متفرق مضامین

خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ(قسط ہفتم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عشق اور آپ کی ذات بابرکات کےلیے غیرت وجوش مرزا صاحب نے اپنے واجب الاحترام باپ سے لیا تھا۔ اور ان کی ابتدائی تربیت اسی فضا میں ہوئی تھی۔

قسط نمبر ۹

بہاولپور کے زمانہ قیام میں آپ نے ریاست کی خیرخواہی کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔ شاہی خاندان کی عزت واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے رعایا کی آسودگی اور بہتری اور بھلائی کے کاموں کو کبھی نظرانداز نہ ہونے دیا۔ اگر شاہی خاندان کے کسی ممبر اور رعایا کے کسی فردکا کسی قسم کا تنازعہ یا معاملہ پیش آیا تو مرزا صاحب نے محض اس وجہ سے کہ شاہی خاندان کا کوئی آدمی مدعی یا مدعا علیہ ہےاس کی رعایت نہیں کی۔ انصاف اور قانون کے احترام کو قائم کیا۔ اس زمانہ میں خوش قسمتی سے بعض نہایت قابل اور مُتَدَیِّن٭ اہلکار موجود تھے مولانا عبد المالک صاحب، مولوی حاجی سر رحیم بخش صاحب وغیرہ۔ ہر ایک یہ کوشش کرتا تھا کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب کے زمانہ نابالغی میں ریاست کا بہترین انتظام ہو۔

بہاولپور کے زمانہ قیام میں مرزا صاحب کے کارناموں کی تفصیل اس مختصر مضمون میں بیان نہیں کر سکتا۔ مرزا صاحب کی سادگی اور بےلوث زندگی کا بہت بڑا اثرتھا۔ ریاست کی طرف سے آپ کے لیے سواری آیا کرتی تھی۔ لیکن آپ سواری کو چھوڑ کر پیدل ہی کچہری کو چلے جایا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں محکمہ انہار میں کچھ بدعنوانیاں پائی گئیں اور مرزا صاحب نے نہایت قابلیت کے ساتھ ان بدعنوانیوں کا پتا لگایا اور بڑی مضبوطی اور جرأت کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ ریاستوں کی پارٹی اور دھڑابندیاں مشہور ہیں۔ مرزا صاحب کی مخالفت کا جوش بھی ان لوگوں میں پیدا ہؤا جو اِن بدعنوانیوں کے زیرِ الزام تھے۔ اور مختلف قسم کی دھمکیاں بھی ان کو دی گئیں، مگر مرزا صاحب کے پہلو میں ایک دل تھا جو کسی سے نہ ڈرتا تھا۔ ان کی رگوں میں جوخون گردش کرتا تھا اس میں سرد ہونے کی قابلیت ہی نہ تھی۔ مرزا صاحب نے ان دھمکیوں کی کچھ پر وا نہ کی اور کہا کہ میں تویتیم کی امانت کا امین ہوں۔ اس کو بچانا میرا فرض ہے۔ اگر اس حفاظت میں خود بھی مارا جاؤں تو پروا نہیں۔

مخالفوں نے جب دیکھا کہ معمولی دھمکیاں کارگر نہیں ہوتیں تو جان سے ماردینے کا خوف بھی دلایا گیا۔ مرزا صاحب نے کہا کہ میں ان بزرگوں کی نسل سے ہوں جنہوں نے کہا تھا: اوّل مرنا آخر مرنا، پھر مرنے سے کیا ڈرنا۔ تم اپنی ساری کوششوں اور منصوبوں کو کام میں لاؤ، میں اپنے کام سے نہیں رک سکتا۔ میں تو رعایا کا خون پینے والی جونکوں کا خاتمہ کر کے رہوں گا۔ ان کے رفقائے کار نے بھی بعض اوقات حوصلہ چھوڑ دیا، مگر مرزا صاحب اپنے مقام سے نہ ہٹے اور تحقیقات کے سلسلہ کو جاری رکھا بالآ خر کامیاب ہو گئے۔ تمام تحقیقات کو مکمل کیا اور خطاکاروں کو سزا دی گئی۔ اس میں انصاف کے ساتھ رحم کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اس لیے کہ کسی شخص کے ساتھ کوئی دشمنی نہ تھی۔

حیاتِ صادقہ:انہی دنوں میں مرزا صاحب نے صحیح حالات معلوم کر کے حیاتِ صادقہ نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں جناب بیگم صاحبہ کی زندگی کے حالات تھے۔ اس خاتون کی شجاعانہ زندگی، اس کی تہجد گزاری، عفت وعصمت اور بہادری وبےنیازی کے مختلف پہلوؤں پر واقعات کی روشنی میں نہایت عجیب تبصرہ کیا۔ بعض دوستوں نے منع بھی کیا کہ اس کتاب کو نہ شائع کیا جاوے، مگر مرزا صاحب نے کہا کہ اس خاتون کے صفاتِ عالیہ میں بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ مسلمان عورتوں کے لیے بہت بڑا سبق ملتا ہے۔ اس لیے میں اسے روک نہیں سکتا۔ انہوں نے وہ کتاب لکھ کر پریس میں بھیج دی اور چھپ بھی گئی، مگر جن اہلکاروں کو اس کے متعلق اشاعت نہ کرنے کا خیال تھا انہوں نے غالباً اس کی ساری کا پیاں خرید کر اسے ضائع کر دیا۔ یہ بہت ہی قیمتی کتاب تھی اور نواب صاحب مرحوم اور ان کی بیگم کی زندگی کے بعض شاندار پہلو اس سے نمایاں تھے۔ صادقہ خاتون بڑی دلیر اورعفیف خاتون تھیں اور شب زنده دار تھیں، نماز کی بہت بڑی پا بندتھیں۔

