https://youtu.be/DwFQn_K0Zvs (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۰؍مارچ ۱۹۲۵ء) ۱۹۲۵ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے افغانستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم، غیروں کے اس پر اظہار افسوس اور اس کے متعلق جماعت احمدیہ کے ردعمل کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) اگر یہ ملّانے آنحضرت ﷺکے وقت میں ہوتے تو یقیناً یہ یہود کے پاس یا مکّے والوں کے پاس اپنے وفد بھیجتے اور نہایت خوشی مناتے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کے قتل کرنے کی تجویز کی اور آپﷺ کو دکھ دیئے تھے۔ پھر یہی نہیں اگر یہ ملّانے مکہ میں پیدا ہوتے تو یقیناً یہ لوگ رسول اللہﷺ سے لڑتے اور جنگ کرتے [تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۳؍جولائی ۲۰۲۵ء] مگر پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون کے متعلق دوستوں کے سامنے مناسب اور قابل ذکر باتیں جو سلسلہ کے مفاد میں حارج نہ ہوں بیان کروں۔ پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حالات اور واقعات مختلف ہوتے ہیں۔ بعض حالات وہ ہوتے ہیں جو انسان کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو اس کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ اسی طرح ان کا ازالہ بھی دو طرح ہوتا ہے۔ ایک وہ جو اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ اور ایک وہ جو اختیار سے باہر ہوتا ہے۔ پھر جن حالات کا ازاله اختیار میں ہوتا ہے۔ وہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ کہ جن کے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ ان کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے آدمیوں کی تکلیف کو دور کریں اور ایک یہ کہ ان کی تکلیف کا رفع کرنا دوسروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ پھر وہ دوسرے لوگ جن کے اختیار میں ان کی تکلیف کا ازالہ ہوتا ہے ان تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ اور ایک یہ کہ ان تک پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔ اب جن تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے اور تکلیف کا ازالہ ان کے اختیار میں ہوتا ہے ان کی بھی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ اگر تو وہ لوگ جن تک ہمارا پہنچنا ممکن ہوتا ہے متعصّب ہوں تو ان تک پہنچنا نہ پہنچنا برابر ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اگر ان تک پہنچا جائے تو بجائے فائدہ کے مضر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے ارادہ کیا ہے کہ وہ ہمیں قتل کرے یا کوئی ایسی گورنمنٹ ہے جو ہمارے قتل کا ارادہ رکھتی ہے۔ اب اگر اس کے پاس ہم پہنچیں تو کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ وقتی طور پر اپنی تجویز کو بدل لے اور کچھ نہیں ہوتا۔ اور وہ اس بات کی منتظر رہے گی کہ کسی دوسرے موقع اور وقت پر اپنا کام کرے۔ اس لئے ایسی حالت میں ایسی مخفی تدابیر سے کام لیا جا سکتا ہے کہ اس کو پتہ نہ لگے۔ تو مختلف واقعات کا ازالہ مختلف طریق سے ہوتا ہے۔ پس ہمارا یہ واقعہ بھی اس قسم کا ہے۔ جس سے ہمارا معاملہ ہے۔ وہ کسی کی رعایا نہیں۔ بلکہ خود بادشاہ اور حاکم ہے۔ اس وجہ سے اس کی اور ہماری حالت میں بہت بڑا فرق ہے۔ وہ بادشاہ ہے اور ہم بادشاہ نہیں۔ اس کے افعال بے شک ظلم کہلائیں ، تعدّی کہلائیں مگر اس کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا۔ اس کے ظلم کا انسداد کوئی دوسری حکومت ہی کر سکتی ہے۔ مگر ہماری کوئی حکومت یا بادشاہت نہیں۔ اگر ہمارے پاس بھی بادشاہت ہوتی تو قرآن کریم کی رو سے ہم پہلے اپنے ان مظلوم بھائیوں کو حکم دیتے کہ وہاں سے ہجرت کر آئیں اور ہمارا فرض ہوتا کہ ہم ان کے رہنے اور گزارے کا سامان مہیا کرتے۔ لیکن چونکہ اس وقت کہیں بھی احمدی حکومت نہیں ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی ملک ہے اس لئے ہم ان کو ہجرت کا حکم نہیں دے سکتے اور نہ ہجرت ان کے لئے فرض ہے۔ ہاں اپنے طور پر جہاں کہیں کوئی پناہ حاصل کر سکتا ہو اور اپنے لئے راستہ کھلا پاتا ہو۔ وہ ایسا کر سکتا ہے۔ ہجرت اسی وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے جب کہیں اپنی حکومت ہو۔ رسول کریمﷺ کے وقت بھی جب تک آپﷺ کو حکومت نہیں ملی اس وقت تک مسلمانوں کے لئے ہجرت فرض نہیں ہوئی تھی۔ ۱۳؍سال تک متواتر مکہّ کے لوگ جس طرح آج احمدیوں پر کابل میں ظلم کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح وہ بھی مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم کرتے رہے مگر ان پر ہجرت فرض نہ ہوئی ۔ حتیٰ کہ خود آنحضرتﷺ نے بھی ہجرت نہ کی۔ پھر وہ وقت آیا کہ آپﷺ نے ارشاد الٰہی کے ماتحت مکہّ سے ہجرت کی اور آپﷺ کو باہر جا کر مدینے میں حکومت حاصل ہو گئی۔ اور حکومت ملنے کے ساتھ ہی معاً مسلمانوں پر ہجرت بھی فرض ہو گئی۔ اس سے پہلے ہجرت فرض نہیں ہوئی تھی۔ پس ہجرت اسی وقت فرض ہوتی ہے جب کسی جگہ اپنی حکومت ہو۔ لیکن جب کہیں بھی اپنی حکومت نہ ہو تو پھر ان کو اختیار ہوتا ہے کہ جہاں کہیں اپنے تعلقات اور وسعت کے لحاظ سے وہ اپنی حفاظت کر سکتے ہوں کریں۔ یا پھر اس وقت کا انتظار کریں۔ جب خدا تعالیٰ خود ان کے بچانے کے لئے کوئی راستہ نکالے۔ چونکہ ہماری حکومت نہیں ہے اس لئے ہم ان کو ہجرت کا حکم نہیں دے سکتے۔ یا پھر ان حالات کے ماتحت کہ ایک احمدی اس لئے مارا جائے کہ وہ احمدی ہے۔ شریعت انہیں حق دیتی ہے کہ وہ اس قوم کے خلاف جنگ کریں اور ان کے شر سے اپنے آپ کو بچائیں۔ لیکن چونکہ ہمارے پاس کوئی حکومت نہیں اس لئے یہ بات بھی ہم پر چسپاں نہیں ہوسکتی۔ پس نہ ہم ان کو ہجرت کا حکم دے سکتے ہیں اور نہ کابل کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہم امیر امان اللہ کے پاس اپیل کریں۔ مگر یہ بھی بے فائدہ ہے اور اس کا کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ کیونکہ جس گورنمنٹ میں ہمارے بھائیوں کے ساتھ ایسے شدید مظالم ہو رہے ہیں وہ درحقیقت امیر کابل کے ہاتھ میں نہیں۔ اگر افغان حکومت کے اختیار میں یہ تمام معاملہ ہوتا تو شاید وہ ایسا نہ کرتی۔ پس وہ گورنمنٹ جس سے یہ قصور سرزد ہوا میرے خیال میں وہ بھی اتنی مجرم نہیں ہے جتنا کہ بظاہر اس کو سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر امان اللہ خان اور ان کے وزراء مجرم ہیں۔ مگر اس لئے نہیں کہ انہوں نے ہمارے آدمیوں کو سنگسار کرایا ۔ بلکہ وہ اس واسطے مجرم ہیں کہ کسی جماعت سے ڈر کر انہوں نے ایسے فعل کا ارتکاب کیا۔ جسے وہ اپنے خیال میں برا سمجھتے تھے۔ اگر امیر اور ان کے وزراء کے ہاتھ کھلے ہوتے اور حقیقتاً کابل کی حکومت ان کے ہاتھ میں ہوتی تو ہم کو ذاتی طور پر علم ہے اور صحیح علم ہے کہ وہ ایسے افعال کو اپنی حکومت میں ہرگز پسند نہ کرتے۔ چنانچہ افغانستان کے وزیر خارجہ سردار محمود طرزی صاحب جو فرانس میں سفیر ہو کر گئے تھے اور امیر امان اللہ خان کے خسر بھی ہیں۔ جب فرانس سے واپس آتے ہوئے ہندوستان پہنچے تو ہمارے ناظر امور عامہ نے بمبئی میں ان سے ملاقات کی۔ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا واقعہ سن کر انہوں نے بہت تعجب کیا۔ کیونکہ ذاتی طور پر وہ مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں وہاں پہنچ کر معاملات کے درست کرنے کی کوشش کروں گا۔ اور اپنا پورا زور لگاؤں گا۔ لیکن وہاں جا کر ان کو معلوم ہوا کہ معاملہ ان کی طاقت سے باہر ہے کیونکہ جب خود امیر کچھ نہیں کرسکتا تو پھر وزیر کیا کر سکتا تھا۔ کیونکہ وہاں پر حکومت ملّاؤں کے قبضے میں ہے اور ملّاؤں کے پاس اپیل کرنا ایسا ہی ہے جیسا کوئیں کے پاس کھڑے ہو کر کوئیں سے پانی مانگنا یا آگ سے درخواست کرنا کہ تو خود بخود بجھ جا اور جلا نہیں۔ بھلا جن ملّاؤں کو سالہا سال بلکہ صدیوں سے حرام خوری کی عادت ہو اور حرام خوری ہی ان کی مقتضائے طبیعت ہو چکی ہو ان کے آگے اپنی مصیبت کو پیش کرنا کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ چونکہ ان کی انسانیت مردہ ہو چکی ہے اس لئے جب کابل میں مولوی نعمت اللہ صاحب کو شہید کیا گیا تو ہندوستان کے ملّانوں نے جن کی طبیعت کا مقتضاء ظلم و جفاکاری ہے بڑی خوشی منائی۔ انہوں نے اور ان کے زیر اثر لوگوں نے امیر کو تاریں دیں اور نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ اگر یہ ملّانے آنحضرت ﷺکے وقت میں ہوتے تو یقیناً یہ یہود کے پاس یا مکّے والوں کے پاس اپنے وفد بھیجتے اور نہایت خوشی مناتے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کے قتل کرنے کی تجویز کی اور آپﷺ کو دکھ دیئے تھے۔ پھر یہی نہیں اگر یہ ملّانے مکہ میں پیدا ہوتے تو یقیناً یہ لوگ رسول اللہﷺ سے لڑتے اور جنگ کرتے۔ لڑنے اور جنگ کرنے کی تو میں نے ان پر بہت زیادہ حسن ظنی کی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ سب سے زیادہ بزدل ہوتے ہیں۔ قلم چلانے کے وقت تو یہ آگے ہوتے ہیں۔ لیکن کام کے وقت سب سے پیچھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ خلافت کے معاملہ میں سب سے زیادہ یہی ملّانے مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوئے ہیں۔ خود انہوں نے نہ صرف کوئی نقصان نہیں اٹھایا بلکہ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے بڑی بڑی رقمیں مسلمانوں سے لئے ہوئے چندوں کی ہضم کر لیں اور وہ مالدار ہو گئے۔ پس ایسی حالت میں جب کہ حکومت اور اختیار اس قسم کے ملّانوں کے ہاتھ میں ہو۔ ان کے آگے اپیل کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا اور ایسی حالت میں امیر امان اللہ خان صاحب کے پاس اپیل کرنا بھی فضول اور بے فائدہ ہے۔ ان کی اپنی ضمیر ان کے سامنے ان مظالم کے خلاف اپیل کر رہی ہے۔ خود سردار محمود طرزی صاحب نے بمبئی میں مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کی خبر سن کر بہت افسوس کیا اور کہا کہ میں جا کر اس قسم کے مظالم کا انسداد کروں گا۔ لیکن وہ بھی وہاں پہنچ کر ہر که در کان نمک رفت نمک شد کے مصداق ہو گئے۔ کیونکہ وہاں جاکر ان کو محسوس ہوا کہ اگر ہم ان مظالم کے انسداد کی کوشش کریں گے تو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس لئے وہ بھی خاموش ہو گئے۔ پس وہ مجرم ہیں۔ مگر بے بس مجرم ہیں۔ رسول کریمﷺ کے وقت نجاشی (اس نجاشی کا نام اصحمہ ہے)۔ ( سیرت خاتم النبیین حصہ اول مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے)کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ مگر اس نے جرأت سے کام لیا تھا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ نے جب ابی سینیا میں جا کر پناہ لی تو مکہ سے کفار کا ایک وفد نجاشی کے پاس پہنچا اور کہا ہم اپنے ملک کی پارلیمنٹ کی طرف سے آئے ہیں تاکہ ہمارے آدمی جو آپ کے ملک میں بھاگ آئے ہیں ان کو واپس لے جائیں۔ آخر کئی دنوں کی گفتگو کے بعد نجاشی پر ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ ظالم ہیں اور مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس لئے اس نے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیا۔ چونکہ اس وفد نے عام عیسائیوں اور پادریوں کو مسلمانوں کے خلاف یہ کہہ کر بہت مشتعل کر دیا تھا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰؑ کی شان گھٹاتے اور اس کی ہتک کرتے ہیں۔ تم کیوں پناہ دیتے ہو۔ ان کو ضرور ان کے حوالہ کرنا چاہیے اور سب کے سب درباری بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ امیر کابل کی مشکلات نجاشی کے مقابلہ میں بہت ہی ادنیٰ اور بہت ہی حقیر ہیں۔ کیونکہ نجاشی کی حکومت کی حالت اس وقت امیر کی بادشاہت سے بہت زیادہ بدتر تھی۔ امیر کے ساتھ تو اس کے کچھ ہم خیال لوگ بھی ہیں۔ لیکن نجاشی کے تو سب کے سب مخالف ہو گئے تھے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح امیر کابل کو حکومت ملی ہے اس طرح نجاشی کو بھی ملی تھی۔ جس طرح امیر کا چچا ملک پر حکومت کرنا چاہتا تھا اور پھر امیر کو حکومت مل گئی اسی طرح نجاشی کا چچا بھی ملک پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اور پھر نجاشی کو حکومت مل گئی مگر افسوس کہ ایک عیسائی نے تو یہ جراٴت دکھلائی کہ اس قدر مخالفت کے باوجود ایک تنکا اٹھایا اور کہا جو کچھ مسلمانوں نے حضرت عیسیٰؑ کے حق میں بیان کیا ہے مَیں حضرت عیسیٰؑ کو اس سے زیادہ اس تنکے کے برابر بھی نہیں سمجھتا۔ تم یاد رکھو کہ خدا نے مجھے بادشاہ بنایا ہے تم نے میرے چچا کے وقت میرا کیا بگاڑ لیا تھا کہ اب میرا کچھ بگاڑ لو گے۔ بےشک تم سب میرے مخالف ہو جاؤ مگر میں ان مظلوموں پر ہرگز ظلم نہیں ہونے دوں گا۔(سیرت ابنِ ہشام حالات ہجرت حبشہ) مگر امیر نے ملّانوں کے شور و شر سے خوف کھا کر خاموشی اختیار کی اور ان مظالم کے انسداد کے لئے جرأت سے کام نہ لیا۔ ورنہ اگر وہ جرأت سے کام لیتا تو کوئی بڑی بات نہ تھی۔ خدا تعالیٰ اس کی مدد کرتا اور اس طرح مدد کرتا جس طرح اس نے نجاشی کی کی تھی۔ پس اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر کابل مجرم ضرور ہے۔ مگر ہمیں اس کے حالات معلوم ہیں اور ہم یقیناً جانتے ہیں کہ وہ اور نہ اس کے وزراء یہ ہرگز پسند نہیں کرتے کہ احمدیوں پر اس قسم کے ظلم کئے جائیں۔ لیکن ان کے وساوس نے ان کے ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ملّانوں کے مقابلہ میں خدا کا ہاتھ ہماری حکومت کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ اس لئے انہوں نے بزدلی دکھائی ہے۔ پس ایسی حالت میں ان سے اپیل کرنا فضول ہے جب تک کہ ان کی حکومت ملّانوں کے ہاتھ سے نہ نکلے۔ باقی رہے ملّانے۔ اب خواہ کوئی شخص کتنا بھی تعصب میں اندھا ہو رہا ہو۔ وہ اس امر کا ہرگز یقین نہیں کر سکتا بلکہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ وہ ملّانے ہماری اپیل پر اپنے فتویٰ کو واپس کر لیں گے۔ اور ان مظالم سے وہ دست بردار ہو جائیں گے۔ بھلا دیو بند کے ملّانوں کے سامنے ہی کوئی اپیل کر کے منوائے تو سہی۔ جو لوگ کہ انسانی خون میں جو نہایت بے دردی اور ظالمانہ طور پر کیا جائے خوشی اور لذت محسوس کریں۔ جن کی ضمیر قطعاً ایسی حرکات پر ان کو ملامت اور شرمندہ نہ کرے۔ بلکہ وہ فخر کے طور پر اعلان کریں اور نہ صرف یہ کہ وہ فخر کریں بلکہ ان لوگوں کو جنہوں نے اس قسم کے ظلم کئے یہ تحریک کریں کہ یہ بہت اچھا کام ہے۔ اس کو جاری رکھنا چاہیے۔ جن کی فطرت اس حد تک گر گئی ہو ان کے آگے ان کی اس قسم کی حرکات کے خلاف اپیل کرنے میں کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اگر امیر امان اللہ خان کو سیاسی مجبوریاں اور دنیاوی اغراض کے پورا نہ ہونے کا خطرہ پیش نظر نہ ہوتا تو اس کے پاس اپیل کرنے کا فائدہ بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن افغان گورنمنٹ اپنے سیاسی حالات کے ماتحت مجبور ہے۔ یا کم از کم وہ اپنے آپ کو مجبور رکھتی ہے۔ حالانکہ اگر وہ حق کی تائید میں کھڑی ہوتی تو خدا تعالیٰ اس کی مدد کرتا۔ پس وہ خود آزاد نہیں بلکہ ملّانوں کا ان پر قبضہ ہے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ ملّانوں نے کوئی فتویٰ دےکر خصوصاً جب کہ انہوں نے اس فتویٰ کو شریعت کی طرف منسوب کیا ہو آج تک کبھی بھی اپنی غلطی کا اقرار کر کے اپنے فتویٰ کو واپس لیا ہے۔ ان خاص بزرگوں کو چھوڑ کر جو پہلے قلیل تعداد میں گزرے ہیں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ ملّانوں نے کبھی بھی اپنے فتویٰ کی غلطی کا اعتراف اور اعلان کیا ہو۔ حضرت عثمانؓ۔ حضرت علیؓ بھی انہی ملّانوں کے فتوؤں کی وجہ سے شہید کئے گئے۔ اگر کوئی ایک بھی ایسی مثال پیش کر دی جائے کہ ان مولویوں کے پاس اپیل کرنے سے انہوں نے اپنے فیصلہ کو بدل دیا ہو اور انہوں نے اعلان کر دیا ہو کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے تو ہم ان ملّانوں کے پاس اپیل نہ کرنے کی غلطی کا اعتراف کریں گے اور ہم جوابدہ ٹھہریں گے۔ لیکن اگر آج تک کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی تو پھر یہ کہنا عدل و انصاف کے خلاف ہے کہ ہم نے ان کے پاس اپنی مصیبت کے لئے اپیل کیوں نہیں کی۔ خواہ کوئی کتنا ہی متعصب کیوں نہ ہو کون کہہ سکتا ہے یا امید بھی کر سکتا ہے کہ ان مولویوں کے پاس اپیل کرنے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پس افغانی گورنمنٹ کی مجبوریوں کو جو اس کے خیال میں مجبوریاں ہیں مد نظر رکھ کر اور ان علماء کے ان فتوؤں کو مد نظر رکھ کر اور وہ بھی اس بناء پر کہ انہوں نے اپنے فتویٰ کو شریعت پر مبنی قرار دیا ہےکون کہہ سکتا ہے کہ ان کے پاس اپیل کرنا یا کوئی اور کوشش نفع مند ہو سکتی ہے۔ پس یہ رستہ تو ہمارے لئے بند ہے۔ اس سے ہمیں کچھ نفع نہیں پہنچ سکتا۔ ہاں کچھ اور تجاویز بھی ہیںجن میں سے بعض ان شاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا۔ کیونکہ سیاسی امور میں ہر ایک بات قابل ذکر نہیں ہوتی بلکہ سیاسی اور دنیاوی مفاد کے لئے ان کا اخفا ضروری ہوتا ہے۔ ان میں مَیں بتلاؤں گا کہ ہم صرف پروٹسٹ ہی نہیں کررہے بلکہ ہم عملی کام بھی کر رہے ہیں۔ میں پہلے بھی جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ ہمارے جو بھائی کابل میں قتل ہوئے ہیں وہ تو فوت ہو چکے لیکن جو باقی ہیں ان کے لئے ہمیں فکر ہونی چاہیے۔ اور اس کا بہتر علاج یہی ہے کہ ہم توجہ کے ساتھ کابل کے احمدیوں کے لئے دعائیں کریں۔ اور خصوصیت کے ساتھ ان مظلوموں کے لئے جو وہاں گرفتار ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہر قسم کے ظلموں سے نجات دے۔ ہم کمزور ہیں لیکن ہمارا خدا طاقتور ہے۔ وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ میرے نزدیک وہ جو ان مظلوم بھائیوں کے لئے دعا نہیں کرتا وہ احمدی کہلانے کا مستحق نہیں۔ پس ان کے لئے دعائیں کرو۔ اور بار بار کرو اور عجز و انکسار کے ساتھ کرو۔ ( الفضل ۲۸؍مارچ ۱۹۲۵ء ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اللہ کی نعمت سے ہم بھائی بھائی بن گئے ہیں