https://youtu.be/JHykWEQjvMI?si=fXyYHyTBVsFWJ6Pb&t=1625 محرم کے چاند کی جھلک دکھائی دی تو دادی جان خوشی سے بولیں:وہ رہا چاند! آؤ بچو، سب مل کر دعا کریں۔ گڑیا، احمد اور محمود نے فوراً ہاتھ اٹھائے اور دعا کے بعد خوشی سے بولے:دادی جان! نیا سال مبارک ہو! دادی جان: آپ سب کو بھی سالِ نو بہت مبارک ہو! گڑیا: دادی جان، اب تو محرّم الحرام کا مہینہ شروع ہو گیا ناں؟ احمد: حرام کا مطلب برانہیں بلکہ حرمت والا ہے۔ دادی جان نے پچھلے سال بتایا تھا مجھے۔ دادی جان مسکراتے ہوئےبولیں: ماشاء اللہ بیٹا، آؤ اندر چل کرمحرم کی کہانی سنیں۔ سب کمرے میں آ کر بیٹھ گئے تو دادی جان نے کہا۔ : بیٹا، ذو الحِجّۃ ختم ہوا ہے۔ اسی مہینے میں مسلمان حج کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں حج کا سفر لمبا اور مشکل ہوتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے چار مہینے امن والے یعنی ‘‘حرمت والے’’ قرار دیے تاکہ ان دنوں میں جنگ نہ ہو۔ ان مہینوں میں سے ایک محرم بھی ہے۔ اسی لیے اسے ‘‘محرّم الحرام’’ کہا جاتا ہے۔ گڑیا: دادی جان! کیا محرم میں حضرت حسینؓ کو شہید کیا گیا تھا؟ دادی جان: ہاں بیٹا، یہی وہ مہینہ ہے جس کی دس تاریخ کو حضرت حسینؓ شہید ہوئے تھے۔ احمد: آپ نے پچھلے سال ان کی کہانی سنائی تھی۔ کیاآج پھر سنا سکتی ہیں؟ دادی جان: کیوں نہیں بیٹا! حضرت مسیح موعودؑ محرم کے مہینے میں یہ کہانی بچوں کو سنایا کرتے تھے۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ، رسول اللہ ﷺ کے نواسے تھے۔ ان کی والدہ حضرت فاطمہؓ اور والد حضرت علیؓ تھے۔ نبی کریم ﷺ ان سے بہت محبت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ‘‘حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں’’۔ گڑیا: اور نبی ﷺ جب سجدے میں جاتے تھے تو حسنؓ اور حسینؓ آپؐ کی کمر پر چڑھ جاتے تھے ناں؟ دادی جان: بالکل! اور آپؐ تب تک سجدے میں رہتے جب تک وہ خود نہ اترتے۔ کتنی محبت تھی ناں! پھر دادی جان نے افسردہ ہو کر بتایا: حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تاہم حالات کے سبب صلح کر کے الگ ہوگئے۔ یہ بھی ایک پیشگوئی کے مطابق ہوا جو رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمائی تھی۔ بعد میں حضرت حسینؓ کے زمانے میں یزید حکمران بنا اور زبردستی لوگوں سے بیعت لینے لگا۔ حضرت حسینؓ نے انکار کیا۔ وہ حق کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ کوفہ کے لوگوں نے خطوط لکھ کر ان سے مدد مانگی، اس وعدے پر کہ وہ ان کا ساتھ دیں گے۔ حضرت حسینؓ اپنے خاندان کے ساتھ کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ احمد: کوفہ کہاں ہے دادی جان؟ دادی جان: بیٹا، کوفہ عراق کا ایک شہر ہے جسے حضرت علیؓ نے دارالخلافہ بنایا تھا۔ اور یہیں آپؓ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسینؓ جب عراق کے ایک میدان میں پہنچےتو یزید کی فوج نے ان کا راستہ روک لیا۔ اس میدان کو میدانِ کربلا کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے بےانتہا ظلم کیا۔ میدان ِکربلا میں ان ظالموں نے آپؓ کے قافلے کا پانی تک بند کر دیا تھا، چھوٹے چھوٹے بچے بھی پیاس سے تڑپتے تھے۔حضرت حسینؓ نے فوج سے کہا کہ انہیں یزید سے ملنے دیں یا واپس جانے دیں یا ان کو اسلامی فوجوں میں جا کر جہاد کرنے دیں۔ کوفہ والے بھی فوج کو دیکھ کر ڈر گئے اور حضرت حسینؓ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت حسینؓ کے معمولی تعداد کے قافلے نے اس موقع پر چاروناچار بھرپور مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایک بڑے لشکر کے مقابل یہ چھوٹا قافلہ زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔ اور حضرت حسینؓ بھی لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ انہوں نے یہیں بس نہ کی۔ بلکہ دس گھڑ سوار وں نے اپنے گھوڑوں سے آپؓ کی نعش کو پامال کیایہاں تک کہ آپ کے سینے اور پشت کو چُور چُور کر دیا۔ اس لڑائی میں حضرت حسینؓ کے جسم پر تیروں کے پینتالیس زخم تھے۔ بعض روایات کے مطابق تینتیس زخم نیزے کے اور تینتالیس زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے۔ پھر ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ حضرت حسینؓ کا سر کاٹ کر، جسم سے علیحدہ کر کے کوفہ میں نصب کر دیا۔ اور پھر یزید کے پاس سر بھیج دیا گیا۔ اب جنہوں نے انہیں شہید کیا اور ان کے مبارک جسم کے ساتھ ایسا وحشیوں والا سلوک کیا، گووہ مسلمان ہی تھے لیکن ان میں ایمان کی بہت کمی تھی۔ رسول اللہﷺ کو اپنے نواسے بہت پیارے تھے۔ ان کے چہرے کو کئی بار آپﷺ نے چوما تھا۔ لیکن ظالموں نے آپؓ کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ دادی جان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ‘‘وفا’’ انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ وفا کہتے ہیں وعدے کو پورا کرنا، عہد کو نبھانا۔ لیکن کوفہ والوں نے اپنا عہد نہیں نبھایا جو انہوں نے اپنے خطوط میں کیا تھا۔ ایک مومن تو اپنے عہد سے نہیں پھرتا۔ اس عہد شکنی کی وجہ سے اسلام کو بہت بڑا نقصان پہنچا اور مسلمانوں کی حالت اور قوت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ رسول اللہﷺ کے پیارے نواسے کو بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ قافلے میں آپﷺ کے خاندان کے افراد بھی شامل تھے جنہیں پیاسا رکھا گیا اور کئی افراد شہید بھی ہوگئے۔ دادی جان نےغمگین ہوکر کہا: وہ مسلمان جو یہ سب کر رہے تھے، ان کے دلوں سے ایمان نکل چکا تھا۔ نبیﷺ اپنے اس نواسے کے چہرے کو چومتے تھےاوراسی نواسے کو اتنے ظالمانہ طریق سے شہید کر دیا گیا۔ یزید نے بھی اپنی چھڑی سے آپؓ کے چہرہ کو چھوا تھا ۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ ‘‘یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریمؐ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔’’ احمد: دادی جان، کیا ہم ان ظالموں کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں؟ دادی جان نے نرمی سے کہا: نہیں، بچو! محرّم یہ سبق نہیں دیتا کہ انہیں برا بھلا کہنے میں وقت ضائع کیا جائے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگرمحرم کا مہینہ ہمیں کوئی سبق دیتا ہے تو یہ ہے کہ ہم آنحضرتﷺ پر اور آپؐ کی آل پر ہمیشہ درود بھیجتے رہیں۔اور یزیدی صفت لوگوں کے سامنے استقامت دکھاتے ہوئے ہمیشہ ڈٹے رہیں۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2010ء) احمد: جزاک اللہ دادی جان! تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ دادی جان: ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں استقامت عطا فرمائے، وعدوں کا پاس رکھنے والا بنائے، اور نبی ﷺ اور ان کی آل پر کثرت سے درود بھیجنے والا بنائے۔ دادی جان: آؤ بچو، اب ہم سب مل کر درود پڑھتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