حضرت مسیح موعودؑ اور قیام توحید(قسط دوم۔ آخری)
نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر مجسم ہوئے کیا خدا ان کے علیحدہ ہونے سے کم ہو گیا مگر اس کو سوچنا چاہئے کہ آفتاب سے جو ایک آتشی شیشی آگ حاصل کرتی ہے وہ آگ کچھ آفتاب میں سے کم نہیں کرتی ۔ ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں فربہی آتی ہے وہ چاند کو دبلا نہیں کر دیتی ۔ یہی خدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام نظام روحانی کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سے ہی دنیا کی پیدائش ہے
وحدت الوجود اور وحدت الشہود
فلاسفر وں کے اثر کے تابع عالم اسلام میں اللہ تعالیٰ کے حوالے سےدو ایسے فتنے پیدا ہوئے جنہوں نے ایک لمبے عرصے تک عالم اسلام کو خلجان میں مبتلا کیے رکھا۔ ایک فتنہ وحدت الوجود کا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ خدا ہی خدا ہے خدا کی ذات کا ہی حصہ ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہمہ اوست ۔ ہو سکتا ہے یہ خیا ل خدا کی عظمت کے تحت پیدا ہؤا ہو لیکن رفتہ رفتہ یہ تصور اس حد تک پہنچا کہ در حقیقت خدا کے سوا کوئی اور چیز سرے سے موجود ہی نہیں یا یوں کہو کہ جو کچھ موجود ہے سب خدا ہی ہے (شعر العجم از علامہ شبلی نعمانی جلد ۵ صفحہ ۱۳۷ ) دوسرا عقیدہ وحدت الشہود کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض ایسے لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کر کے گویا خدا ہی بن جاتے ہیں انہوں نے بعض اولیاء کے الفاظ سے بھی فائدہ اٹھایا اور حد سے زیادہ تاویلیں کرکے توحید کو الجھا دیا۔
یہ دونوں عقائد قرآن شریف کے بالکل خلاف تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب عقائد پر کاری ضرب لگاتے ہوئے سچی قرآنی توحید کو بیان کیا اور فرمایا کہ خدا خالق الکل ہے اور باقی سب مخلوق ہے جو اسی کی قدرت اور جلال سے ظاہر ہوئے ہیں اور کوئی چیز بھی خدا کی ذات کا حصہ نہیں اور اس جیسی کوئی چیز نہیں۔
دوسری طرف اللہ تعالیٰ بے شک اپنے نیک اور پاک بندوں کو اپنے جلال کا پَرتَو عطا فرماتا ہے لیکن کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو حقیقت میں خدا ہو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے لوہا آگ میں گرم ہو کر آگ کا کام تو دیتا ہے اور آگ ہی معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں لوہا ہی رہتا ہے اسی طرح انسان اپنے تعلق باللہ کے باوجود بہرحال انسان ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ان دونوں اصطلاحوں کی حقیقت اور توازن کو بھی بیان کیا کہ اگر درست ہے تو اس کا اتنا ہی مطلب ہے ورنہ یہ سب خلاف قرآن اور قابل ردّ ہے۔
فرمایا ’’حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرارسے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہویا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر و فریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی معز اور مذل خیال نہ کرنا ۔ کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا ۔ اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا ۔اپنا تذلل اُسی سے خاص کرنا ۔ اپنی امیدیں اُسی سے خاص کرنا ۔ اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا ۔ پس
کوئی توحید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہوسکتی۔ اول ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اسکی وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ہا لکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا ۔ دوم ۔ صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا اور جو بظاہر رب الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں ۔ یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا۔تیسری اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا اور اسی میں کھوئے جانا ۔(سراج الدین عیسائی عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۹ )
