ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو۔لیکن بہت ہی کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس اصول اور طریق پر غور کی ہو جس سے انسان کی عمر دراز ہو۔ قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے۔ وَاَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ(الرعد : ۱۸) یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں۔اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔اﷲتعالیٰ نے ان لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہیں۔حالانکہ شریعت کے دو پہلو ہیں۔اوّل خدا تعالیٰ کی عبادت۔دوسرے بنی نوع سے ہمدردی۔ لیکن یہاں یہ پہلو اس لیے اختیار کیا ہے کہ کامل عبد وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے ۔پہلے پہلو میں اوّل مرتبہ خداتعالیٰ کی محبت اور توحید کا ہے۔ اس میں انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچائے۔ اور اس کی صورت یہ ہے۔ اُن کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرے جیسا کہ وَتَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ(العصر:۴) سے پایا جاتا ہے۔ انسان بعض وقت خود ایک امر کو سمجھ لیتا ہے،لیکن دوسرے کو سمجھانے پر قادر نہیں ہوتا۔ اس لیے اُن کو چاہیے کہ محنت اور کوشش کر کے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاوے۔ ہمدردیٔ خلائق یہی ہے کہ محنت کر کے دماغ خرچ کر کے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے تا کہ عمر دراز ہو۔ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ( الرعد : ۱۸) کے مقابل پر ایک دوسری آیت ہے جو دراصل اس وسوسہ کا جواب ہے کہ عابد کے مقابل نفع رساں کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور عابد کی کیوں نہیں ہوتی؟ اگرچہ میں نے بتایا ہے کہ کامل عابد وہی ہو سکتا ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اور وہ آیت یہ ہے۔ قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡلَا دُعَآؤُکُم(الفرقان : ۷۸) یعنی ان لوگوں کو کہہ دو۔ کہ اگر تم لوگ رب کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پروا کرتا ہے۔ وہ عابد زاہد جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ بنوں اور جنگلوں میں رہتے اور تارک الدنیا تھے ہمارے نزدیک وہ بودے اور کمزور تھے۔ کیونکہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ جو شخص اس حدتک پہنچ جاوے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل معرفت ہو جاوے وہ کبھی خاموش رہ سکتا ہی نہیں۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۹۵،۲۹۴، ایڈیشن ۱۹۸۴ء) مزید پڑھیں: جوزیورروپیہ کی طرح رکھا جائے اس کی زکوٰۃ میں کسی کوبھی اختلاف نہیں