[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍دسمبر۲۰۲۵ء] آج کے چیلنجز میں والدین کے لیے صبر و راہنمائی صبر بچوں کی تربیت کی بنیاد ہے، خاص طور پر جب بچہ فوری طور پر بات نہ مانے یا وقت اور عمر کے لحاظ سے اُس کی طبیعت اور سوچ میں تبدیلی آئے۔ والدین پر لازم ہے کہ صبر کے ساتھ بچوں کی اصلاح کرتے رہیں خواہ نتائج فوری طور پر ظاہر نہ ہوں۔ عصر حاضر میں بیٹے کی کردار سازی پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو چکی ہے۔ دنیاوی ماحول، موبائل، انٹرنیٹ، غلط صحبتیں، سب والدین کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ ایسے میں صرف وقتی روک ٹوک سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ والدین کو مسلسل دعا، شفقت، ذاتی نمونہ، اور وقت کی قربانی دینی ہوگی۔ بچوں کی تربیت ایک مسلسل عمل ہے اور والدین کا تقویٰ، ثابت قدمی، صبر اور قربانی ہی اس کے مؤثر نتائج کی ضمانت ہے۔ایسی ہی ایک مثال قرآن کریم حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ (الصافات:۱۰۳)ترجمہ:پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمرکو پہنچا اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقیناً میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس غور کر تیری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! وہی کر جو تجھے حکم دیا جاتاہے۔ یقیناً اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے۔۹۹برس کی عمر تھی۔ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولادِ صا لح عنایت کی۔ اسماعیلؑ جیسی اولاد عطا کی۔ جب اسماعیلؑ جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دے دو۔ اب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی دیکھو۔زما نہ اورعمر وہ کہ ۹۹ تک پہنچ گئی۔ اس بڑھاپے میں آئندہ اولاد ہونے کی کیا توقع اورطاقتیں کہاں؟ مگر اس حکم پر ابراہیمؑ نے اپنی ساری طاقتیں، ساری امیدیں اور تمام ارادے قربان کر دئیے۔ ایک طرف حکم ہوا۔ اور معاً بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کر لیا۔ پھر بیٹا بھی ایسا سعید بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :بیٹا! اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ۔ تو وہ بلا چُون و چرا یونہی بولا کہ اِفۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُسَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ۔ ابا! جلدی کرو۔ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ خواب کی بات ہے۔اس کی تعبیر ہو سکتی ہے۔مگر نہیں۔ کہا: پھر کر ہی لیجئے۔ غرض باپ بیٹے نےایسی فرمانبرداری دکھائی کہ کوئی عزت، کوئی آرام، کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی۔یہ آج ہماری قربانیاں اُسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں۔ مگر دیکھو کہ اس میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑاور اس کے بیٹے کو کیا جزا دی۔ اولاد میں ہزاروں بادشاہ اور انبیاء… پیدا کئے۔وہ زمانہ عطا کیا جس کی انتہا نہیں۔خلفاء ہوں تو وہ بھی ملّتِ ابراہیمی میں سارے نوّاب اور خلفاء الٰہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہونے والے ہیں… جو اللہ کے لیے انشراحِ صدر سے ایسی قربانیاں کرتے ہیں۔ اللہ بھی ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔اس کے بدلے ابراہیم ؑ کو اتنی اولاد دی گئی کہ مردم شماریاں ہوتی ہیں مگر پھر بھی ابراہیم ؑکی اولاد صحیح تعداد کے دریافت سے مستثنیٰ ہے۔ کیا کیا برکتیں اس مسلم پر ہوئیں کیا کیا انعامِ الٰہی اس پر ہوئے کہ گننے میں نہیں آ سکتے۔ ہماری سرکار خاتم الانبیاء سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ابراہیم کی اولاد سے ہوئے… اب ذرا دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اس فرمانبردار بچے کو جس نے اپنے آپ کو حکم الٰہی کے موجب گویا ذبح کروا ہی لیا کیا کیا اجر دئیے۔وہ لڑکا جس نے رضا الٰہی کے لیے مرنے سے پہلے مرنا اختیار کیا خدا نے اسے کیسے زندہ کیا کہ قیامت تک بادشاہ لوگ اپنے آپ کو اس کی اولاد میں سے ہونے کا فخر کرتے رہیں گے۔ اس کی اولاد کے بچے بھی سید یعنی سردار کہلاتے ہیں۔خدا نے اس کا نام صادق الوعد رکھ دیا۔کیا یہ کوئی چھوٹے بدلے ہیں۔نہیں نہیں یہ بڑی بات ہے جو ہر ایک کے نصیب نہیں ہوتی۔سرور کائنات بھی انہی کی اولاد میں سے ہیں۔کیا یہ کوئی تھوڑی بات ہے مگر کیا وجہ۔وہی کہ اس نے خدا کو ناراض نہ کرنا چاہا۔اس کی رضا کے لیے مرنے سے پہلے مرنا اختیار کیا۔خدا عملوں کو دیکھتا ہے ظاہر شان و شوکت پر ہی یہ انعامات منحصر نہیں جس کو چاہے چن لیوے۔ (حقائق الفرقان جلد ۵ صفحہ ۳۶ ،۳۷ ،۴۱) اس طرح یہ قربانی والد اور بیٹے کے درمیان مکمل ایمانی تعاون کی مثال بنی۔آخر میں دعا ہے کہ اے اللہ! ہمیں صبر و قربانی کے ساتھ اپنی اولاد کی نیک تربیت کی توفیق دے، ہمارے بیٹوں کو صالح، متقی اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں ہمیشہ اپنی رضا کے راستوں پر قائم رکھ۔ آمین (منصورہ داؤد۔ Mubarak Moschee, Wiesbaden) مزید پڑھیں: بیٹے کی کردار سازی میں صبر اور قربانی کی اہمیت اور والدین کا کردار(حصہ اول)