واحد ہے لاشریک ہے اور لازوال ہے
سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں
خالق اور مخلوق کا تعلق
بہت سی قومیں مخوق میں خدائی صفات تسلیم کر کے ان کو خدا کا درجہ دیتی ہیں جیسا کہ وید میں سورج، آگ اور ہوا کی تعریف کی گئی ہے ۔اسی طرح یہ سوال بھی اٹھایا جا تا ہے کہ خدا اور اس کی صفات کا کیا تعلق ہے وہ خدا کا حصہ ہیں یا اس کی مخلوق ہیں ۔اور خدا نے کائنات کو کیسے پیدا کیا ۔حضور نے ان سب موضوعات کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ایک جامع اقتباس یہ ہے۔
جو کچھ اجرام فلکی اور عناصر میں جسمانی اور فانی طور پر صفات پائی جاتی ہیں وہ روحانی اور ابدی طور پر خدا تعالیٰ میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی ہم پر کھول دیا ہے کہ سورج وغیرہ بذات خود کچھ چیز نہیں ہیں یہ اس کی طاقت زبردست ہے جو پردہ میں ہر ایک کام کر رہی ہے۔ وہی ہے جو چاند کو پردہ پوش اپنی ذات کا بنا کر اندھیری راتوں کو روشنی بخشتا ہے جیسا کہ وہ تاریک دلوں میں خود داخل ہو کر ان کو منور کر دیتا ہے اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے۔ وہی ہے جو اپنی طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کر دن کو ایک عظیم الشان روشنی کا مظہر بنادیتا ہے اور مختلف فصلوں میں مختلف اپنے کام ظاہر کرتا ہے۔ اس کی طاقت آسمان سے برستی ہے جو مینہ کہلاتی ہے اور خشک زمین کو سر سبز کر دیتی ہے اور پیاسوں کو سیراب کر دیتی ہے ۔ اسی کی طاقت آگ میں ہو کر جلاتی ہے اور ہوا میں ہو کر دم کو تازہ کرتی اور پھولوں کو شگفتہ کرتی اور بادلوں کو اُٹھاتی اور آواز کو کانوں تک پہنچاتی ہے۔ یہ اس کی طاقت ہے کہ زمین کی شکل میں مجسم ہو کر نوع انسان اور حیوانات کو اپنی پشت پر اُٹھا رہی ہے مگر کیا یہ چیزیں خدا ہیں؟ نہیں بلکہ مخلوق مگر ان کے اجرام میں خدا کی طاقت ایسے طور سے پیوست ہو رہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے اگر چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلم لکھتی ہے مگر قلم نہیں نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتاہے یا مثلا ایک لوہے کا ٹکڑا جو آگ میں پڑ کر آگ کی شکل بن گیا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جلاتا ہے اور روشنی بھی دیتا ہے مگر دراصل وہ صفات اُس کی نہیں بلکہ آگ کی ہیں۔ اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکی و عناصر ارضی بلکہ ذرہ ذرہ عالم سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے، یہ سب باعتباراپنی مختلف خاصیتوں کے جو ان میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں اور خدا کی طاقت ہے جو ان کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے اور یہ سب ابتدا میں اس کے کلمے تھے جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کر دیا ۔
نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر مجسم ہوئے کیا خدا ان کے علیحدہ ہونے سے کم ہو گیا مگر اس کو سوچنا چاہئے کہ آفتاب سے جو ایک آتشی شیشی آگ حاصل کرتی ہے وہ آگ کچھ آفتاب میں سے کم نہیں کرتی ۔ ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں فربہی آتی ہے وہ چاند کو دبلا نہیں کر دیتی ۔ یہی خدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام نظام روحانی کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سے ہی دنیا کی پیدائش ہے ۔(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۴۲۳ )