ایمانی غیرت: انہی ایام میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ مرزا صاحب کے ایک دوست، بہت بڑے دوست، قابل امتیاز دوست تھے۔ وہ اب تک زندہ ہیں اور بہت بڑے مصنف ہیں۔ مرزا صاحب لاہور میں جب آتے تو عموماً ان کے پاس ٹھہرتے یا کثرت سے ملا قاتیں کرتے۔ عہدِ دوستی کی مرزا صاحب کو ہمیشہ رعایت رہتی تھی اور وہ ایک باوفا دوست تھے۔ اس کتاب کے سلسلہ میں مرزا صاحب لاہور آئے ہوئے تھے۔ اس دوست کوکثرتِ ازدواج کے مسئلہ پر کچھ اعتراض تھے۔ وہ اس کو پسندنہ کرتے تھے۔ مرزا صاحب سے اس مسئلہ پہ گفتگو چھڑ گئی اور یہ گفتگو اتنی بڑھی کہ معمولی گفتگو کے دائرہ سے نکل کر اس میں تیزی کا پہلو آ گیا اور یہاں تک پہنچی کہ اس دوست کے منہ سے اس جوش میں نکل گیا کہ میں تو اسے زناکاری سمجھتا ہوں۔

یہ جملہ سن کر مرزا صاحب کی غیرتِ ایمانی نے جوش مارا اور وہ بےاختیار ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ اس جملہ کی زد سرورِ کائنات کی ذاتِ با برکات تک پہنچتی ہے اور ایسی بات ہے کہ میں نہیں برداشت کر سکتا، اس سختی سے اس دو ست کو اس کاالزامی جواب دیا کہ اس کے ہوش اڑ گئے، وہ گھبرایا اور اسے خیال ہؤا کہ ایسا نہ ہو مرزا صاحب مجھ پر حملہ کر دیں اور خود اسے خیال بھی آیا کہ بے شک میں ایسا جملہ بولنے میں سخت غلطی پر تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ مرزا صاحب نے کہا کہ آج کے بعد تم اس قابل نہیں رہے کہ تمہارے ساتھ تعلقات کو بڑھایا جاو ے۔ اورعملاً ان سے انقطاع کر لیا۔ اس کے بعد وہ ان سے ملنے کے لیے نہ جاتے۔ اگر کبھی ملاقات ہو بھی جاتی تو سرسری طور پر مل لیا، ورنہ انہوں نے اس سے تعلق توڑ دیا۔

جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل پرا عتراض کرتا ہے اور مسلمان کہلاتا ہے بلکہ آپ کی ذریت میں داخل کہلاتا ہے۔ میں اس اعتراض اور ہتک کے بعد اس سے تعلق نہیں رکھ سکتا۔ اس دوست کے و ہم میں بھی یہ بات نہ تھی۔ وہ اپنے رنگ میں ایک غیرت مند مسلمان ہے اور اس امر کا خیال بھی نہیں آ سکتا کہ کیسے ہتک مقصود تھی مگر جملہ ایسے رنگ میں کہا گیا کہ وہ ہتک کا پہلو یا نتیجہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ یہ غیرت کی ایک ہی مثال نہیں اور یہ ایک فطر تی بات تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عشق اور آپ کی ذات بابرکات کےلیے غیرت وجوش مرزا صاحب نے اپنے واجب الاحترام باپ سے لیا تھا۔ اور ان کی ابتدائی تربیت اسی فضا میں ہوئی تھی۔ مرزا صاحب ہمیشہ کہا کرتے تھے: با خدا دیوانہ باش وبامحمدؐ ہوشیار۔ ٭ ٭

ایک عظیم الشان اصلاح کا علم: ایامِ بہاولپور کے زمانہ میں مرزا صاحب نے ایک قدیم رسم کی اصلاح کا عزم کیا اور اس کے لیے بہت بڑی مشکلات ان کے سامنے تھیں۔ انہوں نے شاہی خاندان کی صاحبزادیوں کے نکاح کے مسئلہ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ قدیم رسم جو ایک زمانہ سے چلی آتی ہے کہ صاحبزادیوں کی شادیاں نہیں ہوتی ہیں اسے دور کیا جا و ے۔ وه اگر زیادہ دیر تک وہاں رہتے تو یقیناً اس میں بھی کا میاب ہو جاتے مگرمیعادِ عہدہ ختم ہونے پر انہوں نےواپس آجانا پسند کیا۔(ہفتہ وار ‘سالار’، شمارہ نمبر۴ جلد نمبر۲، ۷ فروری ۱۹۳۲ء، صفحہ نمبر ۱۰)

٭ دین دار، ایماندار

٭ ٭ یعنی خدا کے ساتھ (یعنی عبادت و محبت میں) دیوانہ بن جا، اور محمد ﷺ کے معاملے میں ہوشیار اور محتاط رہ۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ(قسط ششم)

Related Articles

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button