خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ(قسط پنجم)
ان کی امید خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم پر بہت وسیع تھی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت ہی میں داخل کرنا ہے۔وہ اس عقیدہ کا اظہار نہایت پُرلطف طریق پر کیا کرتےتھے۔ فرماتے کہ حساب کتاب کے وقت یہ رپورٹ ہوگی کہ یہ مرزا سلطان احمد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس وقت حکم دےگا کہ اچھا یہ تو ہمارے پیارے کا بیٹا ہے، اس کا حساب کتاب مت کرو، اس کا منہ بہشت کی طرف کر کے اس کے دروازے پر کھڑا کرو اور ایک زور سے لات مارو۔ لات اس کی سزا ہو گی اور میں اس لات کی ٹھوکر سے بہشت میں داخل ہو جاؤں گا۔ یہ کہہ کر چشم پُر آب ہو جاتے اور ایک درد کے ساتھ پڑھنے لگتے: تو رحیمی تو کریمی
[نوٹ:’سالار ‘میں اگرچہ درج ذیل قسط نمبر ۱۷ کے نام سے شائع ہوئی ہے تاہم شمارہ نمبر اور جلد نمبر کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں قسط نمبر ۷ ہے مگر سہواً قسط ۱۷لکھا گیا ہے۔]قسط نمبر ۷
مرزا سلطان احمد صاحب دوسروں کی بھلائی اور نیکی کا جو کام بھی کرتے تھےمدح وذم کے خیال سے بالاتر رہ کر کرتے تھے۔ انہیں کبھی یہ خواہش نہیں ہوتی تھی کہ میرے اس کام کا اعلان یا اشتہار ہو۔ ہر نیک تحریک میں جو قوم وملت کے مفاد کے لیے ہو وہ شریک ہو جاتے تھے اور اس میں دل کھول کر چندہ دیتے تھے اور کبھی اس کو پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کا کام مشتہر ہو۔ غرض اسی روح سے متاثر ہوکر انہوں نے زمینداروں کے مفاد کے لیے یہ کام کیا۔ مرزا سلطان احمد صاحب کی جگہ اگر کوئی اور شخص ہوتا تو جائز طور پر وہ گورنمنٹ سے ہی بہت بڑے مفا داٹھا تامگر آپ نے کبھی پسند نہ کیا۔
اسی سلسلے میں ایک اور واقعہ لکھے بغیر میں آگے نہیں جا سکتا۔ مرزا صاحب کی طبیعت میں زندہ دلی اور ظرافت بھی تھی۔ وہ میانوالی میں متعین تھے۔ وہاں کے مسلمان زمینداروں کی حالت نہایت زبوں تھی۔ قرضہ کے بوجھ کے نیچے بہت بُری طرح وہ دبے ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے ان کی عزت و ناموس تک محفوظ نہ تھی۔ مرزا صاحب نے ان لوگوں کی اصلاحِ حالت کے لیے ان کو قرضہ دلانے کا انتظام کیا اور نہایت تھوڑے سود پر یہ انتظام ہو گیا۔ اس اثنا میں ایک مولوی صاحب وہاں آگئے اور مرزا صاحب نے مسلمانوں کی خستہ حالی کا ذکر کیا اور اس تجویز قرضہ کوبھی بیان کیا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ تو سودی کاروبار ہے اور تمہارا ایسا کرنا جائز نہیں، سود دینے والا اور دِلانے والا دونوں جہنمی ہیں۔ مرزا صاحب نے مسلمانوں کی حالت پر بہت کچھ کہا اور زمینوں کے ساتھ سود کی وجہ سے ان پرجو مصائب ننگ و ناموس تک آئے ہوئے تھے سب بیان کیے، مگر مولوی صاحب یہی زور دیتے رہے کہ تم یہ کام نہ کرو۔ مرزا صاحب نے کہا: بہت اچھا کل فیصلہ کریں گے۔ دوسرے دن وہ ان کو کچہری لے گئے اوروه دن روپیہ دینے کے لیے مقر کیا گیا تھا۔ لوگ بھی جمع تھے۔ مولوی صاحب مرزا صاحب کے پاس کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مرزا صاحب نے چند معزز اور سربرآوردہ زمینداروں کو بلایا اور کہا کہ میں نے تو سب کا انتظام کر لیا ہوا ہے مگرایک نئی مشکل پیش آگئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ تم بھی ان لوگوں کے ساتھ جہنم کو جاؤگے۔ اس واسطے میں اس تجویز کوملتوی کر دینا چاہتا ہوں تاکہ دوزخ میں نہ جاؤں۔ زمیندار یہ سن کر آگ بگولا ہو گئے اور قریب تھا کہ وه اس مولوی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بہنوں بیٹیوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں۔ زمینیں ہماری نکل گئیں اور کھانے کو کچھ میسرنہیں۔ اب ایک فلاح کی صورت پیدا ہو ئی تو مولوی صاحب آ کودے۔ یہ ہمارے گھروں سے کھاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہندو بنیوں کے ہم شکار ہیں۔ اس سے پہلے تو کبھی مولوی صاحب نے منع نہیں کیا۔ اب آپ کو رو کنے آگئے ہیں۔ ضرور ہے کہ انہوں نے مہاجنوں سے رشوت لی ہے اور انہوں نے ان کو آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ اس انتظام کو منسوخ کر دیں۔ ہم پہلے مولوی کا فیصلہ کریں گے۔ اب مولوی صاحب بھا گتے پھرتے ہیں اور زمیندار پیچھے پیچھے۔ مرزا صاحب نے بیچ بچاؤکیا اور مولوی صاحب نے کہا کہ میری جان بچاؤ۔ چلو میں ان کے سامنے جا کر فتویٰ دیتا ہوں کہ یہ لوگ مضطر ہیں، ان کے لیے یہ انتظام بہت ضروری ہے اور آپ کو بھی جنت کی بشارت دیتا ہوں۔
مرزا صاحب کہتے تھے کہ میں نے اس کو کہا کہ میری جنت کی بشارت تو تم رہنے دو، اس لیے کہ میرے دو زخ بہشت کی کنجیاں آپ کے پاس نہیں ہیں۔ وہ تو میرے اللہ نے مجھے ہی دےدی ہوئی ہیں کہ جہاں چاہوں چلا جاؤں۔ تم ان لوگوں کو تسلی دو ور نہ یہاں تو میں نے بچا لیا۔باہرجانے پر اگر انہوں نے آپ پر حملہ کردیا تو کون ذمہ داری لےگا۔ چنانچہ مولوی صاحب آئے اور تمام مجمع کے سامنے انہوں نے اقرار کیا کہ میں نے حالات پر غور نہیں کیا تھا۔ میں نے مسئلہ کی عام صورت بیان کر دی تھی۔ موجود ہ صورت میں تو یہ انتظام ضروری اور جائز ہے اور جیسے مضطر کو حرام بھی حلال ہو جاتا ہے وہی حالت تم لوگوں کی ہے۔ تمہاری حالت کے درست کر نے والا تو بہت بڑی نیکی کرنے والا ہے۔ ضرور روپیہ دینا چاہیے۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ دستاویزات پر مولوی صاحب کے بھی دستخط بطور گواہ کرا لو۔ مولوی صاحب نے دستخط کیے اور روپیہ دیا گیا۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ان کو مسلمانوں اور زمینداروں کی اقتصادی حالت کی اصلاح کا کس قدر فکر تھا اور ایک بات ان کے ایمان کی قوت کی بھی معلوم ہوتی ہے۔ دوزخ اور بہشت کے متعلق ان کا صحیح عقیدہ یہ تھا کہ ہر شخص اپنے دوزخ یا بہشت کو آپ پیدا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں بلکہ ایک شہادتِ حقہ کو اداکرتاہوں کہ ان کی امید خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم پر بہت وسیع تھی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت ہی میں داخل کرنا ہے۔وہ اس عقیدہ کا اظہار نہایت پُرلطف طریق پر کیا کرتےتھے۔ فرماتے کہ حساب کتاب کے وقت یہ رپورٹ ہوگی کہ یہ مرزا سلطان احمد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس وقت حکم دےگا کہ اچھا یہ تو ہمارے پیارے کا بیٹا ہے، اس کا حساب کتاب مت کرو، اس کا منہ بہشت کی طرف کر کے اس کے دروازے پر کھڑا کرو اور ایک زور سے لات مارو۔ لات اس کی سزا ہو گی اور میں اس لات کی ٹھوکر سے بہشت میں داخل ہو جاؤں گا۔ یہ کہہ کر چشم پُر آب ہو جاتے اور ایک درد کے ساتھ پڑھنے لگتے: تو رحیمی تو کریمی۔
