عیسائیت کی ترویج میں عیسائی مبلغین کا مثالی کردار (قسط دوم۔آخری)
آپؑ بروز محمد بن کر آئے مگر ساتھ مسیح بھی تھے اس لئے ہماری قربانیاں کم سے کم دونوں کے درمیان میں آنی چاہئیں بلکہ میرا تو خیال یہ ہے کہ صحابہ کرام کی قربانیاں مسیحیوں سے زیادہ شاندار تھیں۔ اس لئے کہ اُن کو دُہرا زخم لگتا تھا۔ایک اپنا زخم اور دوسرا وہ جو آنحضرتﷺ کو لگایا جاتا ہے۔ عاشق کے لئے معشوق کا زخم زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے
سنگ دل سے سنگ دل انسان عیسائی تاریخ کا ایک صفحہ بھی آنسو بہائے بغیر نہیں پڑھ سکتا
حضرت مصلح موعودؓ نے ان عیسائی مبلغین کی جسمانی اور جانی قربانیوں کی مثال پیش کی اور ان کے شیریں اثمار کا ذکر بھی فرمایا۔ لیکن ساتھ ہی رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب کی قربانیوں کو افضل قرار دیا۔ نیز احبابِ جماعت کو بھی تلقین فرمائی کہ وہ ان قربانیوں سےسبق سیکھ کر دین سے محبت اور عشق پیدا کریں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ
احمدیت اسلام کا نام ہے جس طرح اسلام نے تلوار کے سایہ میں پرورش پائی تھی۔اسی طرح جب تک دنیا کا چپہ چپہ احمدیوں کے خون سے رنگین نہیں ہوتا احمدیت ترقی نہیں کر سکتی۔اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس کے بغیر ہی ترقی حاصل ہوجائے گی تو تم سے زیادہ بےوقوف، دھوکا خوردہ اور پاگل دنیا میں اور کوئی نہیں۔ہر ملک میں اور ہر علاقہ میں تمہیں ہر طرح کی قربانیاں کرنی پڑیں گی۔اور اس کے لیے جو سپاہی آپ مشق نہیں کرتا وہ کل جان کب دے سکے گا۔یہ سپاہیانہ مشقیں ہیں اور وہ دن آنے والا ہے کہ جب تم سے کہا جائیگا کہ اپنے وطن کو چھوڑ دو، سب اموال حاضر کرو۔ تمہیں بھوکا رہنا پڑے گا اور ہر طرح کی تکالیف اٹھانی پڑیں گی اور ان کے لیے تم میں سے ہر ایک کو تیار رہنا چاہئے۔کیا تم یہ پسند کرو گے کہ افغانستان میں تمہارے بھائی فاقے کریں اور تم چین سے زندگی بسر کرو؟ چین میں تمہارے بھائیوں پر ظلم ہو اور تم امن میں رہو ؟ تمہارے اندر تو یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اگر چین میں احمدیوں کو قتل کیا جار ہا ہو تو تمہاری گردنیں یہاں ہی خم ہو ہو کر اُن تلواروں کو اپنی گردنوں پر لینے کے لیے بیتاب ہوں۔اگر کسی جگہ احمدی جماعت کو وطن چھوڑ نے پڑیں یا فاقے کرنے پڑیں تو تم کو اپنے گھر کانٹوں کی طرح معلوم ہونے لگیں اور روٹیاں تمہارے گلوں میں پھنسنے لگیں۔اس اتحاد و احساسات کے بغیر مذہب ترقی نہیں کرسکتے۔ بےشک تمہارے امام کا نام مسیح ہے مگر عیسائیوں کی تاریخ پڑھ کر دیکھو۔ آج اُن کے عروج کو دیکھ کر شاید کوئی خیال کرے کہ یہ پہلے ہی ایسے تھے۔ لیکن کوئی سنگ دل سے سنگ دل انسان عیسائی تاریخ کا ایک صفحہ بھی آنسو بہائے بغیر نہیں پڑھ سکتا۔ان کو ایسے مصائب پیش آئے کہ سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر انہوں نے دلیری سے ان کو برداشت کیا اور امتحان کے وقت اپنی جانوں کو جان نہیں سمجھا اور مالوں کو مال نہیں سمجھا اور قربانیاں کیں اور وہی قربانیاں تو ہیں جو آج یورپ کو روٹیاں دلوا رہی ہیں۔