(قسط چہارم) اگر تم چاہتے ہو کہ مجھے قتل کر وتو آؤ قتل کر و، مگر اس کو یاد ر کھو کہ میں نے جو کام شروع کیا ہے میں اس کو ضرور کروں گا اس لیے کہ آج تم نہیں سمجھتے کل تمہیں پتا لگ جائے گا کہ اس کے ذریعہ تمہاری غیرتیں اور جائیدادیں محفوظ ہوگئی ہیں (تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۳؍دسمبر ۲۰۲۵ء) قسط نمبر ۶ زمینداروں کی ہمدردی: دوران ملازمت میں یہ خیال کبھی ان کے دل سے محونہیں ہؤا تھا کہ زمینداروں کےمصائب اور مشکلات کے حل کی کوئی تدبیر کی جائے۔ زمینداروں کے مصائب کا کچھ علاج تو ان کے اپنے ہاتھ میں تھا اور کچھ ان کی دسترس اور قابو سے باہر تھا۔ اپنے ہاتھ میں تو اس قدر تھاکہ جن معاملات کا تعلق آپ سے ہو تا، مثلاً تقاوی ٭کی تقسیم یا انتقالِ اراضی کے معاملات وغیرہ، ان میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے کہ غیرضروری طور پر زمینداروں کا وقت اور روپیہ صرف نہ ہو اور ان کے مقدمات لمبے نہ ہوں، لیکن بعض ایسی صورتیں تھیں کہ وہ جب تک قانوں کی شکل اختیار نہ کریں کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ منجملہ ان کے ایکٹ انتقالِ اراضی کا پاس ہونا۔ ایکٹ انتقال اراضی سے پیشتر زمینداروں کی زمینیں ان کے قبضہ سے دن بدن نکل رہی تھیں اوراگر یہ قانوں پاس نہ ہو گیا ہوتا تو آج تک شاید بہت ہی تھوڑے زمیندار اپنی زمینوں کے مالک رہ جاتے۔ مرزا صاحب نے اس ضرورت پر قلم اُٹھایا۔ وہ خود کوئی قانون پیش نہیں کر سکتے تھے مگر انہوں نے رائے عامہ پیدا کرنے کے لیے لاہور کے مشہورومعروف اخبار ’’رفیقِ ہند‘‘ میں قانون انتقالِ اراضی کی ضرورت پر ایک سلسلۂ مضامین لکھا اور اس میں زمینداروں کے حالات اور اس قانون کے بغیر ان کے انجام کا ایسا نقشہ کھینچا کہ حکومت اس قانون کے لیے مجبور ہو گئی۔ مرزا صاحب کے مضامین ان کے نام سےچھپتے تھےاور گورنمنٹ پنجاب نے ان مضامین کے ترجمہ پر بہت بڑی رقم خرچ کی۔ آج کوئی شخص معمولی سا سوال بھی کونسل میں کرتا ہے تو وہ اس کے لیے تعریف کا امیدوار ہوتا ہے اور اس کے مؤیدین آسمان پرچڑھا تے ہیں۔ لیکن یہ وہ وقت تھا کہ ایک سرکاری عہدہ دار کے لیے اخبارات میں اس بحث کا اٹھانا آسان نہ تھاجس میں حکومت کی بے پروائی یا غفلت کا راز فاش کردیا گیاہو اور حکومت کو آنے والے خطرہ سے ڈرایا گیاہو۔ ان مضامین کی مخالفت ہوئی اور ہندوؤں نے بھی بڑا زور لگایا لیکن آخر مرزا صاحب کی مخلصانہ کوششیں بارآور ہوئیں اور قانون انتقال اراضی پاس ہو گیا اور اس طرح ڈ وبتے ہوئے زمینداروں کو بچا لیا۔ اس معاملہ میں بعض نہایت ہی ذلیل رنگ کی مخالفتیں بھی مرزا صاحب کی کی گئیں، مگروہ کوششیں ان کی غیرت اور دیانت کے اعتراف کا موجب ہو گئیں۔ تحریک امداد باہمی کا آغاز: کو آپریٹو سوسائٹیوں کاپنجاب میں کیا ہندوستان میں بھی نام ونشان نہ تھا۔ ایکٹ انتقالِ اراضی کے پاس ہونے سے یہ خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ زمینداروں کو آئندہ قرضہ نہیں ملے گا اور یہ ایک کھلی ہوئی بات تھی۔ یہ خطرہ ایسا یقینی تھا کہ ایکٹ انتقالِ ا راضی کے وقت بعض زمینداربھی مخالفت کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہمارا کاروبار بند ہو جائےگا اورہماری ضروریات پوری نہ ہو سکیں گی اور ساہوکاروں نے اس قسم کی دھمکیاں ان کو دی تھیں کہ ہم قرضہ نہ دیں گے مگر اس مخالفت کی مرزا صاحب نےپروا نہ کی اور اس کے ساتھ ہی وہ اس فکر میں ہو گئے کہ زمینداروں کے قرضہ کی ضروریات کا بھی انتظام ہو۔ اس غرض کے لیے انہوں نے زمیندار بینکوں کی تجویز پر زور دیا۔ اس تجویز کے وقت مسٹرلنگلے نے ان کی بہت بڑی حوصلہ افزائی کی۔ جب زمیندار کے بینکوں کی تجویز کا اجرا کیا گیا تو اس کے لیے بھی مرزاصاحب نے پہلے رائے عامہ پیدا کرنے کے لیے اخبار ’’رفیقِ ہند‘‘ ہی میں زمیندار بینکوں کی ضرورت پر مضامین لکھنے شروع کیے اور زمینداروں کو ایسے بینکوں کے کھولنے کی طرف توجہ دلائی۔ اب پھر طوفانِ بدتمیزی پیداہؤا۔ ساہوکاروں نے محسوس کیا کہ ہمارے سا ہوکاروں پر ایک ضرب ہے مگر خود زمینداروں نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ آگے ایکٹ انتقال اراضی کے سبب سے ہماری ساہوکاروں سے موافقت نہیں رہی اور اب اگر اس تحریک میں حصہ لیتے ہیں تو اب تک جو تھوڑا بہت قرضہ مل جاتا ہے یہ بھی نہیں ملے گا اور ساہوکاروں کو زمینداروں کو بھڑکانے کا خوب موقع ہاتھ آ گیا، مگر مرزا صاحب نے اس تجویز کو اپنے کسی فائدہ یا نمود کے لیے تو شروع نہ کیا تھا اس لیے وہ کسی مخالفت کی پروا نہ کر تے تھے۔ قتل کا منصوبہ: اس سلسلہ میں ایک جگہ زمینداروں کو ہندوساہوکاروں نےبہت اُکسایا اور جوش دلایا اور انہوں نے ارادہ کر لیا کہ مرزا صاحب کو قتل کر دیں۔ قتل کے منصوبے بھی شاید اس خاندان کے لیے کچھ لازمی چیز ہو گئے ہیں۔ مرزا صاحب کے پڑدادا اور باپ کو قتل کرنے کے منصو بے اپنے اپنےوقت میں ہوتےرہے۔ خدا تعالیٰ نے ان سب کو محفوظ رکھا۔ مرزا صاحب کہتے تھے کہ مجھے یہ معلوم نہ تھاکہ میرے خلاف اس حد تک شورش ہو چکی ہے۔ ایک روز وہ دورے میں کسی جگہ جا رہے تھے اور خدا کی قدرت راستہ بھی بھول گئے، اس لیے کہ ان کو ساتھ لاؤ لشکر رکھنے کا شوق نہ ہوتا تھا۔ ایک زمیندار انہیں ملا اور اس نے کہا کہ تم اس طرح پر اکیلے نکل آتے ہو، کیاتمہیں معلوم نہیں تمہارےخلاف تو خطر ناک منصو بے ہور ہے ہیں۔ یہاں تک بھی کہ قتل کر دیا جاو ے۔ مرزا صاحب کہتے تھے کہ میں نے اس زمیندار کو کہا کہ میرا کیا قصور ہے۔ میں زمینداروں کا خیرخواہ ہوں۔ اس نے بتایا کہ زمیندارآپ کی خیرخواہی تسلیم کرتے ہیں، مگر وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس قسم کے بینک اگر جاری ہوئے تو ہماری تمام ضروریات رک جائیں گی اور ساہوکاروں نے ابھی سے ان کو جواب دینا شروع کر دیا ہے تاکہ ان میں اچھی طرح جوش پیدا ہو جائے۔ مرزا صاحب فطرتی طور پر دلیر تھے۔ جس جگہ اس قسم کا منصو بہ ہؤا تھا وہ تنہا وہاں ہی چلے گئے اور ان ساہوکاروں اور دیہاتیوں کو جمع کر کے کہا کہ دیکھو! میں اکیلا تمہارے گاؤں میں آگیا ہوں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ مجھے قتل کر وتو آؤ قتل کر و، مگر اس کو یاد ر کھو کہ میں نے جو کام شروع کیا ہے میں اس کو ضرور کروں گا اس لیے کہ آج تم نہیں سمجھتے کل تمہیں پتا لگ جائے گا کہ اس کے ذریعہ تمہاری غیرتیں اور جائیدادیں محفوظ ہوگئی ہیں۔ ساہوکار میری مخالفت کریں تو بے شک ان کا حق ہے،اس لیےکہ ان کی آمدنی کے ذریعہ اس طرح پربند ہوتے ہیں، مگر تم زمیندار مخالفت کر کے اپنا نقصان کرتے ہو۔ جو شبہات تم کو اٹھتے ہیں وہ مجھ سے پوچھو۔ اس پر زمینداروں نے بتایا کہ ہم کو اس طرح قرض ساہو کاروں سےمل جاتا ہے اور جب یہ بینک ہوں گے تو سا ہوکار دیں گے نہیں اور بینک میں بڑی پابندیاں ہوں گی۔ جب ان کو تمام پہلو سمجھا ئے گئے تو قریب تھا کہ وہ زمیندارسا ہو کاروں پر حملہ کر دیں اور انہوں نے کہا کہ ہم کو تو انہوں نے ہی جوش دلایا تھا۔ ساہوکاروں کے بھی یہ سن کر چھکے چھوٹ گئے اور وہ حیران ہو گئے کہ اب کیا ہوگا۔ مرزا صاحب نے کہا کہ میں تمہارے خلاف نوٹس لے سکتا ہوں مگر میں اس کی پروا نہیں کرتا۔ بینکوں کی تجویزمیں چلاؤں گا اور تم اگرمیری مخالفت کرو گے تو ناکامی ہوگی۔ اس لیے بہترہے کہ تم ان بےوقوف زمینداروں کو خراب نہ کرو۔ اور اس طرح پرتمہارے قرضے بھی صاف ہو جائیں گے۔ یہ واقعہ جہاں مرزا صاحب کی جرأت اور مستقل مزاجی پر روشنی ڈالتا ہےوہاں زمینداروں کے لیے ان کے دل میں جو درد اورتڑپ تھی اس کو بھی واضح کرتا ہے۔نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ تحریک جو اس قسم کی مشکلات سے شروع کی گئی تھی اس کا ملک میں ایک جال بچھا ہؤاہے اور اس تحریک کے جو اقتصادی معجزات ظا ہر ہوئے ہیں میں ان کی تفصیل میں نہیں جا سکتا، یہ امدادِ باہمی کے صیغہ کی رپوٹوں سے واضح ہے۔ انتقالِ اراضی کے قانون اورتحریک امدادِباہمی نے زمینداروں کو تباہی سے بچا لیا اور دونوں کے لیےجس شخص کے دماغ اور ہاتھ نے کام کیا وہ زمینداروں کا محسن مرزا سلطان احمدتھا۔(ہفتہ وار ’’سالار‘‘، شمارہ نمبر ۲۶ جلد نمبر۱، ۱۵؍نومبر ۱۹۳۱ء، صفحہ نمبر ۱۱) ٭تقاوی:وہ امدادی رقم جو زراعت کی ترقی کے لیے حکومت کی طرف سے بطور قرض دی جاتی ہے، امدادی قرضہ۔