سورت فاتحہ آپ کی تربیت کے تمام اہم پہلو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اگرآپ سورت فاتحہ پڑھیں، اس کا ترجمہ پڑھیں اور اگر ممکن ہو اور یہ آپ کے لیے یقینا ًممکن ہے ، تو اس کی تفسیر بھی پڑھیں۔ ہمارے پاس قرآن کریم کی تفسیر موجود ہے ، تو آپ سورت فاتحہ کی تفسیر پڑھ سکتے ہیں، پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ سورت سیدھے راستے کی ہدایت کےلیے کس قدر اہم ہے ۔ پھر اس پر اچھی طرح غور کریں ، تب آپ اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں مزید جان سکیں گے مورخہ ۲۹؍ نومبر ۲۰۲۵ء ، بروزہفتہ، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ساؤتھ ایسٹ ریجن کے پندرہ(۱۵) رکنی ایک وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کے آغاز میں تمام شاملینِ مجلس کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کوحضور انور کی خدمت میں متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جوابات کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک خادم نے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ اللہ کے فضل سے مَیں اس ماہ کے آغاز میں مجلس خدام الاحمدیہ میں شامل ہو گیا ہوں، آپ مجھے کیا نصیحت فرمائیں گے؟ اس پر حضورِ انور نے نہایت شفقت کے ساتھ استفہامیہ انداز میں فرمایاکہ اچھا، آپ خادم ہیں؟کمال ہو گیا! The youngest Khadim۔ ماشاء اللہ! حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ بطورِ طفل بلکہ بطور ِسینئر طفل آپ کی کیا ذمہ داریاں تھیں؟ اس پر خادم نے عرض کیا کہ طاہر اکیڈمی، اطفال کلاس، مسجد کے کام اور اِس طرح کے دیگر کام۔ اس پر حضورِ انور نے اطفال اور خدام کی تربیت کے بنیادی فرائض کی جانب توجہ دلاتے ہوئے انتہائی محبّت بھرا اور جامع پیغام عطا فرمایا کہ پانچ وقت کی نمازیں، قرآن کریم کی تلاوت اور بُرے پروگرام دیکھنے سے پرہیز کرنا یا جو کچھ سوشل میڈیا یا آن لائن آتا ہے، اُس سے بچنا، ان چیزوں سے بچو ، بلکہ ان سے نفرت کرو اور یہی ایک طفل اور خادم کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ باقاعدگی سے پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہیں ،وہ بُرے کاموں سے محفوظ رہتے ہیں، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اور اگر آپ یہ کام ایمانداری سے کریں گے تو آپ محفوظ رہیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ان تمام بُری باتوں سے بچا لے گا۔ پس یہی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح حضورِ انور نے نیک عادات کو جاری رکھنے کی بابت تاکید فرمائی کہ اگر آپ ماضی میں اچھے طفل رہے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ وہی عادات جاری رکھیں اور اچھے خادم بننے کی کوشش کریں۔ مزید برآں حضورِ انور نے نوجوانی میں قدم رکھتے ہوئے پیدا ہونے والی اس عمومی غلط سوچ کی بھی اصلاح فرمائی کہ عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ سولہ سال کی عمر میں داخل ہوتے ہیں یا خادم بنتے ہیں تو آپ سوچتے ہیں کہ اب ہم بالغ ہو گئے ہیں ،ہم بہت عقل مند ہیں اور ہمارے والدین کچھ نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ ہمارے بزرگ بھی جدید دَور کے مسائل، مضامین اور موضوعات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ لہٰذا آپ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اب ہمیں اپنی پسند اور ناپسند رکھنے کی آزادی ہے، لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل کریں اور ایک سادہ سی تعلیم یہ ہے کہ پرہیز گار بنو، بُرے کام کرنے سے بچنے کی کوشش کرو، روزانہ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے وقت پر اور اگر ممکن ہو تو جماعت کے ساتھ ادا کرو، یہی اصل چیز ہے۔ ہر روز قرآنِ کریم کی تلاوت کرو ۔ اسی طرح حضورِ انور کے دریافت فرمانے پر خادم نے عرض کیا کہ وہ وقفِ نَو نہیں ہے۔جس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ تب بھی اس سے فرق نہیں پڑتا ، آپ احمدی ہیں اور ایک احمدی مسلمان کو کامل مسلمان ہونا چاہیے۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ حضور ایسے احمدی طلبہ کے لیے جو کینسر کے علاج پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں کیا نصیحت فرماتے ہیں نیز قرآن و احادیث میں جن غذاؤں کا ذکر ہے ، خصوصاً شہد، اس سلسلے میں کیا راہنمائی فرماتےہیں؟ اس پرحضورِ انور نے بنیادی قرآنی تعلیم کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ طیّب حلال غذائیں کھایا کرو، حرام چیزیں نہ کھاؤ اور ہر وہ غذا جو طیّب ہے، وہ تمہارے لیےاچھی ہے۔ حضورِ انور نے شہد کی افادیت کے تناظر میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ شہد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے کہ اس میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں، جو تمہاری بیماری کا علاج کرتی ہیں اور کینسر بھی یقینا ًبیماریوں میں سے ایک ہے، ہمارے تو کئی احمدی سائنسدان شہد پر تحقیق کر رہے ہیں اور اگر آپ بھی شہد پر تحقیق کرنا چاہیں تو ضرور کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ شہد کئی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے اور جب شہد کی مکھی مختلف پھولوں سے شہد بناتی ہے تو جب بھی شہد کی مکھیاں کسی ایک قسم کے پھول سے پولن یا رس لینا شروع کرتی ہیں تو ساری کالونی کی مکھیاں اسی قسم کے پھولوں پر جاتی ہیں اور وہmix نہیں کرتیں۔ اس طرح آپ الگ کر سکتے ہیں کہ کون سا شہد کینسر کے علاج کےلیے موزوں یا مفید ہے، کون سا شہد خون کی بیماریوں کے لیے اچھا ہے یا کون سا شہد دوسری بیماریوں کےلیے فائدہ مند ہے۔ شہد میں بیماریوں کا علاج کرنے کی صلاحیت ہے۔ مزید برآں حضورِ انور نےحدیثِ نبویؐ کی روشنی میں شہد میں رکھی گئی غیر معمولی خداداد شفا کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا کہ مجھے معدے کی بیماری ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اور شہد استعمال کرو۔ وہ چند گھنٹوں بعد واپس آیا اور کہا کہ فائدے کی بجائے مجھے اُلٹا اثر ہوا ہے۔ آنحضرتﷺ نے دوبارہ فرمایا کہ جاؤ اور وہی شہد استعمال کرو۔ تیسری بار وہ پھر آیا، تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تمہارا معدہ جھوٹا ہے مگر اللہ کے الفاظ سچے ہیں۔ آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ پس یہ ہم پر منحصر ہے۔ بعض اوقات مختلف اقسام کے شہد مختلف بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔یہ بالکل ممکن ہے کہ کچھ اقسام کا شہد معدے کےلیے مناسب نہ ہو، لیکن کینسر کے لیے یا خون کی بیماریوں کےلیے مفید ہو، اس لیے آپ کو اس حساب سے تحقیق کرنی ہو گی۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ وہ خدام جو اپنی روحانی ترقی کے لیےمحرّک اور جذبہ نہیں پاتے وہ خود کو اللہ کے قریب آنے کےلیے کس طرح جذبہ پیدا کریں؟ اس پر حضورِ انور نے حکیمانہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کیا آپ کی کوئی خواہش یا آرزو ہے کہ آپ کا مستقبل اچھا ہو اَور آپ اپنی تعلیم میں بہترین کارکردگی دکھائیں؟