۵۰ء کی دہائی کا قصہ ہے۔ شہر میں کرفیو نافذ ہونے کو ہے۔ بازار، سڑکیں، چوراہے سب افراتفری کی لپیٹ میں ہیں۔ دکانیں دھڑا دھڑ بند ہو رہی ہیں، دفاتر کو تالے لگ رہے ہیں۔ لوگ بدحواسی کے عالم میں گھوڑا گاڑیوں اور ذاتی سواریوں پر چڑھے گھروں کا رخ کر رہے ہیں۔ بھاگ دوڑ کے اس ماحول میں افسانہ نگار اپنی مخدوش سائیکل دیوار سے ٹکا کر دوست کے گھر کا دروازہ پیٹنے لگتا ہے۔ دراصل اس کی بچی شدید بیمار ہے اور اس کے پاس دوا خریدنے کے لیے پھوٹی کوڑی نہیں ہے۔ ادھر شہر میں کرفیو لگنے والا ہے۔ وہ دوست کے پاس پیسے ادھار لینے آتا ہے تاکہ بچی کے لیے دوا خرید سکے۔ دوست اس کی حالت پہ ترس کھا کر اسے کچھ پیسے دے دیتا ہے۔ ادھر گھر میں اس کی بیوی بیمار بچی کے سرہانے بیٹھی ہے اور گھڑیاں گن رہی ہے کہ کب دوا آئے اور بیمار بچی کو کچھ سکون نصیب ہو۔ تھوڑی دیر بعد افسانہ نگار کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ بیوی جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے خاکی لفافہ لیتی ہے تاکہ جلدی سے بچی کو دوا پلا سکے۔ خاکی لفافے سے بوتل نکالتی ہے، لیکن لفافے سے دوا کی بجائے شراب کی بوتل برآمد ہوتی ہے۔ دوا کو تو راستے میں لَت کی ڈائن لے اڑتی ہے۔ دراصل اردو ادب کا یہ متنازعہ ترین افسانہ نگار شراب نوشی کی لت کا شکار تھا اور اسی سبب تینتالیس سال کی عمر میں جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ کسی بھی نوع کی لت کا یہ خاصہ ہے کہ ایسا شخص انسانوں اور ماحول سے لاتعلق، بےپروا، بیگانہ ہو جاتا ہے۔ لت (addiction) خنجر کا طرزِ عمل رکھتی ہے۔ خنجر صرف کاٹنا، پھاڑنا، الگ کرنا جانتا ہے۔ لت گرفتہ بھی اپنوں، دوستوں، پیاروں سے کٹ جاتا ہے۔ بیمار بچی کا چہرہ شراب کی بوتل کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ یہاں عظیم روسی ناول نگار فیودور دستویوسکی کی ایک کہانی کا کردار یاد آگیا جسے اس کی بیٹی اپنی کمائی دیتی ہے تاکہ وہ گھر میں بھوک سے بلکتے بچوں کے لیے کھانا لے آئے۔ باپ بازار تو جاتا ہے لیکن بیٹی کی ساری کمائی شراب خانے میں اُڑا آتا ہے۔ لٹریچر سے باہر اصل دنیا میں بھی ہمارے مشاہدے میں آتا ہے کہ ترقی پذیر غریب ممالک میں عورتیں محنت مزدوری کرتی ہیں اور گھر میں پڑا نشئی مرد نوالے چھین کر لت پوری کرتا ہے۔ لت اور گھر ایک دوسرے کے ازلی حریف ہیں۔ جس طرح وائرس جب زندہ جسم میں ٹھکانا بناتا ہے تو زیادہ عرصے تک دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے یا وائرس مرتا ہے یا جسم۔ لت اور گھر کی بھی دوستی نہیں ہو سکتی۔ طاقتور ہوتی لت گھر کو کمزور کرنے لگتی ہے۔ گھر کی بقا روٹی (نفع مند ذرائع بقا و اسباب سکون کی گھر تک دستیابی) پر منحصر ہے۔ مرد کی لت گھر اور روٹی کے درمیان خلل ڈال دیتی اور گھر اور بیرونی دنیا کے درمیان سپلائی لائن کو نقصان پہنچاتی ہے۔ لت کا وار امیر اور غریب میں فرق نہیں کرتا، جس طرح خنجر کی دھار غریب یا امیر دونوں کو زخم دیتی ہے۔ بس فرق یہ ہوتا ہے کہ امیر جب اپنا زخم بھرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے پاس غریب کی نسبت راستے اور وسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ غریب آدمی کی لت خود کو اور گھر کو کھا جاتی ہے جبکہ مال دار، بااثر، طاقتور شخص کی لت دوسرے گھروں، محلوں، شہروں حتیٰ کہ ملک کو بھسم کر سکتی ہے۔ مغل بادشاہ رنگیلا شاہ کی addiction کے نتائج تاریخ کے تاریک اوراق میں محفوظ ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں امریکی کمپنی Oriental Trading کے مالک نے اسے قماربازی کی لت میں جھونک دیا۔ خود تو وہ دیوالیہ ہوکر سڑک پر آگیا، ساتھ ہی سینکڑوں ملازمین کے چولہے بھی سرد پڑ گئے۔ اسی طرح برٹش بزنس مین جس کی ایک بڑی بک مکینگ کمپنی تھی، اس کے گھوڑوں کی ریس پر جؤا لگانے کی نذر ہو گئی۔ غرض، بڑے لوگوں کی لت بڑا نقصان ڈھاتی ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں لت کی صورتیں بدل گئی ہیں لیکن ان کے نتائج اسی طرح مہلک ہیں۔ آن لائن جوؤا، پورنوگرافی، ویڈیو گیمز وغیرہ سب لت کے نئے ٹھکانے ہیں۔ وقت کی گرد نے لت کی حقیقت کو نہیں بدلا اور سو دو سو سالوں کے بعد بھی جب نہ جانے کیا کچھ ایجاد ہو چکا ہوگا، لت کی اصلیت نہیں بدلے گی۔ صورتیں بدل جائیں گی پر روح وہی رہے گی۔ بے لگام کھپت کا نام لت ہے اور کھپت کسی شے کو استعمال کرنا یا خرچ کرنا ہوتا ہے۔ بد اعتدالی اور بے لگام کھپت میں فرق یہ ہے کہ بد اعتدالی میں کسی شے کا استعمال کم بھی ہو سکتا ہے یا زائد بھی، لیکن بے لگام کھپت ہمیشہ زائد کھپت (overconsumption) کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ انسان کسی بھی شے یا عمل و سرگرمی کو اپنانے میں بے قابو کھپت کا ٹھکانا بن سکتا ہے، حتیٰ کہ عبادت بھی بے قابو کھپت کے دام میں پھنس سکتی ہے۔ خدا وہ عمل بجا لانے کا حکم نہیں دیتا جو فرد کو گھر، عزیزوں اور اردگرد کے ماحول سے کلی طور پر کاٹ ڈالے۔ عبادت تو بندے کو خدا سے اور اس کی مخلوق سے جوڑتی ہے جبکہ بے قابو کھپت کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ شے، عمل یا سرگرمی کی زائد کھپت دوسروں سے دوری و فاصلے پیدا کرتی ہے اور لت گرفتہ خود سے بھی بیگانہ ہونے لگتا ہے، جسمانی صحت اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ وہ تو بس لت کے مزار کا مجاور بن کر رہ جاتا ہے… نہ دنیا کی ہوش، نہ خود کا پتہ۔ یہاں پر ایک سوال ذہن میں ابھر سکتا ہے کہ سائنسدان، محققین، لکھاری بھی تو ایک کام، عمل یا سرگرمی میں ڈوبے رہتے ہیں، جیسے برٹش سائنسدان مائیکل فیراڈے نے اپنی زندگی لیب میں کھپا دی تھی۔ اس کے روز و شب تجربہ گاہ میں بسر ہوتے تھے۔ وہ دنیا، لوگوں سے کنارہ کش، تجربات میں مصروف عمل رہتا تھا۔ اب الجھن پیدا ہو سکتی ہے کہ کیا فیراڈے کا جنون بھی بے قابو کھپت ہے؟ اس الجھن کا جواب یہ ہے کہ فیراڈے جیسے لوگوں کا سفر ایک خط و سنگ میل سے دوسرے خط و سنگ میل کی طرف متحرک رہتا ہے۔ تخلیق کار، مفکر، سائنسدان ایک لکیر کھینچتے ہیں، اسے عبور کرتے ہیں۔ اگر ناکام ہوتے ہیں تو پھر اور راستے تلاش کرتے ہیں۔ بالآخر ایک دن ان کا جنون و کاوشیں سماجی فائدے میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ آج ہمارے گھروں میں electricity سے منسلک اشیاء فیراڈے کے جنون و کاوشوں کا ثمر ہے۔ دوسری طرف بے قابو کھپت خرابی و تنزلی پر منتج ہوتی ہے اور لت دائرے کا سفر ہے، ایک زہریلے لا حاصل دائرے کا سفر۔ لت گرفتہ لت اٹھائے جان لیوا دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ گزرتی گھڑیوں کے ساتھ چکر کی رفتار بڑھتی جاتی ہے۔ بےقابو کھپت زائد کھپت کے بلیک ہول میں تبدیل ہو جاتی ہے اور dopamine کی ہاتھ پھیلائے مزید، مزید کی پکار ہوتی ہے۔ لت گرفتہ کی گردن میں پڑا طوق کا وزن بڑھتا جاتا ہے اور ایک روز وہ اس کے بوجھ تلے دھڑام سے گر پڑتا ہے۔ جواس دائرے سے باہر نہیں نکلتا، اسے دائرہ نگل جاتا ہے۔ لت کے دائرے کو متحرک رکھنے والی قوت لذت (pleasure) کی پیداوار ہے۔ لت اور لذت کا دائمی تعلق ہے اور لذت اور الم (pain) کا آپس میں رشتہ بڑا عجیب ہے۔ شہر آسیب کے طلسم کو زائل کرنا ہے تو لت، لذت اور اَلم کے آپس میں الجھے ہوئے پہلوؤں کو سمجھنا ضروری ہے۔ دماغ کے نہاں خانوں میں لذت اور الم الگ الگ جگہ مورچہ سنبھال کر نہیں بیٹھے ہوتے بلکہ یہ دونوں سوتنیں ہیں جو بیک وقت ایک ہی جگہ موجود ہوتی ہیں۔ ان کی coexistence کو دن و رات کے رشتے سے سمجھیں۔ دن چڑھنے سے رات ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ کی طرف سفر کرتی غائب نہیں ہو جاتی۔ دن کے وقت رات روشنی کے حجاب کے پیچھے وہاں موجود رہتی ہے۔ اور یہی حال رات کا ہے۔ رات کے اندھیرے کے پیچھے دن ٹہلتا ہے۔ دن کا روشن چہرہ رات کی گھنی سیاہ زلفوں کا مرہون منت ہے اور رات کی تاریکی دن کے وجود سے ہے۔ دو متضاد چیزیں ایک ہی جگہ مقیم، ایک دوسرے کو ظاہر یا پوشیدہ رکھتی ہیں۔ اسی طرح دماغ کے حصے میں لذت اور الم بیک وقت اپنا وجود رکھتے ہیں۔ کبھی لذت کا ابھار الم کو پس پشت ڈال دیتا ہے، کبھی درد کی ٹیسیں خوشی کو پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔ احمد فراز کے اس شعر کی طرح خوشی و غم کے دَور جاری رہتے ہیں: کبھی خوشی سے خوش ہوا کبھی غم سے غمزدہ یہ زندگی ہے دوستو کوئی خواب تو نہیں لذت اور الم کے درمیان کیسا الجھا ہوا تعجب انگیز تعلق ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے متضاد وجود کے ساتھ ایک ہی مکان میں رہتے ہیں اس لیے ان کے درمیان توازن لازم ہے، جس طرح دن اور رات میں توازن قائم ہے۔ ذرا سوچیں! اگر ایسا ہوتا کہ دن کبھی پچاس گھنٹوں پر محیط ہوتا، کبھی تین گھنٹوں تک سکڑ جاتا، کبھی چند منٹوں کے لیے نمودار ہوتا تو کیا دنیا کے معاملات بہ احسن طریقے سے چل سکتے؟ لذت اور الم کے تعلق میں بھی توازن برقرار رکھنے کے لیے قدرت نے خود ضابطہ نظام رائج کیا ہے۔ لذت کا ہونا درد کو معنی دیتا ہے اور درد لذت کے لیے راستہ بناتا ہے۔ ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ بھوک کا احساس درد و الم کی ایک صورت ہے اور اسے دُور کرنے کے لیے ہم کھانا کھاتے ہیں۔ یوں بھوک کے بعد کھانا باعثِ لذت بنتا ہے۔ اب اگر ایسا ہو کہ بھوک نہ لگے یعنی انسان درد و الم کی کیفیت سے نہ گزرے تو بھلا انواع و اقسام کے لذیذ پکوان اس کے سامنے ہوں، ان لذیذ کھانوں کا تناول کرنا اس کے لیے خوشی و مزے کی بجائے تکلیف کا سبب بن جائے گا۔ ایک اور کلاسیک کیس واٹس ایپ کو دنیا میں روشناس کروانے والے Jan Koum کا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں جین کوم نے انیس بلین ڈالرز کے عوض واٹس ایپ فیس بک کو حوالہ کردیا اور ایک ہی جھٹکے میں یوکرائن کا غریب بندہ بلینئر بن گیا۔ دنیا کی تمام ممکنہ لذتیں جین کوم کی دہلیز پر سرنگوں ہوگئیں۔ دنیا کا ہر سکھ و عیش اس کی جیب میں بآسانی سما گئے۔ پھر انہونی ہو گئی کہ اس قدر دولت و پرتعیش زندگی کے باوجود وہ ڈپریشن میں چلا گیا۔ لذتوں کی بھرمار اور درد و تکلیف کے معدوم و غائب ہونے کے باعث خوشی کا احساس مٹ گیا۔ معاملہ فہم، امیر ترین لوگ سوئی ہوئی خوشی کے احساس کو جگانے کی خاطر درد و الم خریدتے ہیں۔ وہ اپنے سے نیچے تکلیف و مصائب سے بھری دنیاؤں کی یاترا پر نکل پڑتے ہیں۔ افریقہ کے لق و دق صحراؤں، ہندوکش کے برف زاروں میں سرگرداں، وہ گم گشتہ درد کا کھوج لگاتے ہیں۔ این جی اوز، فلاحی ادارے بناتے ہیں تاکہ درد کے نظارے مردہ لذت میں جان ڈال سکیں۔ غرض، لذت اور الم کے درمیان توازن زندگی کے پہیے کو گھما ئے رکھتا ہے۔ شہرِ آسیب کے عجائب خانے لت کا طلسم پھونکتے ہیں۔ لت کا ناگ لذت و الم کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔ لت انسان کو لذت پرست بنا دیتی ہے۔ عہد حاضر بے لگام کھپت کا زمانہ ہے اور اس دور کا سب سے سستا اور سہل ترین نشہ سکرین کا ہے۔ منشیات و شراب وغیرہ کے لیے تو محنت و بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے، قانونی رکاوٹوں، حکومتی ضابطوں کا سامنا مشکل پیدا کرتا ہے، لیکن سکرین کا نشہ بس ایک ڈیوائس اور انٹرنیٹ کنکشن کا محتاج ہوتا ہے۔ جب سکرین کا عاشق اپنے پسندیدہ لذتوں کے ٹھکانوں کی زیارت بار بار متواتر کرتا ہے تو اس کے دماغ میں لذت و الم کا توازن بگڑ جاتاہے۔ یہ بگاڑ اس میں ایک خصلت پیدا کرتا ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک ہی مقدار میں نشہ لیا جائے تو کچھ عرصے بعد دماغ اس کا عادی بن جاتا ہے اور نشے کا اثر کم ہونے لگتا ہے۔ مثلاً شروع میں ایک گولی مزا دیتی ہے، پھر کچھ دنوں بعد ایک گولی اثر نہیں کرتی کیونکہ دماغ کے receptors سُن و بے حس ہو جاتے ہیں۔ یوں لت پرست وہی مزہ لینے کے لیے ایک سے دو گولیاں، دو سے چار… ابتدا میں کافی کی ایک پیالی نیند بھگانے کا اثر رکھتی ہے لیکن چند ہفتوں کے استعمال کے بعد اثر گھٹنے لگتا ہے اور پھر وہی اثر واپس لانے کے لیے کافی کی دن میں کھپت بڑھ جاتی ہے۔ اسے tolerance کہتے ہیں۔ یہی اصول موبائل سکرین کے نشے پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ دن بھر آٹھ دس ریلز اور ٹک ٹاک وغیرہ پر پسندیدہ ویڈیوز دیکھنے سے dopamine سے کشیدہ لذت ملتی ہے، پھر ویڈیوز کی تعداد اور سکرین ٹائم میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ لذت ایک سٹاپ پر کچھ دیر قیام کرتی ہے۔ سکرین پرست اس کے قریب جاتا ہے تو خوشی فَٹ سے چھلانگ لگاکر اگلے سٹاپ پر ڈیرہ جما لیتی ہے اور یوں بلی چوہے کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ اس بھاگ دوڑ میں سکرین پرست کا حال ایسے بے مقصد اور بے حس انسان جیسا ہو جاتا ہے جو سارا دن سڑک پر اِدھر اُدھر بھاگتا پھرتا ہے۔ لَت انسان کو خوشی سے دُور لے جاتی ہے کیونکہ لت گردی سے احساس خوشی کا threshold بڑھتا جاتا ہے۔ لت خوشی کے receptors کو سُن کر دیتی ہے اور receptors کی بے حسی دور کرنے کو لت گرفتہ ڈرگ کی مقدار زیادہ کر دیتا ہے۔ یہ عمل ایک اور عجیب ردّعمل پیدا کرتا ہے۔ لت گرفتہ کا بے مقصد انسان کی طرح لذتوں کے تعاقب میں رہنا درد و الم کے receptors کو زیادہ حساس بنا ڈالتا ہے۔ مثلاً جب کوئی زیادہ دیر تک گھپ اندھیرے میں رہتا ہے تو اس کی آنکھوں کے rod cells جو روشنی کم ہونے پر کام کرتے ہیں، زیادہ ایکٹو ہو جاتے ہیں۔ پھر تھوڑی سی روشنی بھی زیادہ تیز لگتی ہے۔ اسی طرح لت میں ڈوبا فرد ذرا سی تکلیف و درد پر بلبلا اٹھتا ہے۔ اس میں صبر و برداشت کی قوتیں ماند پڑجاتی ہیں۔ موبائل خور، سکرین میں گم نسلیں مکھی کے بھنبھنانے پر بھی چیخ اٹھتی ہیں۔ اگر والدین بچے کو خوشی کے شیش محل کا مہاراجا بنا دیں گے کہ وہ جہاں منہ موڑے وہاں سے لذت کے فوارے پھوٹ پڑیں تو ایسا بچہ اس درخت کی مانند ہے جو تندو تیز ہواؤں کا سامنا نہیں کرتا۔ ایسا درخت اپنے ہی بوجھ تلے گر جاتا ہے کیونکہ اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ تند و تیز ہواؤں کا سامنا درخت کو مضبوط بناتا ہے۔ سمارٹ فون و سکرین کی لت محض بینائی کمزور نہیں کرتی۔ سکرین کی نیلی روشنی صرف نیند میں خلل نہیں ڈالتی۔ یہ لت بچے کو ٹین کا ڈبہ بنا دیتی ہے جسے ذرا سی ضرب لگے تو زور سے بج اٹھتا ہے۔ زندگی چیلنجز سے بھری بارات ہے، غموں کا جلوس ہے اور مصائب کا سرکس ہے۔ ایسی پُرہنگامہ متحرک، میٹھے کڑوے جذبات سے گوندھی فلم کا ہیرو موم کا بنا کیسا لگے گا؟ جب بچے ہر دم لذتوں کے اندھیروں میں رہیں گے تو درد کی دیا سلائی سے سلگتی چنگاری بھی انہیں floodlights معلوم ہوں گی۔ کیا سکرین خوری کا مرض بچوں کو اس شعر کا عکس بنا رہا ہے:؎ تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے سکرین کا نشہ عقابوں کی بجائے پتنگے پیدا کر رہا ہے، ایسے پتنگے جو ہوا کا خفیف جھونکا بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے والدین جو بچوں کو سکرین کے نشے پر لگا دیتے ہیں اور لہک لہک کر ہنستے ہوئے دوسروں کو بتاتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو کھانا کھاتے ہوئے بھی موبائل نہیں چھوڑتا، تو یاد رکھیں! سکرین کے سبب بینائی کی کمزوری عینک کے استعمال سے دُور کی جا سکتی ہے لیکن سکرین خوری کے باعث اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی بگاڑ ساری زندگی محو تعاقب رہتے ہیں۔ لت کی ڈرل مشین سے انسان اپنی ذات میں کئی چھید کر لیتا ہے اور پھر ان چھیدوں کو رفو کرنے میں عمر نکل جاتی ہے۔ اوپر مذکور لذت و الم کا تعلق، ان کے درمیان توازن کی اہمیت اور لت کا اس توازن میں فساد ڈالنا، یہ سب باتیں خشک فلسفہ دانی نہیں ہیں کہ جس کا فائدہ یہ ہے کہ سردیوں کی خاموش تنہا شاموں میں سلگتے آتش دان کے قریب آرام دہ کرسی پر مطالعہ کرتے محض علمی ذوق کی تسکین ہوتی ہے۔ غرض، یہ سب حقیقتیں ہیں جن کا ایک ثبوت امریکی ماہرِنفسیات Anna Lembke نے دیا ہے۔ انہوں نے اپنی بیسٹ سیلر کتاب Dopamine Nation میں اپنے ان سابقہ مریضوں کی کہانیاں بیان کی ہیں جن کی زندگیاں لت نے جہنم بنا دی تھیں۔ کیسے لڑکپن میں لگی لت بڑھاپے تک اپنے شکار کی بوٹیاں نوچتی ہے۔ کیسے لائق طالب علم لت میں پڑ کر خودکشی تک پہنچتا ہے۔ کیسے گھر و ازدواجی زندگی نشے کی بھینٹ چڑھتی ہے۔ کیسے ذات میں بنا چھید بڑھتے بڑھتے طاقتور بلیک ہول میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر اردگرد کے رشتے، محبتیں، مقاصد بلیک ہول میں گم ہو جاتے ہیں۔ ہم ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں dopamine کے سمندر نے گھیرا ہوا ہے۔ قدم قدم پر dopamine سے بھرے لت خانے ورغلا رہے ہیں۔ dopamine کے سمندر میں گھومتے بھوکے قزاق ہمارے خزانوں کو ہر دم لوٹنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ شہر آسیب کے خارجی دروازے جو مارجنگ سٹیل سے بنے ہیں، انہیں توڑنے کا حل کیا ہے؟ شہر کے طلسم کدوں، ناٹک گھروں سے کس طور راہ فرار حاصل کی جا سکتی ہے؟ ہر گھڑی چال بدلتے جنتر منتروں کا مقابلہ کون سے بول گنگنا کر کیا جا سکتا ہے؟ شہر کے چوراہے پر نصب گھڑیال کی آہنی صداؤں کو چپ کروانے کا راز کیا ہے؟ شیش محل کی چمک دمک سے بچنے کا نسخہ کیا ہے؟ Dopamine کے گارے سے، تخلیق شہر آسیب سے نکلنے کے تین راستوں کی بات کرتے ہیں لیکن ان راستوں پر چلنے سے پہلے عزم و ارادہ ضروری ہے۔ اگر لت سے بچنے و نکلنے کا عزم و ارادہ ہی نہیں ہے تو سب بیکار ہے۔ اول، سچ گوئی کا راستہ ہے۔ سچ گوئی انسان کو خود اور اردگرد لوگوں سے جوڑتی ہے۔ سچ گوئی کی صفت گہرے، مضبوط جذباتی تعلق کی بنیاد بنتی ہے۔ سچ گوئی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا بیان اور عمل اس کی پانچ بنیادی حِسوں یعنی بینائی، شنوائی، سونگھنا، چکھنا اور چھونا کے تجربات کے ساتھ مطابقت رکھے یعنی حساسیاتی تجربات کا اقرار یا عدم حساسیاتی تجربات کا انکار سچ کہلاتا ہے۔ جھوٹ کی حقیقت حساسیاتی تجربات کا انکار یا عدم حساسیاتی تجربات کا اقرار ہے۔ آنکھ، کان، ناک، زبان، ہاتھ نے جو تجربہ و مشاہدہ کیا ہے اس کا اقرار یا جو تجربہ و مشاہدہ نہیں کیا اس کا انکار سچ کہلاتا ہے۔ اب اس عبارت میں اقرار و انکار کی جگہیں بدل دیں تو یہ جھوٹ کی تعریف ہے۔ اب سچ بولنے سے کس طرح لت پرستی سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے؟ دراصل وہ نشہ جو چھپ کر کیا جاتا ہے جیسے پورنوگرافی کی لت، شراب نوشی، منشیات کی لت وغیرہ، اس طرح کی مخفی نشہ خوری جھوٹ و دروغ گوئی کی طرف لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنے کا سب سے اول اثر جھوٹ بولنے والے پر پڑتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جھوٹ گوئی سے انسان اور اس کی senses کے درمیان دوری و اجنبیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خود کی آنکھ، کان، زبان، ناک، ہاتھ اجنبی بن جاتے ہیں کیونکہ ان پر وارد تجربات اور انسان کے قول و عمل میں تضاد ہوتا ہے اور یہ تضاد اجنبیت سے گزرتا گہری تنہائی میں ڈھل جاتا ہے۔ یہاں ہم ایسی تنہائی کا ذکر کر رہے ہیں جو افسردگی کا زہر رکھتی ہے۔ تنہائی کا ناطہ انسان کے اندرون سے جڑا ہے۔ تنہائی سب سے پہلے انسان کے اندر ابلتی ہے۔ دوسرے درجے پر جھوٹ کا اثر اندرون سے نکل کر باہر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ سماجی تعلقات میں کھوکھلا پن و تلخی، رنجش اور بناوٹ کی کڑواہٹ شامل ہو جاتی ہے۔ تنہائی کے مبہم نقوش مجسم صورت میں سامنے آنے لگتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں جھوٹ عجیب شکلیں اختیار کرتا ہے۔ سوشل میڈیا ایپس کا جنونی صارف جعلی ذات (false self) کے ساتھ جینے لگتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر جعلی ذات رکھنے والے شخص کا حال اس احمق کی مانند ہوتا ہے جس کی جیب سکوں سے بھری ہے اور وہ بازار میں گھوم رہا ہے لیکن وہ سکے خرچ کرنے کی بجائے بند ہتھیلی دوسروں کو دکھاتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے کہ اس میں کوہِ نور کا ٹکڑا ہے۔ وہ یہ جھوٹ بننے، قائم رکھنے میں اتنا مستعد، مگن اور چوکنّا رہتا ہے کہ جیب میں پڑے حقیقی سکوں کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ پھر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بند ہتھیلی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ یوں نہ جھوٹ اسے کوئی حقیقی نفع پہنچاتا ہے اور نہ سچ سے وہ کوئی فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ دھوبی کا کتا بن کر رہ جاتا ہے اور یہ اذیت ناک خالی پن اسے خودکشی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ خودکشی کا مرتکب ہونا اس پر آسان ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اصل ذات سے لاتعلق ہوتا ہے اور اصل ذات سے لاتعلقی خودکشی کے اصل consequences کا ادراک نہیں ہونے دیتی۔ دراصل وہ جس ذات کا طواف کر رہا ہوتا ہے اس کا وجود ہی نہیں ہوتا اور جس شے کا وجود ہی نہیں ہے اسے ختم کرنا بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اس باریک نکتہ کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کریں ایک شخص جھوٹ بولتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر قیمتی دستانہ چڑھا ہے۔ وہ اس دروغ گوئی میں اتنا مگن و محو ہو جاتا ہے کہ اپنے اصل ہاتھ کو بھول جاتا ہے اور ہر وقت فرضی دستانے کو سنوارنے و نکھارنے میں لگا رہتا ہے۔ ایسا شخص اندر سے خالی و افسردہ رہتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ فرضی دستانے کی کوئی قدر و اہمیت نہیں ہے۔ پھر اسی افسردگی کے عالم میں وہ اپنا ہاتھ آگ میں ڈال دیتا ہے۔ اب آگ فرضی دستانے کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی پر اس عمل کا consequence یہ ہوتا ہے کہ اصل ہاتھ جل کر کوئلہ بن جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی کوکھ سے نکلی جلن میں false self نہیں جلتی کیونکہ وہ فرضی ہے۔ جلن و سوزش کی اذیت اصل ذات کو جھیلنی پڑتی ہے۔ اب دیکھو جھوٹ کا سفر انسان کو کہاں پہنچا سکتا ہے۔ بہر حال لت گرفتہ ایک loop میں پھنس جاتا ہے۔ وہ نشہ کرتا، جھوٹ بولتا ہے۔ جھوٹ اجنبیت و تنہائی پیدا کرتا ہے اور تنہائی کے احساس کو کم کرنے کے لیے وہ مزید ڈوز لیتا ہے۔ اس طرح یہ چکر جاری رہتا ہے۔ اس گھیرے کو توڑنے کا ایک موثر antidote سچ گوئی ہے۔ سچ ایک ایسی گوند ہے جو انسان کو خود سے اور دوسروں سے جوڑتی ہے۔ سچ کا جادو تعلقات میں جذباتی گہرائی و مضبوطی کا باعث بنتا ہے اور سچ جلن بھری تنہائی کا تریاق ہے (مشاہدے اور تجربے میں آنے والی ہر بات کا بیان سچ کی تعریف کے نیچے نہیں آتا۔ سچ کا مطلب ہے جو بیان کیا جائے وہ حقیقت پر مبنی ہو۔ سچ گوئی عمل صالحہ ہے یعنی محل و مناسبت سے تعلق ہے)۔ ماہرین نفسیات سچ گوئی کو therapeutic tool کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایک ہی قسم کی لت میں گرفتار لوگوں کا گروپ بنا کر ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ بس اپنے بارے میں سچ بولیں۔ تحقیق کے مطابق دس ہفتوں تک سچ و ایمانداری کے ساتھ روزمرہ معاملات گزارنے سے جسمانی و ذہنی صحت پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ اضطراب و تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جھوٹ سے جنم لینے والی اجنبیت و تنہائی جو چبھن، سوزش و جلن کا سبب بنتی ہے، گھٹنے لگتی ہے۔ ایماندارانہ زندگی خالص و کھری خوشی فراہم کرتی ہے۔ آج اخلاقی و مذہبی قدر یعنی سچ گوئی و ایمانداری کے عام زندگی میں حیرت انگیز مثبت اثرات کو سائنس کی دنیا بھی مانتی ہے۔ دوسرے راستے کا تعلق marshmallow کے ساتھ ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں ایک انتہائی سادہ سا ٹیسٹ کیا گیا۔ اس سادہ سے ٹیسٹ نے بعد ازاں تعلیمی اور developmental psychology کے میدان میں تہلکہ مچا دیا اور آج بے لگام کھپت کے دور میں اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ ٹیسٹ میں یوں ہوا کہ تحقیق دان بچے کے سامنے مارشمیلو رکھ کر کہتا کہ یہ ایک مارشمیلو تمہارے لیے ہے۔ تم چاہو تو اسے ابھی کھا لو لیکن اگر تم بیس منٹ انتظار کر سکو تو میں واپس آ کر تمہیں ایک اور مارشمیلو دوں گا اس طرح تمہارے پاس دو مارشمیلو ہو جائیں گے۔ پیشکش دینے کے بعد ماہر نفسیات بچے اور ایک مارشمیلو کو اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ تجرباتی گروپ میں شامل زیادہ تر بچے ایک اور مارشمیلو کے لیے بیس منٹ تک انتظار نہیں کرتے۔ کچھ بچے ضبط نفس (self control) سے کام لیتے ہوئے انتظار کرتے ہیں اور یوں انہیں مزید مارشمیلو مل جاتا ہے۔ تجربہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ تحقیقاتی ٹیم دونوں قسم کے بچوں کی زندگیوں کو ٹریک کرتی ہے اور نتائج اخذ کرتی ہے کہ جو بچے دسترس میں موجود فوری لذت و انعام و پرکشش شے کو بڑے و مثبت مقصد کے لیے موخر کر دیتے ہیں وہ زندگی کے میدانوں میں کامیاب و کامران رہتے ہیں۔ ایسے بچے جرائم، نشے سے دور رہتے ہیں۔ دوسری طرف عجلت پسند و ترک صبر کے حامل بچے ناکامی، بےروزگاری، جرم و لت کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ اس تجربے نے دقیانوسی تعلیمی نظام کو زمین بوس کر دیا۔ ایسے پرانے تعلیمی نظام جو IQ اور نمبروں اور شاندار تعلیمی ریکارڈ کے گرد گھومتے تھے۔ آج ذہین و لائق بچے کی definition بدل چکی ہے۔ آج ذہین بچہ وہ ہے جو ضبط نفس، برداشت و صبر کا دامن نہیں چھوڑتا اور قریب موجود لذتوں کو مستقبل سے وابستہ مثبت مقاصد کی خاطر چھوڑ دیتا ہے۔ مارشمیلو ٹیسٹ SEL جیسے جدید تعلیمی نظام کی بنیاد بنا۔ فن لینڈ، سنگاپور، کینیڈا، یو ایس اے اپنے اسکولوں میں self control اور self managing پر مبنی تعلیمی ماڈل رائج کیے ہوئے ہیں لیکن ان تعلیمی ماڈلز کا مکمل فائدہ تب ہوگا جب گھر بھی ضبط نفس و صبر کا نمونہ بنے۔ اگر گھر کے بڑے ہی سکرین پرستی کے شکار ہیں تو اچھے اسکول بے ثمر رہیں گے۔ غرض ضبط نفس، قوت برداشت و صبر کی راہوں پر قدم مار کر ہم خود اور اپنی اولادوں کو بےلگام کھپت سے بچا سکتے ہیں۔ شہر آسیب سے بچنے کا سب سے مضبوط مورچہ دراصل ایسا نسخہ ہے جو اگر عمر کے کسی بھی حصے میں تمام شرائط و لوازم کے ساتھ آزمایا جائے تو کبھی خطا نہیں جاتا۔ اس antidote کی potency کے دائرہ اثر کا کوئی کنارہ نہیں ہے۔ عرض یہ ہے کہ لت گرفتہ ڈرگ کی محبت میں اتنا محو و مگن ہو جاتا ہے کہ گویا وہ اس کی پرستش و پوجا کرنے لگتا ہے۔ وہ لت کو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ اور اگر جعلی و فرضی معبود کے مقابل حقیقی معبود آ جائے تو باطل معبود اس طرح غائب ہو جاتا ہے جیسے دن کے چڑھنے پر تاریکی بھاگ جاتی ہے۔ محبت الٰہی لت کے معبود کو پارہ پارہ کرنے کی لامحدود طاقت رکھتی ہے۔ لت کا تریاق محبت الہی ہے۔ Dopamine کے سمندر نے ہمیں گھیرا ہوا ہے۔ ڈیجیٹل قزاق ہمیں ٹھگنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم سب صدق دل سے کشتیٔ نوح پر پناہ گزین ہو جائیں۔ شہر آسیب میں ایک شام… تمام ہوئی۔ مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے۔ کیا انسان نے مصنوعی ذہانت تخلیق کر لی ہے یا ذہانت ختم کرنے کا مصنوعی طریقہ ایجاد کیا ہے؟ ذرا ٹھہریں! یہ قصہ پھر سہی۔