خلاصہ خطبہ جمعہ

آنحضورﷺ بطور اسوۂ حسنہ۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۹؍دسمبر ۲۰۲۵ء

٭…جہاں تک آنحضرتؐ کا تعلق ہے، چاہے خدا تعالیٰ کے حقوق کا سوال ہو یا بندوں کے حقوق کا، آپؐ اِن دونوں میں وہ اعلیٰ مقام رکھتے تھے کہ جس کی الله تعالیٰ نے گواہی دی ہے

٭… رسولِ کریمؐ  کی ساری زندگی عشقِ الٰہی میں ڈوبی ہوئی ہے، باوجود اِس کے کہ آپؐ پر بہت بڑی ذمہ داریاں تھیں، نئی شریعت کو جاری کرنا تھا اور لوگوں کی تربیت کرنی تھی۔ یہ بہت بڑا کام تھا، لیکن آپؐ الله تعالیٰ کا جو حق تھا یعنی عبادت کا حق، اُسے کبھی نہیں بھولے

٭… آپؐ کے تحمل کا یہ عالَم تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے آپؐ کو بادشاہت عطا فرما دی، تب بھی آپؐ ہر ایک کی بات سنتے تھے، اگر کوئی سختی بھی کرتا تو آپؐ خاموش ہو جاتے تھے اور کبھی سختی کرنے والے کا جواب سختی سے نہیں دیتے تھے۔

٭…مکرم لئیق احمد طاہر صاحب(مربی سلسلہ یوکے)کی نماز جنازہ حاضر اور مکرم سیگھا جالو صاحب نائب صدر ریجن سیگو (مالی) کی نماز جنازہ غائب

دونوں مرحومین کی وفات پر ان کا ذکر خیر

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍دسمبر ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۹؍فتح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۹؍دسمبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔ جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی آیت ۲۲کی تلاوت کی اوراس کا ترجمہ پیش فرمایا کہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔

اس کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ اور آپؐ کے اُسوہ کے بارے میں کچھ بتائیںتو حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ کیا تم نے قرآنِ کریم نہیں پڑھا! اِس میں تو الله تعالیٰ نے خود آپؐ کے اُسوہ کے بارے میں گواہی دے دی ہے۔ جیسا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِنَّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ کہ اَے رسول! تُو یقیناً اخلاق کےاعلیٰ ترین مقام پر ہے۔

پس نمونے تو وہی بنا کرتے ہیں، جو کسی چیز کے اعلیٰ مقام پر ہوں،جہاں تک آنحضرتؐ کا تعلق ہے، چاہے خدا تعالیٰ کے حقوق کا سوال ہو یا بندوں کے حقوق کا، آپؐ اِن دونوں میں وہ اعلیٰ مقام رکھتے تھے کہ جس کی الله تعالیٰ نے گواہی دی ہے۔ اِسی لیے الله تعالیٰ نے ہمیں فرمایا کہ یہ رسولؐ تمہارے لیے اُسوہ ہے، صرف اِس کی باتیں نہ سنو بلکہ اِس پر عمل بھی کرو، ایمان لے آنا کافی نہیں۔ اور جب تم عمل کرو گے تو یقیناً تم وہ مقام حاصل کر سکو گے، جس کے لیے مَیں نے یہ رسولؐ بھیجا ہے۔

دنیا میں لوگ چند ایک اچھی باتیں کر لیتے ہیں یا کوئی ایسا کام کر لیتے ہیں ، جس کی مشہوری ہو جاتی ہے اور اُن کے نام بڑے روشن ہوتے ہیں۔ بڑے انعام اور ریوارڈ اُن کو دیے جاتے ہیں۔ کسی کو نوبیل انعام مل رہا ہے، کسی کو کچھ انعام مل رہا ہے، لیکن یہ انعام کسی کمیٹی یا حکومت کی طرف سے ہوتا ہے جو اِس کام کے لیے مقرر کی گئی ہوتی ہے۔ مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ پوری قوم نے کوئی ایسی بات کی ہو جو متفقہ ہو۔

اصل انعام تو وہ ہے،جیسا کہ آنحضرتؐ کو نبوت سے پہلےجوانی ہی میں لوگوں نے صادق اور امین کہہ کر دیا تھا، یعنی آپؐ کو انعام کی ضرورت تو نہیں تھی، لیکن لوگوں کی نظر میں آپؐ وہ مقام کو پہنچے ہوئے تھے کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں اور پوری قوم نے آپؐ کو یہ خطاب دیا تھا۔

