حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

وقف جدید کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات

(انتخاب از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍جنوری ۲۰۲۴ء)

جرمنی کے نیشنل سیکرٹری وقفِ جدید کہتے ہیں۔ جماعت مائنز(Mainz)کے ایک طالب علم نے حکومتی ادارے کو وظیفہ کی درخواست دی۔ پڑھائی کے لیے کچھ رقم چاہیے تھی اور بتایا کہ میرا سمسٹر شروع ہونے والا ہے اور رقم کم ہے۔ دوسری طرف وقفِ جدید کا سال بھی ختم ہو رہا تھا اور اپنے اور فیملی کے وعدہ جات کی ادائیگی کرنی تھی۔ ان کو امید تھی کہ جس کی درخواست دی ہوئی تھی وہاں سے وظیفہ کی رقم مل جائے گی۔ لیکن بہرحال مجھے وہاں حکومتی ادارے کی طرف سے انکار ہو گیا۔ جو رقم پاس تھی وہ انہوں نے اللہ پر توکّل کرتے ہوئے چندے میں دے دی۔ اس کے بعد سمسٹر مکمل کیا۔ اچھے نمبروں سے اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیاب فرمایا اور متعلقہ ادارے کی طرف سے بھی پہلے تو انکار ہوا تھا اور پھر اچانک ایک رقم چار ہزاریورو کے برابر ان کے اکاؤنٹ میں آ گئی۔ پھر یہ کہتے ہیں میرا تو یہی ایمان ہے کہ یہ قربانی کی وجہ ہے۔

انڈیا کی ایک جگہ ساونت واڑی ہے۔ وہاں کے ایک احمدی سراج صاحب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مالی قربانی کی برکات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وقفِ جدید کے چندے کووڈ کی بیماری کی وجہ سے بقایا رہ گئے تھے۔ دو تین سال سے موصوف کے باغات کی لکڑیاں بارش کے پانی سے ضائع ہو رہی تھیں۔ جس خریدار نے لینے کا وعدہ کیا تھا اور جو رقم طے ہوئی تھی اس کی ادائیگی نہیں کر رہا تھا۔ بہرحال موصوف خریدار ڈھونڈتے رہے، کوئی نہیں مل رہا تھا۔ موصوف کہتے ہیں کہ جب انسپکٹر وقفِ جدید آئے اور وقفِ جدید کے چندے کا مطالبہ کیا تو موصوف نے دو ہزار روپے فوری نکال کے ادا کر دیے۔ کہتے ہیں کہ دو دن کے اندر اندر جو خریدار قیمت طے کرنے کے باوجود سامان نہیں لے رہا تھا اچانک آ کر بیس ہزار روپے دے کر سارا مال لے گیا اور یہ کہتے ہیں میرا تو یہی ایمان ہے کہ چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے دو ہزار کو بڑھا کر بیس ہزار مجھے واپس لوٹا دیا ورنہ جو سامان برسوں سے ضائع ہو رہا تھا وہ آگے بھی ضائع ہو سکتا تھا۔

کینیڈا کی ایک لجنہ ممبر ہیں۔کہتی ہیں کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں جب میں نے وقفِ جدید کا نئے سال کا اعلان کیا تو ان کو بھی خواہش پیدا ہوئی کہ اپنا اور اپنے بچوں کا چندہ ادا کریں۔ جب بینک کی صورتحال دیکھی تو وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ بہرحال کہتی ہیں میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ غیب سے میرے لیے بھی ایسے سامان پیدا کر دے کہ چندہ ادا کر سکوں۔ پھر چند دن کے بعد بینک اکاؤنٹ میں دیکھا تو اس میں تین سو ڈالر کے برابر رقم تھی اور وہی تھی جو میں اپنے اور اپنے مرحومین کی طرف سے چندے میں دینا چاہتی تھی اور میں نے فوری طور پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے چندے میں ادائیگی کر دی۔

