ایک اہم چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے۔ زمینداروں کے لئے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اسی طرح جنہوں نے جانور وغیرہ بھیڑ، بکریاں، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے تک پر زکوٰۃ ہے۔ پھر بینک میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے۔ پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوٰۃ ہے۔ اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے۔ اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں، جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات تو نہیں دیتیں، دوسری تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں۔ لیکن اگر ان کے پاس زیور ہے، اس کی بھی شرح کے لحاظ سے مختلف فقہاء نے بحث کی ہوئی ہے۔ باون تولے چاندی تک کا زیور ہے یا اس کی قیمت کے برابر اگر سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے، اور اڑھائی فی صد اس کے حساب سے زکوٰۃ دینی چاہئے اس کی قیمت کے لحاظ سے۔ اس لئے اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور زکوٰۃ ادا کیا کریں۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ۲۸؍مئی ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۱؍جون ۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: عورتوں سے حسن سلوک کرنے کی نصیحت