پس یہ وہ مقام ہے جو آنحضرتؐ کا ہے اور آنحضرتؐ نے خود بھی فرمایا کہ تم میری سُنّت کی پیروی کرو، میرے عملوں پر چلو، کیونکہ الله تعالیٰ نے مجھے تمہاری اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔آپؐ فرماتے ہیں کہ اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیےمجھے مبعوث کیا گیا ہے۔ پس اخلاق کی تکمیل وہی کرتا ہے، جو اِن سب صفات کا حامل ہو اور اُس میں ساری صفات پائی جاتی ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ نے بھی دیباچہ تفسیر القرآن میں بعض باتیں پیش کی ہیں اور ہماری سیرت کی کتابوں میں بھی آپؐ کے اخلاق اور سیرت کے بارے میں باتیں موجود ہیں۔ کچھ مَیں آج مختصر بیان کرتا ہوں، آئندہ جب بھی موقع ملے گا، اِن کی تفصیل بھی بیان کرتا جاؤں گا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ پہلی بات تو الله تعالیٰ کا حق ہے یعنی الله تعالیٰ کی عبادت کا حق۔ اِس میں ہمیں آنحضرتؐ کا کیا اُسوہ نظر آتا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ

رسولِ کریمؐ کی ساری زندگی عشقِ الٰہی میں ڈوبی ہوئی ہے، باوجود اِس کے کہ آپؐ پر بہت بڑی ذمہ داریاں تھیں، نئی شریعت کو جاری کرنا تھا اور لوگوں کی تربیت کرنی تھی۔ یہ بہت بڑا کام تھا، لیکن آپؐ الله تعالیٰ کا جو حق تھا یعنی عبادت کا حق، اُسے کبھی نہیں بھولے۔ یہ بہت بڑی اور اہم بات ہے۔

اِس دوران آپؐ کو مشکلات بھی پیش آئیں، جنگوں کے لیے بھی جانا پڑا، دشمنوں نے حملے بھی کیے۔ لیکن الله تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے میں آپؐ نے کبھی کمی نہیں کی۔

پس یہ وہ اُسوہ ہے جو ہمارے سامنے بھی ہے کہ

ہم ہر حال میں الله تعالیٰ کوسامنے رکھیں اور جب ہم الله تعالیٰ کو سامنے رکھیں گے، تو ہمارے مختلف مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔لوگ اپنے مسائل کے لیے تودعا کرتے ہیں، لیکن ہم الله تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتے، اس لیے پھرانسان محروم ہو جاتا ہے۔

آپؐ کی عبادتوں کے معیار کیا تھے؟ آنحضرتؐ نصف رات گزرنے پر خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اور اِس کی الله تعالیٰ نے بھی گواہی دی ہے۔

حضرت عائشہ ؓنے ایک ایسے موقعے پر جب آپؐ عبادت کے لیے کھڑے تھے، آپؐ کو کہا کہ یا رسول اللهؐ! خدا تعالیٰ کے تو آپؐ پہلے ہی مقرب ہیں، پھر آپؐ اپنے نفس کو اتنی تکلیف میں کیوں ڈالتے ہیں کہ رات کو زیادہ حصّہ عبادت میں گزار دیتے ہیں، الله تعالیٰ کے حضور گڑگڑا رہے ہوتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ سچی بات ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کا مقرب ہوں اور خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کر کے مجھے یہ قرب عطا فرمایا ہے، تو کیا میرا فرض نہیں کہ جتنا ہو سکے مَیں اُس کا شکر ادا کروں؟

اِسی طرح آپؐ کی سیرت میں یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ جب آپؐ الله تعالیٰ کا کلام سنتے، تو بےاختیار ہو کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے، خصوصاً وہ آیات جن میں آپؐ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ایک مرتبہ آپؐ کےارشاد پر حضرت عبدالله بن مسعودؓ نے سورۃ النساء پڑھ کر سنانی شروع کی اور پڑھتے پڑھتے اِس آیت پر پہنچے کہ یعنی اُس وقت کیا حال ہو گا، جب ہم ہر قوم میں سے اُس کے نبی کو اُس کی قوم کے سامنے کھڑا کر کے اُس قوم کا حساب لیں گے اور تجھ کو بھی تیری قوم کے سامنے کھڑا کر کےاِس کاحساب لیں گے۔ تو رسول اللهؐ نے فرمایا کہ بس کرو، بس کرو۔ صحابیؓ  کہتے ہیں کہ مَیں نے آپؐ کی طرف دیکھا تو آپؐ کی دونوں آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہ رہے تھے۔

اتنی خشیت آپؐ پر طاری ہو گئی اور اس وقت یقیناً آپؐ کو قوم کی بھی فکر ہو گی کہ میری قوم کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے، جو الله تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنے اور پھر مجھے اِن کے خلاف گواہی دینی پڑے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ نماز کی پابندی دیکھ لیں! اِس کا آپؐ کو اتنا خیال تھا کہ سخت بیماری کی حالت میں بھی ، آخری دنوں میں جب نماز لیٹ کے پڑھ لینے کی اجازت ہوتی ہے، تاریخ میں آتا ہے کہ آپؐ لوگوں کا سہارا لے کر مسجد کی طرف گئے۔

