(انتخاب از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍نومبر۲۰۲۴ء) صلح حدیبیہ ذوالقعدہ چھ ہجری بمطابق مارچ 628ء کو ہوئی۔ اس کو غزوۂ حدیبیہ بھی کہا جاتا ہے۔ غزوہ حدیبیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورت سورة الفتح نازل فرمائی۔ اس کا آغاز ان آیات مبارکہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ﴿۲﴾ لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکَ وَ یَہۡدِیَکَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا﴿۳﴾ وَّ یَنۡصُرَکَ اللّٰہُ نَصۡرًا عَزِیۡزًا ﴿۴﴾ (الفتح آیات 2تا 4) یقیناً ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح عطا کی ہے تا کہ اللہ تجھے تیری ہر سابقہ اور ہر آئندہ ہونے والی لغزش کو بخش دے اور تجھ پر اپنی نعمت کو کمال تک پہنچائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اللہ تیری وہ نصرت کرے جو عزت اور غلبہ والی نصرت ہو۔ غزوہ حدیبیہ کو کیوں غزوہ حدیبیہ کہا جاتا ہے اور اس کا کیا تعارف ہے؟ یہ مختصر بیان کرتا ہوں۔ حدیبیہ ایک کنویں کا نام تھا جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام حدیبیہ پڑ گیا۔ آغازِ اسلام کے وقت یہ کنواں مسافروں ا ور حاجیوں کے کام آتا تھا لیکن کوئی آبادی نہیں تھی۔ حدیبیہ مکہ سے ایک مرحلے یعنی نو میل کے فاصلے پر واقع ہے اور مکہ سے مدینہ کا فاصلہ دو سو پچاس میل کے قریب ہے۔ اس طرح مدینہ سے حدیبیہ تک کا فاصلہ تقریباً دو سو اکتالیس میل بنتا ہے۔ حدیبیہ حرمِ مکہ کی مغربی حد ہے اور بعض کے نزدیک اس کا اکثر حصہ حرم میں داخل ہے اور کچھ حصہ حرم سے باہر ہے۔ یہیں، حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور قریش کے مابین معاہدہ ہوا تھا جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں۔ روایت میں اسے غزوۂ حدیبیہ بھی کہا گیا ہے۔ ایک روایت میں اسے غزوۂ تِہَامَہ بھی کہا گیا ہے۔ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو شدید گرمی اور لُو کی وجہ سے تِہَامَہ کہتے تھے اس لحاظ سے اس کا نام تِہَامَہ بھی پڑ گیا۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ 70دار الکتب العلمیۃ بیروت)( اٹلس سیرت نبویؐ صفحہ 326) (فرہنگ سیرت صفحہ 100 زوار اکیڈمی کراچی) (الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ جلد 15 صفحہ 59 المرکز الاسلامی للدراسات) (انسائیکلوپیڈیا سیرت النبیﷺ صفحہ188 زم زم پبلشرز) ( المعجم الاوسط جلد 2صفحہ 356 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ87دارالکتب العلمیۃ بیروت) اس کی وجہ کیا تھی۔ روایات اور تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خواب کی بناپر سفرِ حدیبیہ اختیار کیا۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھایا گیا کہ آپؐ اپنے صحابہ کے ساتھ امن کی حالت میں اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بالوں کو کترواتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے ہیں اور اس کی چابی لے لی ہے اور میدانِ عرفات میں وقوف کرنے والوں کے ساتھ وقوف کیا۔ آپؐ وہاں ٹھہرے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ عرب اور اردگرد کے بادیہ نشین لوگوں کو بلایا تا کہ یہ سب لوگ آپؐ کے ساتھ نکلیں۔ اس سفر میں مسلمانوں کے پاس سوائے تلواروں کے کوئی اسلحہ نہیں تھا جو نیاموں میں تھیں، وہ بھی نیاموں میں تھیں تلواریں۔ تلوار اس زمانے میں گھر سے نکلتے وقت ہر شخص اپنے پاس رکھتا تھا۔ اس لیے اس کو یہ نہیں سمجھا جاتا تھا کہ جس کے پاس تلوار ہے وہ ضرور جنگ کرے گا۔ حضرت عمر ؓنے آپؐ سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپؐ کو ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے تو آپؐ نے جنگ کے لیے سازو سامان ساتھ کیوں نہیں لیا۔ آپؐ نے فرمایا: چونکہ میں عمرے کی نیت سے جا رہا ہوں اس لیے نہیں چاہتا کہ اپنے ساتھ ہتھیار لے کر چلوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواب کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’آپؐ نے اس خواب کودیکھنے کے بعد اپنے صحابہ سے تحریک فرمائی کہ وہ عمرہ کے واسطے تیاری کر لیں۔ عمرہ گویا ایک چھوٹی قسم کا حج تھا جس میں حج کے بعض مناسک کو ترک کرکے صرف بیت اللہ کے طواف اور قربانی پر اکتفا کی جاتی تھی۔