اسلام اپنے ماننے والوں کو سادگی اور قناعت کی تلقین کرتا ہے۔ سادگی کی عادت بہت نفیس خصلت ہے۔ جس قوم نے بھی سادگی کی عادت کو اپنایا وہ کامیاب و کامران ہوگئی۔ آج کے دور میں نت نئے فیشن کی وجہ سے لباس بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے اوراس کے حصول کے لیے اندھا دھند فیشن کے نام پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ بنا کچھ سوچے سمجھے ہی لوگ اس بدعادت کا حصہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ آج جو جتنا فیشن پرست ہے اتنی ہی باکمال شخصیت کا حامل سمجھاجاتا ہے۔ ایک سادہ صفت شخص کو عجب نظروں سے دیکھا جاتا ہے گویا کہ وہ انسان ہی نہیں اسے اوڑھنے بچھونے کا سلیقہ ہی نہیں جب کہ خدا ہمیں سادگی کا حکم دیتا ہے۔ اس اندھی تقلید نے انسان کو اچھے برے کی تمیز بھلا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم پردہ کا ہے۔عورت حسن و حیا کا مرکز ہوتی ہے عورت کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا حکم دیا تاکہ عورت کی عزت اور وقار محفوظ رہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے از خود ظاہر ہو۔ اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں۔اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی(جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں۔ اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ(لوگوں ) پر وہ ظاہر کر دیا جائے جو(عورتیں عموما ً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں۔اور اے مومنو!تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکوتاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ (النور:۳۲) اسلام اتنا پاکیزہ اور صاف ستھرا مذہب ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو نظر بھی نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ خداتعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے: اے نبی! تُو اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اُوپر جُھکا دیا کریں۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی نہ جائیں اور انہیں تکلیف نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا ( اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔ (الاحزاب:۶۰) اسلام نے جو عزت و شرف عورت کوبخشا ہے کسی اور مذہب نے نہیں بخشا۔ اسلام سے پہلے عورت کی حیثیت محض ایک خاک کے پتلے کی سی تھی۔ عورت کا حسن حفاظت میں رہے اس لیے اسے پردے کا حکم دیا۔ فیشن پرستی اور بےپردگی دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور بےپردگی بےحیائی کو جنم دیتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔(صحیح بخاری کتاب الا یمان باب امور الایمان حدیث ۹) دور حاضر میں فیشن زدہ عریانیت کو عروج و ارتقا کا نام دیا جارہا ہے اور ستر وحجاب کو پامال کیا جارہا ہے۔ہر طرف بےحیائی و فحاشی کے مناظر عام ہیں، مغرب کی طرف سے آنے والے اس تعفن کو قوس قزح سمجھ کر اس بد عادت میں بڑی ہی خوش دلی سے خود کو ڈھالا جارہا ہے۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہمارا خدا ہمیں کیا حکم دے رہا ہے۔ آج کل کے فیشن نے عورت اور مرد میں تمیز ہی ختم کردی ہے۔ حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں سے مشابہت کرتی ہیں۔(بخاری ) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: مرد کا حسن اس کے بناؤسنگھار میں نہیں بلکہ اس کی طاقت اور کام میں ہے۔ (مشعل راہ جلد اوّل صفحہ ۳۴۲) آج کے دور میں مرد بھی فیشن کرنے میں عورتوں سے پیچھے نہیں ہیں۔باریک کپڑے پہن کر جسموں کی نمائش کرتے ملتے ہیں۔ عورتوں کی طرح لمبے بال رکھنا بناؤ سنگھار کرنا عام ہوگیا ہے۔شادی بیاہ ہو نکاح ہو یا کہ منگنی جیسی رسم دلہا دلہن بیوٹی پارلروں سے تیار ہو کر آتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ پیسے کی بربادی بھی ہے یہی پیسے کسی نیک مقصد کے لیے بھی خرچ ہو سکتے ہیں۔ ایک اور جگہ آپؓ فرماتے ہیں:’’ظاہری بناؤ سنگھار کی بجائے اچھے اخلاق دلوں پر اثر کیا کرتے ہیں … جو شخص اپنا وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میں ضائع کردیتا ہے۔ وہ نیکی کے بڑے بڑے کاموں سے محروم رہ جاتا ہے۔‘‘(مشعل راہ جلد اوّل صفحہ ۳۴۳) جس طرح کے چست، باریک اور بھڑکیلے نقا بوں کا آج خواتین استعمال کر رہی ہیں اس سے ان کے جسم کے اعضاء مکمل طور پر نمایاں ہو رہے ہیں اور نقش و نگار اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ فیشن پرستی اور مغربی کلچر میں عورتیں اس قدر ملوث ہوگئی ہیں کہ انہیں اپنی شرم و حیا کی پاسداری نہیں رہی۔اب نقاب اس لیے نہیں کیا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے بلکہ اس لیے کرتی ہیں کہ نقاب اب فیشن بن گیا ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’برقعوں میں حد سے زیادہ فیشن کے رجحان کو بھی کم کریں۔ہر اجلاس میں احمدی بچی کا مقام اس کو بتائیں۔مجھے زیادہ بڑے کام نہیں چاہئیں۔ان باتوں پر دھیان دیں نمازوں کی عادت، پردہ کی پابندی، اولاد کی تربیت اور فیشن کی اندھادھند تقلید سے بچنا ان تمام پہلوؤں کے حوالے سے جائزہ لیں۔‘‘ (خط بنام صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان، محررہ ۲؍نومبر ۲۰۰۳ء) (باقی آئندہ بدھ کو ان شاء اللہ) (فہمیدہ بٹ۔ رسلزہائم۔ جرمنی) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: میکرو اور مائیکرو ایوولیوشن