اِسی طرح آپؐ تکلّف کی عبادت بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ باوجود اتنی عبادتوں کی طرف توجہ دلانے کےآپؐ کہتے تھے کہ تکلّف نہیں ہونا چاہیے۔ ایک دفعہ آپؐ گھر میں گئے، تو دیکھا کہ دو ستو نوں کے درمیان ایک رسّی لٹکی ہوئی ہے، آپؐ نے پوچھا کہ یہ رسّی کیوں باندھی ہوئی ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت زینبؓ  کی رسّی ہے، جب وہ عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہیں، تو اِس کو پکڑ کر سہارا لے لیتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رسّی کھول دو۔ ہر شخص کو چاہیے کہ اُتنی دیر عبادت کیا کرے کہ جب تک اُس کے دل میں بشاشت رہے، جب وہ تھک جائے تو بیٹھ جائے، اِس قسم کے تکلّف والی عبات کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آجکل کے لوگوں کے لیے یہ بھی بتا دوں کہ اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جو آجکل کے لوگ بعض دفعہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ تکلیف میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے، اِس لیے جلدی جلدی نماز پڑھو اور ایک فرض ہے ، ادا کرو، گلے سے اُتارو۔ اور بالکل اُلٹ مطلب اِس بات کا لینا شروع کر دیا ہے کہ اپنی سہولت پیدا کرو۔ آجکل بعض نماز پڑھنے والے عبادت کے لیے آتے ہیں اور چند منٹوں میں نماز پڑھی اور فارغ ہو گئے یا گھروں میں نماز پڑھتے ہیں تو چند منٹوں میں فارغ ہو گئے۔ کئی دفعہ مجھے یہاں بھی لوگ سوال پوچھ لیتے ہیں کہ نماز کس طرح پڑھنی چاہیے؟تو نماز اِسی طرح پڑھنی چاہیے کہ اسے سنوار کر پڑھو۔

خدا تعالیٰ کے حضور انکساری کی یہ حدّ تھی کہ جب لوگوں نے آپؐ سے کہا کہ یا رسول اللهؐ! آپؐ تو اپنے عمل کے زور سے خدا تعالیٰ کےفضل کو حاصل کر لیں گے، کیونکہ الله تعالیٰ نے آپؐ کو سند عطا فرما دی ہے اور آپؐ کے اخلاق کی تعریف کی ہے اور آپؐ کے اُسوہ کو مسلمانوں کے لیےعمل کا ایک معیار قرار دیا ہے، تو اِس کا مطلب ہے کہ آپؐ کے اعمال ایسے ہیں کہ الله تعالیٰ آپؐ کو بخش دے گا یا بخش دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں نہیں! مَیں بھی خدا کے احسان سے ہی بخشا جاؤں گا۔

پھر

آپؐ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے کاموں میں نیکی اختیار کرو اور خداتعالیٰ کے قرب کی راہیں تلاش کرو

اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی موت کی خواہش نہ کیا کرے۔ اگر وہ نیک ہے، تو زندہ رہ کر اپنی نیکیوں میں اور بھی بڑھ جائے گا اور اگر بدّ ہے، تو زندہ رہ کر اُسے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق ملے گی۔ یہ ایک بہت اہم نصیحت ہے، جسے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی موت کی تمنّا نہیں کرنی چاہیے۔

آپؐ کے اعمال کے بارے میں حضرت عائشہؓ ایک جگہ فرماتی ہیں کہ

رسول اللهؐ  کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا موقع پیش نہیں آیا کہ آپؐ کے سامنے دو راستے کھلے ہوں اور آپؐ نے اِن دونوں راستوں میں سے آسان راستہ اختیار نہ کیا ہو، بشرطیکہ آسان راستہ اختیار کرنے میں کوئی گناہ کا شائبہ نہ پایا جائے۔

بنی نوع انسان سے معاملات کا جہاں تک تعلق ہے، اِس میں اپنے گھر سے شروع کرتے ہیں، آپؐ کا بیویوں کے حق میں کیسا معاملہ ہوا کرتاتھا؟ بہت مشفقانہ اور عادلانہ معاملہ ہوتا تھا۔ اگر آجکل کے لوگ بھی اِس کو سمجھ لیں، تو گھروں کے بہت سارے جھگڑے اور فساد دُور ہو جائیں۔

بعض دفعہ آپؐ کی بیویاں آپؐ سے سختی اور ناراضگی سے بات بھی کر لیتی تھیں، مگر آپؐ خاموشی سے ہنس کر ٹال دیتے اور دلجوئی فرماتے تھے۔