جب یورپ کی عیاشی کو دیکھ کر غیرت الٰہی کی تلوار انہیں ہلاک کرنے کے لیے اٹھتی ہے تو اُن کے باپ دادوں کی روحیں سامنے آ جاتی ہیں جنہوں نے مذہب کی خاطر ز بر دست قربانیاں کی تھیں اور خدا تعالیٰ کے غضب کی تلوار جھک جاتی ہے۔یورپ کے عروج کا اس قدر لمبا عرصہ اُنہی قربانیوں کی وجہ سے ہے جو ان کے آباء نے کی تھیں۔اور خدا تعالیٰ انہیں ہلاک کرنے سے پیشتر انہیں موقع دے رہا ہے کہ اسلام قبول کر لیں۔کم سے کم تمہیں وہ قربانیاں تو کرنی پڑیں گی جو عیسائیوں نے کیں۔ہمارے سلسلہ کے بانی کو بےشک بروز محمدﷺ بھی کہا گیا ہے لیکن کیا آنحضرتﷺ کو مکہ کی تیرہ سال کی زندگی میں کم قربانیاں کرنی پڑیں ؟ پھر کیا مدینہ میں آپ کی قربانیاں کم تھیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر میں خالی مسیح ہوتا تو مجھے صلیب دے دیا جاتا مگر میرا انحصار محمد (ﷺ ) پر زیادہ ہے اور تم لوگ محمدﷺ کے نام کی وجہ سے خوش ہوتے ہو۔ بے شک آپؑ بروز محمد بن کر آئے مگر ساتھ مسیح بھی تھے اس لیے ہماری قربانیاں کم سے کم دونوں کے درمیان میں آنی چاہئیں بلکہ میرا تو خیال یہ ہے کہ صحابہ کرام کی قربانیاں مسیحیوں سے زیادہ شاندار تھیں۔اس لیے کہ اُن کو دُہرا زخم لگتا تھا۔ایک اپنا زخم اور دوسرا وہ جو آنحضرتﷺ کو لگایا جاتا ہے۔عاشق کے لیے معشوق کا زخم زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔
ایک صحابی کا قصہ میں نے بار ہا سنایا ہے وہ مکہ میں قید تھے اور کفار نے اُن سے کہا کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمدﷺ یہاں تمہاری جگہ قید ہوں اور تم مزے سے گھر میں بیٹھے ہو؟ انہوں نے جواب دیا میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میں گھر میں بیٹھا ہوں اور محمدﷺ کے پیر میں مدینہ کی کسی گلی میں ہی کا نٹا چبھ جائے۔پس صحابہ کو جو عشق رسول کریمﷺ سے تھا۔اُسے دیکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ آنحضرتﷺ کو حضرت مسیح ناصری سے زیادہ لمبا عرصہ تک تکالیف اُٹھانی پڑیں، ماننا پڑتا ہے کہ صحابہ کودہری تکلیف ہوتی تھی ہر گالی جو رسول کریمﷺ کوملتی وہ بھی انہی کے دل پر پڑتی تھی۔اور وہ بھی جو خود ان کو ملتی بلکہ اپنی تکلیفوں کو وہ رسول کریمﷺ کی تکلیف کے مقابل پر کچھ بھی نہ سمجھتے تھے۔وہ خود ساری عمر بھوکا رہنا پسند کر سکتے تھے مگر یہ امر اُن کی برداشت سے باہر تھا کہ رسول کریمﷺ پر ایک فاقہ بھی گزرے۔اُن کے عشق کی نظیر کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ تاریخ میں آتا ہے کہ رسول کریمﷺ کی وفات کے کئی سال بعد جب ایران فتح ہوا تو وہاں سے پن چکیاں آئیں جو بار یک آٹا پیستی تھیں۔جب پہلی دفعہ باریک میدہ مدینہ میں تیار ہوا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا گیا تو آپ نے اُس کی روٹی پکوائی لیکن جب اس کا لقمہ حلق میں گیا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔آپ کی کسی سہیلی نے پوچھا کہ آپ رونے کیوں لگیں یہ تو بہت نرم پھلکے ہیں۔آپؓ نے فرمایا کہ مجھے یہ خیال آتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ایسی چکیاں نہ تھیں ہم پتھروں سے ہی آٹا پیستے تھے جو بہت موٹا ہوتا تھا اگر یہ میدہ اُس زمانہ میں ہوتا تو میں آنحضرتﷺ کو اس کی روٹیاں پکا کر کھلاتی۔یہ اُس عشق کا ایک مظاہرہ تھا جو مومن اور مومنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے پیدا تھا۔
