صنعت وتجارت
ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سؤرکھانے کی تو بھوک کی حالت میں، اضطرار کی حالت میں جب انسان بھوک سے مر رہا ہو، اجازت ہے۔ لیکن سود کی تو بالکل اجازت نہیں ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو سود پر قرض لینے والوں کو بھی اس زمرہ میں رکھا ہے جو خدا سے جنگ کرتے ہیں اور سود پر قرض دینے والا تو کھڑا ہی خدا کے حکم کے خلاف ہے۔
بعض لوگ اپنا پیسہ، اپنی رقم معین منافع کی شرط کے ساتھ کسی کو دیتے ہیں کہ ہر ماہ یا چھ ماہ بعد یا سال بعد اتنا منافع مجھے ادا ہوگا۔تو یہ بھی سود کی ایک قسم ہے۔یہ تجارت نہیں ہے بلکہ تجارت کے نام پر دھوکہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سود کی جو تعریف فرمائی ہے، وہ یہ ہے کہ ’’ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا یا کسی کو رقم دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے، تو فائدہ مقرر کرنا یا منافع مقرر کرنا سود کی شکل ہے۔آپؑ نے فرمایا ’’یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلا وے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۶۰ جدید ایڈیشن)
پس اس تعریف کے لحاظ سے منافع رکھ کر یعنی پہلے سے منافع معین کر کے کسی کو قرض دینا یا رقم دینا یا تجارت میں لگانا، یہ سب چیزیں سود ہیں۔نفع نقصان پہ جو آپ لگاتے ہیںجو اسلام کا حکم ہے وہ ٹھیک ہے، وہ جائز ہے، وہ تجارت ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍ جون ۲۰۰۷ء،خطبات مسرور جلد ۵ صفحہ ۲۴۷-۲۴۸)
(مرسلہ: وکالت صنعت و تجارت)




