٭… تبلیغ کے لیے بھی کچھ شرائط اور آداب ہیںجنہیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ورنہ اُلٹا اثر ہو جاتا ہے۔پس اس بات کو سمجھیں اور پھر تبلیغ کریں۔ کیونکہ بعض لوگ اپنی تبلیغ سے دوسروں پر منفی اثر ڈالتے ہیں اور بجائے مثبت اثر ہونے کے اُلٹا اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ غیروں کو جماعت پر بھی اور جماعت کی تعلیم پر بھی اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے، جو حقائق سے دُور ہے ٭… یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے فلاں مولوی یا فلاں عالِم کو تبلیغ کر کے اُس کو قائل کرنا ہے یا فلاں بحث کرنے والے یا اعتراض کرنے والے کو تبلیغ کرنی ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں حقیقی اسلام کا پیغام پہنچے اور دنیا کو اِس بات کا قائل کرنا ہمارا مقصد ہے کہ اِس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نے آنا تھا، وہ آگئے ٭… مربیان سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ اُن کے ذمہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، اُنہیں صرف جماعت کی تربیت ہی نہیں کرنی ، بلکہ اِس تربیت کے ساتھ ساتھ افراد کو الله تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں جوڑنا ہے۔ جہاں وہ یہ کریں وہاں اُن کا علم بھی بڑھائیں اور اُنہیں اِس جہاد کے لیے تیار بھی کریں۔ جب وہ یہ کریں گے تبھی اپنا عہد پورا کرنے والے ہوں گے خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍دسمبر ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۲؍فتح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۱۲؍دسمبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔ جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل کی آیت ۱۲۶کی تلاوت کی اوراس کا ترجمہ پیش فرمایا کہ اپنے ربّ کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور اُن سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا ربّ ہی اُسے، جو اِس کے راستے سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اس کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآنِ شریف میں الله تعالیٰ نے اِس آیت میں بھی اور بہت سی دوسری آیات میں بھی جہاں تبلیغ کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں احسن رنگ میں تبلیغ کرنے کی ہدایت دی ہے اور نصیحت کرنے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ دوسروں پر اثر بھی ہو اور اس کا فائدہ بھی ہو۔ آجکل سوشل میڈیا کی وجہ سےلوگ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ بہت آسان ہے۔ جو شوق رکھتے ہیں وہ یہ کام بڑے شوق سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا بعض ایسے بھی ہیں جو پبلک جگہوں پر جا کر، جہاں اِن ملکوں میں اجازت ہےوہاں تبلیغ کرنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔یہ اچھی بات ہے، لیکن تبلیغ کے لیے بھی کچھ شرائط اور آداب ہیںجنہیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ورنہ اُلٹا اثر ہو جاتا ہے۔پس اس بات کو سمجھیں اور پھر تبلیغ کریں۔ کیونکہ بعض لوگ اپنی تبلیغ سے دوسروں پر منفی اثر ڈالتے ہیں اور بجائے مثبت اثر ہونے کے اُلٹا اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ غیروں کو جماعت پر بھی اور جماعت کی تعلیم پر بھی اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے، جو حقائق سے دُور ہے۔ پھر بعض لوگ جو نئے نئے اِس میدان میں آئے ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس بڑی دلیلیں ہیں، جب دلیلیں نہیں ہوتی اور مخالفین کو قائل نہیں کر سکتے جو ٹھوس دلیل نہیں دے سکتے تو مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، حالانکہ مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمارے پاس الله تعالیٰ کے فضل سے دلائل ہیں۔ہاں! یہ اور بات ہے کہ کسی کو اُس کی سمجھ نہ ہو اور بیان نہ کر سکتا ہو۔ جماعت احمدیہ جو بات کرتی ہے، الله تعالیٰ کے فضل سے حکمت اور دلائل کے ساتھ کرتی ہے اور اِس تعلیم کے مطابق کرتی ہے جو الله تعالیٰ نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو قرآنِ کریم میں دی اور جس پر خود آنحضرتؐ نے عمل فرمایا۔پس اِس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ ہم نے جو تبلیغ کرنی ہے، وہ احسن رنگ میں کرنی ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تبلیغ کے بارے میں ایک بڑی اہم ہدایت فرمائی ۔ آپؑ نے فرمایا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ امریکہ اور یورپ میں تعلیمِ اسلام پھیلانے کے لیے کیا کرنا چاہیے، کیا یہ مناسب ہے کہ بعض انگریزی خواں مسلمان مسلمانوں میں سے یورپ اور امریکہ میں جائیں اور وعظ اور منادی کے ذریعے سے مقاصدِ اسلام اُن لوگوں پر ظاہر کریں؟ آپؑ فرماتے ہیں کہ مَیں عموماً اِس کا جواب ہاں کے ساتھ کبھی نہیں دوں گا۔آپؑ نے فرمایا کہ صرف انگریزی خوانی ہی یا کسی زبان کے آنے سے ہی دین کا علم نہیں آ جاتا، بلکہ اِس کے اور بھی بہت سارے لوازمات ہیں۔اِس میں علم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حضورِ انور نے تلقین فرمائی کہ پس پہلے ہر داعی اِلی الله اور تبلیغ کا شوق رکھنے والے کواپنا علم بڑھانا چاہیے۔ اعتراضوں کو جمع کریں، عموماً جماعتی لٹریچر میں اِس کے جواب موجود ہیں اور اگر نہ ہوں تو پھر ملک میں جو تبلیغ کی ٹیم بنی ہوئی ہے، اُن سے رابطہ کریں، اُن سے فائدہ اُٹھائیں اور اِس ٹیم میں بھی علم رکھنے والے جو لوگ ہیں اُن سے مدد لیں۔ پھر آگے آپؑ فرماتے ہیں کہ مَیں ہرگز مناسب نہیں جانتا کہ ایسے لوگ جو اسلامی تعلیم سے پورے طور پر واقف نہیں اور اُس کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے بالکل بے خبر اور نیز زمانۂ حال کی نکتہ چینیوں کے جوابات پر کامل طور پر حاوی نہیں ہیں اور نہ روح القدس سے تعلیم پانے والے ہیں۔ یہ بھی بڑی ضروری چیز ہے کہ مبلغ کا ، تبلیغ کرنے والے کا روح القدس سے تعلیم پانا اور الله تعالیٰ سے تعلق بھی ہونا چاہیے۔ تبلیغ کے بارے میں پہلی بات ہمیں یہ یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے اور آنحضرتؐ وہ واحد نبی ہیں، جو دنیا میں الله تعالیٰ کا وہ پیغام لے کر آئے جو تمام دنیا کے لیے ہے۔ اور الله تعالیٰ نے آپؐ کو تمام لوگوں، تمام دنیا اور تمام قوموں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے اور نبی بنا کر بھیجا ہے۔لیکن آج تک کی تاریخ دیکھ لیں کہ مسلمانوں کی کُل آبادی آج بھی دنیا کی آبادی کے چوتھے حصّے سے بھی کم ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ اِس کی وجہ یہی ہے کہ حکمت سے تبلیغ نہیں کی گئی اور وہ پیغام صحیح طور پر پہنچایا نہیں گیا۔ بعض لوگ نیک نیتی سے کام کرتے ہیں، لیکن اُنہیں پوری طرح علم نہیں ہوتا یا تعلق بالله کا وہ معیار قائم نہیں ہوتا، جو ایک داعی اِلی الله کا ہونا چاہیے، جس کے نتیجے میں پھر اُنہیں مایوسی ہوتی ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اِس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ آنحضرتؐ نے بھی تبلیغ کے لیے حکم دیے ہیں اور بعض ہدایات فرمایا کرتے تھے۔ ایک روایت ابنِ عباس رضی الله عنہما سے ہے کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ ہم لوگوں سے اُن کی عقلوں کے مطابق بات کریں۔ پہلی بات یہی ہے کہ جس کی جتنی عقل ہے، جتنا اُس کا علم ہے، یا جس مزاج اور مذہب کا وہ آدمی ہے، اُس کے مطابق اُس سے بات کی جائے۔مثلاً اگر مسلمانوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا بتانا ہے، تو اِن کو قرآن اور حدیث اور اُن کے بزرگوں کی کُتب سے بتانا چاہیے۔ تبلیغ کرنے والوں کو آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مظلوم کی بدّ دعا سے بچنا ۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ جو لوگ تبلیغ کرتے ہوئے بعض دفعہ غصّے میں آکر مخالف کی زبان استعمال کرنے لگ جاتے ہیں، اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری تبلیغ اخلاق کے دائرے میں ہی ہو۔ اُن کے پاس دلیل نہیں ہے، اِس لیے وہ غلط زبان استعمال کرتے ہیں، لیکن اگر ہم بھی غلط زبان استعمال کریں گے، تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی کوئی دلیل نہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی مختلف کُتب میں تبلیغ کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کرنے سے اپنی جماعت کو روکا ہےاور یہی فرمایا کہ بعض جگہ مَیں نے یہ الفاظ بعض مجبوریوں کی وجہ سے استعمال کیے ہیں، لیکن تم لوگوں نے نرمی کرنی ہے، تم لوگوں نے سخت الفاظ استعمال نہیں کرنے۔ بعد ازاںحضور انور نے آیت اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِکی حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر میں بیان فرمودہ وضاحت میں سے بعض نکات بیان فرمائے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اِس میں نہ ہو، تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی، اِسی سے تو ہمارے نبی کریمؐ کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپؐ کے حصّے میں آئی، اِس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اِس لیے ہوا کہ آپؐ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ پس اگر ہم نے تبلیغ کا عمل کرنا ہے اور پیغام پہنچانا ہے ، تو ہمیں اِس طریق پر عمل کرنا پڑے گا، آپؐ کی تعلیم پر عمل کرنا پڑے گا اور الله تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنا پڑے گا۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ اسلام کی حفاظت اور سچائی ظاہر کرنے کے لیے سب سے اوّل تو یہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کے دکھاؤ۔ اِسی پر فخر نہیں ہونا چاہیے کہ ہم احمدی ہو گئے، ہم نے تبلیغ کر دی اور داعی اِلی الله میں ہمارا نام آ گیا۔ نہیں! بلکہ آپؑ نے فرمایا کہ سب سے اوّل تو یہی وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کے دکھاؤ۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ غرض آہستہ آہستہ پیغامِ حق پہنچاتا رہے اور تھکے نہیں۔ یہ ہمارا کام ہے تھکنا نہیں۔ یہ نہیں کہ ایک دن ہم نے کیمپ یا سٹال لگا لیا، تبلیغ کر دی اور اِس کے بعد کام ختم ہو گیا۔اِس لیے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے فلاں مولوی یا فلاں عالِم کو تبلیغ کر کے اُس کو قائل کرنا ہے یا فلاں بحث کرنے والے یا اعتراض کرنے والے کو تبلیغ کرنی ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں حقیقی اسلام کا پیغام پہنچے اور دنیا کو اِس بات کا قائل کرنا ہمارا مقصد ہے کہ اِس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نے آنا تھا، وہ آگئے، اِس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ صرف بحثوں،debates اور لمبے سوال و جواب میں پڑنے کی بجائے تبلیغ کے ذریعے یہ دیکھیں کہ ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پیغامِ حق پہنچا سکتے ہیں اور اِن کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ مزید برآں حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم جہاد نہیں کرتے، ہم جہاد کرتے ہیں، لیکن طریقہ بدل گیا ہے۔ اِس پر بحثیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ غیر احمدی مسلمان ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم جہاد نہیں کرتے، جہاد کے منکر ہیں، حالانکہ یہ جہاد ہی ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ یعنی تبلیغ کر کے پیغام پہنچا رہے ہیں۔ دنیا میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں اور احمدیت کے ذریعے سے لوگوں کو اسلام کی اصل تعلیم سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ہاںجیسا کہ مَیں نے کہا کہ جہاد کا طریقہ بدل گیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اب ہمارا جہاد قلم کے ذریعے جہاد ہے، جو تمہارے پین کی نوکیں اور نبّیں ہیں، وہ تلوار کی نوکیں ہیں۔ پس اِس کے ذریعے جہاد کرو۔ یہ دین کی اشاعت کا کام ہے اور اِس کا زمانہ ہے اور اِس کے لیے قلم سے جہاد کرنا ضروری ہے۔ حضورِ انور نے مخالفین کے آمدِ مسیح موعود سے متعلق اختلافی نظریات کے تناظر میں یہ تاکید فرمائی کہ ہم اُن کی بحثوں کو لغوی معنوں اور جھگڑوں میں لے کر بیٹھ جائیں تو اِس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔ اِن سے کہنا چاہیے کہ ہمارا اصل مقصد اسلام کو دنیا پر غالب کرنا ہے۔ کیونکہ آنحضرتؐ تمام دنیا کے لیے نبی اور رسول بن کر آئے تھے۔ آج ہماری تعداد تو دنیا کی آبادی کے چوتھے حصّے سے بھی کم ہے، جب تک دنیا کو ہم اسلام کے جھنڈے تلے نہیں لے آتے، ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بہت کام کر لیا ہے۔ آج یہ ہمارا کام ہے کہ اِس طرح کا جہاد کریں۔ اور تبھی ہمارا جہاد کامیاب ہو گا، ورنہ کیا یہ جو جہاد مسلمان کرنا چاہتے ہیں، یہ کوئی کارآمد جہاد ہے، اِس کا کوئی نتیجہ نکل رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں نکل رہا اور ہر جگہ سُبکی اُٹھا رہے ہیں۔ پس یہ وہ جہاد ہے، جو ہر احمدی کو کرنا ہے، جس کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں بتایا ہے نہ کہ تلوار سے۔تبلیغ کے ذرائع حکمت سے استعمال کریں۔ الله تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں۔ آخر میں حضورِ انور نے توجہ دلائی کہ مربیان کو بھی چاہیے کہ افرادِ جماعت کی تربیت کر کے ایسی فوج تیار کریں کہ جو یہ جہاد کرے۔ اور مربیان سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ اُن کے ذمہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، اُنہیں صرف جماعت کی تربیت ہی نہیں کرنی ، بلکہ اِس تربیت کے ساتھ ساتھ افراد کو الله تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں جوڑنا ہے۔ جہاں وہ یہ کریں وہاں اُن کا علم بھی بڑھائیں اور اُنہیں اِس جہاد کے لیے تیار بھی کریں۔ جب وہ یہ کریں گے تبھی اپنا عہد پورا کرنے والے ہوں گے۔ حضورِ انور نے حضرت مصلح موعودؓ کی مربیان کو مختلف مواقع پر فرمودہ نصائح میں سے ضروری امور کا ایک مختصر خلاصہ پیش فرمایا کہ تبلیغ کس طرح کرنی چاہیے اور ایک مربی کو کیسا ہونا چاہیے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ نومبر2025ء