اب تم دیکھو کہ تم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت سے کس قد رعشق ہے؟ کیا تمہارے گلے میں بھی ہر وہ نعمت پھنستی ہے جس سے احمدیت کو حصہ نہیں ملا۔ہماری دُنیوی نعمتیں اس وقت ہیں ہی کیا جنہیں ہم قربان نہ کر سکیں۔یورپ کا ایک ادنیٰ لارڈ ہمارے کئی گاؤں خرید سکتا ہے اور یورپ کا ایک مزدور آسائش کے اس قدر سامان رکھتا ہے جو ہمارے ہاں کے نوابوں کو بھی میسر نہیں۔پس ہمارے پاس ہے ہی کیا جس کی قربانی ہم کو بوجھل معلوم ہوتی ہے۔اگر عشق ہو تو وہ کپڑے جن پر تم فخر کرتے ہوا اور وہ نرم بستر جن میں تم آرام کرتے ہو تمہیں کانٹوں کی طرح چبھنے چاہئیں کیونکہ دین احمد کو وہ زینت میسر نہیں جو تم کو میسر ہے اور اسے وہ آرام میسر نہیں جو تم کو میسر ہے۔
پس عشق پیدا کرو پھر تمہارے رستہ میں کوئی روک باقی نہیں رہے گی، کسی نصیحت کی بھی تم کو ضرورت نہ ہوگی اور ہر ضروری قربانی تم آپ ہی آپ کرتے جاؤ گے جس طرح پانی چشمہ سے آپ ہی آپ ابلتا چلا آتا ہے۔لیکن جب تک یہ فدائیت نہ ہوگی یہ ماریں پڑتی رہیں گی اور گالیاں ملتی رہیں گی پس ان کو بند کرنا یا جاری رکھنا تمہارے اپنے اختیار میں ہے جو گھوڑا اَڑتا ہے اچھا سوار اُسے دور تک لے جاتا ہے تا کہ وہ تھک کر ٹھیک ہو جائے مگر جو اَڑتا نہیں اُسے اتنا ہی چلایا جاتا ہے جتنی کہ ضرورت ہوتی ہے پس اگر تمہارے نفس قربانی سے جی چرائیں گے تو تم کو زیادہ ابتلاؤں میں مبتلا کیا جائے گا۔اور اگر خوشی سے اپنے آپ کو ہر قسم کی قربانی کے لیے پیش کر دو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت جلدی جوش میں آ جائے گی اور تم اپنے آپ کو اُس محبوب حقیقی کی آغوش میں پاؤ گے جس کی محبت کی ایک نظر دنیا و مَا فِیھا سے اچھی ہے۔ نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ۔(الفضل ۲۱؍دسمبر ۱۹۳۵ء)
خدا تعالیٰ نے ان عیسائی مشنریز کی قربانیوں کو بھی پھل لگایا اور انہیں وسعت بھی عطا کی۔ مثلاً یہاں سیرالیون میں ہی کئی عیسائی مشن ہیں۔ اور سینکڑوں عرض رقبے پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ بعض چرچ اٹھارھویں صدی کے قیام کی تختی(plaque) پر سال کندہ کیے ا بھی تک ایستادہ ہیں۔شہر کے وسط میں 1808 ماتھے پر سجائے سینٹ جونز مرون چرچ، برطانوی نوآبادیاتی دور کے فری ٹاؤن شہر کے داخلی بحری راستے پر واقع ہے۔ دور دراز مقامات پر چرچوں کا قیام۔ ہر شہر اور قصبےمیں چرچ، سکول، ہسپتال ان کے عزم کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ دارالحکومت فری ٹاؤن کی سرکلر روڈ پر ہی ایک بار ۳۵ سے زائد چرچز کے میناروں پر ایستادہ صلیب گنتی میں آئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے جہاں عیسائی مشنریز کے دلائل کی کھوکھلی عمارت، ان کے علمی دھوکوں اور سیاسیات پر تنقید فرمائی ہے وہیں ان کے مثبت پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کی قربانی کے معیار اور قربانی کی نیت کو سراہا ہے۔ آپ نے افرادِ جماعت کو یہ امر بارہا باور کروایا کہ ابھی نہ ہم نے عیسائی مشنریز جیسی استقامت دکھائی ہے اور نہ ان جیسے مصائب سے ہم گزرے ہیں۔ تاہم انہی خطبات میں آپ نے بارہا احمدی مبلغین کی قربانیوں کو مشعل راہ بھی ٹھہرایاہے۔