زندہ خدا کی تجلیات
حضرت مسیح موعودؑکی آمد اور بعثت کا پہلا اور آخری مقصد توحید خالص کا قیام ہے ۔ آپ ایسے وقت میں آئے جب خدا کا نام اور زبانوں پر ایمان تو موجود تھا لیکن خدا کی حقیقت اور اس سے زندہ تعلق مفقود ہو چکا تھا۔ اس لیے آپ نے اعلان فرمایا: ’’بجز اسلام تمام مذہب مُردے ان کے خدا مُردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ہرگز ممکن نہیں اے نادانو تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟اورمُردار کھانے میں کیا لذّت۔ آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے.اور کس قوم کے ساتھ ہے وہ اسلام کے ساتھ ہے۔ اسلام اِس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہاہے۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چُپ ہوگیا۔ آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے۔‘‘(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۴۶)
آپؑ نے خدا کی ہستی کے اور نقلی دلائل دیئے مگر اپنی ذات کو پیش کرکے زندہ خدا آنکھوں والوں کو دکھا دیا۔آپ نے ۲۷۰ کے قریب علمی اور روحانی چیلنج دیئے ۱۵ کے قریب کتب میں نقد انعامی چیلنج بھی شامل ہیں مگر کسی نے قبول نہ کیا۔
آپؑ نے قبولیت دعا کے نشانوں کے ذریعہ خدا کا جلوہ دکھایا۔ تمام مذاہب کو عموما اور تمام مسلمان علماء کو مل کر اپنے مقابلہ میں دعا کا چیلنج دیا ۔سینکڑوں لوگوں کو آپ کی دعا سے اولاد یا شفا نصیب ہوئی ہزاروں نے دیگر مرادیں پائیں۔ ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام دی اور نشان نمائی کا چیلنج دیا۔
آپؑ نے اپنی فتح اور دشمنوں کی ہلاکت کی پیشگوئیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قہری تجلی دکھائی۔لیکھرام انڈیا میں قتل ہوا اور ڈوئی نے امریکہ میں عبرتناک وفات پائی ۔طاعون میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔
آپؑ نے خدا سے تازہ بتازہ معارف قرآنی حاصل کرکے قرآن کا خدا دکھایا۔معارف قرآنی میں ساری دنیا کو للکارا اور فرمایا ساری تورات و انجیل میں ۷۰ کے قریب کتابوں میں سے الٰہی صداقتیں پیش کریں میں اس سے بڑھ کر صرف سورۃ فاتحہ سے نکال دوں گا اگر وہ جیت گئے تو انہیں ۵۰۰ روپیہ انعام دوں گا ۔آپ کی کتب میں سے تفسیری نکات پر ۸ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔
آپؑ نے خدا سے علم عربی حاصل کر کے فصیح و بلیغ عربی کتب لکھیں اور پھر نثر اور نظم میں مقابلے کا چیلنج دے کر خدا دکھایا۔ اعجاز احمدی پر ۱۰ ہزار، نورالحق پر ۵ ہزار اور کرامات الصاقین پر ایک ہزار کا انعام آ ج بھی راہ دیکھ رہا ہے
ان میں سے ہر ایک معاملہ پر کتابیں لکھی گئی ہیں
خدا نما مجلس
آپؑ کی مجلس خدا نما تھی ۔ آپؑ کا کلام خدا نما تھا۔ آپؑ کی گفتگو خدا تعالیٰ سے تعلق کے گرد ہی گھومتی تھی ۔ آپؑ نے بار بار لوگوں کو دعوت دی کہ قادیان حضرت مسیح موعود کے خرچ پر آئیں آپؑ کے قیام و طعام سے استفادہ کریں۔ آپؑ کی صحبت میں رہیں ۔ اور خدا کے نشان دیکھیں فرمایا اگر میں نشان نہ دکھا سکا تو ۲۰۰ روپیہ ماہوار ہر جانہ بھی ادا کروں گا۔بہت سے خوش نصیبوں نے آپؑ کے ہاتھ پر آسمانی نشان دیکھے، کئی آپؑ سے ملے اور گفتگو سےخدا کی سچائی کا یقین کیا۔ اس ضمن میں صرف دو واقعات بیان کرنے مقصود ہیں۔
حضرت مولوی محمد ابراہیم بقاپوری لکھتے ہیںکہ میں حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کے لیے قادیان پہنچا اورعرض کیا کہ میں خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہوں مگر وہ یقین جس سے قطعی طور پرخدا تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا ہو کہ گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں مجھے حاصل نہیں