حدودِ شریعت کی احتیاط: با وجود اس کے ان کی زندگی بعض کمزوریوں سے خالی نہ تھی اور عام انسانوں کی طرح وہ اپنے نفس کی غلامی میں مبتلا ہو جاتے، وہ ہمیشہ حدودِ شریعت کا احترام کرتے اور احتیاط کرتے کہ کو ئی ایسا امر عام طور پر جاری نہ ہو جا وے جو کھلم کھلا استخفافِ شریعت کا موجب ہو۔ امدادِباہمی کی جب تحریک شروع کی تو اس میں انہیں سخت انہماک تھا۔ دوسری طرف مسئلہ سود کے متعلق ایک حل بھی وہ چاہتے تھے۔ اس لیے کہ اس تحریک کے اجرا میں علماء یہ روک بھی پیش کر دیتے تھے۔ اس مشکل کا حل اگر چہ انہوں نے بعض اور جائز صورتوں کے رنگ میں بھی کر لیا تھا، مگر مسئلہ سود کو صاف کرنے کے لیے انہوں نے ایک مفصل استفتا تیار کیا۔ اسے چھپوا کر مشہور علماء کے پاس بھیجا اور ہر مولوی صاحب کے پاس ایک لفافہ بھی ٹکٹ لگا کر روانہ کیا کہ وہ اس کا جواب دیں۔ بہت سے خطوط لکھے گئے اور ایک معقول رقم اس پر خرچ ہوئی، مگر چندآد میوں کے سوا کسی نے جواب نہ دیا۔ دوبارہ اور سہ باره یاد دِہانی کرائی مگر صدا ئے برنخاست ٭۔ اس بات سے علمائے سوءکے متعلق انہیں بہت افسوس ہوا۔ کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو ان مولویوں نے تباہ کیا۔ وه علمائےربانی کا احترام کرتے مگر عام طور پر ان لوگوں سے متنفر تھے۔
ایک مولوی صاحب سے ملاقات: مولوی صاحبان علی العموم ان کے پاس چلے بھی جاتے تھے۔ بعض اس خیال سے کچھ راہ ورسم پیدا ہوجائے گی اور وہ کچھ خدمت بھی کر دیا کرتے تھے اور بعض یہ سمجھ کر کہ یہ حضرتِ اقدسؑ کے مخالف ہیں (نعوذ باللہ)۔ وہ جالندھر میں افسرمال تھے۔ چونکہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ تکلف سے رہنا جانتے ہی نہ تھے بلکہ گونہ نفرت تھی۔ وہ اپنے خاندان کی شان کو عزیز ر کھتے تھے اور وہ دوسروں سے سلوک کرنا ،خاکساری اور سیرچشمی کا نمونہ تھے۔ مکان کے ملنے میں کچھ دقّت تھی۔ ایک مکان ملاجو کنجری کا تھا۔ مرزاصاحب نے کرایہ پرلے لیا۔ اٹھ کر اس میں چلے گئے۔ ابھی دو چار دن ہوئے تھے کہ ایک مولوی صاحب ان کے پاس پہنچے اور بڑے جوش کے ساتھ اس مکان کو چھوڑ دینے کا وعظ شروع کیا اورسختی کے ساتھ اس کو چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ مرزا صاحب سنتے رہے اور بالآخر کہاکہ مولوی صاحب یہ تو کنجری کا مکان ہے۔ اگر مجھے دو دن اور کوئی مکان نہ ملتا تومیں تو کنجر وں کے گھرہی میں چلا جاتا۔ آپ میرے لیے مکان کا بندوبست کر کے آتے اور اس سے آرام دہ نہیں تو ایسا ہی سہی یا کم درجہ کا ہی سہی مکان تجویز کر لاتے تو میں سمجھتا کہ آپ کو میرے ساتھ ہمدردی ہے۔ میں اس شہر میں مسافر کے طور پر آیا اور آپ نے یا کسی اور نے اتنا بھی نہ کیا کہ میرے لیے تکلیف اٹھا کر مکان کرایہ پرلے لیتے۔
(ہفتہ وار سالار، شمارہ نمبر ۲۹ جلد نمبر۱، بتاریخ ۷؍دسمبر۱۹۳۱ء)
٭بار بار یاد دہانی کروائی مگر کوئی آواز نہ اٹھی یعنی کوئی جواب نہ ملا۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ




