حضور انور کے ساتھ ملاقات

مجلس خدام الاحمدیہ و مجلس اطفال الاحمدیہ اٹلی کے ایک وفد کی ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ و مجلس اطفال الاحمدیہ اٹلی کے ایک وفد کی ملاقات

[خلیفۂ وقت کی ]نقل کرنے میں تو کوئی ہرج نہیں ہے، لیکن نیّت یہ ہونی چاہیے کہ مَیں نقل اس لیے کررہا ہوں تاکہ مَیں پھر اپنے آپ کو ان باتوں کو بھی ماننے والا بھی بنوں جو مجھے کہی جاتی ہیں۔ …

نقل کرنی ہے تو پھر ان مقاصد کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کروجس مقصد کے لیے خلافت قائم کی گئی ہے اور جن باتوں کےلیے خلیفۂ وقت تمہیں بلاتا ہے

مورخہ ۱۴؍ دسمبر ۲۰۲۵ء ، بروزاتوار، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ و مجلس اطفال الاحمدیہ اٹلی کے بیس(۲۰) رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےاٹلی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔

ملاقات کے آغاز میں تمام شاملین مجلس کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع ملا۔

بعد ازاں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کوحضور انور کی خدمت میں متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

ایک طفل نے اطالوی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے حضور ِ انورسے دریافت کیا کہ جانور کیوں پیدا کیے گئے؟

اس سوال کا جواب دینے سے قبل حضورِ انور نے ایک غلط فہمی کا ازالہ فرمایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں [آئی پیڈ]سے شاید مجھے کوئی جواب سکھا رہا ہوتا ہے اور مَیں دیکھ رہا ہوتا ہوں۔جواب نہیں آتے،بلکہ میرے سامنے جو سکرین ہے، اس میں سوال آ جاتے ہیں اور جن سوالوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی ، تو ان کے لیے مَیں یہاں دیکھتا ہوں۔اب مَیں یہاں سے تمہاراسوال دیکھ رہا ہوں، اُردو میں آیا ہے، لکھا ہوا کہ جب دنیا میں انسان ہیں، تو اللہ نے باقی جانور کیوں پیدا کیے؟

بعدازاں حضورِ انور نے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں الله تعالیٰ کی حاکمیت اور قدرت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے مقصدِ تخلیق کو اُجاگر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھانی تھی۔ وہ فرماتا ہے کہ ہر چیز جو مَیں نے پیدا کی ہے، وہ بغیر وجہ کے پیدا نہیں کی اور ہر چیز کا ایک مقصد ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، جو سب جاندار ہیں، تو ان سے اُونچا بنایا۔ اس لیے ایک محاورہ ہے، کہتے ہیں کہ انسان سوشلanimal ہے، وہ بھی جانوروں میں سے ہی ہے، لیکن سوشلanimal اور پڑھا لکھا۔

حضورِ انور نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں دیگر مخلوقات کے انسانی فائدے کے لیے تخلیق کیے جانے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ باقی جو مخلوق بنائی وہ انسان کے فائدے کے لیے بنائی ۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے تمہارے لیے سواریاں بنائیں، جانور بنائے ، تم ان سے کھاتے بھی ہو اَور ان پر سواری بھی کرتے ہو۔ قرآنِ شریف میں یہ لکھا ہے اور ان سے فائدہ بھی اُٹھاتے ہو۔ پھر بہت سارے جانور تمہارے علاج کے لیے پیدا کیے ہیں۔ مثلاً سانپ ہے، سانپ کے اُوپر جو ایک skin ہوتی ہے ، وہ ہر دفعہ changeکر دیتا ہے۔ حضورِ انور نے اپنے دستِ مبارک سے نشاندہی کرتے ہوئے سمجھایا کہ کہتے ہیں کہ اس کی جو layer ہوتی ہے،وہ یوں گزر کے اس میں سےنکال دیتا ہے۔ وہ آنکھوں اور نظر کے کام آتی ہے، انسان کے لیے اچھی ہوتی ہے ، پھر اس میں سے بہت ساری دوائیاں بھی بنتی ہیں۔ اسی طرح بہت ساری دوائیاں سانپ سے ہومیوپیتھک میں بنتی ہیں، اوربعض زہر ہیں ان سے انسان کی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔

جواب کے آخر میں حضورِ انور نے کائنات کے انسان کے لیے مسخّر کیے جانے کے ضمن میں الله تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر چیز سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ اسی طرح اور بہت ساری چیزیں الله تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نےہر چیز اورجو مخلو ق پیدا کی ہے، وہ تمہارے فائدے کے لیے ہے۔ جانور بھی ،درخت بھی، پہاڑ بھی، پتھر بھی، جو چیز بھی الله تعالیٰ نے دنیا میں بنائی، وہ تمہارے فائدے کےلیے بنائی ہے۔ اس لیےتمہیں خوش ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز بنا کے، ہر چیز کو تمہارا نوکر بنا دیا ، تم اَن سے فائدہ اُٹھاؤ۔

ایک خادم نے دریافت کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے قریب کیسے ہو سکتے ہیں اور خلیفۂ وقت کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیسے بن سکتے ہیں؟

اس پر حضورِ انور نے قُربِ الٰہی کے حصول کے لیے احکامِ الٰہی کی بجاآوری اور عبادت کے ذریعےشکرگزاری کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی باتیں مانو۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میری باتیں مانو تو تم میرے قریب آ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نے تمہیں پیدا کیا ہے، تم میرے شکر گزار بندے بنو اور شکر گزاری کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے یہ سکھایا کہ تم میری عبادت کرو اورمیرا شکر ادا کرو۔

