https://youtu.be/6tQg85FBpVA (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍دسمبر ۲۰۰۳ء) انبیاء دنیا میں بگڑی ہوئی مخلوق کو، جو مخلوق اپنے خدا سے پرے ہٹ جائے اور بگڑ جائے اُس مخلوق کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو مبعوث فرماتاہے تاکہ انہیں خدا تک پہنچا سکیں۔ اور یہ سیدھاراستہ سچائی پر قائم ہو ئے بغیر نہیں مل سکتا۔ اسی لئے تمام انبیاء سچائی کی تعلیم دیتے رہے اور جرأت سے حق پر قائم رہتے ہوئے ایک خدا کی طرف بلاتے رہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اب دین مکمل کرنے کا وقت آگیاہے، اب انسانی سوچ بلوغت تک پہنچ چکی ہے تو پیکر صدق وجود حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مبعوث فرمایا، جنہوں نے ہر معاملے میں بڑے سے بڑے معاملے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے معاملے تک ہمیں سچ پر قائم رہنے کی اور ہمیشہ اس پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے مومنواب تم ایمان لے آئے ہو اس ایمان پر مزید یقین بڑھاناہے تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ ہر وقت اس کا خوف تمہارے دل میں رہے اور ہمیشہ حق بات کی طرف بلانے والے، حق دکھانے والے اور سچ بولنے والے اور کہنے والے بنو اور اس کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ، سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ اور اب دنیا میں آنحضرتﷺ سے بڑھ کر کوئی صادق نہیں جو اتنی گہرائی اور باریکی میں جا کر تمہیں حق، سچ اور صدق کی تعلیم دے۔ اس لئے اس نبی کے ساتھ چمٹ جاؤ اور اس تعلیم پر عمل کرو جو اس سچے نبیﷺ نے خدا سے علم پا کر تمہیں دی ہے۔ اور پھر ہم احمدیوں کی اور بھی زیادہ خوش قسمتی ہے اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں، اس کی جتنی بھی حمد کریں کم ہے، کہ اس نے ہمیں اس زمانے میں حضرت خاتم الانبیاءﷺ کے عاشق صادق اور آپﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے امام مسیح اور مہدی علیہ السلام کے دعوے کو ماننے کی توفیق بھی دی۔ جنہوں نے ہمیں اس حسین تعلیم کے باریک در باریک نکات کو مزید کھول کر دکھایا اور بتایا۔ اور اس سچی تعلیم کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کی تفصیل سے نصائح فرمائیں۔ آپ نے وضاحت سے فرمایا کہ قرآن کریم میں جس طرح سچ اور راستی کے بارہ میں حکم ہے کسی اور کتاب میں نہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس قدر راستی کے التزام کے لئے قرآن شریف میں تاکید ہے مَیں ہر گز باور نہیں کر سکتاکہ انجیل میں اس کا عشرعشیر بھی تاکید ہو۔ پھر اس بارہ میں آپ نے عیسائیوں کو چیلنج بھی کیا تھا کہ مَیں چیلنج کرتاہوں کہ اگر تم لوگ مجھے انجیل میں سے کھول کر بتا دو، سچائی کی اور صدق کی تعلیم جس طرح قرآن شریف میں ہے، تو مَیں تمہیں ایک بہت بڑی رقم انعام دوں گا۔ پھر آپؑ نے فرمایا : قرآن شریف میں دروغ گوئی کویعنی جھوٹ بولنے کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایاہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے فَاجْتَنِبُوْاالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو اور پھر ایک جگہ فرماتاہے یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنَ وَالْاَقْرَبِیْن…۔ یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ یا تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھائیں۔ (نورالقرآن نمبر ۲صفحہ ۱۷۔ ۱۸) تو اب اس قدر تاکید کے بعد ہم پر کس قدر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم سچ کے خُلق کو اپنے اوپر لاگو کریں اور اسے اپنائیں۔ اور ہمارا اوڑھنا بچھونا، ہر حالت میں، ہماری ہر بات جو ہمارے منہ سے نکلے وہ سچ ہو۔ اب احادیث کی روشنی میں کچھ وضاحت کرتاہوں۔ حضرت ابوبکر ہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: کیا مَیں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں۔ ہم نے عرض کیا جی حضور! ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ کا شریک ٹھہرانا(سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے)، والدین کی نافرمانی کرنا، آپ تکیے کا سہارا لئے بیٹھے ہوئے تھے، آپ جوش میں آ کر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو!تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ آپؐ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کہ کاش حضورؐ خاموش ہو جائیں۔ (بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین) تو اس حدیث سے اندازہ ہوتاہے کہ آنحضرتﷺ کو جھوٹ سے کس قدر نفرت تھی۔ اور آپؐ کی ہر تعلیم ہی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تھی۔ تو اصل میں جیساکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ شرک اور جھوٹ ایک ہی چیزہیں۔ انسان نے اپنے اندر بھی بہت سے بُت بنائے ہوتے ہیں۔ اور بہت سے جھوٹ کے بُت بنائے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آج کی دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔ جس پہلواوررنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں، جھوٹے مقدمہ کرنا تو بات ہی کچھ نہیں، جھوٹے اسناد بنالئے جاتے ہیں۔ (یعنی کاغذات بھی جھوٹے بنا لئے جاتے ہیں، مقدمے بھی جھوٹے بنالئے جاتے ہیں، پیشیاں بھی جھوٹی، گواہیاں بھی جھوٹی، ہر چیز جھوٹی )۔ کوئی امر بیان کریں گے توسچ کا پہلو بچا کربولیں گے۔ اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا۔ (وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی کوئی ضرورت نہیں، ان سے اگر کوئی پوچھے )کہ کیا یہ وہی دین تھا جو آنحضرتﷺ لے کر آئے تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیزکرو۔ اِجْتَنِبُوْاالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملا یا ہے۔ جیسااحمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سرجھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کوبت بناتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتاہے۔ (یعنی وہ سمجھتاہے کہ بُت اسے نجات دے گا اس کے مسائل سے )۔ اسی طرح جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتاہے اور سمجھتاہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہوجاوے گی۔ کیسی خرابی آ کر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو، اس نجاست کو چھوڑ دو۔ تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑدیں، اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پراپنا مدار سمجھتے ہیں مگرمَیں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتاہے، بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔ (ملفوظات جلد نمبر۸صفحہ ۳۴۹۔ ۳۵۰) مزید پڑھیں: عملی اصلاح کے لیے قوّتِ ارادی