اثبات میں جواب سماعت فرمانے کے بعد حضورِ انور نے مزید دریافت فرمایا کہ پھر آپ کا جذبہ کیا ہے؟جس پر خادم نے عرض کیا کہ اچھا مستقبل حاصل کرنا۔ اس پر حضورِ انور نے قربِ الٰہی کے حصول کے حوالے سے عملی راہنمائی عطا فرمائی کہ اگر آپ اللہ سے محبّت رکھتے ہیں تو پھر آپ کو چاہیے کہ اللہ کے قریب آنے کے لیے بھی یہی جذبہ پیدا کریں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ آپ محنت کریں، میرے دیے گئےاحکامات کی پیروی کریں اور قرآنِ کریم میں بے شمار احکامات اور ہدایات موجود ہیں ، لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ آپ پانچ وقت کی نمازوں میں دعا کیا کریں کہ اللہ آپ کو سیدھے راستے پر چلائے اور آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا کرے کہ اللہ کی محبّت حاصل کرنے کےلیے آپ کے جذبے میں اضافہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ آپ کی راہنمائی کرے گا، ان شاء اللہ! حضورِ انور نے روحانی ترقی کے لیے محنت و مجاہدہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے آپ کو محنت کرنا ہو گی، جیسے آپ اپنے دنیاوی مقاصد جیسے تعلیم اور دیگر امور کے لیے محنت کرتے ہیں، یہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ آپ کو مجاہدہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تم محنت کرو گے تو مَیں تمہیں سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ پس یہی راستہ ہے۔ پانچ وقت کی نماز میں اللہ سے دعا کرو۔ کبھی نماز نہ چھوڑو۔ اگر آپ اللہ کے احکامات کی پیروی کریں گے تو اللہ آپ کی راہنمائی کرے گا۔ ایک شریکِ مجلس نے سوال کیا کہ جو واقفینِ نَو اپنی زندگیاں وقف کرنا چاہتے ہیں وہ اس خواہش کو بیرونی دباؤ جیسے گھریلو مالی مشکلات اور والدین کی دیگر اُمیدوں کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ کر سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے واضح فرمایا کہ اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ وقف کریں تو پھر آپ کو وقف کر دینا چاہیے اور اگر آپ متذبذب ہیں تو بہتر ہے کہ اجازت لے لیں اور کوئی اَور ملازمت کر لیں، کچھ پیسہ کمائیں اور اپنے والدین کی مدد کریں۔ حضورِ انورنے اس خدشے کا بھی ازالہ فرمایا کہ آپ کو فکر ہے کہ اگر آپ وقف کر دیں گے تو آپ کے والدین کیسے گزارہ کریں گے تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں کو کھلانے والے تم نہیں بلکہ مَیں اللہ ہوں جو سب کو کھلاتا ہوں۔ مزید برآں حضورِ انور نے وقف کے حوالے سے دعا اور ذاتی شرح صدر کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اگر دعا کے بعد آپ کا دل وقف کرنے پر مطمئن ہو جائے تو پھر کر لو۔ ضروری نہیں کہ جماعت کہے کہ ٹھیک ہے ہم تمہارا وقف قبول کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں کچھ مخصوص شعبوں میں لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ ہمیں مربیان، ڈاکٹرز اور انجنیئرز وغیرہ کی ضرورت ہے۔ اس لیےبہتر یہ ہے کہ فی الحال آپ ملازمت کریں اور وقفِ نَو ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ آخر میں حضورِ انور نے بطور وقفِ نَو حقیقی وقف کے فرائض اور اس سے وابستہ عملی ذمہ داریوں کی بابت بصیرت افروز راہنمائی عطافرمائی کہ آپ کے فرائض یہ ہیں کہ پانچ وقت کی نمازوں کو باقاعدگی سے ادا کرو۔ قرآن کریم کی تلاوت کرو، قرآن کے معانی سیکھو اور جماعت اور اسلام کا لٹریچر پڑھو۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کُتب کا مطالعہ کرو اور خلفائے کرام کے ارشادات کو سنو۔ نیک کام کرو اور فارغ وقت میں جماعت کو زیادہ وقت دو۔ یہی آپ کا وقف ہے۔ اس طرح آپ اپنے والدین، اپنے گھرانے اور اپنے بیوی بچوں کی بھی مدد کر سکتے ہیں۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ ہم میں سے اکثر لوگ بڑی بڑی نوکریاں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بہت سا پیسہ کمانا چاہتے ہیں، نیز اس سلسلے میں راہنمائی کی درخواست کی کہ ہم کس طرح یقین دہانی کریں کہ ہماری ملازمت میں کامیابی اللہ کی رضا کے لیےہو اور وہ ملازمتیں ہمارے دلوں کو حریص نہ بنادیں۔ اس پرحضور ِانور نے کمائی میں برکت پیدا کرنے اور حریص بننے سے بچنے کے ضمن میں انتہائی پُر معارف پیرائے میں راہنمائی عطا فرمائی کہ اگر آپ بہت سا پیسہ کما رہے ہیں اور ساتھ ہی آپ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی بھی کر رہے ہیں یعنی یہ کہ اپنے مال کو صرف اپنے اُوپر ہی نہ خرچ کریں، خود غرض نہ بنیں، بلکہ اپنے مال کو یتیموں اور ضرورتمند لوگوں پر بھی خرچ کریں تواس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مال کے ذریعہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اللہ پھراس مال میں بے پناہ برکت بھی ڈالے گا۔ یہ عمل آپ کے دل کو لالچ سے بھی بچائے گا، کیونکہ آپ دوسروں پر بھی خرچ کر رہے ہوں گے اور آپ دوسروں کے درد کو محسوس کر رہے ہوں گے تو اللہ اسے پسند کرتا ہے۔ اسی طرح جب بھی آپ زیادہ پیسہ کما رہے ہوں، اگر آپ صدقہ وخیرات کر رہے ہیں اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے بعد اپنے مال کے ساتھ جماعت کے لیے قربانی بھی دے رہے ہیں تو اللہ اسے پسند کرے گا اور اس مال میں بے پناہ برکت ڈالے گا اور آپ کو لالچی بننے سے بچائے گا۔ ایک شریکِ مجلس نے حال ہی میں ایک خادم کے جماعت سے دُور ہونے کے پسِ منظر میں دریافت کیا کہ ایسے خدام کی کس طرح راہنمائی کی جائے جو پہلے فعّال تھے مگر اب جماعت سے کچھ دُور ہو گئے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نےمذکورہ خدام کی اصلاح کے حوالے سے توجہ دلائی کہ صرف جماعتی طور پر ہی نہیں، ویسے ذاتی دوستی کی حدّ تک جس کی عمر کا وہ ہے، کسی نہ کسی احمدی کا دوست تو ہو گا ، اُس سے کہو کہ اِس سے تعلق رکھے ، اس کو قریب لائے، اُس سے بات کرے اوراس کے اندرجو جو grievances ہیں، ان کو دُور کرنے کی کوشش کرے۔ تو ذاتی طور پر جس طرح تمہارا بھائی کسی بُرے کام میں پھنس جاتا ہے اور تم اس کی اصلاح کی کوشش کرتے ہو، اس pain اور درد کے ساتھ اس کے لیے بھی کوشش کرو اور ساتھ دعا بھی کرو۔ تو یہی طریقہ ہے۔ حضورِ انور نے عہدیداران کےعاجزی اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتےہوئے اس اَمر کی بھی نشاندہی فرمائی کہ بات یہی ہے کہ ہمارے مربی سے یا ہمارے صدر جماعت سے یاسیکرٹری امور عامہ سے یا سیکرٹری تربیت سے یاکسی اَور عہدیدار سے بڑوں کو کوئی دل میں رنجشیں پیدا ہوئیں اور اس کے بعد وہ آگے ٹرانسفر ہو گئیں، اس لیے کہتے ہیں کہ عہدیداروں کو بہت زیادہ humbleہونا چاہیے۔ اسی طرح حضورِ انور نے ذاتی سوچ کی بنیاد پر جماعت کے بارے میں مجموعی طور پر غلط رائے قائم کرنے کے رجحان کی بھی اصلاح فرمائی کہ بعض دفعہ یہاں بھی پرانی فیملیاں ہیں، ایک لڑکا آیا اور وہ پُرانی فیملی تھی اور مَیں ان کو جانتا ہوں کہ سارے اچھے بھلے لوگ ہیں، لیکن اس نے اپنے دماغ میں ایک آئیڈیل بنایا ہوا تھا کہ ہر ایک کو کس طرح ہونا چاہیے۔اب جماعت کے عہدیدار اگر اِس کے اُسstandardپر پُورے نہیں اُترتے تھے تو وہ کہتا تھا کہ ساری جماعت ہی خراب ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اچھے لوگ بھی تھے اور بُرے لوگ بھی تھے، تو ان کو دیکھ کے کوئی کہہ دے کہ جی سارے مسلمان ہی خراب ہو گئے یا نعوذبالله!