یہ دنیا فانی ہے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے ایک دن اپنے خالق کے حضور حاضر ہونا ہے۔میری پیاری بڑی امی بھی ۱۱؍ مئی ۲۰۲۳ء کو اپنے خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں۔انا للہ واناالیہ راجعون۔آپ کی جدائی میں دل کی اضطراری کیفیت ناقابل بیان ہے۔ آپ کی زندگی کی حسین یادوں اور نیکیوں کا تذکرہ کرنا اور حدیث نبوی ﷺاُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْپر عمل مدّنظر ہے۔ آپ کی پیدائش بابا بکالہ امرتسرمیں ہوئی۔۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعدآپ کے خاندان نےقادیان سے سیالکوٹ ہجرت کی اور سیالکوٹ میں ڈنڈپور کھرولیاں میں سکونت اختیار کی۔آپ کے والد کا نام چودھری محمدعبداللہ خاں صاحب تھا جو فوج میں حوالدار تھے۔آپ ماسٹر عبدالرحمٰن اتالیق صاحب کی بھتیجی تھیں۔آپ کے خاوند قاضی محمد لطیف صاحب مرحوم مکرم ومحترم محمد رشید خاں صاحب وکیل المال ثانی اور مبلغ سلسلہ محمد سعید انصاری صاحب کے بھتیجے تھے۔ آپ کے سسر قاضی محمد صدیق صاحب قادیان میں کتابت کیا کرتے تھے۔آپ ضیا ء الرحمٰن صاحب کارکن وقف جدید کی نسبتی ہمشیرہ تھیں۔ آپ نیک سیرت خاتون اور بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں۔ہر کسی کا خیال رکھتی تھیں،بہت محنت کش،صوم و صلوٰۃ کی پابند،ملنسار،مہمان نوازاور غریب پرورتھیں۔بہت سارے احمدی اور غیراحمدی بچوں کو قرآن پاک پڑھایا۔ ہمارے ہاں یہ معمول تھا کہ مغرب کی اذان کے بعد گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہ تھی۔اگر گلی میں ہم کھیل رہے ہوں اور مغرب کی اذان ہو جائے اور بڑی امی کی آواز ہمارے کانوں میں آجائے تو بے اختیار منہ سے یہ الفاظ نکلتے تھے کہ آج تو خیر نہیں، آج تو ڈانٹ پڑے گی۔آپ ہم تمام بچوں سے بے لوث محبت کرتی تھیں۔لیکن آپ کا ایک رعب تھا جس سے ہم سب بہت متاثر تھے۔ آپ نے اپنی اولاد کے علاوہ ہم چار بہن بھائیوں کی بھی پرورش کی۔آپ کا دل نہایت نازک احساس تھا۔اس لیے آپ ذراذرا سی بات سے نتیجہ اخذ کر لیا کرتی تھیں۔مجھ سے کئی قصور اور کوتاہیاں ہوئیں اور بعض دفعہ گستاخی کا ارتکاب بھی ہوا لیکن آپ کے عفو کی چادر بہت وسیع تھی اور آپ میرے قصور بہت جلدمعاف کر دیا کرتی تھیں۔لیکن ذرا سی خدمت یا محبت کے اظہار پر ان کی دعاؤں کا ایک لمبا سلسلہ جاری ہوجایا کرتا تھااور یہ سلوک کچھ خاکسار ہی کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔ہر وہ شخص جس کا ان کے ساتھ دُور کا بھی تعلق ہو وہ اس بات کا شاہد ہے کہ وہ عفو اور بخشش اور اجر دینے اور خیرات کرنے میں بہت جلدی کیا کرتی تھیں اور بہت فیاضی سے کام لیا کرتی تھیں۔ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور رحم کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت وافر عطا فرمایا تھا۔ اسی طرح مرکز سے جب میرے دوست یا اساتذہ کرام لاہور آتے تو ان کے لیے کھانے کا انتظام کرتیں،تحائف دیتیں اور سب کو دعاکی ضرور درخواست کیا کرتی تھیں۔لاہور میں خاکسار کو مجلس خدام الاحمدیہ کی ضلعی عاملہ میں مختلف شعبہ جات میں تقریباً نو سال خدمت کی توفیق ملی اس کے بعد خاکسار جرمنی آ گیا۔لاہور میں دوران خدمت بعض دفعہ دورہ جات پر جانے یا میٹنگز،اجتماعات،مجلس سوال وجواب اور مختلف پروگرامز کی وجہ سے دیر سے گھر جانے پر بہت دعائیں دیا کرتیں اور فکر مندی کا بھی اظہار ہوتا لیکن کہا کرتی تھیں کہ ’اللہ کے حوالے کردیا ہے وہی اب حفاظت فرمائے گا‘۔ محلے کے لوگوں کے ساتھ بڑی امی کا سلوک ہمیشہ بہت فیاضانہ اور غریب پروری کا ہوا کرتا تھا۔ گھر میں جب گوشت، چاول یا کوئی اچھا سالن پکتا تو ہمسایوں کوبھجواتیں۔ جب پتا چلتا کہ کسی کو رقم کی ضرورت ہے تو اس کی ضرورت کوپورا کرتیں۔ باوجود اختلاف مذہب و عقائد کے تمام لوگ آپ کو بہت عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔محلے کے اکثر غیراحمدی بچوں کو قرآن پاک بھی پڑھایا کرتی تھیں۔محلے کے وہ بچے جنہوں نے آپ سے قرآن پاک پڑھا تھا جب وہ اپنی بڑی عمر کو پہنچے تو ان کا اسلام جاگ اٹھا اور انہوں نے جماعت کی مخالفت شروع کردی اور بعض دفعہ دھمکیاں بھی دینا شروع کر دیں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہمارے گھر محترم والد صاحب کے غیر احمدی دوست اور احمدی خاندان بھی جلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھنے آیا کرتے تھے۔