حضورِ انور نے یاد دلایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتنے احسان کیے ہیں ، تو اس کے لیے اللہ کہتا ہے کہ کم از کم پانچ وقت میرے پاس آ کے دعا کیا کرو اور شکر کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انسان بنایا، ہمیں گدھا بِلّا نہیں بنا دیا ۔ شکر کرو کہ اشرف المخلوقات ، سب سے اچھی مخلوق بنا دیا، اس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنیں گے اور اس کے حکموں پر عمل کریں گے، جو اُس نے ہمیں باتیں عمل کرنے، عبادت کرنے، لوگوں کا خیال رکھنے ، غریبوں کا خیال رکھنے اور اچھے اخلاق دکھانے کا کہا ہے، تو پھر ہم اللہ کے قریب ہو جاتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے۔ اور جب یہ چیزیں آپ میں بطورایک اچھے احمدی پیدا ہوں گی تو خلیفۂ وقت آپ سے خوش ہو گا۔

جواب کے آخر میں حضورِ انور نے خلیفۂ وقت کی خوشنودی کے لیے خدا تعالیٰ، اُس کے رسولؐ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کامل پیروی اختیار کرتے ہوئے ایک اچھے احمدی مسلمان بننے کی تلقین فرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس لیے آئے تھے کہ ایک انقلاب پیدا کریں۔ آپؑ نے یہی فرمایا ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ میں انقلاب پیدا کیا، وہ لوگ جو جنگلی آدمی تھے، جن کو اخلاق بھی نہیں آتے تھے، کچھ بھی نہیں آتا تھا ، ان کو انسان بنایا، پھر ان کو بااخلاق انسان بنایا اور اچھے اخلاق انہیں سکھائے، پھر تعلیم یافتہ انسان بنایا تاکہ وہ آگے تعلیم بھی پھیلائیں۔اسی طرح حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں کہ اب مسلمان کیونکہ یہ ساری باتیں بھول چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مسیح موعود کو اس زمانے میں بھیجنا تھا ، تو پھر اس نے مجھے بھیجا ہے اور مَیں نے یہ جماعت قائم کی ہے۔ اب ہم اگر اچھے مسلمان بن جائیں گے ، قرآن کریم کی باتوں پر عمل کریں گے، اللہ کی باتوں پر عمل کریں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر عمل کریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچانے کےلیے، جس مشن کو لے کےمسیح موعودؑ آئے تھے ، اس پر عمل کریں گے اور اس کے بعد جو خلافت کا نظام شروع ہوا ہے، خلافت نے بھی وہی کام کرنا ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے بتایا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہے۔ جب وہ بتائیں گے، تو پھر خلیفۂ وقت آپ سے خوش ہو جائے گا، اسی کو آنکھوں کی ٹھنڈک کہتے ہیں۔ آنکھوں کی ٹھنڈک کیا ہے؟ یہی ہے کہ اچھا راضی خوش کرنا، تو خلیفۂ وقت خوش اسی وقت ہوگا، جب آپ اچھے احمدی مسلمان بن جاؤ گے۔

ایک شریکِ مجلس نے سوال کیا کہ اگر ہستیٔ باری تعالیٰ کا شعور انسانی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے، تو بعض افراد میں اس کے برعکس خیالات یا شکوک و شبہات کیوں جنم لیتے ہیں؟

اِس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض اوقات ایسے خیالات اس لیے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تلاش میں وہ مجاہدہ نہیں کرتے کہ جو ضروری ہے۔ نیز حضور انور نے توجہ دلائی کہ شدید بحران یا بے بسی کے لمحات میں، حتیٰ کہ وہ لوگ جو خود کو دہریہ کہتے ہیں، وہ بھی فطری طور پر کسی بالا قوّت کو پکارتے ہوئے الله جیسے الفاظ کہہ اُٹھتے ہیں۔ یہ بات اس اَمر کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی سرشت میں خالقِ حقیقی کی پہچان مرتسم ہے۔

حضورِ انور نے قرآنِ کریم کی ایک منظر کشی کی روشنی میں بیان فرمایا کہ سمندر کے طوفانی پانیوں میں پھنسے ہوئے لوگ کس طرح اللہ کو یاد کرتے ہیں، مگر جب وہ ساحل پر بحفاظت پہنچ جاتے ہیں، تو اپنی پُرانی عادات کی طرف لوٹ جاتے ہیں یا اللہ کے خلاف باتیں کرنے لگتے ہیں۔ نیز انسانی تعلقات سے اس کیفیت کا موازنہ کرتے ہوئے استفسار فرمایا کہ کیا ضرورت پوری ہونے پر محسن کے احسانات کو بھلا دینا اخلاقی رویّہ تصوّر کیا جائے گا؟ اس ضمن میں حضورِ انور نے واضح فرمایاکہ حقیقی نیک انسان وہ ہے جو آسودگی میں بھی شکر گزار رہتا ہے۔

مزید برآں جواب کے آخر میں حضورِ انور نےتوجہ دلائی کہ اگر انسان ذکرِ الٰہی میں مداومت اختیار کرے اور نماز کو باقاعدگی سے ادا کرے، تو یہ عارضی شکوک و شبہات اور متضاد خیالات یقین اور شکرگزاری میں بدل جائیں گے۔

