کوئی دوست تحفہ دے تو اسے قبول کرو
یہ واضح ہونا چاہئے کہ صاف ستھرا رہنے یا اچھے کپڑے پہننے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے اور یہ خیال دل میں نہیں آنا چاہئے کہ اپنے سے مالی لحاظ سے کم تر کسی شخص کے ساتھ نہ بیٹھوں۔ اگر یہ صورت ہو گی تو پھر تکبر ہے۔… اس لئے مومن اور دنیا دار میں یہی فرق ہے کہ وہ صاف ستھرا رہتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے اچھے جوتے پہنتا ہے اپنے گھر کو سجا کر رکھتا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو خوبصورتی پسند ہے یعنی اس کا یہ ظاہری خوبصورتی کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے، اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے اور کیونکہ مومن کا یہ اظہار اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے۔…
یہ ہے اسلامی تعلیم کہ تم خداتعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ سے اظہار بھی کرو لیکن اس کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ان غریبوں کا بھی خیال رکھو تاکہ ان کا ایک بھائی کی حیثیت سے حق پورا ادا ہو۔ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے جب آئی سی ایس کا امتحان پاس کیا تو سول سروس میں گئے کیونکہ برصغیر میں عموماً افسر اپنے آپ کو عام آدمی سے بالا سمجھتے تھے اور اب بھی اکثر پاکستان وغیرہ میں جو بیورو کریٹ ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی ایسی شخصیت ہیں جو دوسروں سے بالا ہیں اور غریب آدمی کے وقت اور عزت کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔ حضرت میاں صاحب جب اپنے علاقے میں افسر بن کر گئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور نصائح کے علاوہ ان کو ایک یہ بھی نصیحت کی تھی کہ تمہارے گھر کا کوئی قالین کا ٹکڑا یا ڈرائینگ روم کا صوفہ کسی غریب کو تمہارے گھر میں قدم رکھنے یا بیٹھنے سے نہ روکے یا روک نہ بنے۔ بڑی پر حکمت نصیحت ہے۔ ایک تو یہ کہ غریب بھی تمہارے گھر میں بے جھجک آ سکے، کوئی روک نہ ہو۔ دوسرے اس کو بھی وہی عزت دو جو کسی امیر کو دو۔ تو حضرت میاں صاحب نے ہمیشہ غریبوں کا بہت خیال رکھا اور اس نصیحت پر عمل کیا۔ ہمارے آج کل کے افسروں کو بھی اس نصیحت کو پلے باندھنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ سفر کی وجہ سے کسی غریب کے کپڑے میلے ہیں تو اس کے صوفے پہ بیٹھنے سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہو۔ پھر صفائی کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو لگانے کو بھی بہت پسند فرمایا ہے اور اس تحفے کو بھی بڑا پسند کیا کرتے تھے۔
ایک روایت میں ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں کوئی دوست بطور تحفہ خوشبو دے تو اسے قبول کرو اور اسے استعمال کرو۔(مسند الامام اعظم۔ کتاب الارب صفحہ ۲۱۱)
(خطبہ جمعہ ۲۳؍ اپریل ۲۰۰۴ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍مئی ۲۰۰۴ء)
مزید پڑھیں: تمام انبیاء کا رفع ہوتا ہے اور روحانی ہوتا ہے




