جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں بعض ہدایات
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۱۸؍دسمبر۱۹۲۵ء)
۱۹۲۵ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نےجلسہ سالانہ کی اغراض و مقاصد اور اس جلسہ کی ترقی بطور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے اس خطبہ میں سےایک انتخاب شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
ہمارے جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے یہ خبر پا کر پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ یہ ہر لحظہ ترقی کرتا چلا جائے گا۔ اور ہر سال اس میں آنے والوں کی تعداد میں زیادتی ہوتی رہے گی۔ عرسوں میں اگر کوئی ترقی ہوئی تو وہ اتفاقی طور پر ہوئی۔ مگر ہمارے جلسہ کو جو ترقی ہو رہی ہے وہ بطور پیش گوئی کے ہے
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
چند ہی دنوں میں ایک اور نشان ظاہر ہونے والا ہے اور دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک اور نشان دیکھنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اس نشان کے ذریعے بھی لوگوں کی آنکھوں کو کھولے اور یہ نشان ایک ہفتہ تک ان شاءاللہ ظاہر ہوگا۔ یہ
قادیان کا وہ سالانہ اجتماع ہے جسے جلسہ سالانہ کہا جاتا ہے اور جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود رکھی اور جس کے متعلق آپ کی پیش گوئی ہے کہ یہ ترقی کرے گا اور کثرت سے لوگ اس میں شامل ہوا کریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس اجتماع کے متعلق بطور خبر فرمایا تھا
زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے
پس یہ وہ اجتماع ہے جس سے قادیان کی زمین پر اس کثرت سے لوگ آئیں گے جس کثرت سے مکہ مکرمہ آتے ہیں۔ اور یہ کہ ہرسال کثرت سے لوگ آیا کریں گے۔ چنانچہ
ہم ہر سال دیکھ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ بتائی ہوئی خبر جو بطور پیش گوئی ہے ہر لحظہ بڑی صفائی سے پوری ہورہی ہے اور آئندہ بھی پوری ہوتی رہے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت بڑی سے بڑی تعداد جلسے پر آنے والوں کی سات سو ہوئی تھی لیکن اب جس کثرت سے لوگ اس موقع پر آتے ہیں اس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ درحقیقت یہ اس زمانہ کے لیے خبر تھی۔ اور ایک پیش گوئی تھی جسے پورا ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے اور اگر یہ خبر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے کے متعلق دی۔ خدا کی طرف سے نہ ہوتی تو ضرور تھا کہ بانیٔ سلسلہ کے بعد اس میں ضعف پیدا ہو جاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسی بات پیدا نہیں ہو رہی۔ جو کمی پر دلالت کرے۔ بلکہ اس میں ہر لحظہ ترقی ہو رہی ہے۔ جو بتاتی ہے کہ یہ خبر خدا کی طرف سے تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی خدا کی طرف سے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آخری جلسہ میں جس کے بعد آپؑ فوت ہو گئے جلسہ پر آنے والوں کی تعداد سات سو تھی۔ لیکن اب خدا کے فضل سے بارہ تیرہ ہزار تک آدمی آتے ہیں۔ بلکہ بعض وقت تو ان کی تعداد چودہ ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ جو اس تعداد سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں تھی دس گنا سے بھی زیادہ ہے۔ کیا اس قدر ہجوم کو دیکھ کر جو صرف خدا کی خاطر یہاں آتا ہے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ قادیان میں حرم کی طرح ہجوم کے متعلق جو پیش گوئی ہے۔ وہ پوری نہیں ہو رہی۔
ایک شخص واقعات سے منہ پھیر کر اور آنکھیں بند کر کے یہ کہہ دے کہ جلسہ پر آنے والوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا تو الگ بات ہے۔ ورنہ یہ واقعات ایسے کُھلے کُھلے ہیں کہ کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش از وقت اس جلسہ کے متعلق خبر دی کہ اس میں کثرت سے لوگ آیا کریں گے اور سب دیکھتے ہیں کہ ہر سال آنے والوں میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس سے ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیش گوئی ہر سال ہمارے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے پوری ہوتی ہے۔ اور ہر سال اپنی صداقت کا پھل دیتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیش گوئی کی مثال جو ہر سال پوری ہو کر پھل دے رہی ہے اس شخص کی طرح ہے۔ جو بہت بوڑھا تھا مگر درخت لگا رہا تھا۔ درخت لگاتے ہوئے اسے ایک بادشاہ نے دیکھا اور اسے کہا درخت پر تو کئی سال کے بعد پھل آتا ہے اور تم بوڑھے ہو اس کا پھل تو تم نہیں کھا سکو گے۔ پھر اسے کیوں بوتے ہو۔ کم از کم یہ دس،پندرہ سال کے بعد پھل لانے کے قابل ہوگا اور اس وقت شاید تم قبر میں ہوگے۔ بوڑھے باغبان نے جواب دیا بادشاہ سلامت ہمارے بڑوں نے درخت لگائے تو ہم نے پھل کھائے اب ہم لگاتے ہیں تا ہماری اولاد پھل کھائے۔ ہمارے باپ دادا اگر یہ خیال کر کے کہ ہم کو پھل کھانا نصیب نہ ہوگا درخت نہ لگاتے تو پھر ہم ان کا پھل کس طرح کھا سکتے۔ اسی طرح ہم بھی آنے والی نسل کے لیے لگاتے ہیں۔ بادشاہ کو یہ بات بہت پسند آئی۔ اس نے کہا ’’کیا خوب‘‘ اور اس کا حکم تھا کہ جب وہ کسی بات پر کہے ’’کیا خوب‘‘ تو وزیر چار ہزار درہم کی ایک تھیلی اس شخص کو دے جس کی بات پر بادشاہ ایسا کہے۔ چنانچہ بوڑھے کی اس بات پر وزیر نے چار ہزار درہم کی تھیلی اس کو دے دی۔ اس پر بوڑھے نے پھر کہا۔ اے بادشاہ آپ کہتے تھے تمہیں اس درخت کا پھل کھانا نصیب نہیں ہوگا مگر دیکھیے لوگوں کو تو درخت لگا کر پھل کے لیے کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے مگر میرے درخت نے لگاتے لگاتے پھل دے دیا ہے۔ اس پر پھر بادشاہ نے کہا ’’کیا خوب‘‘ اور وزیر نے ایک اور تھیلی چار ہزار درہم کی نکال کر اس کو دے دی۔ پھر اس نے کہا بادشاہ سلامت اور درخت تو سال میں ایک دفعہ پھل لاتے ہیں مگر میرا درخت لگاتے ساتھ ہی دو دفعہ پھل لایا۔ اس پر پھر بادشاہ نے کہا ’’کیا خوب‘‘ اور وزیر نے ایک اور تھیلی اسے دے دی۔ اس پر بادشاہ نے کہا کہ چلو۔ نہیں تو یہ بوڑھا اپنی باتوں سے ہمیں لوٹ لے گا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو درخت لگایا اسے بھی اسی قسم کی بلکہ اس سے بڑھ چڑھ کر برکت ملی۔ اس کا درخت تو دو یا تین بار پھل لا کر رہ گیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لگایا ہوا درخت ہر سال پھل لا رہا ہے اور کثرت سے لا رہا ہے۔ پس جن لوگوں کے دلوں کی آنکھیں اس بادشاہ کی طرح کھلی ہیں وہ جانیں گے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔ ورنہ نادان تو ان باتوں سے آنکھیں بند کر کے چلا جاتا ہے۔