ایک خادم نے اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی کہ انسان فارغ وقت میں یا رات کو سونے سے پہلے اکثر کبھی اپنے مستقبل اور کبھی مختلف اُلجھنوں کے بارے میں ضرورت سے زیادہ سوچنے لگتا ہے ،اسی حد ّسے زیادہ بڑھتی ہوئی سوچ کا ذہن اور ذہنی صحت پر بُرا اَثر پڑتا ہے اور انسان دباؤ میں آ جاتا ہے۔

اِس پر حضورِ انور نے رات کو سونے سے قبل آیت الکرسی اور تینوں قُل پڑھنے کو ذہنی سکون اور حفاظت کا مؤثر ذریعہ قرار دیتے ہوئے تلقین فرمائی کہ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کو سوتے ہوئے دعائیں پڑھتے رہا کرو۔ سونے سے پہلے دو تین دفعہ آیت الکرسی پڑھا کرو اورپھر اپنے اُوپرپھونکا کرو۔ پھر تینوں قُل پڑھا کرو، اس کے اوپر غور کرو کیونکہ تینوں قُل میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا بھی ذکر ہے، بُرائیوں سے بچنے کا بھی ذکر ہے، شر ّسے بچنے کا بھی ذکر ہے، حاجتوں سے بچنے کا بھی ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بھی ذکر ہے۔ تو یہ ساری باتیں جب سوچتا سوچتا انسان سوئے گا، تو ذہنی اُلجھنیں ختم ہو جائیں گی۔

حضورِ انور نے اِس بات پر زور دیا کہ انسان کو پہلے رات کودعا کرنی چاہیے۔ عشاء کی نماز اللہ تعالیٰ نے اس لیے رکھی ہے کہ اس میں دعا کیا کرو کہ جو میری سارے دن کی اُلجھنیں اور دنیاوی فکریں ہیں، ان کو دُور کر دے اورمیرے لیے آسانیاں پیدا کر۔ اور پھر آرام سے سوؤ۔پھر رات کو جلدی سو جاؤ اور پھر جلدی اُٹھ کے تہجد پڑھو، تو ساری فکریں دُور ہو جائیں گی۔

جواب کے آخر میں حضور انور نے اِس ضروری اَمر کی بھی یاددہانی کروائی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اَلَا بِذِکۡرِاللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ کہ یقیناً جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ہیں، ان کے دل میں اللہ تعالیٰ اطمینان دیتا ہے، تو اللہ کے ذکر کو یاد رکھو۔

ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آپ کی محبّت میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم کسی نہ کسی پہلو سے آپ کی طرح بن جائیں، چاہے وہ لباس کے ذریعے ہو یا اندازِ گفتگو کے ذریعے، مگر کچھ لوگ طعنہ دیتے ہیں کہ گویا ہم خلیفۂ وقت بننے کی کوشش کر رہے ہیں ؟

اِس پرحضور ِانور نےانتہائی شفقت سے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ تمہاری نیّت نیک ہے ؟اثبات میں جواب سماعت فرمانے پر حضورِ انور نے تلقین فرمائی کہ تو بس عمل کرتے رہو۔اسی طرح توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ فلاں آدمی داڑھی پوری نہیں بڑھاتا یا اس طرح کا حلیہ رکھا ہوا ہے، تو حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ جس کو جتنی محبّت ہے،اتنی ہماری نقل کر لے گا۔ تو اس میں بُرائی کوئی نہیں۔

اس حوالے سے حضورِ انور نے ایک خوبصورت عملی مثال بھی پیش فرمائی کہ ایک پُرانے بزرگ حضرت مرزا عبدالحق صاحب ہوتے تھے ، وفات پا گئے ہیں، بہت لمبا عرصہ سرگودھا کے امیر بلکہ صوبائی امیر بھی رہے ہیں۔ وہ ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے تھے اور ۲۰۔۱۹۲۱ء میں انہوں نے حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ کی بیعت کی تھی۔ کہتےتھے کہ جب مَیں نے بیعت کرلی، تو پھر مَیں نے کہا تھا کہ مَیں نے وہ حلیہ رکھنا ہے،جو کہ حضرت مصلح موعودؓ کا حلیہ ہے۔ اس کے بعد کہتے تھےکہ مَیں نے ایک پگڑی اور کوٹ اورجس طرح حضرت مصلح موعودؓ شلوار قمیض پہنتے تھے، مَیں نے وہی لباس رکھا اور آج تک پہنتا ہوں۔ وہ بڑے اچھے وکیل بھی تھے۔لیکن کبھی کورٹ (court) میں بھی جاتے ہوئے وکیلوں کا یونیفارم نہیں پہنتے تھے، بلکہ شاید کوٹ کا رنگ کالا کر لیتے ہوں گے، جو وکیلوں کا ہوتا ہے۔ otherwise وہی ڈریس (dress) انہوں نے ہمیشہ رکھا ، جس طرح کاحضرت مصلح موعود ؓپہنا کرتے تھے۔

