https://youtu.be/Yf_BVdArW-o (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ۸؍مئی ۱۹۱۴ء) ۱۹۱۴ء میں حضؓور نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے سورۃ البقرہ کی آیات ۴۲ و ۴۳ کی روشنی میں قرآن کریم کے بطور گذشتہ انبیاء اور کتب کے مصداق ہونے کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) کئی لاکھ نہیں بلکہ اگر کئی کروڑ بھی مذاہب پیدا ہو جائیں تو بھی قرآن شریف کے ماننے والے کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ قرآن شریف کہتا ہے کہ ہر ایک مذہب میں نبی آئے ہیں اس لئے اس کو کسی نبی کو نبی ماننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی تشہد، تعوّذ اور سورة فاتحہ کے بعد حضورؓ نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:وَاٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ وَلَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ۪ وَلَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَّاِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ۔ وَلَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَتَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَاَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ۔ (البقرہ:۴۲،۴۳) اس کے بعد فرمایا : بہت سی جگہ انسان اس لیے ٹھوکر کھا جاتا ہے کہ وہ کسی غصے اور جوش میں آکر ایک حق بات کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ مثلاً ایک مبلغ کسی کو تبلیغ کرنے جائے اور جاتے ہی اس کو گالیاں سنانی شروع کر دے تو اس کی بات کا کہاں اثر ہوگا اور اس بات کو کب کوئی مانے گا۔ کیونکہ جس کو وہ تبلیغ کرے گا وہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے میرے سامنے اپنی باتوں کو ایسے رنگ میں پیش کیا تھا کہ میں مان نہیں سکتا تھا۔ بہت سے ایسے معاملات جو برے طریقے پر پیش کیے جاتے ہیں لوگوں کو سچائی کے ماننے سے روک دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی نسبت اہل کتاب کو فرماتا ہے کہ اگر اس میں یہ لکھا ہوتا کہ ( نَعُوذُ بِاللّٰه ) موسیٰؑ جھوٹے ہیں یا توریت اللہ کی طرف سے نہیں ہے یا مسیحؑ کا دعویٰ نبوت غلط ہے یا انجیل الہامی کتاب نہیں ہے تو گو اس صورت میں بھی جو کچھ قرآن پیش کرتا غور کرنے کے قابل تھا لیکن اس میں تو ایسا نہیں ہے بلکہ یہ تو تمہارے عقائد کے مطابق ان کی تصدیق کرتا ہے اس لیے تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ قرآن ہمارے سامنے ہمارے عقائد کو بُرے اور جوش دلانے والے رنگ میں پیش کرتا ہے اس لیے ہم مان نہیں سکتے۔ تم کو تو ہماری کتاب پر غور کرنے کا بڑا موقع تھا اور تم ٹھنڈے دل سے اس پر غور کر سکتے تھے۔ اگر ایک یہودی ایک عیسائی کو تبلیغ کرے تو اس کو کہنا پڑے گا کہ انجیل خدا کی کتاب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ایک عیسائی ہندو کو تبلیغ کرے تو وہ وید کو جھوٹا کہے گا اور وہ یہ بھی کہے گا کہ تم میں کوئی نبی نہیں آیا لیکن قرآن شریف ایسا نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ وَاِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ۔ (فاطر:۲۵)کوئی ایسی امت نہیں جس میں کہ نبی نہ آیا ہو۔ اس لئے قرآن شریف کا ماننے والا یہ کبھی نہیں کہے گا اَور مذہب والوں میں کوئی نبی نہیں آیا۔ وہ تو جب یہ سنے گا کہ کوئی قوم کہتی ہے ہم میں فلاں نبی آیا۔ تو وہ کہیں گے سبحان اللہ!اس سے تو قرآن شریف کی صداقت ثابت ہو رہی ہے۔ باقی تمام مذاہب کو مشکلات پیش آرہی ہیں کہ نئے نئے مذہب نکلتے آتے ہیں۔ لیکن کئی لاکھ نہیں بلکہ اگر کئی کروڑ بھی مذاہب پیدا ہو جائیں تو بھی قرآن شریف کے ماننے والے کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ قرآن شریف کہتا ہے کہ ہر ایک مذہب میں نبی آئے ہیں اس لئے اس کو کسی نبی کو نبی ماننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی۔ اگر غور کیا جاوے تو بڑے غضب کی بات معلوم ہوتی ہے کہ جب سورج، ہوا، پانی، زمین اور دیگر خدا کے انعامات سے دنیا کا ہر ایک فرقہ بلا کسی خصوصیت کے یکساں طور پر فائدہ اٹھاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ کوئی فرقہ کسی نبی کی ہدایت سے محروم رکھا جائے جو کہ خدا کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی کسی کو یہ کہنے کا حق ہے کہ قرآن سے پہلے کوئی الہامی کتاب نہ تھی۔ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا۔ کیا وہ خدا کے بندے نہیں تھے جو اس انعام سے محروم رکھے جاتے۔ ہر ایک مذہب میں جو جو نبی آئے ہیں اور جو جو کتابیں ان پر نازل ہوئیں قرآن ان سب کی تصدیق کرتا ہے۔ تو جب قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے تو اے اہل کتاب ! تم ایسی سچی کتاب کو کیوں نہیں مانتے اور کیوں اس پر عمل نہیں کرتے۔ پہلی کتابوں کو سچا ماننا اَور بات ہے اور ان کی شریعتوں پر عمل کرنا اَور بات ہے۔ کیونکہ شریعت ایک قانون ہوتا ہے۔ جس طرح ایک قانون دوسرے قانون کے نافذ ہونے کی وجہ سے منسوخ ہو جاتا ہے اسی طرح پہلی شریعت دوسری شریعت سے منسوخ ہو جاتی ہے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ مختلف حالتوں کے ماتحت اشیاء تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔مثلاً غلہ ہے اس کو اگر انسان استعمال نہ کریں تو کچھ مدت میں گل سڑ کر خراب ہو جاتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک وقت تو پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں لیکن دوسرے وقت میں انہی سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے اور وہ پسندیدگی اور نفع رسانی کے قابل نہیں رہتیں۔ ہر زمانہ میں نبی آئے لیکن ان کے بعد کے آنے والے نبیوں نے ان کی شریعتوں کو منسوخ کیا۔ ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کو موسیٰ علیہ السلام نے منسوخ کیا۔ ویدوں کی شریعت کو رامچندر جی نے منسوخ کیا۔ اسی طرح قرآن شریف نے پہلی سب کتابوں پر عملدرآمد کرنے کو منسوخ کر دیا لیکن ان کے منجانب اللہ ہونے سے انکار نہیں کیا۔ وَلَا تَكُوْنُوْٓ اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ۔ایک وہ شخص ہوتا ہے جس نے کسی چیز کا مزا ہی نہ چکھا ہو۔ مثلاً یورپ میں آم نہیں ہوتا۔ اس لئے اگر ہم کسی یورپین کو بتائیں کہ آم کا یہ مزا ہوتا ہے تو اگر وہ انکار کر دے تو گو وہ جھوٹا ہے لیکن وہ معذور بھی ہے۔ لیکن اگر کوئی ہندوستانی اس بات سے انکار کرے تو وہ اس کی نسبت زیادہ جھوٹ کا مرتکب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ کو فرماتا ہے کہ تم نے تو خدا کی کتابوں کا مزا چکھا ہوا ہے۔ تم الہام کو مانتے ہو شریعت کو مانتے ہو نبیوں کو مانتے ہو تو پھر تمہارا حق نہیں کہ تم پہلے پہل انکار کر دو۔ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میری تعلیموں کا تھوڑا مول کیوں لیتے ہو۔ کیا تم مجھ سے نہیں ڈرتے۔ جب کوئی قوم گندی ہو جاتی ہے تو خدا کی آیتوں کے اپنے خیالی معنے بنانے شروع کر دیتی ہے۔ مسلمان دکاندار جو قرآن شریف فروخت کرتے ہیں۔ یہی آیت سنا کر جاہل لوگوں سے آنوں کی بجائے روپے وصول کرتے ہیں۔ اگر کوئی قرآن شریف کی قیمت ۱۰ آنے یا ۱۲ آنے کہے تو کہتے ہیں تو بہ توبہ ! خدا کے کلام کی اتنی تھوڑی قیمت۔ حالانکہ قرآن شریف میں ثَمَناً قَلِیْلاً کے معنے خداوند تعالیٰ نے خود فرما دیئے ہیں کہ مَتَاعُ الدُّنۡیَا قَلِیۡلٌ (النساء:۷۸)یعنی دنیا میں جو کچھ بھی ہے قلیل ہے۔ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم دین کو بیچ کر دنیا نہ لو۔ آج کل مسلمان چند آنوں کے بدلے قرآن شریف اٹھانے کے لئے کچہریوں کے دروازوں پر پھرتے رہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے اہل کتاب!جب تم کو میری تعلیم سچی معلوم ہوئی ہے تو دنیا کی خاطر اس کو نہ چھوڑو۔ تم کو اگر اس کی وجہ سے اپنا وطن، دین، مال اور اولاد چھوڑنی پڑے تو کوئی پرواہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ چیزیں تم کو کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گی اور نہ خدا کے عذاب سے بچاسکیں گی۔ اگر کوئی آدمی کوڑھی ہو جائے تو وہی اس کے عزیز اور رشتہ دار جو اس کے ہاتھ چومتے تھے اس سے گھن کرنے لگتے ہیں اور پاس نہیں بیٹھنے دیتے۔ جب تم کو اس دنیا میں میرے عذاب سے کوئی بچا نہیں سکتا تو آخرت میں کون بچائے گا۔ اس وقت اسلام پر بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے قرآن شریف کو، شریعت کو اور اعمال صالحہ کو چھوڑ دیا ہے۔ دین کو بھلا کر دنیا کے کاموں میں مشغول ہیں۔ اس وقت صرف تمہاری ہی ایک جماعت ہے جو ترقی کر سکتی ہے تمہارے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ تم نے تو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ تم اپنی گفتار سے رفتار سے اعمال سے دنیا پر ثابت کردو کہ ہمارے سامنے دین کے مقابلہ میں دنیا کوئی ہستی نہیں رکھتی۔ یہ مت خیال کرو کہ کسی کی ناراضگی اور دشمنی کی وجہ سے ذلیل ہو جاؤ گے۔ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ تم اپنے آقا حضرت مسیح موعودؑ مہدی مسعود کو دیکھ لو۔ دنیا نے ذلیل کرنے میں کتنی کوشش کی۔ حکومت کی طرف سے مقدمے بنائے گئے۔ عوام نے مقدمے کرنے میں ایڑی سے لے کر چوٹی تک کا زور لگایا۔ لیکن خداوند تعالیٰ نے اپنے نبی کے مقابلے میں کسی کی پیش نہ جانے دی۔ اگر تم ان کے سچے فرمانبردار ہو تو کوئی دنیا کی تکلیف تمہیں نہیں پہنچ سکتی۔ اگر ایسے ہو جاؤ گے تو خداوند تعالیٰ یقیناً تمہیں کبھی ذلیل نہیں ہونے دے گا۔ (الفضل ۱۳؍مئی۱۹۱۴ء ) (خطبات محمود جلد۴صفحہ۸۶ تا ۸۹) مزید پڑھیں: ہماری مشکلات اور ہماری ذمہ واریاں