ذکرِخیر مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب۔ مَوتُ الْعَالِمِ مَوتُ الْعَالَمِ
ميرمحمود احمد ناصرصاحب مرحوم جو جامعہ احمدیہ ربوہ کے پرنسپل تھے، یہ لکھتے ہوئے قلم بوجھل ہو رہا ہے کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ مرحوم سے متعلق آپ کے شاگردوں کی طرف سے مسلسل جو مضامین وقتاً فوقتاً روزنامہ الفضل انٹرنیشنل میں شائع ہو رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں مرحوم کا انتہائی شفقت بھرے انداز میں ذکر خیر فرمایا۔مرحوم کے بہت سے اوصافِ کریمانہ منظرِ عام پر آئے۔ ایک احمدی دنیا اِن سے روشناس اور متعارف ہوئی۔ بلکہ بیرونِ احمدی دنیا میں دانشوراور علمی طبقہ بھی انہیں ایک عالمِ باعمل اور ماہرِ تعلیم تسلیم کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ چند سطور تحریر کرنے کی وجہ بھی یہ ہوئی۔ مرحوم کے شاگردوں کا اپنے شفیق و مہربان اُستادِ محترم کے تئیں جو عقیدت، خلوص و محبت کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا وہ کم ہی کسی کے حصہ میں آیا ہے۔ عقیدت کے جو پھول انہوں نے اپنے ہردلعزیز استاد پر نچھاور کیے ہیں وہ یقیناً قابلِ فخر، قابلِ رشک اور قابلِ تحسین ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین۔
خاکسار ذاتی طور پر میر صاحب مرحوم سے متعارف نہیں ہے۔ ان سے متعلق حضور پُرنور کا خطبہ جمعہ اور جو مضامین الفضل میں شائع ہوئے ہیں وہ بہت ہی متاثر کُن ہیں۔ جو ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
روزِآفرینش سے آج تک اس کرۂ ارض پر کتنی ہی انسانی روحوں نے جنم لیا اور اپنی اپنی زندگی کے سال اور دن پورے کر کے عدم آبادی کی پنہائیوں میں گُم ہو کر رہ گئیں۔ نہ تو ماہرِشماریات اس کا جواب دے سکا اور نہ ہی مستقبل میں کوئی نئی ایجاد اس کا احاطہ کر پائے گی۔ بِلاشبہ انسانی تاریخ نے صدیوں پر محیط تاریخ کے اوراق میں صرف اِن گنے چنے چند منتخب نابغۂ روزگار اور قابل قدر ہستیوں کے نام ہی محفوظ رکھے ہیں جو اپنی غیر معمولی فطری صلاحیتوں، محیر العقول کارناموں اور ناقابلِ فراموش قومی خدمات کی بنا پر نہ صرف تاریخِ عالم کے ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ کئی جہات سے بذاتِ خود ان کے قابلِ قدر وجود کو تاریخ ساز حیثیت بھی قرار دیتی ہیں۔
محترم میر صاحب مرحوم کا شمار بھی بِلا شبہ تاریخِ احمدیت کی ان جلیل القدر، چنیدہ، ممتاز اور بزرگ ہستیوں میں ہوتا ہے جن کی زندگی کا ایک ایک قیمتی لمحہ میدانِ علم و عمل میں مسلسل قربانی، ایثار اور پیہم جدوجہد کے لیے وقف رہا ہے۔ جو اپنی زندگی کو آخری سانس تک قوم و ملت کی امانت متصور کرتی رہی ہوں۔ بِلاشک ایسے نابغۂ روزگار وجود اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی میں کُوچ کر جانے کے بعد بھی عدم پنہائیوں میں رُوپوش نہیں ہوتے بلکہ ان کی جلیل القدر خدمات اور باقیاتِ صالحات انہیں وہ ابدی زندگی عطا کر دیتی ہیں جو تاریخ کے اوراق میں سنہری باب کا درجہ رکھتی ہیں۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایا ہے: ’’وَلَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرْزَقُوْنَ۔ (اٰلِ عمران: ۱۷۰) یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے ان کو ہرگز مُردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے۔
آج جبکہ غلبۂ اسلام کی عظیم الشان روحانی مہم کو سَر کرنے کے لیے جماعت احمدیہ کو میر صاحب جیسے لاکھوں مجاہدین احمدیت اور واقفینِ زندگی کی ضرورت ہے ایسے قیمتی وجودوں کا یکے بعد دیگرے اٹھتے چلے جانا ہر ہر فردِ جماعت اور احمدیت کی نئی نسل اور واقفین نو کو یہ احساس بھی دلاتا ہے کہ وہ اپنے عظیم القدر مقصد، مقام اور مرتبہ کو پہچانیں اور مستقبل کی عظیم ترین ذمہ داریوں سے کما حقہ طریق پر عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنے تئیں ان کا جانشین بننے کی کوشش کریں تا وہ آئندہ آنے والی نسلوں اور فوج در فوج آغوشِ احمدیت میں داخل ہونے والی سعید روحوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی گراںبار ذمہ داریوں سے کماحقہ طریق پر عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار رہیں۔ پس اس نوع کے المناک جماعتی اور قومی سانحات پر ہم قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے اس بصیرت افروز اور پُرسوز پیغام کو ہمیشہ اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں۔
میں جماعت کے نوجوانوں کو بڑے درد دل کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مرنے والوں کی جگہ لینے کے لیے تیاری کریں اور اپنے دل میں ایسا عشق اور خدمتِ دین کا ایسا ولولہ پیدا کریں کہ نہ صرف جماعت میں خلا پیدا نہ ہو بلکہ ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں کے طفیل جماعت کی آخرت اس کی اولیٰ سے بھی بہتر ہو۔ یقیناً ہمارے نوجوان ہمت کریں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مقصد کا حصول ہرگز بعید نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے جو حضورؑ نے ان شاندار لفظوں میں بیان فرمایا ہے: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرے فرقہ کے لوگ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے وہ اپنی سچائی کے نُور سے اور اپنے دلائل کی روشنی سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جائے گا ۔ خدا کرے ہم اور ہماری اولادیں اس عظیم الشان بشارت سے حصہ پائیں۔ اسلام واحمدیت کا جھنڈا دنیا میں بلند سے بلند تر ہو جائے۔ (الفضل ۳؍مارچ۱۹۶۰ء)
میر صاحب مرحوم کی روح بھی عالم بالا سے مخاطب ہے۔
ہم نے جس طرح گزری زندگی گزاری ہے
نسلِ نو کے متوالو اب تمہاری باری ہے
اللہ تعالیٰ مرحوم کی جلیل القدر خدماتِ سلسلہ کو بپایۂ قبولیت جگہ دیتے ہوئے جنت الفردوس میں بلند ترین مقام عطا کرے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
(محمد عمر تِماپوری۔کوآرڈینیٹر مُسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب




