https://youtu.be/qjJG9n0lYyU (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۳؍نومبر۲۰۱۲ء) آج کل ہم جس اسلامی مہینہ سے گزر رہے ہیں اس مہینہ کا نام محرم الحرام ہے۔ یہ ماہ اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے۔ عام طور پر جب سال کا پہلا مہینہ آتا ہے، نیا سال شروع ہوتا ہے تو ہم ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ محرم بعض جگہوں پر جمعہ کو شروع ہوا ہے یا پھر جمعرات کو شروع ہوا ہے۔ بہرحال جب مَیں گزشتہ جمعہ پر آنے لگا تو ایک صاحب باہر کھڑے تھے، انہوں نے مبارکباد دی۔ لیکن مبارکباد کس چیز کی؟کیونکہ اُسی دن عراق میں دھماکے ہوئے، شیعوں پر حملے کئے گئے اور درجنوں شہید کر دئیے گئے۔ سو ہم نئے سال کے شروع میں عموماً ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں لیکن جب قمری سال کا یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو مسلمان شرفاء کی اکثریت جن کو اُمّت کا درد ہے، اس مہینہ کے آنے پر فکر اور خوف کا اظہار شروع کردیتی ہے۔ یہ کیوں ہے؟ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ دھماکے ہوتے ہیں، قتل و غارت ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کہ ان دنوں میں باوجود حکومتوں کے اعلانوں کے، باوجود مختلف فرقوں کے علماء کے مشترکہ بیانات کے، اعلانات کے یا تو شیعہ سُنّی فساد شروع ہو جاتے ہیں یا کہیں نہ کہیں کسی تعزیہ پر یا امام باڑے پر دوسرے فرقوں کی طرف سے یا شرارتی عنصر کی طرف سے حملہ ہو جاتا ہے اور اب تو مفاد پرست اور دہشتگرد دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر شیعوں کی مجالس یا مجمع پر حملہ کر کے درجنوں معصوموں کی جان لے لیتے ہیں۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے مذہبی مقاصدنہیں ہیں یا مذہبی اختلاف نہیں ہے بلکہ سیاسی مقاصد ہوتے ہیں، حکومتوں کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔ … اُمّتِ مسلمہ کی اب عجیب قابل رحم حالت ہے۔ یہی مذہبی اختلافات یا کسی بھی قسم کے اختلافات ہیں جو مسلمانوں یا مسلمان حکومتوں میں بھی ایک دوسرے میں خلیج پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یا بعض ملک ایسے ہیں جن میں ملک کے اندر ہی اقلیتی فرقے کی حکومت ہے تو اکثریتی فرقہ شدید ردّعمل دکھا رہا ہے جو گولہ بارود کے استعمال پر منتج ہے۔ اقلیتی فرقے کو موقع ملتا ہے تو وہ اکثریت پر حملہ کر دیتا ہے اور اسی بنیاد پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر یا باغیوں کو کچلنے کے نام پر حکومت بھی معصوم جانیں ضائع کر رہی ہے۔ بلا سوچے سمجھے بمباری ہورہی ہے، فائرنگ ہو رہی ہے، گھروں کو تباہ و برباد کیا جا رہاہے۔ اپنے ہی ملک کے ہزاروں مردوں عورتوں کو موت کے منہ میں اتار دیا جاتا ہے۔ شام میں آج کل یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام مخالف قوتوں کو اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کا حملہ مسلمانوں کے اس اختلاف اور ایک نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ کوئی اسلامی ملک نہیں ہے جہاں مذہبی اختلاف یا سیاسی اختلاف کی بنا پر تمام اخلاقی قدروں کو پامال نہ کیا جا رہا ہو۔ یا جہاں ایک دوسرے کے خلاف ظلم کی بھیانک داستانیں رقم نہ کی جا رہی ہوں۔ نتیجۃً کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کی طرف سے ظلم ہوتا ہوا تو ہمیں نظر آ ہی رہا ہے، بیرونی اسلامی قوتیں بھی اس کے نتیجہ میں اپنے دائرے اسلامی ممالک پر تنگ کرتی چلی جا رہی ہیں۔ کاش کہ مسلمانوں کو عقل آ جائے اور یہ ایک ہو جائیں۔ اپنے اسلاف سے کچھ سبق سیکھیں، تاریخ ہمیں ان کے متعلق کیا کہتی ہے۔ جب ایک اسلام مخالف بڑی طاقت نے، روم کی حکومت نے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے اختلاف کی وجہ سے اسلامی طاقت کو کمزور سمجھتے ہوئے اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے حملہ کرنا چاہا تو حضرت معاویہؓ کے علم میں جب بات آئی تو اُس بادشاہ کو یہ پیغام بھیجا کہ ہمارے آپس کے اختلافات سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ اگر حملہ کیا تو مَیں حضرت علیؓ کی طرف سے پہلا جرنیل ہوں گا جو تمہارے خلاف لڑے گا۔ (البدایۃ والنہایۃ از حافظ ابن کثیر جلد 8صفحہ 126سنۃ 60وھذہ ترجمۃ معاویۃ رضی اللہ عنہ وذکر شیء من ایامہ و دولتہ و ما ورد فی مناقبہ و فضائلہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء) تو یہ ردّ عمل تھا اُن صحابہ کا جن کی طرف ہم اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ اور آج یہ لوگ مخالفین کے ساتھ مل کر اسلامی حکومتوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر مسلمان بھی ہیں۔ ہاں ایک بات پر ان علماء کا یا نام نہاد علماء کا یا اُس طبقہ کا جو شر پھیلانے والا ہے، اتفاق ہوتا ہے اور وہ مسیح محمدی کی قائم کردہ جماعت کے خلاف منصوبہ بندی یا احمدیوں کو جو لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پر دل و جان سے ایمان اور یقین رکھتے ہیں، زبردستی دائرہ اسلام سے خارج کرنا ہے۔ ان لوگوں کو ذرا بھی یہ خوف نہیں کہ جس نبی کا کلمہ یہ پڑھتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں، جس کے لئے جان و آبرو قربان کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اُس کے اس ارشاد پر بھی ذرا غور کریں۔ اس کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا۔ یہ ایک اصولی حکم ہے اور صرف ایک صحابی کے لئے نہیں تھا کہ کیا تم نے لوگوں کے دل چیر کے دیکھے ہیں کہ یہ دل سے کلمہ پڑھتے ہیں یا اوپر سے اور کسی خوف کی وجہ سے؟ کاش کہ یہ لوگ سمجھ جائیں۔ علماء کہلانے والے اپنے نام نہاد علم کے دعویٰ کے خول سے باہر آئیں۔ عوام الناس کو گمراہ کرنے کے بجائے اُنہیں انصاف اور حق بتانے کی کوشش کریں اور اُس جری اللہ کے ساتھ منسلک ہو کر تمام فرقہ بندیوں کا خاتمہ کر کے ظلم و تعدّی کو ختم کریں۔ اور مذہبی جنگوں کے تصور کو ختم کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مسیح الزمان کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق پھیلا کر دشمن کی طاقت کو ختم کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے والے بن جائیں۔ محرّم کے حوالے سے مَیں نے بات شروع کی تھی تو اِس وقت مَیں اُس مسیح الزمان اور مہدی دوران کے چند حوالے آپ کے سامنے پیش کروں گا تا کہ لاکھوں کی تعداد میں اُن احمدیوں کے سامنے یہ بات آجائے، وہ احمدی بھی سن لیں جو نئے شامل ہونے والے ہیں اور وہ بھی جو نوجوان ہیں اور علم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس طرح بزرگوں کی عزت کو قائم کیا، کس طرح صحابہ کے مقام کو پہچانا، کس طرح شیعہ سنّی کے فرق کو مٹایا اور کس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تمام مسلمانوں کو جو روئے زمین پر بستے ہیں ایک ہاتھ پر جمع کر کے اُمّتِ واحدہ بنانے کے طریق سکھائے۔ مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ پر خدمت کرنے والےرضاکاروں اور میزبانوں کے لیے اہم ہدایات