کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

حضرت مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر نہیں گئے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم :۵۸) یعنی ہم نے اس کو یعنی اس نبی کو عالی مرتبہ کی جگہ اٹھالیا۔ اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ جو لوگ بعد موت خداتعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ان کے لئے کئی مراتب ہوتے ہیں سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس نبی کو بعد اٹھانے کے یعنی وفات دینے کے اس جگہ عالی مرتبہ دیا۔ نواب صدیق حسن خان اپنی تفسیر فتح البیان میں لکھتے ہیں کہ اس جگہ رفع سے مراد رفع روحانی ہے جو موت کے بعد ہوتا ہے۔ ورنہ یہ محذور لازم آتا ہے کہ وہ نبی مرنے کے لئے زمین پر آوے۔

افسوس ان لوگوں کو آیت اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّمیں یہ معنے بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت میں پہلے مُتَوَفِّیۡکَ کا لفظ موجود ہے اور بعد اس کے رَافِعُکَ ۔ پس جبکہ لفظ رَافِعُکَمیں معنے موت لے سکتے ہیں تو مُتَوَفِّیۡکَ اور رَافِعُکَ کے معنی کیوں موت نہیں ہیں؟ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۸۵حاشیہ)

قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت آدمؑ اور حضرت ادریسؑ اور حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یوسف ؑ وغیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں۔ اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیونکر معراج کی رات میں آنحضرتﷺ نے ان سب کو آسمانوں میں دیکھا اور اگراٹھائے گئے تھے تو پھر ناحق مسیح ابن مریم کی رفع کے کیوں اَور طور پر معنے کئے جاتے ہیں۔ تعجب کہ تَوَفِّی کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے جابجا ان کے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جا ملے جو ان سے پہلے اٹھائے گئے تھے۔ اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو مَیں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیونکر پہنچ گئے آخر اٹھائے گئے تبھی تو آسمان میں پہنچے۔ کیا تم قرآن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ کیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو مسیح کے بارہ میں آیا ہے؟ کیا اس کے اٹھائے جانے کے معنے نہیں ہیں؟ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ ۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۴۳۸)

قرآن شریف میں ہر ایک جگہ رفع سے مراد رفع روحانی ہے۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے کہ وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم:۵۸) اور اس پر خود تراشیدہ قصہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص ادریس تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے مع جسم آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ لیکن یاد رہے کہ یہ قصہ بھی حضرت عیسیٰؑ کے قصے کی طرح ہمارے کم فہم علماء کی غلطی ہے اور اصل حال یہ ہے کہ اس جگہ بھی رفع روحانی ہی مراد ہے۔ تمام مومنوں اور رسولوں اور نبیوں کا مرنے کے بعد رفع روحانی ہوتا ہے۔ اور کافر کا رفع روحانی نہیں ہوتا۔ چنانچہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ (الاعراف:۴۱) کا اسی کی طرف اشارہ ہے اور اگر حضرت ادریس معہ جسم عنصری آسمان پر گئے ہوتے تو بموجب نقص صریح آیت فِیۡہَا تَحۡیَوۡنَ(الاعراف:۲۶) جیسا کہ حضرت مسیحؑ کا آسمانوں پر سکونت اختیار کر لینا ممتنع تھا ایسا ہی ان کا بھی آسمان پر ٹھہرنا ممتنع ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ اس آیت میں قطعی فیصلہ دے چکا ہے کہ کوئی شخص آسمان پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ بلکہ تمام انسانوں کے لئے زندہ رہنے کی جگہ زمین ہے۔

علاوہ اس کے اس آیت کے دوسرے فقرہ میں جو فِیْھَا تَمُوْتُوْنَ ہے یعنی زمین پر ہی مرو گے، صاف فرمایا گیا ہے کہ ہر ایک شخص کی موت زمین پر ہو گی۔ پس اس سے ہمارے مخالفوں کو یہ عقید ہ رکھنا بھی لازم آیا کہ کسی وقت حضرت ادریسؑ بھی آسمان پر سے نازل ہوں گے۔ حالانکہ دنیا میں یہ کسی کا عقیدہ نہیں اور طرفہ یہ کہ زمین پر حضرت ادریسؑ کی قبر بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰؑ کی قبر موجود ہے۔

(کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۲۳۷-۲۳۸۔ حاشیہ)

مزید پڑھیں: عباد الرحمٰن اور عباد الشیطان میں فرق

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button