جواب کےآخر میں سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں حضورِ انور نے محض ظاہری تقلید کو ناکافی قرار دیتے ہوئے حقیقی تقلید کے ضمن میں قیامِ خلافت کے مقاصد کی تکمیل اور خلیفۂ وقت کے ارشادات پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ نقل کرنے میں تو کوئی ہرج نہیں ہے، لیکن نیّت یہ ہونی چاہیے کہ مَیں نقل اس لیے کررہا ہوں تاکہ مَیں پھر اپنے آپ کو ان باتوں کو بھی ماننے والا بھی بنوں جو مجھے کہی جاتی ہیں۔ صرف نقل کر لینا یا اس طرح بول لینا اور پھر باتوں پر عمل نہ کرنا غلط ہے۔ مثلاًخلیفۂ وقت کہتا ہے کہ تم لوگ پانچ نمازیں وقت پر باقاعدہ پڑھو، اور تم لوگ کہو کہ اچھا پڑھ لیں گے ،دیکھی جائے گی اور حلیہ بنالو، تقریر کرنے لگو ، نقل اُتار کے پڑھو تو یہ غلط ہے۔ نقل کرنی ہے تو پھر ان مقاصد کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کروجس مقصد کے لیے خلافت قائم کی گئی ہے اور جن باتوں کےلیے خلیفۂ وقت تمہیں بلاتا ہے۔ باقی اس میں کوئی ہرج نہیں۔

[قارئین کی معلومات کے لیے عرض کیاجاتا ہے کہ حضرت مرزا عبدالحق صاحب وہ بزرگ ہستی تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ۱۰۶؍سال پر محیط طویل اور فعّال زندگی عطا فرمائی اورآپ تقریباً ۸۴؍سال تک جماعتی خدمات کی خوب توفیق پاتے رہے۔ بڑے صائب الرّائے اور گہراعلمی اور دینی ذوق رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار خلفائے کرام کے زیرِ سایہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور آپ نے ہمیشہ کامل اطاعت اور بھرپورفرمانبرداری سے اپنی مفوّضہ ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ آپ کو ایک اور بہت بڑا اور غیر معمولی اعزاز یہ بھی حاصل تھا کہ ۱۹۲۲ء سے، جب سے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ شوریٰ کا نظام جماعت میں قائم فرمایا تھا، توآپ کو شوریٰ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ ہمارے پیارے آقا و مطاع سیّدناحضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ یکم ستمبر۲۰۰۶ء کو آپ کا تفصیلی ذکرِ خیر فرمایا تھا اور آپؓ کی نمازِ جنازہ غائب بھی پڑھائی تھی۔]

ایک خادم نے سوال کیا کہ آج کل کی تیز زندگی میں دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے جب انسان نماز جلدی جلدی ادا کرتا ہے، تو اس طرح روحانیت میں کمی کو کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے؟

اس پرحضور ِانور نے مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں توجہ دلائی کہ کھانا کھاتے ہوئے تو پورا وقت لگاتے ہو، تو نماز کیوں جلدی جلدی ادا کرتے ہو، جب پتا ہے کہ مَیں غلطی کر رہا ہوں، تو انسان غلطی نہ کرے اور آرام آرام سے نماز ادا کرے۔ یہاں نمازیں پڑھ رہے ہو ، ہم کوئی ویلے تو نہیں، ہم بھی کام کرتے ہیں ۔ مسجد میں آتے ہو، کم از کم اتنا وقت تو لگا لیا کرو ، جتنا آجکل یہاں مسجد میں نماز پڑھتے ہو نہ کہ جلدی جلدی پڑھا کرو۔

[ویلا پنجابی زبان کا ایک لفظ ہے۔ جس کے معنی فارغ ہونے کے ہوتےہیں، یعنی ایسا شخص جس کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہ ہو، کوئی مصروفیت نہ ہو اور کافی وقت دستیاب ہو۔]

حضورِ انور نے نماز کی حقیقی فلاسفی پر روشنی ڈالتے ہوئے تلقین فرمائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز ٹھہر ٹھہر کے پڑھو۔ آنحضرتؐ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ایک مجلس لگی ہوئی تھی، لوگ باتیں کر رہے تھے اور آنحضرتؐ کی باتوں سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ ایک بندہ لیٹ آیا اور اس وقت نماز ہو چکی تھی ۔ اس نے اپنی نماز شروع کر دی۔ نماز پڑھ کے وہ بھی جلدی سے آ کے مجلس میں بیٹھ گیا کہ مَیں بھی آنحضرتؐ کی باتوں سےفائدہ اُٹھا لوں ۔ تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جاؤ اور دوبارہ نماز پڑھو۔ وہ پڑھ کے آیا۔ پھر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ نہیں دوبارہ پڑھو۔ کوئی تین چار دفعہ اسے نماز پڑھا دی۔ تو وہ کہنے لگا کہ حضورؐ !مَیں تو اس سے زیادہ جانتا ہی نہیں، تو نماز کس طرح پڑھوں؟ انہوں نے کہا کہ آرام سے ٹھہر ٹھہر کے پڑھو، درود پڑھو، اللہ کی حمد کرو اور غور کرو اور پھر نماز پڑھو، تو وہ نماز ہوتی ہے، یہ تو ٹکریں ہیں، نماز تو نہیں۔ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ نماز پڑھتے ہیں تو ٹک ٹک کر کے سجدہ کر کے جلدی سے اُٹھ جاتے ہیں ،جس طرح مرغی کو دیکھا ہے کہ دانہ کھاتی ہے اور ٹک ٹک کرتی ہے اور دانہ چُگ رہی ہوتی ہے، اس طرح سجدے کر کے اُٹھ جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کو ایسے سجدوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اسی تناظرمیں حضورِ انور نے خدا تعالیٰ اور دین کے معاملات میں درست ترجیحات کے تعیّن کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ اس لیے جب احساس ہے کہ ہم جلدی کر رہے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اپنے دنیا کے کام کو ہم اللہ سے زیادہ فوقیت دے رہے ہیں ۔ پھر جب اس طرح فوقیت دیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کس طرح برکت ڈالے گا؟ پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو بڑی دعائیں کرتے ہیں، دعائیں کہاں سے کرتے ہیں؟ دعا کا وقت تو تبھی ہوتا ہے کہ جب انسان آزمایا جاتا ہے، جب ایک طرف دنیا کا کام ہے اور ایک طرف دین کا کام ہے۔