سیرالیون کے ایک دُور دراز مقام ٹونگے باؤماہوں پر جہاں مولانا نذیر احمد علی صاحب کی تبلیغی کاوشوں سے پہلا مقامی نواب(پیراماؤنٹ چیف) چیف صلاح الدین بائیو احمدی ہوا۔ وہاں کئی دہائیوں سے عیسائی مبلغین خیمہ زن تھے۔ اس علاقے تک جانے کا جنگل سے گزرتا پیدل رستہ تھا۔ نوجوان مبلغ مولانامحمد صدیق امرتسری صاحب جنگل کے سفر میں اسی راستے پر علیل ہوگئے تو مولانا نذیر احمد علی صاحب جیسے نحیف الجثہ بزرگ انسان اور سانس کے مستقل مریض اس نوجوان مبلغ کو کاندھوں پر اٹھائے جنگل کے اس پار لے گئے۔ اور ایک کامیاب جرنیل کا ٹائیٹل سجائے دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنی اس خواہش کو بالفعل پورا کرنے والے بنے کہ وہ احمدیت کی آنے والی نسلوں کے لیے قبر کے ذریعہ احمدیت کے قیام کی جگہ گھیر کے رکھیں گے۔
افغانستان میں شہزادہ صاحب اور متعدد احمدی شہید ہوئے۔ مبلغ بخارانے یخ بستہ جیل میں قریب المرگ عرصہ اسیری گزارا۔ جرمنی میں ابتدائی قانونی پیچیدگیاں، سپین اور اٹلی میں داخلے کی اجازت نہ ملی۔ امریکہ میں حضرت مفتی محإد صادق صاحب کو داخل ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ گھانا میں ابتدائی مبلغین تبلیغی مساعی کے علاوہ ذاتی تجارت سے مشن کو فائدہ پہنچاتے رہے۔ سپین کی سر زمین پر مبلغ سلسلہ عطر فروخت کرکے گزر بسر کرتے رہے۔ تنزانیہ میں بھرے جلسے میں مبلغ پر چاقو بردار شخص حملہ کرتاہے۔
پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، الجزائر، یمن اور سیریا سمیت ابتدائی مشنریز کے کئی واقعات موجود ہیں جنہیں قلم بند بھی کیا گیا ہے۔ تاہم مسیح ناصری اور مسیح محمدی کی مشابہت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ارشادات پر گہری نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مبلغین سے کیاکیا توقعات رکھی گئی ہیں۔ دوسری جانب خلفائے احمدیت نے بارہا ہر احمدی کوہی مبلغ قرار دیا ہے تو یہ توقعات ہر احمدی سے ہیں۔
عیسائی پادریوں کی زبان سیکھنے کی کوشش کی مثال
امیر المومنین حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک بار ایک عیسائی پادری کی مثال دیتے ہوئے واقفین نو سے توقعات کا اظہار یوں فرمایا کہ ’’وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں۔ وہ انگریزی، عربی، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں، (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے) کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو سکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے گھانا کے نارتھ میں کیتھولک چرچ تھا، چھوٹی سی جگہ پہ(میں بھی وہاں رہا ہوں ) تو پادری یہاں انگلستان کا رہنے والا تھا وہ ہفتے میں چار پانچ دن موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جنگل میں جایا کرتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم وہاں کیا کرنے جاتے ہو۔ اس نے بتایا کہ ایک قبیلہ ہے، ان کی باقیوں سے زبان ذرا مختلف ہے اور ان کی آبادی صرف دس پندرہ ہزار ہے اور وہ صرف اس لیے وہاں جاتا ہے کہ ان کی وہ زبان سیکھے اور پھر اس میں بائبل کا ترجمہ کرے۔ تو ہمارے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر واقفین نو بچے جو تیار ہو رہے ہیں، توجہ ہونی چاہئے تاکہ خاص طور پر ہر زبان کے ماہرین کی ایک ٹیم تیار ہو جائے۔ بہت سے بچے ایسے ہیں جو اب یونیورسٹی لیول تک پہنچ چکے ہیں، وہ خود بھی اس طرف توجہ کریں جیسا کہ میں نے کہا اور جو ملکی شعبہ واقفین نو کا ہے وہ بھی ایسے بچوں کی لسٹیں بنائیں اور پھر ہر سال یہ فہرستیں تازہ ہوتی رہیں کیونکہ ہر سال اس میں نئے بچے شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ ایک عمر کو پہنچنے والے ہوں گے۔ اور صر ف اسی شعبے میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں عموماً جو ہمیں موٹے موٹے شعبے جن میں ہمیں فوراً واقفین زندگی کی ضرورت ہے وہ ہیں مبلغین، پھر ڈاکٹر ہیں، پھر ٹیچرہیں، پھر اب کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی بھی ضرورت پڑ رہی ہے۔ پھر وکیل ہیں، پھر انجینئر ہیں، زبانوں کے ماہرین کا میں نے پہلے کہہ دیا ہے پھر ان کے آگے مختلف شعبہ جات بن جاتے ہیں، پھر اس کے علاوہ کچھ اور شعبے ہیں۔ تو جو تو مبلغ بن رہے ہیں ان کا تو پتہ چل جاتا ہے کہ جامعہ میں جانا ہے اور جامعہ میں جانا چاہتے ہیں اس لیے فکر نہیں ہوتی پتہ لگ جائے گا لیکن جو دوسرے شعبوں میں یا پیشوں میں جا رہے ہوں ان میں سے اکثر کا پتہ ہی نہیں لگتا‘‘۔ (خطبہ جمعہ ۱۸؍جون ۲۰۰۴ء)
دعاؤں کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے
سال کے شروع میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ان شاءاللہ اسلام اور احمدیت تین سو سال کے اندر دنیا پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ آپ کے نزدیک اس غلبہ کی طرف بڑھتے ہوئے آئندہ سو سالوں میں عالمی سطح پر جماعت کو کس نوعیت کے چیلنجز یا رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے نیز ہم اس سے اپنی اگلی نسل کو نمٹنے کے لیے کیسے تیار کر سکتے ہیں؟
حضورانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے تو بَغۡتَةً کا اللہ تعالیٰ نے لفظ استعمال کیا ہے کہ وہ سارا کچھ اچانک ہوتا ہے اور بعض حالات ایسے اللہ تعالیٰ پھر پیدا کر تا ہے۔
حضورانور نے عیسائیت کے پھیلنے کی مثال دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ عیسائیت جب پھیلی ہے، اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہےکہ عیسائیت کو کوئی نہیں جانتا تھا، دبے ہوئے تھے، چھپے ہوئے تھے۔ اصحابِ کہف جو تھے وہ چھپ کے عبادت کرتے تھے، موقع ملتا تھا تو آ کے عبادت کرلیتے تھے یا باہر نکل آتے تھے، پھر جب حملہ ہوتا تھاتو چھپ جاتے تھے۔آخر ایک وقت آیا کہ جب رومن ایمپائر میں عیسائیت پھیلی، چاہے غلط یا صحیح لیکن ان کو پھر کھلی چھٹی مل گئی، وہ باہر آ گئے۔ تو جس طرح ان کو تین سو سال بعد یا تین سو سال سے زائد عرصہ میں عیسائیت کو آزادی ملی تھی، تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مَیں بھی مسیح موسوی کے قدموں پر آیا ہوں، مسیح محمدی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی یہی کہا ہوا ہے، وعدہ کیا ہوا ہے کہ احمدیت پھیلے گی، حقیقی اسلام پھیلے گا، لیکن تم دیکھو گے کہ ابھی تین سو سال کا عرصہ نہیں گزرے گا کہ جب اکثریت دنیا کی اسلام کے جھنڈے تلے آجائے گی۔
