خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ(قسط ہشتم۔آخری)
مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ کمشنر صاحب موصوف پھر جب کبھی مجھے ملتے تو وہ اس قسم کی احتیاط کرتے کہ کوئی لفظ ان کی زبان سے ایسا نہ نکل جاوے جو کسی رنگ میں میرے جذبات اور حیات پر مؤثر ہو
قسط نمبر ۱۱: نہیں ملی
قسط نمبر ۱۲
بعض ضروری اور اہم مضامین کی وجہ سے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے حالاتِ زندگی کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ اس اثنا میں اکثر دوستوں نے تقاضا کیا کہ یا تو اس سلسلہ کو جاری نہیں کرنا تھا اور یا مکمل کیا جاوے۔ بعض نے اسے کتابی صورت میں شائع کرنے کا زور دیا۔ میں خود بھی اس سلسلہ کی تکمیل کا احساس رکھتا ہوں لیکن یہ کیونکر ہوگا اور کب ہو گا؟ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہاں، کچھ نہ کچھ میں لکھتا رہوں گا۔ (وبااللہ التوفیق) جیسا کہ میں لکھ چکاہوں۔ اب میں ان کی سیرت کے بعض پہلوؤں کو پیش کرتا ہوں:
نمائش وریاکاری سے نفرت: مرزا صا حب کی سیرت کا آغاز میں ان کے اس جذ بہ ٔنفرت سے کرتا ہوں جو نمائش و ریاکار ی سے ان کو تھی۔ عام طور پر انسان چاہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اس مقصد کے لیے وہ بعض نیکی کے کاموں میں بھی نمائش اور نمود کا دلدادہ ہوجاتا ہے اور یہی وہ ریاء کا مرض ہے جو تپِ دق کی طرح اندر ہی اندر انسان کی نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔
مرزا صاحب کی طبیعت میں سادگی اور صداقت اور محبت تھی۔ باوجود اس کے کہ وہ ایک اعلیٰ عہدہ دار تھے دورانِ ملازمت میں کبھی اپنی پوزیشن سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر کسی قسم کا دباؤ یا اثر دو سر ے لوگوں پر ڈالنے کی حس ان میں نہ رہی تھی۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ اس کے بعض اسباب خاص تھے۔ وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جو اپنی خودداری اور پُرچشمی میں شاہانِ وقت کو بھی خاطر میں نہ لاتا تھا اور صاف اور کھری بات کہنے میں وہ کبھی کسی سے دبتے نہ تھے۔
کمشنر اینڈرسن سےملاقات: ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ وہ لاہور کے کمشنر صاحب سے ملنے گئے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے بتا یا تھا کہ اس کا نام اینڈرسن تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ مرزا صاحب سے پہلے ایک اور بڑا عہدہ دار، جو کشمیری پنڈت تھا، صاحب موصوف سے ملاقات کر رہا تھا۔ سلسلہ احمدیہ کا ابتدائی زمانہ تھا اور حکومت اس سلسلہ کے متعلق طبعی طور پر ایک سیاسی نظریہ قائم کیے ہوئے تھی اور سیاسی وجوہات سے خاص نظروں سے اس کی رفتار کا معائنہ کر رہی تھی۔ مرزا صاحب کی اطلا ع ہوئی تو کمشنر صاحب نے پنڈت صاحب سے اس موضوع پر گفتگو شرو ع کر دی اور پنڈت صاحب نے مخالفت میں بہت زہراگلا۔ کمشنر صاحب نے مرزا صاحب کو اندر بلا لیا۔ پنڈت صاحب نے اپنے سلسلہ کلام میں مرزا صاحب کی تعریف کی اور کہا کہ یہ بڑے اچھے آدمی ہیں۔ اپنے باپ کے بڑے مخالف ہیں وغیرہ۔ کمشنر صاحب نے سادگی سے با وجود جاننے کے پوچھا کہ کیوں مرزا صاحب یہ ٹھیک ہے؟ مرزا صاحب نے کہا کہ میں اس کا جو جواب دوں گا وہ آپ دونوں کو ناراض کر ے گا، مگرمیں جواب دیےبغیر نہیں رُک سکتا۔
پنڈت صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ کو ایک شریف اور معزز انسان سمجھتا تھا، لیکن آج آپ نے بتا دیا کہ آپ نے شریفانہ اخلاق سے حصہ نہیں لیا۔ میرے سامنے میرے والد صاحب کی بُرائی کرنا اور نہ صرف خود بلکہ مجھ کو ایسانا لائق قرار دینا کہ میں بھی ان کی برائی کرتا ہوں، اس سے بڑھ کر کوئی نالائقی نہیں ہوسکتی۔ آپ کا شریفانہ فرض تو یہ چاہیے تھا کہ اگر مجھ میں اس پہلو سے کچھ نقص ہوتا تو اس کو دُور کرنے کی ہدایت کرتے، نہ یہ کہ مجھے مخالفت اور ناسعادتمندی کے لیے اُبھارتے۔ یہ بڑے شرم کی بات ہے۔ اور کمشنر صاحب سے کہا کہ میں آپ کے پاس اس لیے نہیں آیا تھا کہ میرے منہ پر آپ میرے محترم والد صاحب کی برائیاں ایک دوسرےآدمی کے منہ سے سنیں۔ آپ کو سیاسی طور پر اس قسم کی باتوں کے سننے یا دریافت کرنے کی ضرورت ہے، میں حق نہیں ر کھتا کہ اس سے منع کروں۔ آپ ہزار مرتبہ ایسا کریں اور ایسے لوگ بھی آپ کو مل جا ویں گے جو اس قسم کی باتیں آپ کو پہنچائیں جن کا کوئی وجود بھی نہ ہو اور اپنے رسوخ کے لیے وہ ان کو وضع کر لیا کریں، مگر میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ آپ کے اخلاق کا یہ تقاضا نہیں کہ ایک بیٹے کے سامنے اس کے باپ کی برائی کریں۔ اگر پنڈت صاحب اس قسم کی باتیں کرنا چاہتے تھے تو میری غیرحاضری میں جو چاہے کہتے۔ میرے سامنے ان کوشرم آنی چاہیے تھی۔ اور آپ کو ان کا منہ بند کر نا ضروری تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں اور اس مجلس میں بیٹھنا ذلّت سمجھتا ہوں جہاں اخلاق کا یہ نمونہ ہو۔
کمشنر صاحب پر اس جرأت اور صاف گوئی کا بہت بڑا اثر ہؤا اور انہوں نے خود مرزا صاحب سے معذرت کی۔ پنڈت صاحب نے بھی افسوس کیامگر مرزا صاحب نے کہا کہ یہ ایک ایسا ظلم ہے کہ میں معاف نہیں کرتا۔ اگر میں یہاں نہ ہوتا تو انتقام لیتا لیکن اگر آج کے بعد پھر آپ نے میری نسبت اس قسم کی روایت کی تو انجام آپ سوچ لیں۔ کمشنر صاحب نےمرزا صاحب کی تائید کی اور کہا: بےشک آپ کے خاندان کی اور مشرقی اخلاقِ فرزندی کا یہی تقاضا ہے اور جھٹ پنڈت صاحب کو رخصت کر دیا اور مرزا صاحب سے موضوعِ گفتگو بدل کر باتوں میں مصروف ہو گئے۔ لیکن مرزا صاحب کی طبیعت پر اس کا اثر تھا۔ مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے ہر چند مضمون بدلنا چاہا مگر میں نے پھر بہت وضاحت کے ساتھ حضرت والد صاحب کے حالاتِ زندگی اور ان کے طریقِ عمل پر گفتگو کی اور کہا کہ ایک طرف آپ لوگ ہیں جو اُن کو خدا جانے باغی اور کیا کیا کچھ سمجھ رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان ہیں وہ ان کو خوشامدی کہتے ہیں۔ ہمارے خاندان نے سلطنت اور حکومت میں پرورش پائی ہے۔ ہم نہ خوشامدی ہیں نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ حضرت والد صاحب کی نسبت سے اس قسم کے افترا بہت افسوسناک ہیں۔ میں اپنی بعض کمزوریوں کی وجہ سے والد صاحب کو اپنی نسبت ناراض پاتا ہوں، مگر یہ میرا اپنا قصور اور کمزوری ہے اور ان کی ناراضگی میری اصلاح اور بھلائی کے لیے ہے۔ حکومت تو ایک طاقت ہے۔ وہ دنیا میں کسی انسان تو کیا کسی جانور کے ساتھ بھی دشمنی کرنا نہیں جانتے اور دنیا کی کوئی چیز لالچ کے رنگ میں ان کے سامنے آہی نہیں سکتی تو ان کو حکومت کے خلاف کسی منصوبہ کی کیا ضرورت ہے۔ وہ جو کچھ فرماتے ہیں علانیہ کہتے ہیں۔
غرض اس قسم کی گفتگو کرنے کے بعد اُٹھ کر چلے آئے۔ مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ کمشنر صاحب موصوف پھر جب کبھی مجھے ملتے تو وہ اس قسم کی احتیاط کرتے کہ کوئی لفظ ان کی زبان سے ایسا نہ نکل جاوے جو کسی رنگ میں میرے جذبات اور حیات پر مؤثر ہو۔
یہ واقعہ نمود و نمائش کی بجائے ان کی غیرت اور صاف گوئی اور جرأت کی ایک شہادت ہے، لیکن میں نے اس کو اس عنوان کے نیچے اس لیے لکھا ہے کہ اگر ان میں نمود اور نمائش ہوتی تو اپنے مفاد اور حصولِ عزت کے لحاظ سے خاموش نہ رہتے اور خصوصًا اس لحاظ سے کہ ایک رنگ میں ان کی تعریف کی جارہی تھی۔
عام طور پران کی عادت میں نہ تھا کہ وہ اعلیٰ افسروں سے جا کر ملیں۔ ضرورتاً وہ جاتے اور ملتے بھی تھے، لیکن ہمیشہ صاف صاف اور کھلی کھلی باتیں کرتے تھے۔
ایک لیفٹیننٹ گورنرسے ملاقات: پنجاب کے ایک لیفٹیننٹ گورنرسے ایک مرتبہ ملاقات کو گئے۔ ایجی ٹیشن شروع ہو چکی تھی اور اپنی ابتدا کی منازل میں سے گزرتی تھی۔ صوبہ کے حاکمِ اعلیٰ نے مرزا صاحب کے خیالات کا اندازہ کرنا چاہا۔(ہفتہ وار ’سالار‘، شمارہ نمبر ۱۲ جلد نمبر۲، ۷؍اپریل ۱۹۳۲ء، صفحہ نمبر۱۰)
[واقعہ مکمل نہیں۔ شاید باقی اسی شمارے میں کسی اور صفحے پر ہو جو دستیاب نہیں۔واللہ اعلم بالصواب۔میرانجم پرویز]٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ(قسط ہفتم)




