منظوم کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ (سو سال قبل کے الفضل سے) دل مرا بے قرار رہتا ہےسینہ میرا فگار رہتا ہے نیک و بد کا نہیں مجھے کچھ ہوشسر میں ہر دم خمار رہتا ہے تیرے عاشق کا کیا بتائیں حالرات دن اشکبار رہتا ہے اس کی شب کا نہ پوچھ تُو جس کادین بھی تاریک و تار رہتا ہے دل مرا توڑتے ہو کیوں جانیآپ کا اس میں پیار رہتا ہے کیا نرالی یہ رسم ہے عاشقدے کے دل بے قرار رہتا ہے المدد! ورنہ لوگ سمجھیں گےتیرا بندہ بھی خوار رہتا ہے مجھ کو گندہ سمجھ کے مت دھتکارقربِ گل میں ہی خار رہتا ہے ہے دلِ سوختہ کی بھاپ طبیبتُو یہ سمجھا بخار رہتا ہے وحشتِ عارضی ہے ورنہ حضورکہیں بندہ فرار رہتا ہے بابِ رحمت نہ بند کیجے گاایک امیدوار رہتا ہے اس کو بھی پھینک دیجئے گا کہیںایک مٹھی غبار رہتا ہے فکر میں جس کی گھل رہے ہیں ہمان کو ہم سے نقار رہتا ہے برکتیں دینا گالیاں سننااب یہی کاروبار رہتا ہے فربہ تن کس طرح سے ہو محمودؔرنج و غم کا شکار رہتا ہے (اخبار الفضل جلد ۱۲۔ ۶؍جون ۱۹۲۵ء بحوالہ کلام محمود صفحہ۱۲۰) مزید پڑھیں: کون سا دل ہے جو شرمندۂ احسان نہ ہو