میرے شک کی ایک وجہ یہ تھی کہ میری پہلی بیوی سے ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ جو چار سال کی عمر میں جل کر فوت ہو گیا تھا۔ ایک معصوم بچے کی ایسی غمناک وفات کا صدمہ میرے قلب پر اس قسم کا چھا چکا تھا کہ اس نے خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق شکوک پیدا کر دیئے تھے ان شکوک کی وجہ سے مجھے قلبی اطمینان حاصل نہ تھا۔ حضرت مسیح موعود نے سن کر ولنبلونکم بشيء من… (البقره: ۱۵۶) کی تفسیر فرمائی وہ تفسیر ایسی لذیذ اور سرور بخش تھی کہ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ کوئی چیز حضرت اقدس کے قلب سے نکل کر میرے دل پر گر رہی ہے مجھے ایک چمکتا ہوا نو ر آپ کی پیشانی سے نکلتا ہوا نظر آتا تھا جس کی کرنیں میرے قلب کو منور کر رہی تھیں یہ تقریر۲۰ منٹ تک جاری رہی۔ تقریر کے بعد میری کیفیت ایسی بدل گئی گو یا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا مشاہدہ کرلیا۔(الفضل ۲۴ فروری ۲۰۱۶ء)
ایک دفعہ ایک شخص بنام اکبر علی جو وحدت الوجود کا قائل تھا آیا یعنی میں بھی خدا ہوں تم بھی خدا ہو۔ ہر ایک شخص خدا ہے احمدی علماء کرام اور بزرگان نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اسے کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ آخر ایک جلسہ میں حضرت مسیح موعود کی تقریر جب اس نے سنی تو اس نے اسی وقت اپنے اس عقیدہ سے توبہ کرلی دوسرے یا تیسرے روز اس نے بیعت کرلی ۔ (الفضل ۲۴؍فروری ۲۰۱۶ء)
ذاتی زندگی میں توحید کے نظارے
عام طور پر مذہبی رہنما عوام الناس کے ساتھ امتیازی رویہ رکھتے ہیں اور مجالس، رہن سہن اور میل ملاقات میں ان کا احساس برتری موجود ہوتا ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ جنہیں مسیح موعود کو بہت قریب سے دیکھنے کا ایک عرصہ تک موقع ملا اور آپ کی امامت بھی کراتے رہے۔ لکھتے ہیں: مسجد مبارک میں آپ کی نشست کی کوئی خاص وضع نہیں ہوتی ایک اجنبی آدمی آپ کو کسی خاص امتیاز کی معرفت پہچان نہیں سکتا۔ آپ ہمیشہ مسجد کے دائیں صف میں ایک کونے میں اس طرح مجتمع ہو کر بیٹھتے ہیں جیسے کوئی فکر کے دریا میں خوب سمٹ کر تیرتا ہے میں جو اکثر محراب میں بیٹھتا ہوں اور اس لیے داخلی دروازہ کے سامنے ہوتا ہوں بسا اوقات ایک نو وارد اندر داخل ہو تاہے تو سیدھا میری طرف ہی آ جاتا ہے اور پھر خود ہی اپنی غلطی پر متنبہ ہوتا ہے یا حاضرین میں سے کوئی بتا دیتا ہے
پھر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص جو دنیا کے فقیروں اور سجادہ نشینوں سے بڑا متاثر تھا۔ہماری مسجد میں آیا۔ لوگوں کو آزادی سے گفتگو کرتے دیکھ کر حیران ہوگیا۔ آپ سے کہا۔ کہ آپ کی مسجد میں ادب نہیں لوگ بے محابا بات چیت آپ سے کرتے ہیں۔’’ آپؑ نے فرمایا۔ ‘‘میرا یہ مسلک نہیں۔ کہ میں ایسا تند خُو اور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں۔ جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں۔ اور مَیں بُت بننے سے سخت نفرت رکھتا ہوں۔ مَیں توبُت پرستی کے ردّ کرنے کو آیا ہوں۔ نہ یہ کہ میں خود بُت بنوں۔ اور لوگ میری پوجا کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا۔ میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بُت پرست اور خبیث نہیں۔ متکبر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہ۔ (سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی صفحہ ۴۱، ۴۳)
حضرت مسیح موعودؑ کے ایک مخلص دوست تھے۔ ان کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جس پر انہوں نے خدا سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے یہ سنتے ہی حضور کو ان سے ایسی نفرت ہوئی کہ ۲۰ سال تک ان سے ناراض رہے۔بعد میں وہ احمدی ہو گئے اور اس قسم کی جہالتوں سے توبہ کر لی۔(تقدیر الہی ۔انوار العلوم جلد ۴ صفحہ ۶۰۷)