اس وقت ہر احمدی گھر میں ایم ٹی اے کی سہولت موجود نہ تھی اس لیے قریب کے احمدی گھرانے ہمارے ہاں ہی خطبہ جمعہ اور جلسہ سالانہ کےمواقع پر آیا کرتے تھے۔ اس پر محلہ کے کچھ افراد نے اعتراض بھی کیا۔وقت گزرتا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی ہوتی رہی، اعتراض کرنے والے ہی محلہ چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ نے ۲۰۰۰ء میں حج کی سعادت پائی۔عمروں کی تعداد معلوم نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی باہمت خاتون تھیں۔اگر کبھی بیمار ہوئیں بھی تو بڑے صبر اور حوصلے سے اس بیماری کا مقابلہ کیا۔گنگا رام ہسپتال میں نرس کے طور پر تقریباً ۶۵؍ سال نوکری کی۔ہسپتال کا تمام عملہ آپ کی بہت عزت کیا کرتا تھا۔اکثر جب مجھے سکول سے چھٹی ہوتی تو اپنے ہمراہ ہسپتال لے جایاکرتی تھیں۔ صبح سویرے اٹھ کر نماز کی ادائیگی اور بچوں کا ناشتہ تیار کرنے کے بعد اپنے کام پر چلی جایا کرتی تھیں اور واپس آ کر گھر کے تمام کام بھی سر انجام دیتیں۔ زندگی میں بہت کٹھن اور مشکل حالات کا سامنا بہت ہمت اور بہادری سے کیا۔ میری ایک بہن جو لندن میں مقیم ہے ان سے بڑی امی کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بتایا کہ بڑی امی کی بات جو دل پر نقش ہے وہ نماز کی بہت پابند تھیں۔ جب کام کرتے ہوئے نماز کا وقت آجاتا تو فوراً کام درمیان ہی میں چھوڑ دیتیں اور پہلے نماز ادا کرتیں۔ اور پھر اپنا کام دوبارہ شروع کر دیتیں۔ہم تمام بہن بھائیوں کو بھی تلقین کرتی رہتی تھیں کہ نماز کو وقت پر ادا کیا کرواور قرآن شریف کی تلاوت بھی کیا کرو۔مجھے فجر کی نماز کے بعد اونچی آواز سے تلاوت کرنے کا کہا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جو پردہ کا حکم فربایا ہے۔اس حکم کی تعمیل آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک کی۔ہمیشہ برقع پہن کر گھر سے باہر جاتیں۔مجھے چونکہ ان کے ساتھ کافی سفر کرنے کا موقع ملا جہاں بھی جاتی تھیں مجھے اپنے ساتھ لے جایا کرتی تھیں۔سخت گرمی میں بھی برقع کے بغیر کبھی باہر نہیں نکلیں۔ایک دفعہ جماعت ہی کی ایک لجنہ ممبر نے آپ سے کہا کہ آپ کی عمر ماشاءاللہ کافی ہو گئی ہے اتنی گرمی میں آپ برقع پہن کرآتی ہیں تو آپ چادر لے لیا کریں لیکن آپ نے ان سے کہا کہ مجھے شروع سے ہی برقع کی عادت ہے اس لیے مجھے یہی مناسب لگتا ہے۔ آپ روزانہ بلا ناغہ قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں تو آپ قرآن پاک کے تین،چار دور مکمل کیا کرتی تھیں۔آپ نے اپنی غیر احمدی ہمسائی سے خاص موٹے لکھے ہوئے الفاظ میں تیس پارے منگوائے اوراپنی زندگی کے آخری ایام میں انہی پاروں سے تلاو ت کیا کرتی تھیں۔ مرحومہ کو اپنا گھر چلانے کے لیے بڑی جانفشانی سے کام لینا پڑا۔گنگا رام ہسپتال میں عرصہ دراز تک کام کیا اور پنشن حاصل کی۔آخر دم تک اپنے نان و نفقہ کے لیے اپنی ذاتی پنشن کام آتی رہی۔لمبی عمر پائی اپنے پڑپوتے،پڑنواسیاں دیکھنی نصیب ہوئیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے شادی کے بعد چار بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔سب سے بڑے بیٹے شفیق احمد اور پھر لئیق احمد،رفیق احمد اور وسیم احمد کینیڈا میں مقیم ہیں۔اس طرح ان کے خاندان کے افراد پاکستان، سعودیہ، جرمنی، کینیڈا ہالینڈ وغیرہ دنیا کے متعدد ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جنوری۲۰۲۳ء کے آخری ہفتہ میں میں اپنی بڑی امی سے ملنے پاکستان گیا۔ وفات سے چند دن قبل آپ کوہسپتال لے گئے اور وہیں پر اپنے خالق اعلیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ آپ نے تمام عمر ہم چاروں بہن بھائیوں اور ہمارے والدین کو سنبھالا۔ ہماری بہت اچھی پرورش کی،ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی،ہمیں لکھایا،پڑھایا اس قابل بنایا کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور سب سے قیمتی چیز وہ دعاؤں کا ایک خزانہ جو آسمان پر ہمارے لیے چھوڑ گئی ہیں جو وقتاًفوقتاًہمیں مل رہا ہے۔آپ کی یہ خواہش تھی کہ ربوہ کےبہشتی مقبرہ دار الفضل میں آپ کی تدفین ہو۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ خواہش بھی پوری فرمائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں آپ کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین (عمر احمد۔ جرمنی) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: محترمہ مسعودہ اخترصاحبہ