دنیا میں کئی عرس ہوتے ہیں بڑے بڑے بزرگوں کی قبروں پر عرس اور میلے لگتے ہیں۔ ان میں لوگ کثرت سے جاتے ہیں۔ مگر یہ عرس اور یہ میلے اس قسم کے دینی اجتماع کے برابر نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ ہمارا جلسہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ ان عرسوں اور میلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائم کردہ اجتماع سے کوئی نسبت نہیں۔ کیونکہ ان عرسوں کے متعلق کسی نے پہلے نہیں کہا کہ ان میں اس قسم کی ترقی ہوگی۔ لیکن
ہمارے جلسہ سالانہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے ہی سے بتا دیا تھا کہ دینی اغراض کے لیے قادیان میں اس موقع پر اس کثرت سے لوگ آیا کریں گے کہ ان کے اس ہجوم سے جو صرف دین کی خاطر ہوگا قادیان کی زمین ارضِ حرم کا نام پائے گی۔
دیکھو وہ شخص جو شیکسپیئر کے کلام کی مقبولیت کو دیکھ کر اسے قرآن کریم کے بالمقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرے وہ بھی نادان ہوگا۔ بے شک شیکسپیئر کو علمِ کلام میں جو درجہ حاصل ہے وہ کسی کو نہیں۔ علم ادب میں وہ اس حد تک ترقی کر گیا تھا کہ اس کی نقل کو بھی اب امر موہوم خیال کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص اس کی نقل کی کوشش کرے تو اسے مجنون کہتے ہیں لیکن باوجود اس کے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شیکسپیئر کا کلام قرآن کریم کے برابر ہے یا شیکسپیئر خود آنحضرت ﷺ جیسا درجہ رکھتا ہے۔ جس طرح عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کریم کی مثل نہیں لا سکتے۔ اسی طرح انگریزوں نے بھی مانا ہے کہ شیکسپیئر کے کلام کی کوئی مثل نہیں لا سکتا مگر کیا اس سے وہ آنحضرت ﷺ کے برابر ہو گیا، ہرگز نہیں کیوں؟ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ نے جب اس کلام کو پیش کیا تو ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ وہ کلام ہے جس کی کوئی نظیر نہیں لا سکے گا اور نہ ہی اس کی کوئی مثل لاسکتا ہے۔
لیکن شیکسپیئر نے یہ نہیں کہا اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے کلام میں اس قسم کی خوبیاں ہیں کہ اس قدر مقبول ہوگا۔ بلکہ اسے تو خوف رہتا تھا کہ میرا کلام شاید قبول بھی ہو یا نہ۔ پس شیکسپیئر کا کمال اتفاقی تھا مگر آنحضرت ﷺ کا دعویٰ تحدی کے ساتھ تھا۔ شیکسپیئر کے کلام کی قدر اس کے بعد ہوئی اور اس کے بعد ہی یہ کہا گیا کہ اس کی نقل کرنا امر موہوم ہے یا جنون۔ لیکن آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہی لوگ باوجود ادیب ہونے اور اس بات کی کوشش کرنے کے کہ اس کی مثل اور نظیر لائیں اس کی مثل اور نظیر نہ لا سکے۔ اسی طرح ہمارے اس جلسہ کا حال ہے۔ دوسرے عرسوں کے متعلق کسی نے پہلے اس قسم کی کوئی خبر نہیں دی کہ یہ ترقی کریں گے لیکن
ہمارے جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا سے خبر پا کر پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ یہ ہر لحظہ ترقی کرتا چلاجائے گا اور ہر سال اس میں آنے والوں کی تعداد میں زیادتی ہوتی رہے گی۔ عرسوں میں اگر کوئی ترقی ہوئی تو وہ اتفاقی طور پر ہوئی۔ مگر ہمارے جلسہ کو جو ترقی ہو رہی ہے۔ وہ بطور پیش گوئی کے ہے۔
پس عرسوں کے ساتھ اس کی کوئی مناسبت نہیں۔