مزید برآں حضورِ انور نے دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کے حوالے سے ایک غیر معمولی جرأت ایمانی سے لبریز ایک عملی مثال بھی پیش فرمائی کہ حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحب رضی الله عنہ ملکہ کی مجلس میں بیٹھے تھے اور بے چین ہو رہے تھے اور دربار سے اُٹھنا بھی وہاں کے آداب کے خلاف تھا۔ یوں دائیں بائیں انہوں نے دیکھا، ملکہ نے، انتظامیہ نے سوال کیا ، توانہوں نے کہا کہ میری نماز کا وقت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ،آپ جائیں نماز پڑھ لیں اورآپؓ جا کے آرام سے نماز پڑھ کے آئے۔ تو انہوں نے دنیا داری کی پروا نہیں کی۔ اس کے بعد سے ان کا یہاں جو بھی پروٹوکول دنیاوی درباروں اور بادشاہوں کا تھا، وہاں ان کے لیے مقرر کیا گیا تھا کہ یہ جب بھی آئیں، ان کےاگر نماز کاوقت ہو، تو نماز کے لیے ان کا خیال رکھا جائے۔ تو پھر دنیا بھی عزت کرتی ہے۔ تویہ مثالیں اس لیے ہمارے سامنے ہیں کہ ہم بھی احتیاط کریں۔

[قارئین کی معلومات کے لیے بطورِ تحدیثِ نعمت اس جلیل القدر ہستی کا مختصر تعارف بھی درج کیا جاتا ہے کہ حضرت چودھری سر محمدظفر الله خان صاحبؓ مورخہ۶؍ فروری ۱۸۹۳ء کو پیدا ہوئے اور مورخہ یکم؍ستمبر۱۹۸۵ء کو ۹۲؍ سال کی عمر میں لاہور میں وفات پائی۔ آپؓ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کی اندرونی چاردیواری کے اندر واقع احاطۂ خاص میں عمل میں آئی۔ آپؓ کومورخہ ۱۶؍ستمبر۱۹۰۷ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ آپؓ بلاشبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اس پیشگوئی کا مصداق بھی بنےکہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔ آپؓ کو غیر معمولی دینی اور دنیاوی خدمات کی توفیق ملی اور آپؓ عمر بھر خلافت کے کامل مطیع اور فرمانبردار رہے اور اسی کو اپنی کامیابیوں کا پیش خیمہ قرار دیتے تھے۔آپؓ نے جن اہم اور غیر معمولی دنیاوی خدمات کی توفیق پائی ،ان میں سے کچھ یہ ہیں: ممبر پنجاب قانون ساز کونسل، صدر آل انڈیا مسلم لیگ ۱۹۳۱ء، ممبر گول میز کا نفرنس لندن، ممبر ایگزیکٹو کونسل وائسرائے ہند، وزیر ریلوے ہندوستان، جج فیڈرل کورٹ آف انڈیا، پہلے وزیر خارجہ پاکستان ، جج اور بعد ازاں نائب صدر و صدر انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس، صدر جنرل اسمبلی اقوام متحدہ۔ آپ پہلے شخص ہیں جنہیں جنرل اسمبلی اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس دونوں کی سربراہی کا اعزاز حاصل ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله نے مورخہ۶؍ستمبر ۱۹۸۵ء کو مسجد فضل لندن برطانیہ میں آپؓ کا تفصیلی ذکرِ خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ آپؓ بھی الله تعالیٰ کے کلمات میں سے ایک کلمہ تھے اور ایک عظیم الشّان مقام خدا تعالیٰ کی طرف سےآپؓ کو تقویٰ کا نصیب ہوا۔ نیز حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ غائب بھی پڑھائی تھی۔]

جواب کے آخر میں حضورِ انور نے عجلت پسندی کے برعکس نماز کی ادائیگی میں حضورِ قلب اور توجہ پیدا کرنے کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئےفرمایا کہ یوں کیا کہ جھٹکے مارے، اللہ اکبر اللہ اکبر، السلام علیکم السلام علیکم۔ اور پتا ہی نہیں کہ کیا بولے یاکیا نہیں بولے، تو اس کا کیا فائدہ؟ تم اللہ تعالیٰ کے دربار میں اللہ سے مانگنے کے لیے گئے ہو۔ کسی پریذیڈنٹ کے پاس جاتے ہو، منسٹر کے پاس جاتے ہو ، تو جب تک رک رک کے ساری باتیں نہیں بتا دیتے، توتمہاری تسلّی نہیں ہوتی۔ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں جا کے کہتے ہو کہ ٹک ٹک ٹک،چلو! اللہ میاں راضی ہو جا، اللہ میاں کوئی ہمارا پابند ہے ، جو اِن باتوں سے راضی ہوجائے ؟ تو یہ احساس دل میں پیدا ہونا چاہیے۔