ایک بار آپ کو شدید سردرد کی شکایت ہوئی۔ ہر ممکن علاج کیا گیا لیکن آرام نہ آسکا۔ ایک ماہر حکیم کو دور سے بلایا گیا۔ وہ آیا اور دیکھ کر کہنے لگا کہ کوئی فکر نہ کریں دو دن میں آرام کر دوں گا۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے یہ مشرکانہ بات سنی تو فرمایا کہ میں اس حکیم سے ہر گز کوئی علاج نہیں کروانا چاہتا۔ کیا وہ اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے؟ جس قدر رقم علاج کے لیے اس سے طے کی گئی تھی اس سے زیادہ دے دی اور اسے واپس بھجوا دیا۔ فرمایا: اصل شافیٔ مطلَق ہمارا خدا ہے۔ (الفضل انٹر نیشنل ۲۷؍اگست ۲۰۲۱ء)
تصویر کا مقصد
حضورؑ توحید کے منافی ہر قدم کے مخالف تھے ۔حضرت مسیح موعودؑنے اشاعت حق کی غرض سے تصویر کھنچوائی تھی اس بارہ میں حضورؑ کے پاک خیالات ملاحظہ کریں ۔ایک شخص نے حضور کی تصویر ڈاک کے کارڈ پر چھوائی تا کہ لوگ ان کا رڈوں کو خرید کر خطوط میں استعمال کریں ۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:میرے نزدیک یہ درست نہیں ۔ بدعت پھیلانے کا یہ پہلا قدم ہے۔ ہم نے جو تصویر فوٹولینے کی اجازت دی تھی وہ اس واسطے تھی کہ یورپ امریکہ کے لوگ جو ہم سے بہت دور ہیں اور فوٹو سے قیافہ شناسی کا علم رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اُن کے لیے ایک روحانی فائدہ کا موجب ہو۔ کیونکہ جیسا تصویر کی حرمت ہے۔ اس قسم کی حرمت عموم نہیں رکھتی بلکہ بعض اوقات مجتہد اگر دیکھے کہ کوئی فائدہ ہے اور نقصان نہیں تو وہ حسب ضرورت اس کو استعمال کر سکتا ہے۔ خاص اس یورپ کی ضرورت کے واسطے اجازت دی گئی ۔ چنانچہ بعض خطوط یورپ امریکہ سے آئے جن میں لکھا تھا کہ تصویر کے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل وہی مسیح ہے۔ ایسا ہی امراض کی تشخیص کے واسطے بعض وقت تصویر سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ شریعت میں ہر ایک امر جو مَا يَنْفَعُ النَّاسَ (الرعد:۱۸) کے نیچے آئے اس کو دیرپا رکھا جاتا ہے لیکن یہ جو کارڈوں پر تصویریں بنتی ہیں ان کو خرید نا نہیں چاہیے۔ بت پرستی کی جڑ تصویر ہے۔ جب انسان کسی کا معتقد ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ تعظیم تصویر کی بھی کرتا ہے… جو لوگ جماعت کے اندر ایسا کام کرتے ہیں ان پر ہم سخت ناراض ہیں ۔ ان پر خدا ناراض ہے
ایک شخص نے اس قسم کے کارڈوں کا ایک بنڈل لا کر دکھایا کہ میں نے یہ تاجرانہ طور پر فروخت کے واسطے خرید کئے تھے۔ اب کیا کروں؟ فرمایا:ان کو جلا دو اور تلف کر دو۔ اس میں اہانت دین اور اہانت شرع ہے ۔ نہ ان کو گھر میں رکھو۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں۔ بلکہ اس سے اخیر میں بت پرستی پیدا ہوتی ہے۔ اس تصویر کی جگہ پر اگرتبلیغ کا کوئی فقرہ ہوتا تو خوب ہوتا ۔ ( الحکم ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحہ۳)
خدا نما کتب
مولانا عبدالماجد دریابادی ہندوستان میں مسلمانوں کے بہت بڑے عالم اور ادیب اور مفکر تھے ایک زمانہ میں وہ الحاد کا شکار ہو گئے تھے مگر پھر واپس آ کر عالم دین اور مفسر بنے ان کو دہریت سے واپس لا نے میں جن کتابوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ان میں حضرت مسیح موعود کی کتب سرمہ چشم آریہ اور حضرت خلیفہ اول کی کتاب نور الدین شامل تھیں۔ (مضامین عبدالماجد۔ مرتبہ غلام دستگیر رشید ایم اے ۔ناشر۔ادارہ اشاعت اردو۔حیدر آباد دکن )
