اس آیت میں بھی خداتعالیٰ کے جامع الصفات اور وسیع تر ہونے کا مضمون ہے۔ اس آیت کی ابتدا ہی اللہ تعالیٰ کے نام سے ہوتی ہے۔ اللہ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اللہ جو خدائے تعالیٰ کا ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کا مستجمع ہے۔‘‘ فرمایا ’’کہتے ہیں کہ اسم اعظم یہی ہے اور اس میں بڑی بڑی برکات ہیں۔ لیکن جس کو وہ اللہ یاد ہی نہ ہو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ63 ایڈیشن۱۹۸۸ء) پس جب ایک انسان مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کو سب طاقتوں کا سرچشمہ یقین کرنا چاہئے اور اسے تمام صفات کا اس حد تک احاطہ کئے ہوئے سمجھنے پر ایمان ہونا چاہئے، جہاں تک انسان کے فہم و ادراک کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ جو بے کنار ہے اور جب یہ ایمان ہو گا تو تبھی ہر موقع پر خداتعالیٰ یاد رہے گا۔ بہت سی برائیوں میں انسان اس لئے مبتلا ہو جاتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے احکامات کے بجا لانے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں سستی اس لئے ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت انسان کو یادنہیں رہتا۔ انسان بھول جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی ہر لمحہ اور ہر آن مجھ پر نظر ہے۔ …اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے اس طرح شروع کیا کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ۔ یعنی صرف اللہ کو دیکھو کہ وہی تمہارا معبود ہے اس کے علاوہ کوئی اور معبودنہیں ہے۔ یہ واضح فرما دیا کہ اللہ ہی تمام صفات کا جامع اور تمام قدرتوں کا مالک ہے اور اس ناطے وہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور تمام جھوٹے خداؤں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے، بچتے ہوئے، صرف اسی واحد خدا کے سامنے جھکا جائے۔ فرمایا کہ اس واحد خدا کے سامنے جھکو گے تو پھر ہی دنیا و آخرت کے انعامات سے فیض پا سکتے ہو۔ دنیا میں ہر چیز کا بدل مل سکتا ہے لیکن خداتعالیٰ کا کوئی بدل نہیں ہے۔ جب اس کا بدل نہیں ہے تو پھر بیوقوفی ہے کہ اسے چھوڑ کر کہیں اور جایا جائے۔ یا عارضی طور پر ہی اپنی ترجیحات کو بدل دیا جائے۔ ایک دہریہ تو یہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں کیونکہ خدا کو نہیں مانتا اس لئے مَیں کیوں اس کے در پر حاضر ہو جاؤں۔ لیکن ایک مسلمان جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور پھر دنیاوی ذریعوں کو خدا سے زیادہ اہمیت دیتا ہے تو یہ یقیناً اس کی بدقسمتی ہے۔ (خطبہ جمعہ ۵؍جون ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۶؍جون ۲۰۰۹ء) مزید پڑھیں: اپنے ماحول کو اپنے گھر کی طرح صاف رکھنا ضروری ہے