ایک شریکِ مجلس نے عرض کیا کہ ہم احمدی مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا گئے ہیں اور نہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف اُٹھا لیے گئے ہیں، کیا اس کا مطلب ہے کہ جو مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ زندہ ہیں اور اللہ کے پاس ہیں، کیا ان سے اس بات کا آخرت میں حساب لیا جائے گا اور کرسچنز سے بھی اس بارے میں حساب لیا جائے گا ؟

اس پر حضورِ انور نے حضرت عیسیٰؑ کی اُلوہیت کے فاسد اور مشرکانہ عقیدے کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں لکھ دیا ہے کہ عیسیٰ کوئی اللہ کا بیٹا تو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ واحد و یگانہ ہے ۔ جو تم شرک کرتے ہو ،یہ تو بڑا خطرناک کام ہے، اس سے آسمان اور زمین پھٹ جائیں اورتم ایسی باتیں کرتے ہو کہ تباہ و برباد ہو جاؤ گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے تو یہ بتا دیا۔

اسی طرح حضورِ انور نے وفاتِ مسیح کے حوالے سے اس بات پر زور دیا کہ ہم تو یہ مانتے ہیں کہ کوئی انسان اتنی دیر زندہ رہ نہیں سکتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن شریف کی تیس آیتوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں، اس لیے ہم یہ مانتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تیس آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موت سے کوئی باہر نہیں رہا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی انسان تھے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی فرمایا کہ وہ انسان تھے اور کوئی انسان موت سے باہر نہیں رہا ۔ہم تو عیسائیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں، اگر ہم کہیں زندہ ہیں اور آسمان پر بیٹھ گئے، تم مسلمانوں نے تو اس سے عیسائیوں کو مدد کر دی ہے۔ باقی اللہ تعالیٰ نے حساب لینا ہے، کس طرح لینا ہے، وہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا حساب لینا ہے۔

[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے وفاتِ مسیح ؑیعنی حضرت مسیح ابنِ مریمؑ کی وفات کے ثبوت کے طور پر ان مذکورہ تیس آیات کا اپنی تصنیفِ لطیف ازالہ اوہام حصّہ دوم روحانی خزائن جلدسوم صفحہ ۴۲۳تا ۴۳۸ میں تذکرہ فرمایا ہوا ہے۔احباب اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔]

مزید برآں حضورِ انور نے حضرت عیسیٰ کی آمدِ ثانی کے منتظر نام نہاد علماء کی مایوسی کے تناظر میں قرآن و حدیث کی واضح پیشگوئیوں کے باوجود حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کو بطورِ مسیح موعود قبول نہ کرنے میں ان کی ڈھٹائی پر روشنی ڈالی کہ اب تو یہ تنگ آ کے کہنے لگ گئے ہیں کہ عیسیٰؑ فوت ہو گئے یا زندہ ہیں ،تو انہوں نے کوئی نہیں آنا، اب علماء میں سے مسلمانوں کا ایسا طبقہ بھی پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ علماء میں بھی ایسی باتیں کرنے والے بہت سارے اب پیدا ہو گئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ اب کوئی نہیں آئے گا اورعیسیٰؑ زندہ نہیں ہیں۔ اب ہمارے سامنےآخر دلیل کوئی نہیں رہی، تو یہ تو مانتے ہیں کہ ٹھیک ہے کہ وہ نہیں آئے گا، پر مرزا غلام احمدؑ بھی مسیح موعود نہیں۔ یہ بحث شروع ہو گئی۔ تو یہ تو ان کی ڈھٹائی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ کوئی آئے گا ۔اللہ تعالیٰ نے تو قرآنِ شریف میں بھی فرمایاہے کہ وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡھُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بھِمۡ اور آخرین میں سے بھی جو نہیں ملے ان میں بھی آئے گا۔مَیں تمہارے جیسا ایک نبی بھیجوں گا۔ قرآنِ کریم بھی کہتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ فرما دیا اور حدیثوں سے بھی یہ ثابت ہے اورلمبی چوڑی باتیں ہیں، تو اس کے باوجود اگر یہ کہتے ہیں کہ اب نہیں آنا، تو پھر یہ قرآن کو بھی اور حدیث کو بھی جھٹلا رہے ہیں ۔

جواب کے آخر میں حضورِ انور نے سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے قیامت کے دن کیا معاملہ کرناہے، وہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس طرح سزا دینی ہے اور اس کا ہمارے پاس تو حق نہیں۔ ہاں! اللہ تعالیٰ سوال تو ضرور کرے گا۔

ایک سائل نے عرض کیا کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس چیز کو پا لیا یا محسوس کیا ہے کہ جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض عیسائی یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا ہے۔ اِس سے اُس وقت مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں جب ہم ان سے اسلام کے بارے میں گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ پہلے ہی اپنے مذہب کے ساتھ ایک ذاتی تعلق محسوس کر چکے ہوں تو پھر ان کے نزدیک دوسرے مذاہب کے بارے میں بات کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ نیز اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی کہ تو کیا ہمیں ان کے اس دعوے کو قبول کر لینا چاہیےاور اگر ہم ان کے دعوے کو مان لیں تو کیا یہ ہمارے اپنے عقائد کے ساتھ تصادم کا باعث نہیں بنے گا؟

