نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَجلیٰ نکلاپاک وہ جس سے یہ اَنوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پوداناگہاں غیب سے یہ چشمۂ اَصفٰی نکلا یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اِک عالَم ہےجو ضروری تھا وہ سب اِس میں مہیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دُکانیں دیکھیںمے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا کس سے اُس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہوہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاںپھر جو سوچا تو ہر اِک لفظ مسیحا نکلا ہے قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نورایسا چمکا ہے کہ صد نَیِّرِ بَیْضا نکلا زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اِس دنیا میںجن کا اِس نور کے ہوتے بھی دِل اعمیٰ نکلا جلنے سے آگے ہی یہ لوگ تو جل جاتے ہیںجن کی ہر بات فقط جھوٹ کا پتلا نکلا (براہینِ احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول صفحہ۳۰۵۔۳۰۶) مزید پڑھیں: محاسنِ قرآنِ کریم