اسی طرح اگر چار، پانچ شخص اکٹھے دوڑیں تو ان دوڑنے والوں میں سے کوئی نہ کوئی تو آگے نکلے گا۔ بے شک ان دوڑنے والوں میں سے آگے نکل جانے والے کا کمال ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے پہلے ہی معلوم تھا کہ میں آگے نکل جاؤں گا اور اس نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایسا ہوگا۔ ہاں اگر کوئی لولا یا لنگڑا یہ کہے کہ آؤ میرے ساتھ دوڑو۔ تم میں سے کوئی نہیں جو مجھ سے آگے نکل جائے اور فی الواقعہ اس دوڑ کا نتیجہ یہی ہو کہ اس سے کوئی آگے نہ نکل سکے تو اسے معجزہ قرار دینا پڑے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ایک نشان ہے۔ ایسا ہی کسی زبان کے مصنفوں میں سے اگر کوئی مصنف سب سے بڑھ جائے تو بےشک یہ اس کا کمال ہوگا لیکن اس کے کمال کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا جو ایک کلام کے متعلق پہلے ہی کہہ دے کہ کوئی شخص اس کی نظیر نہیں لا سکتا اور فی الواقعہ اگر کوئی اس کی نظیر نہ لا سکے تو وہ معجزہ ہو جائے گا۔ یہی حال قرآن کریم کی تحدی کا ہے۔ قرآن کریم نے پہلے کہہ دیا کہ میری کوئی نظیر نہیں لا سکتا اور آنحضرت ﷺ نے جب اسے پیش کیا تو ساتھ ہی فرما دیا کہ اس کلام کی کوئی مثل نہیں لا سکے گا اور ایسا ہی ہوا اس وجہ سے یہ ایک معجزہ ہے لیکن شیکسپیئر یا کسی اور مصنف کے کلام کو یہ درجہ حاصل نہیں۔ شیکسپیئر نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میرے کلام کی کوئی مثل اور نظیر نہیں لا سکے گا بلکہ اسے تو پتہ ہی نہ تھا کہ اس کا کلام مقبول بھی ہوگا یا نہیں۔ اسی طرح عام میلے اور عرس جو بعض بزرگوں کی جگہوں پر ہوتے ہیں یا اور جلسے ان کے متعلق کسی قسم کی کوئی خبر پہلے نہیں دی گئی اور کوئی ایسی پیشگوئی ان کے متعلق کسی کی طرف سے نہیں کی گئی کہ یہ ترقی کریں گے لیکن ہمارے جلسہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیش گوئیاں ہیں کہ یہ ترقی کرے گا اور اس میں اس کثرت سے لوگ جمع ہوں گے۔
جس طرح کہ مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں۔ جس طرح وہاں جمع ہونے والوں کی غرض دین ہوتی ہے۔ اسی طرح یہاں آنے والوں کی غرض بھی محض دین ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جس سے ہر سال ایمان تازہ ہوتا ہے۔
یہ اس لیے نشان ہے کہ اس کے ترقی کرنے کے متعلق پہلے ہی سے اطلاع دی گئی تھی۔ اسی طرح
قادیان کی ہر وہ چیز جو سلسلہ احمدیہ سے متعلق ہے نشان ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے بتا دیا تھا کہ قادیان ترقی کرے گا اور بڑھے گا۔ پس یہاں کی ہر ایک چیز اور ہر ایک آدمی اک نشان ہے۔ قادیان میں جو لوگ مکان بناتے ہیں وہ بھی نشان ہیں کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیش گوئی کے پورا ہونے میں حصہ لیتے ہیں۔
پس میں ان لوگوں سے جنہیں قادیان میں مکان بنانے کی توفیق خدا تعالیٰ نے دی ہے کہتا ہوں۔ کہ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے مکانات کو حقیقی نشان بنانے کی کوشش کریں اور وہ اس طرح کہ دینی ضروریات کے لیے جس قدر حصہ دے سکتے ہوں دیں۔ یوں تو قادیان میں ہندو بھی مکان بناتے ہیں۔ سکھ بھی بناتے ہیں۔ غیر احمدی بھی بناتے ہیں۔ مگر ان کے مکان اس پیش گوئی کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کے متعلق فرمائی ہیں۔ کیونکہ وہ سلسلہ کے کام نہیں آتے بلکہ ان میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی جاتی ہے۔ پس
حقیقی طور پر اس پیش گوئی کے مصداق وہی مکان ہو سکتے ہیں جن میں آپ کی تصدیق ہو اور آپ کے اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کیے جا سکیں اور سالانہ جلسہ ایک موقع ہے