اس پر حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ ہم بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سچے نبی تھے اورحضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں ، اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ اس نے ہر قوم اور ہر ملک میں نبی مبعوث فرمائے ، پس وہ سب سچے نبی تھے۔

حضورِ انور نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دعویٰ اور ماضی کے بہت سے انبیاء کی پیشگوئی کے حوالے سے ایک آخری نبی کے مبعوث ہونے کی حقیقت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ یہ مانتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑکو دیکھا ہے تو ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں کہ جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو دیکھا اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام ایک سچا مذہب ہے، حتی ٰکہ خود حضرت عیسیٰؑ بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے بعد ایک شخص آئے گا کہ جو آخری نبی ہو گا اور ماضی کے بہت سے انبیاء نے بھی یہ پیشگوئی کی ہے کہ ایک نبی آئے گا، جو آخری نبی ہو گا اور اس میں پچھلے تمام انبیاء کی تعلیمات بھی ہوں گی اور نئی تعلیمات بھی۔

اسی تناظر میں حضورِ انور نے مزید وضاحت فرمائی کہ اگر وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو دیکھا ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر آپ ہر وقت یہ سوچتے رہیں کہ مَیں پانی کے کنویں میں ڈوب رہا ہوں، تو کچھ عرصے بعد آپ خواب میں بھی یہی دیکھیں گے کہ آپ پانی میں ڈوب رہے ہیں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ یہ ایک نفسیاتی اثر ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بائبل میں بھی ایک آخری نبی کی پیشگوئی موجود ہے، پس ہم ان سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت عیسیٰؑ غلط تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن ان کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک اور نبی نے بھی آنا تھا اور وہ آ چکا ہے اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

مزید برآں حضورِ انور نے حالات کے مطابق حکمت کے ساتھ دلائل دینے کی تلقین کرتے ہوئے اس طرزِ استدلال کو اختیار کرنے کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ پس اس طریق پر ان سے جھگڑا کرنے اور یہ کہنے کے بجائے کہ نہیں! حضرت عیسیٰؑ سچے نبی نہیں تھے یا حضرت موسیٰؑ درست نبی نہیں تھے، آپ یوں کہیں کہ وہ نبی تھے، لیکن وہ خود کہتے ہیں کہ مَیں بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں کے لیے آیا ہوں۔ پس آپ یہ کہیں کہ ہم اسرائیلی نہیں ہیں۔ صرف قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ مَیں ساری دنیا کےلیے آیا ہوں، جیسا کہ مَیں نے پرسوں اپنے خطبہ میں ذکر کیا تھا کہ یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ پس ان سے کہیں کہ وہ اپنی کتاب، اپنے مذہب اور اپنی تحریروں کا مطالعہ کریں۔ بائبل کی مختلف آیات بھی اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ ایک اَور نبی کی ضرورت ہے اور صرف ضرورت ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ وہ نبی آخری زمانے میں ظاہر ہو گا اور یہ پیشگوئی تمام انبیاء کی تعلیمات میں پائی جاتی ہے، تو پھر ہم کیوں ایسے شخص کی پیروی کریں کہ جو اپنے آپ کو صرف ایک خاص گروہ، قوم یا لوگوں کا نبی قرار دیتا ہے؟ ہم اس شخص پر کیوں نہ ایمان لائیں، جو اپنے آپ کو پوری دنیا کے لیے نبی قرار دیتا ہے؟ پس حالات کے مطابق آپ کو دلائل پیش کرنے ہوں گے۔

جواب کے آخر میں حضورِ انور نے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھنے کا تعلق ہے اور یہ کہنا کہ وہ ایک سچے نبی ہیں، تو وہ ایسا کہہ سکتے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اکثر یہ محض نفسیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ایک شریک مجلس نے راہنمائی کی درخواست کی کہ جب ہمیں ایسے لوگوں کی آراء کا سامنا ہو کہ جو جماعت کی سکھائی ہوئی پُرامن تعلیم کے خلاف ہوں تو ہمیں کس طرح جواب دینا چاہیے؟

اس پر حضورِ انورنے راہنمائی عطا فرمائی کہ ہم انہیں قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق جواب دے سکتے ہیں۔ قرآنِ کریم یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمہیں پُرامن رہنا چاہیے، حتیٰ کہ مَیں نے پرسوں اپنے خطبہ میں بھی قرآنِ کریم کی اس آیت کا ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس لیے دفاعی جنگ کی اجازت دی کہ ان کے حقوق سلب کیے جا رہے تھے ان پر ظلم ڈھائے جا رہے تھے اور انہیں قتل کیا جا رہا تھا۔ اسی وجہ سے اب تمہیں دفاع کی اجازت دی گئی۔ یہی وہ بات ہے، جو قرآنِ کریم بیان کرتا ہے، ورنہ عمومی طور پر قرآن کریم کی تعلیم سراسر امن پر مبنی ہے۔ ہمیں محبّت، امن اور ہم آہنگی کا پیغام پھیلانا ہے۔ پس یہی حقیقت ہے۔ اور مَیں اس موضوع پر متعدد مرتبہ گفتگو بھی کر چکاہوں اور اگر آپ میرے خطابات کے مجموعے پر مبنی کتاب World Crisis and the Pathway to Peace کا مطالعہ کریں تو آپ کو وہاں سے دلائل اور قرآنی آیات مل جائیں گی۔

