حکایات مسیح الزماںؑ دعا اور پودے کی مثال حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 16؍دسمبر 2022ء کو دعا کی اہمیت و برکات پر ایک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں دعا کی ایک مثال یوں بیان فرمائی ہے کہ آپؑ نےدنیاوی مثالوں کے ساتھ دعا کرنے والے کے صبر کی مثال اس طرح دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ دیکھو! ’’دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جا کر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے۔ اب بظاہر تو یہ حالت ہے کہ اس نے اچھے بھلے اناج کو مٹی کے نیچے دبا دیا۔ اُس وقت کوئی کیا سمجھ سکتا ہے کہ یہ دانہ ایک عمدہ درخت کی صورت میں نشوونما پا کر پھل لائے گا۔ باہر کی دنیا اور خود زمیندار بھی نہیں دیکھ سکتا کہ یہ دانہ اندر ہی اندر زمین میں ایک پودا کی صورت اختیار کر رہا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودا بننے لگتا ہے اور تیار ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کا سبزہ اوپر نکل آتا ہے۔‘‘بیج کی ایک خصوصیت ہے پہلے اس کی جڑیں نکلتی ہیں، جڑیں زمین میں پیوست ہو جاتی ہیں پھر باہر کونپلیں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ ’’اور دوسرے لوگ بھی اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب دیکھو وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا دراصل اسی ساعت سے وہ پودا بننے کی تیاری کرنے لگ گیا تھا مگر ظاہربین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی اور اب جبکہ اُس کا سبزہ باہر نکل آیا تو سب نے دیکھ لیا۔ لیکن ایک نادان بچہ اس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اُس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا۔‘‘اب پودا نکل آیا، اَب پھل لگنے کا مرحلہ باقی ہے۔ نادان بچہ یہ سمجھے گا کہ اس کو تو پھل لگ نہیں سکتا یہ چھوٹا سا ہے۔ ’’وہ یہ چاہتا ہے کیوں اسی وقت اس کو پھل نہیں لگتا مگر عقلمند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کونسا موقع ہے۔ وہ صبر سے اس کی نگرانی کرتا اور غورو پرداخت کرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ وقت آجاتا ہے کہ جب اس کو پھل لگتا ہے اور وہ پک بھی جاتا ہے۔ یہی حال دعا کا ہے اور بعینہٖ اسی طرح دعا نشوونما پاتی اور مثمر بثمرات ہوتی ہے۔ جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مآل اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔‘‘دُور اندیش لوگ جو ہیں، نتیجہ کو صبر سے دیکھنے والے لوگ جو ہیں وہ مستقل مزاجی سے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، دعاؤں میں لگے رہتے ہیں ’’اور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ417۔ایڈیشن 1984ء) (خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍دسمبر 2022ء) سوال جواب صحابہ کرام ؓکے ساتھ یادگار واقعہ مجلس خدام الاحمديہ امريکہ کے مڈویسٹ ريجن کے ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور کو نوجوانی میں مختلف صحابہ کرامؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی صحبت میسر آئی ہوگی۔ پیارے حضور ازراہ شفقت صحابہ ؓکے ساتھ کوئی یادگار واقعہ بیان فرمائیں۔ حضور انور نے سوال کے جواب میں وفد کو اصحابِ احمدؑ کی چند ایمان افروز یادیں سنائیں۔ فرمایا کہ بچپن میں یا پندرہ سولہ سال کی عمر میں صحابہؓ سے لمبی چوڑی sittings تو نہیں ہوئیں۔ میں مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے پاس گیا ہوں۔ وہ بیٹھتے تھے، بڑے دعا گو تھے۔ ان کو دعا کے لیے کہو تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیا کرتے تھے۔ حافظ شاہ جہان پوری صاحبؓ تھے۔ بڑے علمی آدمی تھے۔ انجمن کے کوارٹرز میں رہتے تھے، ان کے پاس میں جاتا رہاہوں۔ اُن کو علم بھی بڑا تھا اور بوڑھے ہو کر بھی اُن کی یادداشت بڑی اچھی تھی۔ کمرے میں شیلف لگے ہوئے تھے کتابیں ہی کتابیں پڑی ہیں اُن کو پتہ تھا کہ فلاں شیلف میں فلاں کتاب ہے اُس کو نکالو۔ جن کے ساتھ میں جاتا تھا وہ ان سے علمی گفتگو کرتے تھے۔ تو یہ چیزیں یاد ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کا بھی صرف جانا اور بیٹھنا اور چھوٹی موٹی باتیں سننا،ان کے ارشادات یا ان کا خطبہ دینا ،ان کی تقریریں کرنا بھی یاد ہے لیکن مجھے تقریریں یاد نہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ میرے دادا [حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ] صحابی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ وہ بھی کوشش یہ کرتے تھے کہ ہماری تربیت کی جائے۔ مجھے یا میرے بھائی کو کہتے تھے اخبار،خبریں پڑھ کے سناؤ۔ خود لیٹ جاتے تھے مجھے کہتے تھے قرآن شریف پڑھو اور خود سنتے تھے قرآن شریف۔آپؓ آرام سے ٹیک لگا کے آنکھیں بند کر لیتے تھے تو میں سمجھتا تھا میں پڑھتا جاؤں گا تو ان کو پتہ نہیں لگے گا لیکن آپ پڑھتے ہوئے جہاں غلطی کرتا تھا تو فوراً ٹوک دیتے نہیں! یہ آیت اس طرح نہیں یہ لفظ تم نے اس طرح پڑھنا ہے۔ سن رہے ہوتے تھے توہمارا داؤ نہیں لگتا تھا۔توایسے بزرگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ پھر مولوی محمد حسین صاحبؓ ہیں۔اُن کو میں نے دیکھا ہوا ہے۔ ان کو جوانی میں کیا کافی بڑی عمر تک زندہ رہے ہیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیمار تھے۔ میرا خیال ہے میں گیارہ بارہ سال کا تھا جب ان کی وفات ہوئی ہے۔ تو ان کو میں ایک دفعہ ملنے گیا۔ بڑی عاجزی تھی ان میں۔ وہ بیمار تھے۔ بچوں سے کیا کہناتھا لیکن کہتے تھے میرے لیے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے یا میرے لیےزندگی آسان کرے۔ تو اس طرح وہ بزرگ بچوں کو بھی دعا کے لیے کہہ دیا کرتے تھے۔ اس طرح کی باتیں تھیں۔ (الفضل انٹرنیشنل 6؍نومبر 2025ء)