جس میں مکان بنانے والے اصحاب اچھی طرح اس نشان اور پیش گوئی کے مصداق اپنے مکانوں کو بنا سکتے ہیں۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کے لیے کی۔ پس میں تمام ایسے احمدیوں کو جنہیں قادیان میں مکان بنانے کی خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہتا ہوں کہ وہ جس قدر بھی حصہ اپنے مکانوں سے مہمانوں کے لیے دے سکتے ہوں۔ کارکنان کو دے دیں تاکہ وہ مہمانوں کو ان میں ٹھہرائیں۔ اس طرح وہ اس پیش گوئی کو خود بھی پورا کرنے والے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی۔ پس دوستوں کو چاہیے کہ جس قدر حصہ مکان وہ فارغ کر سکتے ہیں کر دیں اور اس کی اطلاع کارکنان کو جلد سے جلد دے دیں۔…
پھر میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ علاوہ ان باتوں کے وہ آنے والوں کے ساتھ اخلاق اور محبت سے پیش آئیں گے۔ کیونکہ میزبانی خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ خدا کی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایمان کے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ …
چونکہ مہمان نوازی کمالات نبوت کا ایک حصہ ہے بلکہ خدا کی شانوں میں سے ایک شان ہے۔ اس لیے اگر اس کو ادا کرتے ہوئے کوئی تکلیف بھی ہو یا بظاہر کوئی ہتک بھی ہو تو بھی اس میں کمی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہاں آنے والے صرف مہمان ہی نہیں۔ بلکہ شعائر اللہ بھی ہیں۔
اور وَمَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ۔ (الحج:۳۳ ) کےماتحت شعائر اللہ کا اعزاز و اکرام کرنا اس بات کے ہم معنی ہے کہ ہمارے دلوں میں تقویٰ ہے۔ پس ایک مہمان ایک میزبان کے تقویٰ کے اظہار اور امتحان کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ آنے والوں کی ہر طرح خدمت کی جائے گی۔
دیکھو کیا یہاں کوئی سیر کی جگہ ہے۔ جس کی خاطر لوگ یہاں آتے ہیں۔ یا یہاں کوئی قابل دید مقامات ہیں۔ جن کو دیکھنے کے لیے لوگ آتے ہیں۔ کیا یہاں کوئی منڈی ہے کہ خریدو فروخت کے لیے یہاں آتے ہیں۔ کیا یہاں کوئی بادشاہ ہے کہ لوگ اس لیے آتے ہیں کہ اگر اس کی نظر میں جچ گئے تو اچھی اچھی نوکریاں مل جائیں گی۔ کیا یہاں کوئی اور دنیاوی چیز ہے۔ جس کی خاطر لوگ یہاں چلے آتے ہیں کون سی دنیاوی کشش ہے جو لوگوں کو یہاں کھینچ رہی ہے ایک بھی نہیں۔ پھر لوگ کیوں یہاں آتے ہیں۔ ان کے آنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ کوئی دنیاوی نہیں بلکہ دینی غرض ہے اور وہ یہ کہ خدا کے نبی نے کہا کہ یہاں تم آؤ تا تمہیں روحانی غذا ملے اور خدا نے اسے کہا کہ تم دن مقرر کرو کہ لوگ سفروں کو طے کر کے یہاں جمع ہوں۔
پس قادیان میں لوگ صرف اسی ایک غرض کے لیے آتے ہیں۔ اور صرف اسی روحانی غذا کی خواہش ان کو یہاں لاتی ہے۔
پس ہمارا جلسہ شعائراللہ ہے بلکہ ہر آنے والا شعائر اللہ ہے اور وَمَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ کے مطابق جو اللہ تعالیٰ کے نشانوں کی عظمت کرتا ہے۔ وہ اپنے تقویٰ کا ثبوت دیتا ہے۔ شعائر اللہ کی عزت اور قدر نہایت ضروری ہے۔ اور سالانہ جلسہ کا موقع ہم میں سے ہر ایک کے تقویٰ کے امتحان کا وقت ہے۔ بس ہمیں چاہیے کہ ہم اس امتحان میں پورے اتریں۔ ہم میں سے ہر ایک کے دل میں مہمانوں کی عزت کے لیے وسعت پیدا ہونی چاہیے۔ اور اگر برخلاف اس کے انقباض پیدا ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ تقویٰ کی کمی ہے۔ ہاں اگر ایسے موقع پر بشاشت پیدا ہو تو سمجھ لو کہ تقویٰ ہے۔
( الفضل ۲۵؍دسمبر ۱۹۲۵ء )
مزید پڑھیں: حضرت مسیح موعودؑ اور قیام توحید(قسط دوم۔ آخری)