اسی دوران وفد میں شریک مبلغ ِسلسلہ سے حضورِ انور نے کتاب World Crisis and the Pathway to Peace کے اطالوی ترجمے کے بارے میں بھی دریافت فرمایا۔ جب یہ عرض کیا گیا کہ ابھی تک اس کا اطالوی ترجمہ دستیاب نہیں ہے، تو حضورِ انورنے اس کام کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اس نوعیت کا لٹریچر عوام النّاس تک پہنچنے اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے لیے ایک نہایت اہم ذریعہ ہے۔ نیز اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ جرمنی جیسے ممالک میں لوگ اس کتاب کو جرمن زبان میں پڑھ رہے ہیں اور اس کو سراہ بھی رہے ہیں، لہٰذا یہی سہولت اٹلی کے لوگوں کے لیے بھی فراہم کی جانی چاہیے تاکہ جماعت کا پیغام مؤثر انداز میں عام کیا جا سکے۔

ایک خادم نے عرض کیا کہ بہت سے عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے مختلف معجزات بیان کیے جاتے ہیں، مثلاً پوپ جان پال دوم کہ جن کے قتل کی کوشش کی گئی، مگر وہ اس ہار کی وجہ سے بچ گئے کہ جو انہوں نے پہنا ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اسی نے انہیں دو گولیوں سے محفوظ رکھا۔ نیز اس سلسلے میں راہنمائی کی درخواست کی کہ کیا ایسے معجزات واقعی درست اور حقیقی ہو سکتے ہیں یا یہ محض ایک اتفاق ہوتا ہے؟

اس پر حضورِ انور نے معجزات کی حقیقت پر بصیرت افروز انداز میں روشنی ڈالی کہ معجزات کا واقع ہونا ممکن ہے، اس میں ایسی کوئی بات نہیں، حتیٰ کہ دہریہ لوگوں کے ساتھ بھی معجزات ہو سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ موجود ہے۔ چنانچہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں یا اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں اور پھر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں نشان دکھاتا ہے تا کہ وہ سمجھ سکیں اور ان کا ایمان مضبوط ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ واقعی موجود ہے۔

حضورِ انور نے معجزات کو ہستیٔ باری تعالیٰ کی موجودگی کا یقین و شعور پیدا کرنے کاذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ پس اگر کسی کے ساتھ کوئی معجزہ پیش آ جائے، تو آپ یہ بھی انہیں بتا سکتے ہیں کہ معجزات ہو سکتے ہیں اور ہر شخص ان کا تجربہ کر سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چونکہ وہ معجزات دیکھ رہے ہیں اس لیے اسلام سچا دین نہیں ہے یا عیسائیت یا یہودیت جھوٹے مذاہب ہیں، ہرگز نہیں۔ بلکہ ہر مذہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ بعض اوقات لوگوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے نشان دکھاتا ہے۔ آپ کے ملک میں حتیٰ کہ گھانا میں بھی شمالی حصّے میں بُت پرست لوگ رہتے ہیں، وہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے، لیکن اس کے باوجود وہ بھی معجزات دیکھتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ انہیں یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ اس کی ہستی موجود ہے۔

جواب کے آخر میں حضورِ انور نے واقعات کے رونما ہونے کی بابت انسانی نفسیاتی پہلو کا بھی ذکر فرمایا کہ بعض اوقات یہ واقعات حقیقی ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ محض ایک نفسیاتی اثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا ہے کہ کبھی آپ کسی بات کے بارے میں طویل عرصے تک سوچتے رہتے ہیں اور کچھ عرصے بعد آپ کومحسوس ہوتا ہے کہ وہی بات وقوع پذیر ہورہی ہے۔ بعض لوگ پانی سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور کبھی کبھی وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ کسی تالاب یا جھیل میں ڈوب رہے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ واقعی ڈوب رہے ہیں، بلکہ یہ ایک نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض اَور واقعات بھی ہوتے ہیں، لیکن انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں پیش آ رہے ہیں، حالانکہ وہ اس کے ذہن پر نفسیاتی اثر کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ پوپ جان پال دوم، جن کا اصل نام Karol Józef Wojtyła تھا، مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۲۰ء کو پولینڈ میں پیدا ہوئے۔ وہ مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۷۸ء کورومن کیتھولک چرچ کے ۲۶۴؍ویں پوپ منتخب ہوئے تھے اور ۲۶سال اور ۵ ماہ کے عرصے تک اس منصب پر فائز رہنے کے بعد مورخہ ۲؍اکتوبر۲۰۰۵ء کو وفات پا گئے۔ آپ دنیا بھر میں امن، بین المذاہب مکالمے اور اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے جانے جاتے تھے۔ مورخہ۱۳؍مئی ۱۹۸۱ء کو ویٹی کن کے سینٹ پیٹرز اسکوائر میں ان پر مہمت علی آغا نامی ترک نژادنے قاتلانہ حملہ کیا، جس میں وہ شدید زخمی ہوئے، مگر بروقت طبّی امداد کے باعث محفوظ رہے۔ حملہ آور کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، لیکن پوپ نے بعدازاں جیل جا کر اس سے ملاقات کی اور اسے معاف کردیا۔]

ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو ازراہِ شفقت اپنے محبوب آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔الغرض یہ روح پرور نشست حضورِ انور کے دعائیہ کلمات ‘‘السّلام علیکم’’ پر اختتام پذیر ہوئی۔

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ورجینیا ریجن کے ایک وفد کی ملاقات

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button