حضورانور نے توجہ دلائی کہ اس کے لیے ایک تو یہ ہے کہ ہمارے عمل اور ہماری دعائیں۔ دعاؤں کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے یا صرف ہم یہی کہتے رہیں کہ ہماری احمدیت پھیل جائے گی کیونکہ اللہ کاوعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو حضرت موسیٰؑ سے بھی تھا، لیکن جب یہودیوں نے غلط قسم کا رویہ دکھایا تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں لکھا ہے کہ مَیں نے چالیس سال تک ان کو جنگلوں میں بھٹکتے چھوڑ دیا، ان کوکچھ نہیں ملا۔
اللہ کے وعدے تو پورے ہوں گے اور ان کو اگر ہم نے اسی وقت میں پورا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہوا ہےتو ہمیں اپنے عمل بھی اور اپنی عبادتوں کو بھی اس معیارتک لے جانا پڑے گا کہ جو اللہ تعالیٰ چاہتاہے اور اگر نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کوئی نئی قوم پیدا کر دے گا، لیکن وعدے تو اللہ تعالیٰ کے کسی وقت پورے ہو جائیں گے۔ اگر کوشش یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں ہوں اور ہم زیادہ سے زیادہ ترقی دیکھیں تو ہمیں اپنے عمل اچھے کرنے چاہئیں، نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے حالات پیدا کرے گا کہ کوئی نہ کوئی بادشاہ، کوئی نہ کوئی حالات ایسے پیدا ہوں گے کہ کوئی قوم ایسی پیدا ہو جائے گی کہ جو زیادہ عمل کرنے والی ہو گی اور اس کے زمانے میں پھر احمدیت پھیلے گی۔اگر ہم نے حصّہ لینا ہے تو ہمیں اپنے آپ کو ٹھیک کرنا پڑنا ہے، اگر ہم نے حصّہ نہیں لینا تو پھر دوسرے لوگ حصّہ لے جائیں گے۔(الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍اپریل ۲۰۲۵ء)
عیسائی پادریوں کی قرآن دانی کے لیے مساعی
عیسائی پادریوں نے صرف اسلام مخالفت میں ہی سہی لیکن قرآن کی اصل تعلیم اور پیغام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کو سیکھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی فقراء و شیوخ کو غیرت دلاتے ہوئے عیسائی پادریوں کی مثال پیش فرمائی اور قرآن دانی پر زور دیا۔ فرمایا کہ ’’میں نے باتفاق رائے دوست ممدوح کے یہی قرین مصلحت سمجھا کہ ایک مستقل خط ایسے فقراء کی طرف لکھا جائے جو شرع اور دین متین سے دور جا پڑے ہیں اور میرا ارادہ تھا کہ یہ خط اردو میں لکھوں لیکن رات کو بعض اشارات الہامی سے ایسا معلوم ہوا کہ یہ خط عربی میں لکھنا چاہئے اور یہ بھی الہام ہوا کہ ان لوگوں پر اثر بہت کم پڑے گا ہاں اتمام حجت ہوگا اور شاید عربی میں خط لکھنے کی یہ مصلحت ہو کہ جو لوگ فقر اور تصوف کا دعویٰ رکھتے ہیں اور بباعث شدّت حجب غفلت اور عدم تعلقات محبت دین کے انہوں نے قرآن خوانی اور عربی دانی کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ وہ اپنے دعویٰ میں کاذب ہیں اور خطاب کے لائق نہیں کیونکہ اگر ان کو اللہ جلّ شانہٗ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتی تو وہ ضرور جدوجہد سے وہ زبان حاصل کرتے جس میں خدا تعالیٰ کا پیارا اور پرحکمت کلام نازل ہوا ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی اُن پر