کوئی مامور نہیں آتا جس پر ابتلانہ آئے ہوں۔مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قید کیا گیا اور کیا کیا اذیّت دی گئی۔موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا مگر بات یہ ہے کہ عاقبت بخیر ہوتی ہے اگر خدا کی سنّت یہ ہوتی کہ مامورین کی زندگی ایک تنعُّم اور آرام کی ہو اور اس کی جماعت پلاؤ زردے وغیرہ کھاتی رہے تو پھر اَور دنیا داروں میں اور ان میں کیا فرق ہوتا پلاؤ زرد ے کھا کر حَـمْدًا لِلّٰہِ وَشُکْرًا لِلّٰہِ کہنا آسان ہے اور ہر ایک بے تکلّف کہہ سکتا ہے لیکن بات یہ ہے جب مصیبت میں بھی وہ اسی دل سے کہے۔ مامورین اور ان کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں ہلاکت کا خوف ہوتا ہے طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں كَذَّبُوْا کے یہی معنے ہیں دوسرے ان واقعات سے یہ فائدہ ہے کہ کچوں اور پکوں کا امتحان ہو جاتا ہے کیونکہ جو کچے ہوتے ہیں ان کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہوتا ہے جب مصائب آئے تو وہ الگ ہو جاتے ہیں۔میرے ساتھ یہی سنّت اللہ ہے کہ جب تک ابتلا نہ ہو تو کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلا میں ڈالے جیسے کہ وہ فر ماتا ہے بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ:۱۵۶، ۱۵۷) یعنی ہر ایک قسم کی مصیبت اور دکھ میں ان کا رجوع خدا تعالیٰ ہی کی طرف ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جواستقامت اختیار کرتے ہیں۔خوشی کے ایام اگرچہ دیکھنے کو لذیذہوتے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتا ہے اوراس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مثلاًکسریٰ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اسی رات ماراگیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے توفَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا (الفتح:۲) ) کی آواز کیسے سنائی دیتی ہر ایک معجزہ ابتلا سے وابستہ ہے۔ غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کامیابی پر کامیابی ہو تو تضرّع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے حالانکہ خداتعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے ضرور ہے کہ دردناک حالتیں پیدا ہوں۔ (ملفوظات جلد۶ صفحہ ۸۳، ۸۴، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: ہر وقت خدا تعالیٰ کی استعانت چاہو تاکہ صراط مستقیم پر تمہیں قائم رکھے