اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ حضرت قاضی سیّد غلام شاہ صاحبؓ حضرت قاضی سیّد غلام شاہ صاحبؓ آف بھیرہ کا مختصر ذکرخیر مکرم ڈاکٹر ر۔ب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۵؍جنوری۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔حضرت سیّدغلام شاہ صاحبؓ گھوڑوں کے تاجر تھے اور کھڑے ہوئے گھوڑے کو دیکھ کر اُس کی ذات اور صفات کے بارے میں تفصیل بتادیتے تھے۔ صوفی مزاج تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور کبھی کبھار امامت بھی کروادیتے۔ ہرعید پر آپؓ ہی خطبہ دیتے اور بھیرے کا تحصیلدار یا تھانیدار آپؓ کو ہر عید پر ایک دستار بطور تحفہ پیش کیا کرتا تھا۔ مطالعہ کا شوق رکھتے تھے۔ مثنوی مولانا رومؒ، دیوانِ حافظؒ اور شیخ سعدیؒ کی بوستان و گلستان آپ کے زیرمطالعہ رہتیں اور ان کے کئی فقرات حسب موقع بیان کرتے۔دعا پر بہت یقین تھا۔ کسی سفر کے آغاز سے قبل اور مقدمات کے سلسلے میں گھر کے سارے بچوں کو جمع کرکے دعا مانگتے اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ معصوم بچوں کی دعا خوش ہوکر قبول فرماتا ہے۔ آپؓ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی تعریف تلاش کرلیتے اور اُس کی تسبیح کرتے۔آپؓ نے پہلے میاں شمس الدین صاحب سجادہ نشین سیال شریف کی بیعت کی ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کی خبر پہنچی تو کبھی مخالفت نہ کی بلکہ مخالفین سے بحث کرتے۔ ایک روز آپؓ نے خواب میں حضرت مسیح موعودؑ کو زردوزی چوغہ پہنے دیکھا جنہیں لوگ نذریں پیش کررہے تھے۔ آپؓ نے بھی دو روپے نذر گزاری جو حضورعلیہ السلام نے قبول فرمالی۔ اس خواب کی بِنا پر ۱۸۹۶ء یا ۱۸۹۷ء میں آپؓ قادیان تشریف لے گئے اور دو روپے حضورؑ کی خدمت میں یہ خواب سناکر بطور نذر پیش کیے جو حضورؑ نے قبول فرمالیے۔ پھر آپؓ کی درخواست پر بیعت بھی قبول فرمالی۔آپؓ کے خواب کی ایک تعبیر یہ بھی ظاہر ہوئی کہ آپؓ کے دو بیٹوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔ ………٭………٭………٭……… محترم صوبیدار محمد خان ملک صاحب سلطان محمدغوری کے زمانہ میں بابا دوالمی اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ دوالمیال آئے تھے اور اُن کی آل کی نسبت سے یہ علاقہ دوالمیال کہلایا۔ دو قریبی گاؤں تترال اور وعولہ اُن کے دو بھائیوں نے آباد کیے۔ بابا دوالمی کا شجرۂ نسب حضرت علیؓ کے بیٹے حضرت عباسؒ سے جاملتا ہے۔ دوالمیال کے پہلے احمدی حضرت حافظ شہباز صاحبؓ بابا دوالمی کی ذرّیت سے ہی ہیں۔ حضرت حافظ صاحبؓ اگرچہ دنیاوی طور پر لاولد تھے لیکن آپؓ کی روحانی اولاد بکثرت دنیابھر میں موجود ہے۔ آپؓ کے ایک بھائی حضرت بہاول بخش صاحبؓ تھے جن کے پوتے محترم صوبیدار محمدخان ملک صاحب ابن جعفرخان صاحب کا ذکرخیر صوبیدار صاحب کے بیٹے مکرم ریاض احمد ملک صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۳۱؍جنوری۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔محترم صوبیدار صاحب نے قرآن کریم حضرت حافظ شہباز صاحبؓ سے پڑھا تھا۔ آپ کی تعلیم پرائمری تک تھی لیکن احمدیت کا وسیع مطالعہ تھا۔ پھر فوج میں ملازمت کے دوران مزید تعلیم حاصل کی۔ جنگ عظیم اوّل میں حصہ لیا اور وائسرائے کمیشن حاصل کرکے نائب صوبیدار کی پنشن حاصل کی۔ پھر حیدرآباد دکن کی ریاست میں راجہ کی فوج میں بطور انسٹرکٹر ملازم رہے۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو دوبارہ فوج میں بلالیے گئے اور پھر صوبیدار کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جس کے بعد گاؤں میں کپڑے کی دکان شروع کردی اور جب تک نظر ٹھیک رہی، خود کام کرتے رہے۔ جماعتی اور سماجی خدمات شوق سے ادا کرتے۔ چندے ہمیشہ باقاعدگی سے ادا کرتے اور سادہ زندگی بسر کرتے۔آپ ایک فدائی احمدی تھے۔ دوالمیال میں رواج تھا کہ مکان کی چھت میں ڈالے گئے شہتیر وغیرہ پر خاندان کے افراد کے نام کندہ کیے جاتے تھے لیکن ۱۹۲۵ء میں آپ نے اپنا مکان تعمیر کیا تو شہتیر پر حضرت مسیح موعودؑ کے دعائیہ اشعار لکھواکر پھر اپنا نام لکھا جس کے آگے ’خادمِ مسیح موعود‘ لکھوایا۔ دعوت الی اللہ کا بےحد شوق تھا۔ آپ نے تالاب کے کنارے ایک بیٹھک بنوائی جو آج بھی موجود ہے اور اس پر حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کندہ ہیں۔ یہاں احمدیہ لٹریچر موجود رہتا اور مسافروں سے تبلیغی گفتگو بھی جاری رہتی۔ مہمان نواز اس قدر تھے کہ رات کو پہلے مسافر کو کھانا کھلاتے اور پھر خود کھاتے۔ جس شام کوئی مسافر نہ آتا تو اُداس ہوجاتے۔ ایک بار ایک مسافر ایسا آیا جو آپ کا بستر لے کر رات کو ہی غائب ہوگیا۔ صبح علم ہوا تو بہت بشاشت سے کہنے لگے کہ شاید اس کو ضرورت ہوگی۔ کچھ دیر کے بعد گاؤں کا ایک آدمی جو آپ کے بستر کو پہچانتا تھا، اُس آدمی کو بستر سمیت پکڑ کر لے آیا لیکن آپ نے اُسے معاف کردیا۔ ایک بار اپنی گرم رضائی مسافر مہمان کو دے دی اور خود کمبل میں رات گزار دی۔ آپ دوسروں کی خوشی میں بھرپور شامل ہوتے اور تکلیف میں مددگار بن جاتے۔ جانوروں کا بھی بہت خیال رکھتے۔آپ نے دو شادیاں کیں۔ دوسری بیوی سے اللہ تعالیٰ نے تین لڑکے اور دو لڑکیاں عطا فرمائیں جو دنیاوی لحاظ سے خوشحال ہونے کے ساتھ دین کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں۔ ۳۱؍اکتوبر۱۹۷۹ء کی رات اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے محترم صوبیدار صاحب کی وفات ہوئی۔ ………٭………٭………٭……… محترمہ امۃالرشید شوکت صاحبہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۱؍فروری ۲۰۱۴ء میں مکرمہ الف ریحان صاحبہ نے اپنی ساس محترمہ امۃالرشید شوکت صاحبہ کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ مَیں اپنی شادی کے بعد چار سال ان کے ساتھ رہی لیکن محبت بھری یادیں بہت گہری اور خوبصورت ہیں۔ قدرت نے ایک درد آشنا دل دیا تھا۔ آپ کو شوگر تھی اور دائیں طرف فالج بھی ہوچکا تھا۔ چلنے پھرنے سے معذور تھیں لیکن ہر ایک کی خوشی غمی میں شریک ہوتیں۔آپ کا جماعت سے بہت گہرا تعلق تھا۔ آپ تیس سال کوٹ ادّو میں رہیں اور سترہ سال تک وہاں صدر لجنہ کے طور پر فرائض سرانجام دیے۔ میرے سسر مکرم امان اللہ خان ظفر صاحب واپڈا کالونی میں ملازم تھے لیکن امی اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے کئی میل پیدل چل کر دیہات میں جایا کرتیں۔ اپنے خاوند کا بہت ادب کرتیں۔ دونوں میاں بیوی میں بہت پیار تھا۔ بوقت وفات آپ ۳۷سال سے موصیہ تھیں۔ آپ کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹا اٹھارہ سال کی عمر میں نہر میں ڈوب گیا اور تین دن بعد اُس کی نعش نکالی جاسکی۔ اسی طرح آخری عمر میں آپ کی ایک بیٹی بھی وفات پاگئیں۔ دونوں مواقع پر آپ نے بےحد صبر کا نمونہ دکھایا۔مجھے اپنی شادی کے وقت کھانا بنانا نہیں آتا تھا جو آپ نے مجھے سکھایا۔ لڑائی جھگڑے اور جھوٹ سے سخت نفرت تھی۔ ہر عید پر مجھے اور میرے بچوں کو عیدی دیتیں۔ اگر مَیں کہتی کہ اپنی دوا کے لیے پیسے رکھ لیں تو کہتیں میری دوائیں اتنی ضروری نہیں ہیں۔ وفات سے ایک دن قبل مجھے بلاکر اپنے کانوں سے بالیاں اتار کر میرے کانوں میں ڈالنا چاہیں تو میرے انکار پر ناراض ہوگئیں اور کہا کہ مجھے اپنی امی نہیں سمجھتیں؟ کوئی بھی تھوڑی سی چیز بھی ہوتی تو مل بانٹ کر کھانا سکھاتیں اور کہتیں کہ اسی میں برکت ہے۔ایک روز میرے سر میں درد تھا۔ آپ سے چلنا بھی مشکل تھا لیکن آپ میرے کمرے میں آئیں اور میرا سر دبانے لگیں۔ میرے بچے کی پیدائش پر کہا کہ گھر سے جاتے ہوئے صدقہ دو اور پھر ساری رات جاگ کر دعائیں کرتی رہیں۔ ………٭………٭………٭……… کرکٹ کے چند عظیم آل راؤنڈرز دنیائے کرکٹ کے چند عظیم آل راؤنڈرز کا تذکرہ مکرم عبدالحلیم سحر صاحب کے قلم سے روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۲؍مارچ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔٭…ویسٹ انڈیز کے سر گیری سوبرز کو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین کھلاڑی تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ نے ۱۹۵۴ء سے ۱۹۷۴ء تک کرکٹ کھیلی۔ ۱۹۵۸ء میں پاکستان کے خلاف کھیلتے ہوئے ایک میچ میں ۳۶۵؍رنز ناٹ آؤٹ بنائے جو عالمی ریکارڈ تھا۔ ۱۹۹۴ء میں برائن لارا نے ۳۷۵؍رنز بناکر اس ریکارڈ کو اپنے نام کرلیا۔ مجموعی طور پر سوبرز نے ۹۳؍ٹیسٹ میچ کھیلے اور ۸۰۳۲؍رنز بنائے، ۲۳۵؍وکٹیں حاصل کیں جبکہ ۱۰۹؍کیچ پکڑے۔ آپ نے ایک روزہ میچ صرف ایک ہی کھیلا جس میں ایک وکٹ لی لیکن کوئی سکور نہیں بنایا۔ آپ نے کُل ۳۸۳؍فرسٹ کلاس میچ کھیلے جن میں اٹھائیس ہزار رنز بنائے اور ایک ہزار سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔ ۱۹۷۵ء میں آپ کو ’سر‘کا خطاب دیا گیا۔ ایک اوور میں چھ چھکے لگانے کا ریکارڈ بھی لمبا عرصہ سرگیری سوبرز کے نام رہا۔٭…جنوبی افریقہ کے جیک کیلس ۱۹۷۵ء میں پیدا ہوئے۔ ۱ب تک ۱۶۶؍ٹیسٹ میچوں میں تیرہ ہزار سے زیادہ رنز بناچکے ہیں جن میں ۴۵؍سنچریاں اور ۵۹؍نصف سنچریاں ہیں۔ وہ دنیا کے چوتھے اور جنوبی افریقہ کے پہلے کھلاڑی ہیں جس نے تیرہ ہزار رنز بنائے ہیں اور ۲۹۲؍ٹیسٹ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ ان کا ٹیسٹ میں بڑا سکور ۲۲۸؍ہے جبکہ وَن ڈے میں ۱۳۹؍ہے۔ ٹیسٹ میں ۲۸۸؍اور وَن ڈے میں ۲۷۳؍وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔ بہترین ٹیسٹ باؤلنگ ۵۴؍رنز دے کر چھ وکٹیں اور وَن ڈے میں ۳۰؍رنز دے کر پانچ وکٹیں ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں ریٹائر ہوگئے۔٭…انگلینڈ کے سر این ٹیرنس بوتھم ۲۴؍نومبر۱۹۵۵ء کو پیدا ہوئے۔ پندرہ سال کرکٹ کھیلی جس دوران ۱۰۲ ٹیسٹ میچوں میں ۱۴؍ٹیسٹ سنچریوں کے ساتھ ۵۲۰۰؍رنز بنائے اور ۳۸۳؍وکٹیں حاصل کرنے والے انگلینڈ کے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ۱۹۳۹۹؍رنز بنائے، ۱۱۷۲؍وکٹیں حاصل کیں اور ۳۵۴؍کیچ پکڑے۔ آپ نے بارہ ٹیسٹ میچوں میں انگلینڈ کی کپتانی بھی کی لیکن ان میں سے کوئی میچ بھی انگلینڈ نہ جیت سکا۔٭…نیوزی لینڈ کے کرکٹر رچرڈ جان ہیڈلی ۳؍جولائی ۱۹۵۱ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۷۳ء میں پہلا ٹیسٹ پاکستان کے خلاف کھیلا اور ۱۹۹۰ء میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہوئے۔ اس دوران ۸۶؍ٹیسٹ میچ کھیلے اور ۳۱۲۴؍رنز بنائے۔ دو سنچریاں اور پندرہ نصف سنچریاں سکور کیں، ۴۳۱؍وکٹیں حاصل کیں اور ۳۹؍کیچ پکڑے۔ نو بار ایک میچ میں دس وکٹیں بھی حاصل کیں۔ٹیسٹ میں زیادہ سے زیادہ سکور ۱۵۱؍رہا۔ وَن ڈے میں ۱۱۵؍میچ کھیلے، ۱۷۵۱؍رنز بنائے اور ۱۵۸؍وکٹیں حاصل کیں اور ۲۷؍کیچ پکڑے۔ پانچ مرتبہ ایک میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ (باقی آئندہ کسی شمارے کے الفضل ڈائجسٹ میں ان شاءاللہ) ………٭………٭………٭……… مکرم ڈاکٹر مہدی علی قمر شہید کی یاد میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۵؍جون ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت مکرم مبارک احمد ظفر صاحب کی نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: ماہرِ علمِ طبابت ڈاکٹر مہدی علیپی گیا جامِ شہادت ڈاکٹر مہدی علیخدمتِ انسانیت تھا جس کا شیوہ لاجرموہ وفادارِ خلافت ڈاکٹر مہدی علیاِک معطّر پھول سا چہرہ شگفتہ سا گلابدِکھتا تھا وقتِ شہادت ڈاکٹر مہدی علیوہ شہیدانِ وفا جو جا بسے فردوس میںپا گیا اُن کی رفاقت ڈاکٹر مہدی علیپیش کرتا ہوں تجھے مَیں آنسوؤں میں بھیگتےاپنے جذباتِ عقیدت ڈاکٹر مہدی علی مزید پڑھیں: روزمرہ استعمال میں آنے والے الفاظ کا صحیح تَلَفُّظ