https://youtu.be/aiBQyQYe-sU (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍ ستمبر ۲۰۱۴ء) بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ کسی وقتی جذبے کے تحت کسی پر احسان تو کر دیتے ہیں، مدد کر دیتے ہیں لیکن بعد میں کسی وقت اس کو جتا بھی دیتے ہیں کہ مَیں نے یہ احسان تم پر کیا یا یہ توقع رکھتے ہیں کہ اب ان کے احسان کا زیر بار انسان تمام عمر اُن کا غلام بنا رہے۔ اور اگر زیر احسان شخص توقع پر پورا نہ اترے تو پھر اسے تکلیفیں دینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ یہ تو اسلامی تعلیم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰی (البقرۃ:265) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر یا اذیّت دے کر ضائع نہ کیا کرو کیونکہ یہ حرکتیں تو وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے، جن کے ایمان کمزور ہیں۔ نہ صرف کمزور ہیں بلکہ ایمان سے عاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ مختلف حوالوں سے ایک مومن کو بار بار یہ تلقین کی ہے کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے اور اس کے مختلف فوائد ہیں۔ پس جہاں اعمال صالحہ کے ساتھ ایک مومن دوسروں کے لئے نفع رساں وجود بنتا ہے وہاں وہ خود بھی اس کے میٹھے پھل کھا رہا ہوتا ہے۔ مثلاً جوایمان لانے والے اور اعمال صالحہ کرنے والے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل کرنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ وہ ہوں گے جو جنتوں میں اعلیٰ مقام پائیں گے اور ایسی جنتوں میں ہوں گے جہاں نہریں چل رہی ہوں گی اور ان نہروں کے مالک ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان کے ساتھ نیک اعمال کرنے والوں کو ایسے ایسے بڑے اور احسن اجر ملیں گے جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ صرف ایمان کا دعویٰ احسن اجر کا حقدار نہیں ٹھہرا دیتا بلکہ اعمال صالحہ ہوں گے تو احسن اجر ملے گا، جنتیں ملیں گی، مغفرت ہو گی۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کرنے والوں کو خدا تعالیٰ پاکیزہ رزق دے گا۔ جو اس دنیا کا بھی رزق ہے اور آخرت کا بھی رزق ہے۔ عمل صالح کرنے والوں کو کوئی خوف نہیں ہو گا۔ وہ امن میں ہوں گے۔ کسی قسم کی پریشانی ان کو نہیں ہو گی۔ نہ دنیا کا خوف اور نہ اگلے جہان کا یہ خوف کہ میرے سے کوئی نیکیاں نہیں ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو تسکین عطا فرمائے گا۔ اور خوف ہو بھی کس طرح سکتا ہے۔ وہ عمل صالح کرنے والے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر عمل کر کے اللہ تعالیٰ کی آغوش میں جا رہے ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا (مریم: 97) یقیناً وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں خدائے رحمان ان کے لئے وُدّ پیدا کرے گا۔ وُدّ کے معنی ہیں کہ گہرا پیار اور تعلق۔ سطحی قسم کی محبت نہیں یا پیار نہیں۔ گہرا پیار اور تعلق۔ ایسا مضبوط تعلق جو کبھی کٹ نہ سکے۔ بلکہ اس طرح کا گہرا تعلق جس طرح کِلّا زمین پر گاڑ دیا جاتا ہے، مضبوط ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ گاڑ دیا جائے گا۔ اس طرح یہ پیار دل میں گڑ جائے گا۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جو مضبوط ایمان اور اعمال صالحہ بجا لانے والے ہوں گے اللہ تعالیٰ ایسے مومنوں کے دل میں اپنی محبت کِِلّے کی طرح گاڑ دے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہوں گے اور پھر وہ ایمان اور اعمال صالحہ میں مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔ یا یہ کہ خدا تعالیٰ خود ایسے مومنوں سے ایسی محبت کرے گا جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔ پس اگر خدا تعالیٰ کی محبت ایک انسان کے دل میں گڑ جائے یا خدا تعالیٰ مومنوں سے ایسا پیار کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کے دل میں ان کی محبت گڑ گئی ہے تو اس سے بڑا کامیاب شخص اور کون ہو سکتا ہے۔ وہ تو اپنی ذات میں ہی ایک ایسا خوبصورت اور سایہ دار درخت بن جاتا ہے جو دوسروں کو فیض پہنچانے والا ہوتا ہے کیونکہ اس کا ہر عمل خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو اور دوسروں کو فیض پہنچانے والا ہو۔ پھر اس آیت کا یہ بھی مطلب بنے گا کہ خداتعالیٰ ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ بجا لانے والوں کے دلوں میں بنی نوع انسان کی محبت بھی مضبوطی سے گاڑ دے گا۔ پس ایک حقیقی مومن کبھی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچائے۔ بنی نوع انسان سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک حقیقی مومن اسے ہمیشہ فیض پہنچانے کی فکر میں رہے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بیان کر آیا ہوں کہ یہ چیز اگر مسلمانوں میں پیدا ہو جائے تو ایک دوسرے کے حقوق تلف کرنے، ظلم کرنے اور غیروں کو، دوسروں کو قتل کرنے کے جو عمل حکومتوں میں بھی ہیں، نام نہاد تنظیموں میں بھی ہیں، عوام میں بھی ہیں، آجکل بڑے عام نظر آ رہے ہیں یہ کبھی نظر نہ آئیں۔ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل ہی نہیں ہو رہا اس لئے سب کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن ظلم یہ ہے کہ یہ سب ظلم اللہ تعالیٰ کے نام پر ہو رہا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ وُدّ پیدا کرو، محبت پیدا کرو۔ ایسی محبت پیدا کرو جو دلوں میں گڑ جائے۔ ایسے بنو جو دوسروں کو فیض پہنچانے والے ہوں۔ پس اگر حقیقی تعلیم پر عمل ہو تو کبھی یہ دکھ اور تکلیفیں جو ایک دوسرے کو دئیے جا رہے ہیں یہ نظر نہ آئیں۔ ایک خوبصورت تصور اسلام کے شجر سایہ دار کا دنیا کے ذہنوں میں ابھرے۔ پھر اس آیت کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ بنی نوع کے دل میں مسلمانوں کی محبت کِِلّے کی طرح گڑ جائے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً قدرت رکھتا ہے کہ ایسا کر دے لیکن اس نے اس بات کے حصول کے لئے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کی شرط لگائی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا پہلے مسلمانوں کے لئے جو قرون اُولیٰ کے تھے ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں یہ محبت ہی تھی جو خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کے دل میں اور یہودیوں کے دل میں پیدا کی تھی جو مسلمانوں کے علاقہ چھوڑنے پر روتے تھے، واپسی کی دعائیں کرتے تھے۔ بلکہ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ ہم جانیں دے دیں گے لیکن عیسائی لشکر کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ تم یہیں رہو ہم حفاظت کریں گے۔ (ماخوذ از فتوح البلدان صفحہ 87-88 باب یوم الیرموک مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2000ء، ماخوذ از سیر الصحابہؓ جلد دوم حصہ اول مہاجرین صفحہ 171-172 ناشر ادارہ اسلامیات لاہور) پس یہ نیک اعمال کا اثر تھا جو ہر سطح پر مسلمانوں سے ظاہر ہوتا تھا۔ جس نے اس خوبصورت درخت کی طرف دنیا کو متوجہ کیا اور دنیا کو فیض پہنچایا۔ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے غلاموں کا یہ فرض ہے کہ ایمان کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ اعمال صالحہ کے وہ خوبصورت پتے، شاخیں اور پھل بنیں جو اسلام کی خوبصورتی کی طرف دنیا کو کھینچنے والی ہو۔ جو دنیا کو فیض پہنچانے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے والے بھی ہم ہوں اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے بھی ہم ہوں۔ بنی نوع انسان سے محبت بھی ہماری ترجیح ہواور بنی نوع انسان کی توجہ کھینچنے والے بھی ہم ہوں کیونکہ اس کے بغیر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں بن سکتے۔ مزید پڑھیں: سونے کی انگوٹھی اور ریشم وغیرہ کا لباس پہننے کی ممانعت