیاط سے سپرد قلم کیا گیا ہے جو نہ صرف ایمان افروز ہیں بلکہ دوسروں کے لئے نمونہ بھی۔ بہت سے ایسے معلوماتی مضامین بھی اس میں شامل اشاعت ہیں جو گہرے ذاتی مشاہدات کا نتیجہ ہیں۔ مصنفہ نے اس کا انتساب اپنے بزرگ والد ’’خالد احمدیت‘‘ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے نام کیا ہے جو نہ صرف ایک عالم باعمل تھے بلکہ اُنہیں تقریر و تحریر میں بھی ایک خاص ملکہ حاصل تھا اور جن کی قلمی خدمات سے قیامت تک کی احمدی نسلیں فیضیاب ہوتی چلی جائیں گی۔ کتاب میں پچاس سے زیادہ مضامین شامل کئے گئے ہیں ۔ ذیل میں چند مضامین میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔ ٭حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کسی لڑکی کا نام جنت تھا۔ کسی شخص نے کہا کہ یہ نام اچھا نہیں کیونکہ بعض اوقات انسان آواز مارتا ہے کہ جنت گھر میں ہے؟ اور اگر وہ نہ ہو تو گویا اس سے ظاہر ہے کہ دوزخ ہی ہے یا کسی کا نام برکت ہو اور یہ کہا جائے کہ گھر میں برکت نہیں تو گویا نحوست ہوئی۔ یہ بات نہیں ہے۔ نام رکھنے سے کوئی حرج نہیں ہوتا اور اگر کوئی کہے کہ برکت اندر نہیں ہے تو مطلب یہ ہے کہ وہ اندر نہیں ہے نہ یہ کہ برکت نہیں ہے۔ یا اگر کہے کہ جنت نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنت نہیں ہے اور دوزخ ہے بلکہ یہ کہ وہ انسان اندر نہیں ہے جس کا نام جنت ہے۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 180) *بعض لوگ ناموں سے اس قدر متأثر ہوتے ہیں کہ کسی کو مصیبت میں دیکھ کر کہہ دیں گے کہ اپنا نام ہاجرہ سے بدل لو کیونکہ ہاجرہ ؑنے بڑے مصائب دیکھے تھے۔ *بچہ تو معصوم اور بے گناہ پیدا ہوتا ہے۔ نام کے بارہ میں وثوق سے یہ کہنا کہ سو فیصدی بچے پر اثر پڑتا ہے، یہ بات مانی نہیں جاسکتی۔ ورنہ دولت بی بی کو گھروں میں صفائی کرکے اپنا پیٹ نہ پالنا پڑتا۔ * Cook Islands میں کسی باپ کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو اُس کا نام رکھا گیا ’’آکاٹاکا ٹیموٹاٹا‘‘ یعنی Start of the Engine۔ ساری فیملی خوش تھی کہ یہ بہت اچھا نام ہے۔ ایک ملک Samoa Island کے ایک اخبار میں خبر چھپی کہ ہسپتال ڈیلیوری کے لئے جارہے تھے۔ رش کی وجہ سے بچہ گاڑی میں ہی پیدا ہوگیا تو ماں باپ نے اُس کا نام ’’آسولیاگا‘‘ رکھ لیا یعنی Bad Day۔ اسی طرح وہاں Sea Cucumber یعنی سمندری کھیرا اور Dog's Eye یعنی کتے کی آنکھ جیسے نام بھی رکھ لیتے ہیں۔ ایک بچہ جو وقت سے پہلے پیدا ہوگیا اُس کا نام ’’ٹانے آؤنا‘‘ یعنی Had to come tomorrow رکھ دیا گیا۔ ایک لڑکی کا نام رکھنا تھا، باپ فون کے پاس بیٹھا تھا، اُس کا نام ٹیلیفون ہی رکھ دیا گیا۔ یہ سب کچھ میرے مشاہدے میں ہے۔ *جزیرہ طوالو پر ایک بچی کا نام تھا ’’لوئی ماتا‘‘ یعنی آنسو۔ وجہ یہ تھی کہ اُس کے پیدا ہونے پر ماں مرگئی تھی اور سب رو رہے تھے۔ جب نام تجویز کرنے کا خیال آیا تو یہی نام مناسب معلوم ہوا۔ *مشرقی افریقہ میں ایک ہمارا ملازم تھا جس کا نام ہی Christian تھا۔ کئی بچوں کا نام ہفتے کے مختلف دنوں پر رکھا ہوا بھی نظر آیا۔ یعنی جس دن بچہ پیدا ہوا وہی دن اُس کا نام بن گیا۔ اسی طرح مہینوں کے ناموں پر نام رکھنا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں۔ *نیوزی لینڈ میں بھی کسی کے نام کی کوئی اہمیت نہیں۔ کسی کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوں تو ایک کا نام پاؤنڈی اور دوسری کا شلنگ رکھ لیا۔ کسی بستی میں جڑواں بچے پیدا ہوئے تو باپ نے سمندر میں سے گزرتے ہوئے دو بحری جہازوں کے نام اپنے بیٹوں کو دیدیئے۔ طوالو اور ٹونگا جزائر میں تو بعض لوگوں نے بچوں کو گنتی کے نام بھی دے رکھے ہیں۔ یعنی پہلے کا نام ایک دوسرے کا دو تیسرے کا تین ۔ کبھی کبھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد جو چیز پہلے نظر آئی وہی بچے کا نام بھی بن گئی۔ *یورپ میں کتوں، بلوں اور پرندوں کے علاوہ دکانوں کے بھی عجیب و غریب نام دیکھنے میں آتے ہیں۔ برطانیہ میں شاپنگ سینٹر Sainsbury دراصل ایک شخص کا نام ہے جس نے اِس سٹور کا آغاز کیا۔ اسی طرح Jhon Louis اور Lipstick بھی لندن میں دکانوں کے نام ہیں۔ *ہمارے معاشرہ میں بچہ کو اچھا بامعنی نام دینے کا رواج ہے تاکہ اُس کے اچھے اثرات بچے کی ساری زندگی میں نظر آسکیں۔ ایک بار کسی نے MTA پر ہی حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے اپنے نام کی تبدیلی کی درخواست کی جو حضور رحمہ اللہ نے منظور فرمائی اور نیا نام بھی تجویز فرمادیا۔ ٭اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمائے حسنیٰ ہی بہترین اور مبارک نام ہیں۔طوالو میں جب پہلے عیسائی نے احمدیت قبول کی تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے اُس کا نام عبدالاوّل رکھا۔ پاکستان میں بھی ایک خاندان میں جب چھٹی بیٹی کا نام رکھنے کے لئے حضورؒ سے درخواست کی گئی تو اُسے امۃالآخر کا نام عطا ہوا۔ مذکورہ دونوں ناموں سے ان کی برکت ہی مقصود تھی۔ *حضورؒ نے ایک بار ہومیوپیتھی ناموں سے متعلق یہ دلچسپ بات بھی بتائی کہ ایک بچی جس کو سلیشیا موافق آتی تھی، اُس کو اسی نام سے بلاتے تھے اور دوسری بہن کو برائیونیا کے نام سے بلاتے تھے۔ ٭بعض خاندانوں میں اوپرتلے تین چار بیٹیوں کی پیدائش پر بیٹے کی خواہش قدرتی امر ہے۔ ایک فیملی نے چوتھی بیٹی کا نام بشریٰ رکھ لیا کہ اب کی بار بیٹا ہی ہوگا مگر پھر بیٹی ہوگئی تو اُس کا نام بھی بشریٰ ہی رکھ دیا۔ چونکہ دونوں کے نام ایک ہی تھے اس لئے ایک کے ساتھ بڑی اور دوسری کے ساتھ چھوٹی کا اضافہ کرکے اُنہیں بلایا جاتا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے بھی عطا فرمائے۔ ٭نیوزی لینڈ آسٹریلیا سے 1600 کلومیٹر جنوب مشرق میں ہے۔ کُل آبادی 33 لاکھ ہے۔ یہاں پہلے پہل پولی نیشن لوگ آئے۔ جلد بعد عیسائی مشنری 1814ء میں پہنچے۔ سب سے پہلے ایک شخص Kupe تھا جس نے اس ملک کو دریافت کیا اور اسے Aoteora کا نام دیا یعنی Land of long white cloud۔ بعض مؤرخین نے کیپٹن کُک کو یہ اعزاز دیا کہ اُس نے یہ ملک دریافت کیا ہے کیونکہ دارالحکومت ولنگٹن میں ملک کا سب سے بڑا پہاڑ بھی Mount Cook کہلاتا ہے۔ یہ پہاڑ اتنا بڑا ہے کہ سارا سوئٹزرلینڈ اس پہاڑ میں چھپ جائے۔ آک لینڈ شہر تجارت کیلئے بڑا مشہور ہے جو جہازوں اور کشتیوں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اس شہر کو City of Sail بھی کہتے ہیں۔ کشتی قریباً ہر شخص کے پا س ہوتی ہے جسے وہ اپنی مقررہ جگہ پارک کرتا ہے۔ غلط پارکنگ پر جرمانہ کے علاوہ کشتی چلانے کا لائسنس بھی ضبط کرلیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی کشتی چور کشتیاں چرا بھی لیتے ہیں جنہیں بعض اوقات پولیس بازیاب بھی کروالیتی ہے۔ کشتی رانی اور مچھلی پکڑنے کے مقابلے یہاں کے پسندیدہ کھیل ہیں۔ ملک کی شروع کی آبادی میں عیسائیوں نے اپنی تعلیم کے لئے چرچ بناکر صرف عیسائیت کی تعلیم دینی شروع کی لیکن بعد میں ان کے اپنے قبائل کے سرداروں نے اپنی مذہبی تعلیم کو رائج کرنا ضروری سمجھا اور اپنے الگ الگ گرجے بنائے اور عبادتگاہیں بنائیں جن کو Marai کہتے ہیں۔ ان کے اعتقاد میں روحوں کا زندہ انسانوں سے باتیں کرنا بہت یقینی حد تک پہنچ گیا ہے۔ یہ توہّم پرست لوگ ہیں۔ ٭یہ کہانی شہر مکہ سے شروع ہوتی ہے جہاں ایک غریب نوجوان رہتا تھا جس کا نام ابوبکر محمد تھا۔ یہ نوجوان اس قدر غریب تھا کہ کئی کئی وقت کھانے کو روٹی نہ ملتی تھی لیکن ایماندار اور نیک اس قدر تھا کہ کسی کی چیز کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھتا تھا۔ ایک دن اُسے بازار میں کسی کی گری ہوئی پوٹلی دکھائی دی۔ اُس نے اُسے کھول کر دیکھا تو اندر سے ایک قیمتی ہار نکلا جو کسی امیر عورت کا معلوم ہوتا تھا۔ یہ نوجوان اِس ہار کو فروخت کرکے امیر بن سکتا تھا لیکن اسلامی تعلیم کے مطابق اُسے اِس ہار کے مالک کو تلاش کرنا تھا اور کم از کم ایک سال تک اسے بطور امانت اپنے پاس رکھنا تھا۔ تاہم ہار کا مالک جو ایک شریف بوڑھا تھا، اُسے جلد ہی مل گیا جس نے ہار کی نشانیاں بتاکر وہ ہار ابوبکر محمد سے حاصل کیا اور انعام کے طور پر چند اشرفیاں اُسے دینا چاہیں۔ لیکن ابوبکر محمد اگرچہ اُس وقت بے حد ضرورتمند تھا لیکن اُس نے اشرفیاں لینے سے انکار کردیا۔ کچھ عرصہ بعد ابوبکر محمد نے اپنی غربت سے تنگ آکر کسی دوسرے ملک میں جاکر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ ایک روز وہ کشتی میں سوار ہوکر روانہ ہوا لیکن دوران سفر ایک طوفان نے اس کشتی کو تباہ کردیا۔ ابوبکر محمد نے بھی ٹوٹی ہوئی کشتی کا ایک تختہ پکڑلیا۔ چند نوجوان کسی نہ کسی طرح تیرتے ہوئے تختوں کی مدد سے ایک قریبی جزیرے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے جن میں ابوبکر محمد بھی شامل تھا۔ جزیرے والوں نے ان کا بہت خیال رکھا اور جلد ہی ابوبکر محمد اپنی محنت اور دیانت سے باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہوگیا۔ پھر اُس کی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے وہاں کے لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا اور چند بوڑھے اُس کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہمارے جزیرہ میں ایک بہت ہی نیک انسان رہتا تھا، کچھ ہی دن ہوئے اس کا انتقال ہوا ہے اور اب اُس کی اکلوتی بیٹی جو خوبصورت اور سلیقہ مند ہے، اکیلی رہ گئی ہے، اگر آپ پسند کریں تو آپ کا نکاح اُس کے ساتھ کردیا جائے۔ ابوبکر محمد کی رضامندی سے اُس کا نکاح اُس لڑکی سے ہوگیا۔ شادی کے بعد اُس نے اپنی بیوی کو دیکھا تو حیرت سے اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس لئے کہ اُس نے اپنے گلے میں وہی ہار پہن رکھا تھا جو مکہ کے بازار میں ابوبکر محمد کو ملا تھا۔ اُس کے پوچھنے پر بیوی نے بتایا کہ یہ ہار میرے اباجان نے میرے لئے خریدا تھا۔ اُس نے اس ہار کی گمشدگی اور پھر ملنے کا قصہ بھی سنایا اور بتایا کہ جس ایماندار نوجوان نے یہ ہار واپس کیا تھا، میرے والد ہمیشہ اُسے دعاؤں میں یاد رکھتے تھے ۔ ابوبکر یہ سن کر سوچنے لگا کہ شاید انہوںنے یہ دعا بھی کی ہو کہ وہ نوجوان اس بیٹی کا نصیب بن جائے۔ پھر اُس نے سارا واقعہ اپنی بیوی کو بتایا۔ بعد میں یہی ابوبکر محمد بہت بڑا عالم بنا اور تاریخ میں اُن کا نام قاضی ابوبکر محمد بن عبدالباقی انصاری کے طور پر محفوظ چلا آتا ہے۔ …٭…٭…٭… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اگست 2011ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک طویل نظم شامل اشاعت ہے جو سورۃ الزّمر: 54 سے متأثر ہو کر کہی گئی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ اے مرے بندو !جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہویقیناً اللہ سب کے سب گناہ بخشتا ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: گرچہ ہے گناہوں میں گرفتار ، چلا آ آ پاس مرے میرے خطاکار ، چلا آ سو بار بھی توبہ کو اگر توڑ چکا ہے رحمت مری کہتی ہے کہ سو بار چلا آ مایوس نہ ہو گر مرے وعدوں پہ یقیں ہے وعدے کا مَیں سچا ہوں ، ستمگار چلا آ ڈھک لے گی ترے عیب مری رحمتِ جاری مت بھول مرا نام ہے ستار ، چلا آ دو اشکِ ندامت ترے دوزخ کو بُجھا دیں آنکھوں میں لیے اشکوں کی منجدھار ، چلا آ میں کون ہوں ، کیا ہوں ، تجھے ادراک نہیں ہے دیکھا ہی نہیں تُو نے رُخِ یار ، چلا آ دوزخ سے نہ ڈر ، چھوڑ دے جنت کی طمع کو آ دیکھ مجھے طالبِ دیدار چلا آ بندہ ہے تو بندے کے لئے عجز ہے زیبا سر پر نہ سجا کبر کی دستار ، چلا آ کر دیتی ہے معدوم یہ فی ا لفور گناہ کو توبہ میں نہاں ہیں عجب اسرار ، چلا آ اب چھوڑ بھی دے ظلم و جفا کا یہ وطیرہ یاں عجز فقط عجز ہے درکار ، چلا آ کج رَو کی نہیں ہے مرے کوچے میں رسائی درگاہِ مقدس ہے یہ ہموار ، چلا آ بہروپ نہ بھر عابد و زاہد کا نکمے رگ رگ سے مَیں واقف ہوں ریاکار ، چلا آ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 جنوری 2011ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی (نئے سال کے حوالہ سے کہی گئی) ایک نظم شائع ہوئی ہے جس میں سے انتخاب پیش ہے: ہم بھریں اُونچی اُڑان اب کے برس زیر کرلیں آسمان اب کے برس ہم کریں زندہ وہی رسمِ جنوں مصلحت کا نہ رہے کوئی دھیان اب کے برس جبر کے ماحول میں کردے عطا بے زبانوں کو زبان اب کے برس شکر کے سجدے کریں ہم رات دن دل ہو اپنا شادمان اب کے برس