رحمت سے نظر ہوتی تو ضرور ان کو اپنا پاک کلام سمجھنے کے لیے توفیق عطا کرتا اور اگر ان کو قرآن کریم سے سچا تعشق ہوتا تو وہ سجادہ نشینی کی خانقاہوں کو آگ لگاتے اور بیعت کرنے والوں سے بہ ہزار دل بیزار ہو جاتے اور سب سے اوّل علم قرآن کریم حاصل کرتے اور وہ زبان سیکھتے جس میں قرآن کریم نازل ہوا ہے سو ان کے ناقص الدین اور منافق ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی وہ قدر نہیں کی کہ جو کرنی چاہئے تھی اور اس سے وہ محبت نہیں لگائی جو لگانی چاہئے تھی پس ان کا کھوٹ ظاہر ہوگیا دیکھنا چاہئے کہ بہت سے انگریز پادری ایسے ہیں جنہوں نے مخالفت کے جوش سے پچاس پچاس برس کے ہو کر عربی زبان کو سیکھا ہے اور قرآن کریم کے معانی پر اطلاع پائی ہے۔ پھر جس شخص کو قرآن کریم کی محبت کا دعویٰ ہے بلکہ اپنے تئیں پیر اور شیخ کہلواتا ہے۔ اس میں اگر محبوں کے آثار نہ پائے جائیں اور بکلّی قرآن کریم کے معانی اور حقائق سے بے نصیب ہو تو یہی ایک دلیل اس بات پر کافی ہے کہ وہ اپنے دعویٰ فقر میں مکّار ہے۔ ہریک عاشق صادق اپنے معشوق کی زبان کو سیکھ لینے کا شوق رکھتا ہے پھر جس شخص کو محبت الٰہی کا دعویٰ ہے لیکن کلام الٰہی کے جاننے سے لاپروائی ہے وہ ہرگز محب صادق نہیں ہے۔ یا یوں کہو کہ اس کی حالت دو شق سے خالی نہیں یا تو اس نے عمدًا قرآن کریم کے معانی جاننے اور قرآنی زبان سیکھنے سے اعراض کیا ہے تو اس شق کا حال تو ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ یہ سرد مہری اہل اللہ کے مناسب حال نہیں۔ اہل اللہ کو قرآن سے بہت عشق ہوتا ہے۔ اور عاشق کو اپنے معشوق سے ہرگز صبر نہیں ہوتا۔ اور ببرکت تعشّق کامل قرآنی زبان کا جاننا ان پر آسان ہو جاتا ہے اور جو تحصیل علم کی راہیں دوسروں پر شاق ہوتی ہیں وہ ان پر آسان ہو جاتی ہیں۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۳۶۰۔۳۶۱)
پس ایسا مذہب جسے خدا تعالیٰ نے عالمی مذہب قرار نہیں دیا۔ وہ اپنی قوم میں بھی تختہ مشق بنے رہے۔ تین سو سال تک زیر زمین اپنے مذہب پر عمل کرتے رہے۔ پھر جب انہیں غلبہ نصیب ہوا اور انہوں نے اسے عالمی مذہب بنانے کی ٹھانی تو اس کی عالمی اشاعت میں کامیاب بھی ہوئے۔ وہ شمال میں ترقی یافتہ ممالک میں بھی کامیاب ہوئے اور جنوب میں افریقہ کے جنگلوں میں بھی کامیاب ہوئے۔ مغرب میں نودریافت شدہ بّراعظم سرزمینِ امریکہ کو بھی عیسائی بنا لیا اورمشرق میں ہندوستان کو بھی زیر کرلیا۔
لیکن یہ سب کچھ انہیں طشتری میں پڑا نہیں ملا۔ جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ تین سو سال تک انہوں نے ظلم سہا، پھر افریقہ میں وحشی انہیں بھون کر کھا گئے تاہم پھر بھی اُن کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ تو یہ ہے وہ جذبہ جو مسیحِ محمدی کے مبلغین کے لیے کم سے کم معیار ہے۔ اور یہاں مبلغین سے مراد صرف جامعات احمدیہ سے فارغ التحصیل مبلغین نہیں بلکہ ہر احمدی کے لیے ہے کیونکہ ہر احمدی مبلغ ہے۔
محموؔد کرکے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار
روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں
٭…٭…٭
پہلی قسط: عیسائیت کی ترویج میں عیسائی مبلغین کا مثالی کردار(قسط اول)




