اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط نمبر۲۲۔گذشتہ سے پیوستہ) الفضل سے وابستہ خوبصورت یادیں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم محمد ایوب صابر صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب سے مَیں نے ہو ش سنبھالا ہےروز نامہ الفضل اپنے گھر میں موجود پایا ہے۔ والد محترم حکیم محمد افضل صاحب (مرحوم) جماعتی رسائل وا خبارات کے گرویدہ تھے چنانچہ تمام رسائل انصاراللہ، خالد، تشحیذالاذہان، تحر یکِ جدید، لاہور رسالہ، تقاضے، اخبار روزنامہ الفضل اور جنگ ہمارے گھرآتے تھے۔ جب سکول سے آتے تو اخبار و رسائل ڈھونڈتے اور تمام بہن بھائی پہلے پڑھنے کے لیے دوڑ لگاتے، اپنی اردو درست کرتے، والد محترم یا بڑے بہن بھائی الفاظ و معنی کی وضاحت کرتے، اسی طرح گھر یلو ماحول کی وجہ سے روز نامہ ’’الفضل‘‘ سے لگائو بڑھتا رہا جو اب تک جاری ہے۔ ۱۹۸۹ء میں’’ الفضل‘‘ کے ایڈیٹر مکرم نسیم سیفی صاحب نے الفضل میں مضمون لکھنے کی تحریک کی اور قارئین کو مضمون بھجوانے کا کہا۔ خاکسار ایک دن بیٹھ کر سوچتا رہا کہ کوئی نہ کوئی مضمون بھیجنا چاہیے چنانچہ مضمون بعنوان ’’بجلی کا بل‘‘ ہلکے پھلکے مزاح کے رنگ میں جو کچھ بل جمع کرانے کا منظر تھا لکھ کر ارسال کر دیا۔ جس میں لمبی لائنوں اور بینکوں کے رش کی وجہ سے لوگوں کے انتظار کی کیفیت اور اسے دُور کرنے کے لیے کچھ مشورے لکھے۔ مکرم سیفی صاحب نے مضمون کی نوک پلک سیدھی کرکے اسے شائع کر دیا۔ الفضل میں اپنے مضمون کو پہلی مرتبہ پڑھنے کے بعد جو خوشی حاصل ہوئی وہ بیان سے باہر ہے جیسے یہ میری زندگی کا کوئی خاص دن ہو۔ بس پھر کیا تھا ایک اَور مضمون کی کوشش کی جوبابوں کے حوالے سے ذرا زیادہ مزاح میں تھا اس لیے اسے الفضل کی بجائے ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ کے لیے مکرم ثاقب زیروی صاحب کو بھجوا دیا جنہوں نے اسے ’’جہاں مَیں ہوں‘‘ کی زینت بنا دیا ۔ بس اس طرح لکھنے کا یہ سلسلہ چل نکلا جس کا سارا کریڈٹ روزنامہ الفضل کے ایڈیٹر مکرم نسیم سیفی صاحب کو جاتا ہے۔پھر ۲۰۰۹-۲۰۱۰ء میں اپنے بھائی محمداعظم طاہر کی شہادت اوروالد صاحب کی وفات کے حوالے سے اپنے واقعات یکجا کیے جسے مکرم عبدالسمیع خان صاحب نے الفضل میں شائع کیا۔ اسی طرح ایک اَور مضمون ’’خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر‘‘ کے حوالے سے بھی لکھا جو شائع ہوگیا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم حکیم منور احمد عزیز صاحب بیان کرتے ہیں کہ موضع کیلے ضلع شیخوپورہ میں ایک نہایت مخلص احمدی اَن پڑھ دوست میاں عبدالعزیز صاحب گائوں میں اکیلے احمدی تھے۔ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے اور احمدیت کے سچے شیدائی تھے ۔احمدیت سے عشق کا یہ حال تھا کہ اَن پڑھ ہونے کے باوجود الفضل کا پرچہ لگوا رکھا تھا۔جو بھی آپ کی دکان پر آکر بیٹھتا تو آپ اسے کہتے ذرا یہ اخبار کا ورق مجھے پڑھ کر سنائو۔ ایک دن ایک غیراز جماعت مولوی ماسٹر میاں غوث محمد کی نظر الفضل پر پڑی تو اُس پرچہ پر لکھے ہوئے قرآنی الفاظ نے اُن کا دل روشن کر دیا اور انہوں نے اخبار الفضل کا مطالعہ باقاعدہ شروع کر دیا۔ تب حضرت میاں عبدالعزیز صاحب نے میاں غوث محمد صاحب کا رابطہ میرے والد محترم حکیم عبدالعزیز صاحب آف چک چٹھہ ضلع حافظ آباد سے کروا دیا۔ میاں غوث محمد صاحب سکول ٹیچری کے علاوہ فن طبابت سے بھی تعلق رکھتے تھے اس لیے آپ کی ملاقات جناب حکیم عبدالعزیز صاحب سے ہونے کی دلچسپی اَور بھی بڑھ گئی اور وہ چھٹی کے دن آکر کئی کئی گھنٹے حکیم صاحب سے تبادلہ خیالات کرتے۔ آخر ۱۹۵۹ء میں انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور پُرجوش داعی الی اللہ بن گئے۔ آپ با اثر اہل علم، خوش مزاج، عمدہ گفتگو کرنے والے اور دانش مند انسان تھے۔آج ان کی اولاد بھی احمدی ہے ۔ کیا ہی مبارک اخبار الفضل کا وہ پرچہ تھا جو پورے خاندان کے لیے ہدایت کا موجب بنا۔ والد محترم حکیم عبدالعزیز صاحب اخبار الفضل کے مستقل قاری تھے۔ سرکاری بندش کی وجہ سے جب اخبار الفضل بند ہو گیا تو آپ نے اسے بہت محسوس کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب الفضل کا ضمیمہ شائع ہوا تو آپ کمزوری کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے کہ آپ کے بیٹے مکرم حکیم قاضی نذر محمد نے اخبار الفضل کا ضمیمہ دکھاتے ہوئے کہا: ابا جی اخبار الفضل آگئی۔ آپ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور ہاتھ بڑھا کر کہا کہ مجھے الفضل دو۔ الفضل کا پرچہ دیکھ کر آپ کو ایسی خوشی ہوئی کہ ایسے معلوم ہوا کہ آدھی بیماری اس کو دیکھ کر ہی غائب ہو گئی۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم مظفر احمد درّانی صاحب مربی سلسلہ تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار کے والد محترم محمد شریف درّانی صاحب سابق معلم وقفِ جدید، اپنی سالِ بیعت ۱۹۴۴ء سے الفضل کے باقاعدہ قاری تھے۔ جماعتی خدمت سے رخصت کے بعد اپنی زندگی کے آخری سالوں میں وہ علیٰ الصبح بیرونی گیٹ کے اندر چارپائی بچھا کر الفضل کے انتظار میں بیٹھ جاتے۔ جونہی الفضل آتا تو شروع سے آخر تک لفظ بلفظ مطالعہ کرتے۔مطالعہ اس قدر انہماک سے کرتے تھے کہ ناشتہ بھی بھول جاتے۔ پھر سارا دن ملاقات کرنے والوں سے الفضل کے مندرجات ہی موضوعِ گفتگو رہتا تھا۔آخری سالوں میں آپ کی قوتِ شنوائی کمزور ہوگئی تھی اس لیے MTAپر براہِ راست خطبہ سننے میں آپ کو دقت ہوتی تھی لیکن الفضل میں خطبہ جمعہ پڑھ کر آپ بے حد محظوظ ہوا کرتے تھے۔ ؎ ہر روز بڑے شوق سے پڑھتے ہیں شمارہ مضمون بھی، نظمیں بھی، عجب رنگ ہے سارا الفضل نے آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہؐ سے اپنی پیشانی کوہمیشہ سجائے رکھا تاکہ قاری کو سب سے پہلا سبق ہی یہ ملے کہ ’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔‘‘ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ روزانہ صبح بچوں کو تیار کرکے جب وہ سکول بھجوانے لگتے ہیں تو برکت کے لیے الفضل کے تازہ شمارے سے سرورق پر چھپنے والی آیت یا حدیث بچوں کو سنا کر سکول بھجواتے ہیں۔ راقم السطور نے جب سے ہوش سنبھالا تو گھر آنے والے روزنامہ الفضل کا حسبِ شعور مطالعہ کیا۔ تقریر کرنااور مضامین لکھنا الفضل کے انداز اور امداد سے ہی سیکھا۔ چونکہ الفضل کی مکمل جلدیں دیس بدیس اُٹھائے پھرنا ناممکن ہے، اس لیے خاکسار الفضل میں شائع ہونے والے مضامین اور جلسہ سالانہ کی تقاریر کو عناوین کے اعتبار سے الگ طور پر سنبھال لیا کرتا تھا اور پھر موقع کی مناسبت سے حسبِ ضرورت اس مواد سے استفادہ کر لیا جاتا۔ حتیٰ کہ بیرونِ ملک جاتے ہوئے بھی یہ مواد خاکسار کے ہمراہ رہا۔ چنانچہ جن ممالک میں جانے کا موقع ملا الفضل کا فیض وہاں کی مقامی زبان میں اصلاح و ہدایت کا موجب بنتا رہا۔ ………٭………٭………٭……… انٹرویو: محترم راجہ غالب احمد صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں خادم سلسلہ ، ماہر تعلیم،دانشور اور شاعر محترم راجہ غالب احمد صاحب کا ایک مختصر انٹرویو بقلم مکرم فخرالحق شمسؔ صاحب شامل اشاعت ہے۔ محترم را جہ غالب احمد صاحب آف لاہور۸۵برس کی عمر میں بھی بہت فعّال ہیں اور ہر تقریب اور جماعتی پروگرام میں شریک ہو کر اپنے علم اور تجربہ سے فیضیاب کرتے ہیں۔ آپ بحیثیت شاعر، دانشور اور ناقد ملک کے مقتدر علمی اور ادبی حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی جرائد میں آپ کی نظمیں اور تحریریں اردو اور انگریزی میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔نصف صدی سے زائد عرصہ ادب و شاعری سے آپ کا تعلق پھیلا ہوا ہے۔ آپ کی کتب ’’تشدد کا تاریخی پس منظر‘‘، ’’راحت گمنام‘‘ اور ’’رخت ہنر‘‘ آپ کی زندگی کا اثاثہ ہیں۔ آپ کا ایک تحقیقی مقالہ History of Circumcision گورنمنٹ کالج لاہور نے شائع کیا تھا۔ آپ نے آغاز میں پاکستان ایئرفورس میں ملازمت کی لیکن بعدازاں محکمہ تعلیم کو ۱۹۶۲ء میں جوائن کیا اور تقریباً تمام کلیدی عہدوں پر فائز رہے جن میں سیکرٹری اور کنٹرولر بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن پنجاب، چیئر مین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکرٹری ایجو کیشن سرگودھا، چیئر مین پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ اور مشیر تعلیم حکومتِ پنجاب نمایاں ہیں۔ الفضل کے۱۰۰سال پورے ہونے کے حوالے سے ۲؍مارچ ۲۰۱۳ء کو محترم راجہ غالب احمد صاحب سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ آپ نے بتایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مجھے بچپن میں راولپنڈی میں قاعدہ یسرنا القرآن کا سبق پڑھایا تھا۔ ۱۹۳۷ء میں جب مَیں نے قرآن کریم کا پہلا دَور مکمل کیا تو تقریب آمین کی رپورٹ روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی اور اسی کے ساتھ الفضل سے تعلق پیدا ہوگیا۔ چونکہ گھر میں الفضل باقاعدگی سے آتا تھا اس لیے اس کے مطالعہ کی طرف رجحان رہا۔حضرت عبدالرحمٰن خادم صاحب میرے ماموں تھے اور بچپن سے ہی ان کے ساتھ تعلق رہا ہے، اس وابستگی کی وجہ سے اُن کی علمی شخصیت کا اثر مجھ پر شروع سے ہی ہوتا چلا گیا۔ سکول کے دَورِ طالبعلمی سے ہی الفضل میں میری شاعری چھپنا شروع ہوگئی تھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے کلاس فیلوز اور دوستوں میں احمدندیم قاسمی، انتظارحسین، شہزاد احمد،مظفر علی سید، صوفی تبسم، ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر اجمل قابل ذکر ہیں۔ محترم راجہ صاحب نے ۱۹۵۴ء میں گورنمنٹ کالج لاہورسے ایم اے نفسیات فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا۔آپ کی جماعتی خدمات کا سلسلہ بھی بہت طویل ہے۔ جماعت احمدیہ ضلع لاہور میں آپ جنرل سیکرٹری سمیت کئی عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ………٭………٭………٭……… الفضل لاہور کے ایک کارکن روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میںمکرم لعل الدین صدیقی صاحب سابق کارکن الفضل لاہور کا تعارف شامل اشاعت ہے۔ موصوف صدیقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں ۱۹۴۷ء سے الفضل کا قاری ہوں اور یہ میری روح کی غذا ہے۔ قرآن شریف کی تلاوت کے بعد بلاناغہ الفضل کا مطالعہ نہ کروں تو چین نہیں آتا۔ الفضل نے اس نا چیز کو بےحد روحانی فائدہ پہنچایا ۔ باوجود مالی کمزوری کے الفضل ہمیشہ خود خرید کر پڑھتا رہا ہوں۔ الفضل اخبار کی روشن تاریخ کی ایک جھلک بیان کرتے ہوئے موصوف بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کو ایک یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اکتوبر۱۹۴۷ء سے لے کر ۳۰؍نومبر ۱۹۴۹ء تک دفتر الفضل میں مددگار کارکن کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ اُس زمانے میں دو غیراز جماعت دفتری تھے جو اخبار فولڈ کرکے اوپر چٹیں لگا کر چلے جاتے تھے۔ پھر ٹکٹیں لگاکر اخبار ڈاکخانہ لے جانا خاکسار کے ذمہ تھا۔یہ کام کرکے تین بجے فارغ ہوتا تو پھر ایڈیٹر صاحب کے دفتر چلا جاتا تھا۔ رات ڈیڑھ بجے کاپی تیار کرکے مکلیگن روڈ سے پیدل دہلی دروازے میں واقع خان پریس میں پہنچاتا تھا اور پھر پیدل ہی چل کر اپنے گھر سنت نگر پہنچتا تھا۔ رات دو بج جاتے تھے۔ پانچ بجے پھر اُٹھ کر دہلی دروازے جاتا تھا جہاں سے الفضل لے کر گیلانی پریس بالمقابل انارکلی جاتا، وہاں اخباروں کے تبادلے کرکے دفتر الفضل پہنچتا اور پھر پیدل گھر پہنچتا۔ ناشتہ کرکے دس بجے پھر دفتر چلاجاتا۔ اس وقت الفضل کے ایڈیٹر مکرم روشن دین تنویرصاحب اور مینیجر مکرم رحمت اللہ شاکر صاحب تھے۔ نائب ایڈیٹر مکرم شیخ خورشید احمد صاحب، منیر احمد صاحب وینس اور ثاقب زیروی صاحب تھے۔ ہیڈ کاتب مکرم احمدحسین صاحب تھے۔ ………٭………٭………٭………