پھر ایک اَور خاتون ہیں۔ یہ بھی کینیڈا کی ہیں۔ انہوں نے اپنا وعدہ بڑھا کر ساری ادائیگی کر دی تو اگلے دن ہی ان کو ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے، ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے زائد رقم کا چیک واپس آ گیا اور وہ سات سو پچاس ڈالر کی رقم تھی۔ کہتی ہیں یہ اتنی ہی رقم تھی جومیں نے ادا کی تھی۔

تنزانیہ کی ایک نومبائع خاتون آمنہ صاحبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ احمدیت قبول کی تو میں نے احمدیت میں ایک الگ نظام دیکھا جو دوسرے مسلمانوں سے مختلف تھا۔ مالی نظام میں ہر چندے کی رسید دی جاتی ہے اور جگہ کہیں نہیں ملتی۔ کہتی ہیں کہ نومبر میں معلم صاحب نے خطبہ جمعہ دیا اور چندہ وقفِ جدید کے بارے میں تحریک کی۔ میرے پاس جتنے پیسے تھے میں نے چندے میں دے دیے۔ میرے گھر کے حالات بہتر نہیں تھے۔ بیٹی امید سے تھی، ہسپتال لے کے جانے کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ گھر پہنچی تو رات عشاء کے بعد مجھے ایک شخص کا فون آیا۔ اس نے مجھ سے دو سال سے کچھ رقم قرض لی ہوئی تھی اور رابطہ نہیں کر رہا تھا اور میں بھول چکی تھی کہ اب یہ واپس نہیں ہو گی۔ تو بہرحال اس نے فون کیا، معافی مانگی اور وجوہات بتا کے دو ہزار کی رقم واپس کر دی۔ کہتی ہیں کہ میں نے جو مالی قربانی اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کے کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے وہاں میری وہ مدد فرمائی اور اس کے بعد پھر ان کو فوری طور پر بیٹی کو بھی ہسپتال لے جانے کی ضرورت پڑی اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ اس طرح اس کا علاج بھی ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نئے آنے والوں میں بھی یہ سوچ پیدا فرما رہا ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ سوچ صرف ایک احمدی میں ہی پائی جاتی ہے۔

نائیجر ایک اَور ملک ہے۔ آج کل وہاں حالات بھی کافی خراب ہیں۔ معلم صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے مَارَادِی ریجن کے ایک گاؤں کا دورہ کیا۔چندے کی تحریک کی۔ لوگوں نے حسب استطاعت وقفِ جدید میں حصہ لیا۔ ایک غیر احمدی وہاں کہنے لگا کہ آپ ہمارے گاؤں کے غریب لوگوں سے رقم وصول کررہے ہیں جبکہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں اور دیگر اسلامی تنظیمیں تو لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آ رہی ہیں اور آپ ان سے مانگ رہے ہیں۔ معلم صاحب کہتے ہیں کہ اس سے قبل کہ میں کچھ جواب دیتا اس گاؤں کے ایک احمدی کھڑے ہو گئے۔ بڑے جوش سے کہنے لگے کہ دیگر اسلامی جماعتیں آتی ہیں۔ ٹھیک ہے کوئی فلاحی مدد کر دیتی ہوں گی لیکن کیا کسی اسلامی تنظیم نے ہمیں اسلام کے بارے میں کچھ سکھایا ہے؟ وہ فلاحی کام تو شاید کر کے چلے جاتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ ہمیں دین سکھاتی ہے اور یہاں یہ معلم صاحب ہمارے سے رقم وصول کرنے نہیں آئے بلکہ ہمیں مالی قربانی کے اس جذبہ کی ترغیب دلانے آئے ہیں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پیش کی ہے جس کے ذریعہ ہم دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی اجر حاصل کر سکیں گے۔ تو یہ ادراک ان میں قبول احمدیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا کہ اللہ  تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قربانی ضروری ہے اور پھر اللہ  تعالیٰ کے فضل بھی بہت ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ سن کر وہ غیر احمدی دوست خاموش ہو گئے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: وقف جدید کی مالی قربانی کے ایمان افروز واقعات

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button