آنحضرتؐ کا پیغام ہی سچا نہیں ، تو یہ توغلط ہے ۔ آخر میں حضورِ انور نے اپنی اوّل الذکرنصیحت کا اعادہ فرمایا کہ تو پیار کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرو، جب personal pain اور ایک درد کے ساتھ بات کرو گے تو اس فیملی کو بھی احساس پیدا ہو گا کہ ہاں !جماعت ہمارا خیال رکھتی ہے اورپھر ان کے لیےدعا بھی کرو ۔ ایک خادم نے راہنمائی کی درخواست کی کہ احمدیوں کو نئی جگہ کو آباد کرنا چاہیے کہ جہاں پر جماعت اور احمدی نہیں ہیں یا ہم اُدھر جائیں کہ جہاں پر جماعت پہلے سے قائم ہے؟ اس پرحضورِ انور نے توجہ دلائی کہ جن کے چھوٹے بچے ہیں، وہ تو وہاں جائیں کہ جہاں جماعت قائم ہے اور مسجد قریب ہے تا کہ بچوں کی تربیت ہو سکے۔ جن کے بچے بڑے ہو چکے ہیں یا اکیلے ہیں، وہ ایسی نئی جگہ جائیں کہ جہاں جماعت قائم نہیں ہے اور جماعت قائم کریں اور تبلیغ کریں۔ تو مختلف situations،مختلف فیملیز کے حق میں، ذاتی حالات میں مختلف ہوتی ہیں۔ تو ایک hard and fast rule تو نہیں بنایا جا سکتا۔ تو یہ تو آپ کو سوچنا ہو گا کہ آپ کے لیے کیابہتر ہے، خود سوچ لو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں دماغ دیا ہواہے۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ آج کے دَور میں احمدی نوجوانوں کے سامنے بہت سی مشکلات اورdistractions ہیں، لیکن پھر بھی ان کے دلوں میں جماعت کی خدمت کا جذبہ موجزن ہے۔ ایسے حالات میں وہ اللہ تعالیٰ اور خلافت سے اپنےتعلق کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں اور کس طرح جماعت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکتے ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے نشاندہی فرمائی کہ یہ distractions ہر وقت دنیا کی attractionsدیکھ دیکھ کے ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا ہے، ٹی وی ہے ، فضول قسم کے چینلز ہیں اور فضول قسم کی گیمز ہیں۔ کام میں کوئی خادم اگر لگا ہوا ہے، تو وہ اپنے کام سے فارغ ہو کے اور اگر کوئی سٹوڈنٹ ہے، تو وہ اپنے سکول سے آ کے، اپنا سکرین ٹائم سیل فون، آئی پیڈ اور ان چیزوں پر زیادہ خرچ کرتے ہیں اور وہاں سے پھر وہ distractہوتے ہیں۔ بعض سٹوڈنٹس کی تو پڑھائی بھی ضائع ہو جاتی ہے اور بعض کام والے اپنے کاموں سے بھی جاتے ہیں۔ حضورِ انور نے اس تناظر میں شعور پیدا کرنے کی بابت توجہ دلائی کہ سو پہلی چیز یہی ہے کہ ان کو سمجھانا کہ یہ لغو چیزیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ لغو چیزوں سے بچنا چاہیے، یہ تو تربیت کے شعبہ کا کام ہے، وہ کرے۔ اسی طرح نمازوں کی عادت پیدا کرنے کے حوالے سے تلقین فرمائی کہ دوسرا یہ کہ ان میں جذبہ ہے ۔ دل میں احمدی ہوتے ہیں، اللہ کا خوف بھی ہوتا ہے، تو اللہ کا خوف اگر ہے تو کہو پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا خوف ہے تو پھر میری عبادت بھی کرو۔ کیونکہ مَیں نے انسانوں کوجو میرے حقیقی مومن بندے ہیں، ان کو تومَیں نے کہا ہوا ہے کہ میری عبادت کریں اور پانچ وقت نمازیں پڑھیں اور اللہ تعالیٰ ساتھ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ جو پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں سیدھے رستے پر چلاؤں گا۔ تو ان میں نمازوں کی عادت ڈالو۔ مزید برآں حضورِ انور نے ایسے خدام، جو مسائل کا شکار ہیں، ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی اور ان سے قریبی تعلق قائم کرنے کی بابت تاکید فرمائی کہ توایسے لوگ جو distract اگر ہو جاتے ہیں، ان کا اگر پتا لگ جاتا ہے تو انہیں لوگوں میں مشہور کرنے کے بجائے، بلا وجہ ان کی غلط قسم کیpublicity کرنے کے، ان کو بھائی سمجھ کے ان کےراز چھپاؤ اور ان کو قریب لاؤ۔ ان کو بتاؤ کہ یہ یہ تمہارے مسائل ہیں اور یہ future میں تمہاری زندگی میں بھی اور جماعت کے اندر بھی مسائل پیدا کریں گے، اور اللہ تعالیٰ کو بھی یہ پسند نہیں ہے۔ تو جب ان کو یہ سب کچھ دیکھ کر پتا لگے گا کہ یہ ہمارے ہمدرد ہیں ، ہمارے دوست ہیں اور ہمارے بھائی ہیں تو پھر وہ قریب آئیں گے۔یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اس لیے جو کام کرنے والے ہیں، خدام الاحمدیہ کے لوگ ہیں ، جو جماعت کے عہدیدار ہیں اور جو باقی تنظیموں کے عہدیدار ہیں، ان کو ایک personal چیلنج سمجھ کے اپنے رشتہ داروں کی طرح دوسروں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ یہ کرو گے تو پھر ہی کچھ ہو گا۔ نیزحضورِ انور نے ہدایت فرمائی کہ ان کو سمجھاؤ، قریب لاؤ کیونکہ ان کےدل میں جذبہ بہرحال موجودہے۔ نہیں تو وہ openlyکہہ دیتے کہ ہم احمدی نہیں۔ خلافت کی بات بھی مان لیتے ہیں۔ یہاں آتے ہیں، چار دن نمازیں پڑھتے ہیں تو بڑے جذباتی بھی ہو جاتے ہیں۔ میرے سے مل کے جاتے ہیں تو آنسوؤں سے روتے ہوئے بھی جاتے ہیں اور مجھے پتا ہے کہ دو مہینے بعد پھر وہ پہلے جیسے ہی ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں ان کو وہ environmentنہیں ملتا جو ملنا چاہیے اور وہ آپ لوگ جو active خدام ہیں وہ دے سکتے ہیں۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ قرآنِ کریم کی کون سی سورتیں پڑھنے کے لیےسب سے بہتر ہیں؟ اس پر حضورِ انور نے راہنمائی عطا فرمائی کہ سورت فاتحہ سب سے بہترین ہے کیونکہ اس میں آپ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ بار بار دُہراتے ہیں کہ اے اللہ! مجھے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے۔ چنانچہ جب آپ یہ سورت اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں تو بار بار یہی دعا دُہراتے ہیں۔ حضورِ انور نے سورت الفاتحہ کو تربیت اور ہدایت کا بنیادی سرچشمہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سورت فاتحہ آپ کی تربیت کے تمام اہم پہلو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اگرآپ سورت فاتحہ پڑھیں، اس کا ترجمہ پڑھیں اور اگر ممکن ہو اور یہ آپ کے لیے یقینا ًممکن ہے ، تو اس کی تفسیر بھی پڑھیں۔ ہمارے پاس قرآنِ کریم کی تفسیر موجود ہے ، تو آپ سورت فاتحہ کی تفسیر پڑھ سکتے ہیں، پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ سورت سیدھے راستے کی ہدایت کےلیے کس قدر اہم ہے۔ پھر اس پر اچھی طرح غور کریں ، تب آپ اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں مزید جان سکیں گے۔ ایک شریکِ مجلس نے عرض کیا کہ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں جن میں اسلام مخالف لوگ ان مسلمانوں کا مذاق اُڑا رہے ہیں جو عوامی جگہوں پر نماز ادا کرتے ہیں۔ اس حوالے سےاس خادم نے راہنمائی کی درخواست کی کہ ہم بطور احمدی مسلمان مغربی ممالک میں اسلام مخالف بڑھتے ہوئے جذبات کا کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں ، بالخصوص جبکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گستاخانہ زبان استعمال کی جا رہی ہو؟ اس پر حضورِ انور نے حکیمانہ انداز میں اصولی راہنمائی عطا فرمائی کہ جب وہ گالی گلوچ پر اُتر آئیں تو ہم ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اسے نظر انداز کریں اور یہ بھی کہ ہمیں عوامی جگہوں پر نماز پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہماری مساجد موجود ہیں، آپ کو چاہیے کہ نماز مسجد میں یا اپنے گھروں میں ادا کریں اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے یا وقت کی کمی کے باعث آپ کو ظہر یا عصر کی نماز وقت پر ادا کرنی ہو تو آپ کوشش کریں کہ کوئی گوشہ تلاش کر کے وہاں نماز پڑھ لیں اور اگر آپ جماعت کی صورت میں ہوں تو بھی کسی الگ اور پُرسکون جگہ جا کر نماز ادا کریں اور یہ نہیں کہ فُٹ پاتھوں یا سڑکوں پر ہی نماز پڑھنی شروع کر دیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ اس طرح آپ وہاں موجود لوگوں کی سہولت میں خلل ڈالیں گے ان کے سکون کو خراب کریں گے۔ حضورِ انور نے یہ بنیادی نکتہ بھی واضح فرمایا کہ عوامی جگہوں پر نماز ادا کرنے کی کیا ضرور ت ہے، لہٰذا ایسا نہ کریں، لیکن اپنے ایمان میں ثابت قدم رہیں۔ یہ پختہ عزم رکھیں کہ پانچوں وقت کی نماز وقت پر ادا کرنی ہے اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ مزید برآں حضورِ انور نے فہمِ دین اور عملی نمونے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اپنے دین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کریں کہ اسلام کیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت اور عمل کیا تھا، ہم احمدی کیوں دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم احمدی مسلمان ہیں؟ اورصرف دعویٰ کافی نہیں جب تک کہ ہم اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل نہ کریں۔ جب ہم اچھے اخلاق سکھائیں گے، اسلام کا حقیقی پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے اور وہ عمل کر کے دکھائیں گے کہ جس کی ہم دعوت دیتے ہیں تو لوگ خود آپ سے پوچھیں گے کہ آپ دوسرے لوگوں سے مختلف کیوں ہیں؟ اور وہ اسلام کے بارے میں زیادہ جاننے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح تبلیغ کے مزید دروازے کھلیں گے۔ علاوہ ازیں حضورِ انور نے تبلیغی ذمہ داری کے بنیادی تقاضے واضح کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ اِس طرح آپ کو چاہیے کہ تبلیغ کے مزید راستے تلاش کریں تا کہ لوگوں تک بات پہنچے ، کیونکہ لوگوں کو علم نہیں ہے ۔ وہ اسلام کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے۔ صرف اسلام کے مخالفین نے اس چیز کا فائدہ اُٹھایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان اچھے نہیں ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں اور شدّت پسندوں کی مثالیں دے کر کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا طرزِ عمل ہے۔ تو دراصل لوگوں کو بتائیں کہ ان لوگوں کا عمل اسلام کی درست تعلیم نہیں ہے۔ اسلام کی اصل تعلیم امن، محبّت ، ہم آہنگی اور باہمی احترام پر مبنی ہے اور یہی وہ چیز ہے کہ جس کے لیے ہم دعا کرتے ہیں، جس پر عمل کرتے ہیں اور جس کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ آخر میں حضورِ انور نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ نیز یاد دلایا کہ اسی لیے مَیں کہتا ہوں کہ آپ کو چاہیےکہ اسلام کا حقیقی پیغام پمفلٹس کے ذریعہ اور اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ پھیلائیں۔ اسی طرح آپ اس صورتحال پر قابو پا سکتے ہیں۔ ملاقات کے آخر پر تمام شاملینِ مجلس کو ازراہِ شفقت اپنے محبوب آقا کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ یہ روح پرور نشست حضورِ انور کے دعائیہ کلمات ’’السّلام علیکم‘‘ پر بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: صلح حدیبیہ