پھر حضرت خدیجہؓ کے واقعات ہیں، جو آپؐ کی پہلی اور بڑی بیوی تھیں اور اُنہوں نے آپؐ کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیں، اِن کی وفات کے بعد آپؐ کی شادی میں جوان بیویاں آئیں۔ لیکن اِس کے باوجودآپؐ نے حضرت خدیجہؓ کے تعلق کو نہیں بھلایا۔

آپؐ کے تحمل کا یہ عالَم تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے آپؐ کو بادشاہت عطا فرما دی، تب بھی آپؐ ہر ایک کی بات سنتے تھے، اگر کوئی سختی بھی کرتا تو آپؐ خاموش ہو جاتے تھے اور کبھی سختی کرنے والے کا جواب سختی سے نہیں دیتے تھے۔

تحمل کی یہ حالت تھی کہ بعض دفعہ آپؐ کسی کام کے لیےباہر نکلتے، تو بعض لوگ آپؐ کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتےاور اپنی ضرورتیں بیان کرنی شروع کر دیتے، اُس وقت تک آپؐ کھڑے رہتےجب تک کہ وہ اپنی بات ختم نہیں کر لیتے تھے۔ پھر آپؐ آگے چل پڑتے۔

خطبہ کے آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ اور بہت ساری باتیں ہیں، آنحضرتؐ کی سیرت کی، آپؐ کے انصاف ، جذبات کے احترام ، غرباء کا خیال رکھنے کے بارے میں، جو ہمارے لیے ایک اُسوہ ہیں۔ پس الله تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم آپؐ کے اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کریں اور آپؐ کے اِس پیغام کو دنیا میں پہنچانے والے بھی ہوں، تاکہ دنیا کو بھی آپؐ کے جھنڈے تلے لانے والے ہوں۔ الله تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق عطا فرمائے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِكْ وَ سَلِّمْ اِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک حاضر جنازہ ہے، جو مکرم لئیق احمد طاہرصاحب مربی سلسلہ کا ہے ، یو کے میں تھے۔ گذشتہ دنوں تراسی سال کی عمر میں اِن کی وفات ہو گئی ہے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں ایک بیٹی اور تین بیٹے شامل ہیں۔میٹرک کی تعلیم کے بعد۱۹۵۹ء میں زندگی وقف کی، جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے، ۱۹۶۶ء میں جامعہ سے فارغ ہوئے اور جامعہ کی تعلیم کے دوران اِنہوں نے ایف اے بھی کیا اور ادیب فاضل اور عربی فاضل بھی کیااور جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے بی اے ڈگری بھی حاصل کی۔

جولائی ۱۹۶۷ء میں آپ کو بطورمبلغ انگلستان خدمت کے لیے بھجوایا گیا اور یہاں بطورنائب امام مسجد فضل لنڈن آپ کو خدمت کی توفیق ملی۔پھر ۱۹۷۰ء میں پاکستان واپس چلے گئے، اصلاح و ارشاد کے تحت پھر مختلف جگہوں پر آپ بطور مربی کام کرتے رہے، پھر تبادلہ تصنیف کے شعبے میں ہو گیا۔ پھر وہاں خدمت کے دوران انہیں جامعہ میں اُستاد مقرر کیا گیا اور وہاں تقریباً دس سال یہ تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔

پھر۱۹۸۲ء میں اِن کا تقرر وکالتِ تبشیر میں ہوا، نائب وکیل التبشیر مقرر کیے گئے، پھر ۱۹۸۶ء میں بطور مبلغ سلسلہ امریکہ بھی اِن کو بھیجا گیا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله نے اِن کی پوسٹنگ یہاں بلا کے گلاسگو میں کر دی اور اِنہوں نے بطور مربی و مبلغ سلسلہ خدمت کی توفیق پائی۔۲۰۰۵ء میں یہ جامعہ یوکے کے پرنسپل بھی مقرر ہوئے۔اِن کی خدمت کا عرصہ تقریباً۵۹؍ سال ہے۔الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے۔

دوسرا جنازہ غائب ہے، مکرم سیگھا جالو صاحب نائب صدر ریجن سیگو مالی، اِن کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ انا لله و انا الیہ راجعون!مرحوم بھی موصی تھے۔ مرحوم کو ریڈیو پروگرام سن کر ۱۹۱۶ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی اور پھر انہوں نے اپنے ایمان میں بڑی ترقی کی۔بڑے فدائی اور فعّال احمدی تھے۔ جماعتی پروگراموں اور چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔ خلافت سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا تعلق تھا۔ ان کو بیعت کے دو سال بعد نظامِ وصیّت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔الله تعالیٰ اِن سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

٭…٭…٭

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button