آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ چودھری محمدبوٹے خاں صاحب (المعروف اروڑا سنگھ بھنڈر صاحب آف گیگے والی) کے ذریعہ سے ہوا جوایک نامور زمیندار تھے اور اپنے علاقہ میں بہت اثرو رسوخ رکھتے تھے۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ گاؤں کے بزرگان آپ کی بیعت کے متعلق بتاتے ہیں کہ آپ بیعت سے قبل سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ گاؤں میں آپ کی کافی شہرت تھی۔ جماعت نے حضرت مصلح موعودؓ کے دَور میں آپ کے گاؤں کے قریب ایک گاؤں باٹھا والا میں ایک تبلیغی جلسہ کرنے کا پروگرام بنایا تو وہاں کے مخالفین نے جماعت کو روکنا چاہا۔ جب آپ کو اس کا پتا لگا تو آپ نے سب کوسختی سے منع کردیا اور کہا کہ اگر تم نے انہیں جلسہ کرنے سے روکا تو میں بھی احمدی ہی ہوں۔ یہ سن کر سب ڈر گئے اور جماعت نے وہاں کامیاب جلسہ منعقد کیا۔ اس جلسہ کا آپ پر بہت اثر ہوا اوروہیں آپ دلی طور پر احمدی ہوگئے، اس کے بعد پھر جلد ہی آپ نے قادیان پہنچ کر حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پربیعت کر لی۔ گاؤں کے بزرگان بتاتے ہیں کہ آپ کے قادیان جاکر بیعت کرنے پرحضرت مصلح موعودؓ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔اس بیعت کے بعد سے تادم آخر آپ جماعت سے وابستہ رہے۔اور اپنی اگلی نسلوں میں احمدیت کو منتقل کرنے کا باعث بنے۔ خاکسار کے والد اصغرعلی صاحب۱۹۶۳ءکو گاؤں گیگےوالی میں چودھری برکت علی بھنڈر صاحب کے ہاں پیداہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم پرائمری تھی۔بچپن میں آپ قرآن کریم ختم نہ کرسکے لیکن انصاراللہ کی عمر میں پہنچنے کے بعد آپ نے اپنے دلی شوق سے قرآن کریم ختم کرلیا اور ہر روز اس کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ آپ بےانتہا خوبیوں کے مالک تھے۔پنجگانہ نماز کے عادی، ذکر الٰہی کرنے والے، غریب پرور اورانتہائی صفائی پسندانسان تھے۔ نفاست پسندی میں آپ کا خاندان میں کوئی مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور اپنا چندہ ماہ بماہ ادا کرتے تھے۔ صوم و صلوٰة کے پابند تھے اور سوائے سخت بیماری کے نفلی روزہ بھی نہ چھوڑتے تھے۔ آپ ہمیشہ جماعتی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ انصاراللہ کی ڈیوٹیاں بڑے شوق سے دیتے تھے۔ اور طبیعت خراب ہونے کے باوجودبھی ڈیوٹی پہ چلے جاتے تھے۔کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسی کے ذریعہ سے شفا دے دے گا۔(ان شاءاللہ) محلہ میں بھی جماعتی خدمات اور ڈیوٹیاں بڑی خوش دلی سے ادا کرتے تھے۔ محلہ میں آپ کو سیکرٹری ضیافت اور سیکرٹری صحت جسمانی کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے نےخاکسار کو آپ کی وفات کے تعزیتی خط میں تحریر کیا کہ ’’مرحوم واقعی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مرحوم خدمت خلق اور دارالضیافت یوکے میں بھی بڑی باقاعدگی اور مستعدی سے خدمت کے لیے حاضر ہوتے تھے، بلکہ اپنی علالت کے اوربعض لوگوں کے منع کرنے کے باوجود بھی سلسلہ کی خدمت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائےاور ان کی صفات ان کی نسلوں میں بھی جاری رکھے۔آمین‘‘ آپ اپنے غیرازجماعت رشتہ داروں کو تبلیغ کیا کرتے تھےاور دین کے لیے بہت غیرت رکھتے تھے۔اگر کوئی جماعت کے بارے میں اعتراض کرتا تو سختی سے اسے چپ کروا دیتے تھے۔ محترم والد صاحب ہمیشہ دین داری کو ہی ترجیح دیاکرتے تھے۔ اسی طرح آپ نے رشتہ ناطہ کے معاملہ میں بھی ہمیشہ دین داری کو ہی ترجیح دی۔ آپ نے تنگی اور آسائش دونوں وقت دیکھے۔ مگر کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں لائے۔ ہمیشہ خدا کا شکر ہی ادا کرتے تھے۔ آپ بہت غریب پرور تھے۔ غریبوں اور غریب رشتہ داروں کی بہت مدد کرتے تھے۔اپنی ہر خوشی غمی میں ان کو شامل کرتےتھے۔ پنجوقتہ نماز پر خود بھی جاتے اور سب گھر والوں کوبھی پابند کرتے کہ وقت پر نماز ادا کریں۔ نوافل اور نفلی روزہ کا بھی خاص اہتمام کرتے تھے۔ جب مجھے جامعہ احمدیہ بھیجا تو کہتے تھے کہ میں نے تمہیں وقف کیا ہے کوئی ایسا کام نہ کرنا،جس سے خدا ناراض ہو۔ اگر کسی رشتہ دار سے کسی وجہ سے ناراض ہوتے تو بعد میں بہت افسوس کرتے تھےکہ اس کو تکلیف ہوئی ہوگی۔ والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپ بے حد خوبیوں کے مالک تھے۔تکلیف میں صبر کرتے اور نعمت ملنے پر فوری خدا کا شکر بجالاتےتھے۔ جماعتی طور پر بھی ہر تحریک میں حصہ لینے کی کوشش کرتے تھے اور غریب رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتےتھے۔ جماعت کےلیے جب بھی بلایا جاتا فوری طور پر چلے جاتے تھے۔ ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتے تھے۔ اورخدا کا شکر ہی ادا کرتے رہتے تھے۔ عید پر غریبوں کو اور اپنے تمام رشتہ داروں کو عید بھیجی۔ عیدالفطر کی صبح فجرکی نماز پڑھ کر آئے تھےاور عید پر جانے کی پوری تیاری کی تھی کہ اچانک برین ہیمرج ہوگیا۔ اور آپ خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت آپ کی نماز جنازہ حاضر مورخہ ۵؍اپریل ۲۰۲۵ء بروز ہفتہ پڑھائی۔ آپ کی تدفین احمدیہ قبرستان برائے موصیان Merton and Sutton joint cemetery, Garth road میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ سےمغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ اور بچوں کو اور ہم سب کو صبرجمیل عطافرمائے۔آمین لواحقین میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور پوتیاں اور پوتے شامل ہیں۔ (’افتخار احمد‘) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ارتقا کی حقیقت اور خدا کا وجود