‘‘ جس میں مناسک کو تر ک کر کے صرف بیت اللہ کے طواف اور قربانی کی جاتی ہے۔ ’’اوربخلاف حج کے اس کے لیے سال کا کوئی خاص حصہ بھی معین نہیں تھا بلکہ یہ عبادت ہر موسم میں ادا کی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے صحابہ میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ چونکہ اس سفر میں کسی قسم کاجنگی مقابلہ مقصود نہیں ہے بلکہ محض ایک پُرامن دینی عبادت کابجا لانا مقصود ہے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اس سفر میں اپنے ہتھیار ساتھ نہ لیں بلکہ عرب کے دستور کے مطابق صرف اپنی تلواروں کو نیاموں کے اندر بند کر کے مسافرانہ طریق پر اپنے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 749) غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی؟ اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک ہزار سے کچھ اوپر صحابہؓ تھے۔ ایک روایت میں ہے ایک ہزار تین سو تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ایک ہزار چار سو تھے۔ الغرض سترہ سو تک تعداد کی روایت بھی بیان کی جاتی ہے یعنی ایک ہزار سے لے کر سترہ سو تک مختلف روایتیںہیں۔(بخاری کتاب المناسک باب من اشعر و قلد بذی الحلیفۃ… الخ حدیث:1694)(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ حدیث:4155،4154،4152)(فتح الباری جلد 7 صفحہ 559 قدیمی کتب خانہ) جب روانگی کا وقت آیا تو قربانی کے جانور حضرت ناجِیَہ بن جُنْدُبْ اَسْلَمِیؓ کے سپرد کر دیے گئے جو انہیں ذوالحلیفہ لے گئے۔ ذوالحلیفہ بھی مدینہ سے چھ یا سات میل کے فاصلے پر ایک جگہ ہے۔ سفر پر نکلنے پر مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قائمقام یا امیر مقامی مقرر کیا کرتے تھے۔ اس سفر پر نکلنے سے پہلے آپ نے ابن سعد کی روایت کے مطابق مدینہ پر حضرت عبداللہ بن ام مکتومؓ کو نائب مقرر کیا۔ جبکہ ابن ہشام کی روایت ہے کہ حضرت نُمَیْلَہ بن عبداللہ ؓکو نائب مقرر کیا گیا اور بَلَاذُرِی نے حضرت اَبُورُھْم کُلْثُوم بن حُصَین کا ذکر کیا ہے اور بعض کے نزدیک حضرت ابن امّ مکتوم کو امام الصلوٰة مقرر کیا اور باقی سب کو نائب مقرر کیا۔ مختلف روایتیں ہیں۔(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ 33دارالکتب العلمیۃ)(فرہنگ سیرت صفحہ 105) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی سفر کے لیے تیاری اور روانگی کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کرنے کے بعد اپنے گھر میں داخل ہوئے اور غسل کیا اور صُحَار کے بنے ہوئے دو کپڑے پہنے۔ صُحَار یمن میں ایک بستی ہے اور اس کے کپڑے اچھے ہوتے تھے۔ اور پھر اپنے دروازے کے پاس آپؐ باہر آئے اور اپنے دروازے کے پاس اپنی اونٹنی قَصوَاء پر سوار ہوئے۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سَلَمہؓ آپؐ کے ساتھ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ کے شروع میں پیر کے دن روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ میں پہنچ کر وہاں ظہر کی نماز ادا کی۔ پھر قربانی کے جانور منگوائے جن کی تعداد ستّر تھی۔ ان کو گانیاں یعنی ہار پہنائے۔ پھر آپؐ نے کچھ اونٹوں کو اِشْعَار کیا یعنی ان کی کوہان کو نشان لگایا تا کہ معلوم ہو جائے کہ یہ قربانی کے اونٹ ہیں۔ پھر آپؐ نے حضرت نَاجِیَہ بن جُنْدُبؓ کو حکم دیا تو انہوں نے باقی جانوروں کا اِشعار کیا، ان پہ بھی نشان لگائے گئے اور ان کو ہار پہنا دیے۔ باقی مسلمانوں نے بھی اپنے جانوروں کو ہار پہنائے اور اِشعار کیا۔ مسلمانوں کے پاس اس سفر میں دو سو گھوڑے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام باندھنے کے بارے میں تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی اور ذوالحلیفہ کی مسجد کے دروازے سے سوار ہوئے۔ آپؐ نے عمرہ کا احرام باندھا تا کہ لوگ جان لیں کہ آپ بیت اللہ کی زیارت اور اس کی تعظیم کے لیے نکلے ہیں۔ پھر آپؐ نے یہ تلبیہ پڑھا۔ لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ۔ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ۔ میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہے اور بادشاہی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ایمان اور اسلام