براہین احمدیہ توحید کا مضمون خاص طور پر بیان کرتی ہے حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت میاں محمد دین صاحب ؓ جن کا نام ۳۱۳ صحابہ میں تیسرے نمبر پر ہے ۔ان کی ہدایت کا موجب بھی براہین احمدیہ بنی ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۸۹۳ء میں حضرت منشی جلال الدین صاحب صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام (۳۱۳ صحابہ میں نمبر اول پر )نے سیالکوٹ سے اپنے بیٹوں کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب اپنے گھر گجرات بھجوائیں حضرت منشی صاحب کے بڑے بیٹے مرزا محمد قیّم صاحب نے ان کتب کا ذکر حضرت میاں محمد دین صاحب سے کیا اور کہا کہ تم دوسری کتابیں پڑھتے رہتے ہو یہ بھی پڑھ کر دیکھ لو ۔حضرت منشی صاحب نے فتح اسلام اور توضیح مرام کے بعدبراہین احمدیہ پڑھنی شروع کی تو ساری دہریت اترنی شروع ہوگئی خود فرماتے ہیں ۔
براہین کیا تھی آب حیات کا بحر ذخار تھا ۔براہین احمدیہ کیا تھی ایک تریاق ۔ ایک عین روح القدس یار وح مکرم یا روح اعظم تھا ۔براہین احمدیہ کیا تھی یسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہتھی ایک نورخدا تھا جس کے ظہور سے ظلمت کافور ہوگئی۔
آریہ برھمو ودہریہ لیکچراروں کے بد اثر نے مجھ جیسے اکثروں کو ہلاک کر دیا تھا اور ان کے اثرات کے ماتحت لایعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں صفحہ ۹۰ کے حاشیہ نمبر۱ پر اور صفحہ ۱۴۹ کے حاشیہ نمبر ۱۱پر پہنچا تو معا میری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ کھل گئی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے ۔
سردی کا موسم جنوری ۱۸۹۳ء کی ۱۹تاریخ تھی ۔آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں ’ہونا چاہیے‘ اور ’ہے ‘ کے مقام پر پہنچا پڑھتے ہیں معاً توبہ کی ۔کورا گھڑا پانی کا بھرا ہوا باہر صحن میں پڑھا تھا ۔سرد پانی سے تہ بند پاک کیا ۔میرا ملازم مسمّٰی منگتو سو رہا تھا وہ جاگ پڑا ۔وہ مجھ سے پوچھتا تھا کیا ہوا کیا ہوا ۔لاچا تہ بند مجھ کو دومیں دھو دیتا ہوں مگر میں اس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ آخر منگتو اپنا سارا زور لگا کر خاموش ہو گیا ۔اور گیلا لاچا پہن کر نماز پڑھنی شروع کی ۔ اور منگتو دیکھتا گیا۔ محویت کے عالم میں نماز اس قدر لمبی ہوئی کہ منگتوتھک کر سو گیا اور میں نماز میں مشغول رہا ۔ پس یہ نماز اسی نماز براہین احمدیہ نے پڑھائی کہ بعد ازاں آج تک میں نے نماز نہیں چھوڑی۔ صبح ہوئی تو میں وہ محمد دین نہ تھا جو کل شام تک تھا ۔حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب بلانی تشریف لائے تو ان سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا ۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعودؑ سے دستی بیعت کی ۔(رجسٹر روایات صحابہ حضرت اقدس جلد ۷صفحہ ۴۶، ۴۷)
یہی کتب مشرق ومغرب میں سعید دلوں کو فتح کر رہی ہیں اور ہر سال لاکھوں لوگ توحید کو قبول کر رہے ہیں۔ ( مزید تفصیل الفضل انٹر نیشنل ۲۳؍مارچ ۲۰۲۳ء)
فتح کی الہامی بشارات
حضرت مسیح موعود کو یہ بھی خبر دی گئی کہ آپ کی محنت اور دعائیں رنگ لائیں گی اور بالآ خر دنیا میں سچی توحید غالب آئے گی فرمایا ۔میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتااگر میرا مولیٰ اور میرا قادر توانا مجھے تسلّی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے ۔ (مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ۱۸۲ )
یہی توحید ہے جس کے لیے جماعت احمدیہ سرگرم عمل ہے
سنو اب وقتِ توحید اتم ہے
ستم اب مائل ملک عدم ہے
خدا نے روک ظلمت کی اٹھا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْاَعَادِي
(مجموعہ آمین ۔روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۵۰۴)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت مسیح موعودؑ اور قیام توحید(قسط اوّل)




