ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے قبل سالہاسال اسہال کا عارضہ رہا تھا ۔چنانچہ حضور اسی مرض میں فوت ہوئے ۔ بار ہا دیکھا کہ حضور کو دست آنے کے بعد ایسا ضعف ہوتا تھا کہ حضور فوراً دودھ کا گلاس منگوا کر پیتے تھے ۔ ڈا کٹر میر محمد اسما عیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے ایک حصہ میں بالا خانہ میں رہا کرتے تھے اور جب تک ان کی شادی اور خانہ داری کا انتظام نہیں ہوا حضرت صاحب خود ان کے لئے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کر کے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کی بہت خاطر منظور ہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۳۴۴،روایت نمبر۳۸۰،۳۷۹) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب فرماتے ہیں کہ کھانے میں کوئی جلدی آپ سے صادر نہ ہوتی آپ کھانے کے دوران میں ہر قسم کی گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔سالن آپ بہت کم کھاتے تھے ۔اور اگر کسی خاص دعوت کے موقعہ پر دو تین قسم کی چیزیں سامنے ہو ں تو اکثر صرف ایک ہی پر ہاتھ ڈالا کرتے تھے اور سالن کی جو رکابی آپ کے آگے سے اُٹھتی تھی وہ اکثر ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا اسے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔بہت بوٹیاں یا ترکاری آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ صرف لعاب سے اکثر چھوا کر ٹکڑا کھا لیا کرتے تھے ۔لقمہ چھوٹا ہوتا تھا اور روٹی کے ٹکڑے آپ بہت سے کر لیا کرتے تھے ۔اور یہ آپ کی عادت تھی دسترخوان سے اُٹھنے کے بعد سب سے زیادہ ٹکڑے روٹی کے آپ کے آگے سے ملتے تھے اور لوگ بطور تبرک کے اُن کو اُٹھا کر کھا لیا کرتے تھے ۔آپ اس قدر کم خور تھے کہ باوجود یہ کہ سب مہمانوں کے برابر آپ کے آگے کھانا رکھا جاتا تھا مگر پھر بھی سب سے زیادہ آپ کے آگے سے بچتا تھا۔ بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے ۔اور پھر انگلی کا سرا شوربہ میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تھے تا کہ لقمہ نمکین ہو جاوے ۔ پچھلے دنوں میں جب آپ گھر میں کھانا کھاتے تھے تو آپ اکثر صبح کے وقت مکی کی روٹی کھایا کرتے تھے ۔اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یاصرف لسّی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا یا کبھی اچار سے بھی لگا کر کھا لیا کرتے تھے ۔آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوّت حاصل کرنے کے لئے ہواکرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے۔بارہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں توکھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہ ہواکہ کیا پکا تھااور ہم نے کیا کھایا۔ …دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی پچھلے دنوں میں زیادہ استعمال فرماتے تھے ۔کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ اِدھر دودھ پیا اور اُدھر دست آگیا اس لئے بہت ضعف ہو جاتا تھا ۔ اس کے دور کرنے کو دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے ۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۴۲۱تا۴۲۵،روایت نمبر۴۴۷) مزید پڑھیں: عمدہ دعا اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ہے