ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب مرحوم ایسے برگزیدہ وجود تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم، تقویٰ، اخلاص، وفا اور خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی۔ آپ نہ صرف جماعت احمدیہ کے ایک بلند پایہ مربی سلسلہ اور عالم دین تھے بلکہ ایک نیک دل، نرم خو اور بے نفس انسان بھی تھے جن کی زندگی کی ہر سانس خلافتِ احمدیہ کی محبت اور اطاعت سے معطر تھی۔ ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب کا تعلق ایک دینی اور خدام سلسلہ گھرانے سے تھا۔ڈاکٹر صاحب مرحوم کو پاکستان کے علاوہ برطانیہ اور جرمنی میں بطور مبلغ سلسلہ خدمات کی توفیق ملی۔ بعد ازاں برطانیہ میں انچارج ٹرکش ڈیسک مقرر ہوئے اور تادمِ وفات بہت محنت اور اخلاص کے ساتھ اس خدمت کو سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے تُرکی زبان میں پی ایچ ڈی کی تھی اور یوں جماعت احمدیہ کا سرمایہ بن گئے۔ ترکی زبان پر عبور حاصل کرنا بلاشبہ ایک علمی کمال ہے، لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے اپنی صلاحیت کو ذاتی شہرت یا دنیاوی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ پوری زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو مختلف اقوام تک پہنچانے کے لیے وقف کر دی۔ ڈاکٹر محمدجلال شمس صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متعددکتب کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا جو نہ صرف ترکی عوام کے لیے ایک علمی خزانہ ہے بلکہ جماعت احمدیہ کے بین الاقوامی پیغام کو وسعت عطا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ان تراجم کے ذریعے لکھوکھہا ترک زبان بولنے والے افراد تک امامِ وقت کا پیغام اپنی اصل روح کے ساتھ پہنچا۔ یہ کام اگرچہ علمی نوعیت کا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک عظیم روحانی اور دینی خدمت ہے۔ ایک ایک لفظ کے ترجمے میں اخلاص، مطالعہ، دعا اور عشقِ مسیح ؑکی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس کام کے لیے جس تقویٰ، فہم اور علمی متانت کی ضرورت تھی، اللہ تعالیٰ نے وہ سب آپ کو بدرجہ اتم عطا فرمایا تھا۔ خاص طور پر اپنی ٹیم کے ساتھ قرآنِ کریم کے جماعتی ترکی ترجمہ کی نظرِثانی اور ترجمہ کیا۔ آپ مختلف زبانوں پر مہارت رکھتے تھے مثلاً اردو، پنجابی، انگریزی، تُرکی، عربی، فارسی،جرمن اور سرائیکی وغیرہ۔ علم کے باوجود عاجزی، مقام کے باوجود انکساری اور فہم کے باوجود حلیم الطبعی، یہ وہ صفات تھیں جو ڈاکٹر صاحب کے ہر قول و عمل میں نمایاں تھیں۔ آپ کی شخصیت سے ملنے والا ہر شخص یہی کہتا کہ وہ ایک بے حد نرم دل، محبت کرنے والے اور نفیس انسان تھے۔ ان کی مجلس علمی باتوں سے لبریز ہوتی، لیکن ساتھ ہی محبت، شفقت اور اخلاق کا پیکر نظر آتے۔ ان کے لب و لہجے میں کبھی سختی نہ ہوتی بلکہ ایک مربیانہ وقار اور پدرانہ شفقت ہمیشہ نمایاں رہتی۔اگر کسی سے کبھی تلخ کلامی ہوتی تو تھوڑی دیر میں ہی اُس شخص سے معذرت کرتے۔ ڈاکٹر محمدجلال شمس صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ان کا بے مثال اخلاص اور وفا تھا۔ وہ نہ صرف خلیفہ وقت کے ہر ارشاد پر دل و جان سے عمل کرتے بلکہ دوسروں کو بھی محبت، عزت اور ادب کے ساتھ خلافت کے دامن سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے۔ خلافت کے لیے ان کی محبت محض الفاظ تک محدود نہ تھی بلکہ یہ محبت ان کے ہر عمل، ہر قدم اور ہر ترجیح میں نمایاں تھی۔ یہ تعلق محض ایک ذاتی وابستگی نہ تھا بلکہ وہ اس کو ایک دینی فریضہ، روحانی تعلق اور جماعتی نظام کی بنیاد سمجھتے تھے۔ خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ان کا جو رشتہ تھا، وہ ہمیشہ احمدی احباب کے لیے ایک مثالی نمونہ رہے گا۔ڈاکٹر صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی، جس کا ہر صفحہ علم، محبت، اخلاص اور وفا کی خوشبو سے معطر تھا۔ اگر ان کی زندگی کو قلمبند کیا جائے تو یہ نہ صرف ایک سوانحی دستاویز ہوگی بلکہ ایک روحانی راہنمائی کا ذریعہ بھی۔ آپ نے جو علم چھوڑا، جو تراجم کیے، جو دل جیتے اور جو خلافت کی محبت کی مثالیں قائم کیں، وہ سب آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن چکے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجلس خدام الا حمدیہ جرمنی کے سالانہ اجتماع ۱۹۹۸ء پر جب میری ملاقات امیر صاحب جرمنی سے ہوئی تو آپ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اب کولون میں ایک مضبوط مربی کی پوسٹنگ ہوئی ہے(مراد ڈاکٹر صاحب تھے)۔ اب دیکھنا آپ کا ان کے ساتھ کیسے کام چلے گا۔ خاکسار کواُن دنوں بطور ریجنل امیر کولون ، جرمنی خدمتِ سلسلہ کی توفیق مل رہی تھی۔اُس زمانے میں جرمنی میں پانچ ریجنل اُمراء ہوا کرتے تھے ۔تقریباً دو ماہ بعد محترم ڈاکٹر صاحب کی کولون میں تعیناتی ہوئی۔ ہماری اُس دن کی ذاتی ملاقات سے لےکر تا دم وفات عرصہ پچیس سال سے زیادہ ،محترم ڈاکٹر صاحب میرے لیے ایک دعا گو بھائی اور گرم جوش دوست بنے رہے۔وفات سے صرف دو دن قبل شام کے وقت میری اُن کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹہ طویل گفتگو ہوئی۔ میں نے اُنہیں ایک ذہین علمی شخصیت، نہایت عاجز اوردرویش صفت، صاف گو، ایک نرم دل، شفیق و رفیق ، ہمدرد اور باوفا دوست اور فدائی سلسلہ عالیہ احمدیہ و خلافت احمدیہ وجود پایا۔مجھے اُن کے ساتھ رہ کر اور جماعتی دورہ جات اور تبلیغی سفروں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ہم دونوں کو اکٹھے بطورجماعتی تبلیغی وفد چیک ریپبلک، سلواکیہ اور آسٹریا کے سفر پر جانے کا بھی موقع ملا۔ اس کے علاوہ ذاتی طور پر ہم نے اکٹھے جرمنی سے بذریعہ کار ڈنمارک، سویڈن، ناروے اور پورے برطانیہ میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز کا سفر بھی کیا ۔ خاکسار کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا از حد شفقت کا سلوک رہا ۔رُبع صدی سے زیادہ عرصے کے اس طویل خوشگوار تعلق کے دوران خاکسار نے آپ کی کئی خوبیوں کا مشاہدہ کیا۔ جن میں آپ کا عجزو انکسار، بذلہ سنج طبیعت اورمہمان نوازی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔جماعتی دورہ جات میں جہاں کوئی دوست ہماری مہمان نوازی کرتا تو اکثر رخصتی کے وقت ڈاکٹر صاحب اس گھر کے بچے کو پیار دیتے اور تحفۃً کچھ رقم بچے کے ہاتھ میں تھما دیتے اور مجھے بھی ایساہی شکریہ کے طور پرکرنے کا اشارہ کرتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اُن کا یہ انوکھامعمول تھا کہ جرمنی میں ہر اُس جماعت میں جہاں آپ جاتے اپنی طرف سے جرمنی کے سو مساجد فنڈ میں بیس یورو ادا کرتے اور سیکرٹری مال سے اس کی رسید لیتے۔آپ ایک دعا گو وجود تھے۔ عام گفتگو میں ایک دعائیہ فقرہ ہر آن آپ کی زبان پر ہوتا تھا کہ ’’اللہ خوش رکھے‘‘۔ حق یہ ہے کہ مرحوم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے یہ حسین واقعات اور لمحات جب یاد آتے ہیں تو بےساختہ آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔اُن کی کمی محسوس ہوتی ہےاور دل سے اُن کے لیے دعائے مغفرت نکلتی ہے۔میں اکثر حسبِ توفیق ڈاکٹر صاحب اور اُن کی اہلیہ کے لیے اپنے سجدوں میں اُن کی مغفرت اور بلندئ درجات کےلیے دعا کرتا رہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ جہاں تک میں نے مرحوم ڈاکٹر صاحب کے وجود کو جانا ہےآپ کو ایک خدا رسیدہ ، عاجز اوردرویش صفت وجود پایا۔ اللہ تعالیٰ میرے اس مرحوم خادم سلسلہ بھائی کو غریقِ رحمت فرمائے اور اُن کے ساتھ مغفرت، رحمت اور بخشش کا سلوک فرمائے۔اُن کی قبر کو اپنے نورِ رحمت سے پُر نور فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ اور ہمیں بھی ان کی صفاتِ حمیدہ کو اپنانے کی توفیق بخشے۔ آمین یا ارحم الراحمین۔ اللہ تعالیٰ ان کے اہل وعیال، برادران اور تمام عزیزان کو اپنےاس پیارے اور نافع الناس وجود کی جدائی برداشت کرنے کا حوصلہ اور صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ اے خدا برتُربتِ او بارش رحمت ہا ببار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم (پروفیسرڈاکٹر سید بشارت احمد شاہ ۔سابق ریجنل امیر جرمنی) ٭…٭…٭