یہ انسان کی حماقت اور تکبر ہے کہ وہ تھوڑی سی سمجھ کر یہ مان لیتا ہے کہ یہی سب سچ ہے اور خدا کی ضرورت نہیں ہے ارتقا کے نظریہ کوآج کل کے سائنسدان اور فلسفی ایسے طور پر بیان کرتے ہیں گویا ارتقا کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ختم ہو گیا ہے ۔ ارتقا ، اِن فلسفیوں کے نزدیک انسانی پیدائش اور تخلیقِ کائنات کے تمام سوال حل کر دیتا ہے اور خدا کی ہستی کو ماننے کی کوئی توجیح ہی باقی نہیں رہتی ۔ یہ بڑے بڑے سائنسدان اپنے نظریوں کو بے حد شستہ زبان میں ، انتہائی اعتماد اور ادب کے ساتھ پیش کرتے نظر آتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور مذہبی عقیدے کو ماننا ہی دنیا کی تمام بُرائیوں کی جڑ ہے اور دلائل کے برخلاف ہے ۔ اِن باتوں سے بعض اوقات تعلیم یافتہ پود متاثر ہو جاتی ہے اور اُن کے دل میں خدا کی ہستی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ اس مضمون میں عاجزہ ارتقا کے بارے میں کچھ سوالات کا جواب دینے کی سعی کرے گی کہ ارتقا کو خدا تعالیٰ کا نعم البدل سمجھ لینا انتہائی درجے کی نادانی اور کم عقلی ہے ۔ ارتقا کا عمل اس بات پر ہی ہو سکتا ہے اگر زندگی موجود ہو ۔ اگر زمین پر زندگی ہی نہ ہو تو ارتقا کا عمل نہیں ہو سکتا ۔ اِس بات پر کچھ سائنسدان کہتے ہیں کہ زندگی، بے جان چیزوں کے ملنے سے پیدا ہو گئی ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کیا ہے؟ زندگی کی ادنیٰ ترین مثال ایک خلیہ کا جاندار کہا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ صرف اس ایک خلیہ کے جاندار کی زندگی کے لیے کئی اشیاء کا ہونا ضروری ہے ۔ ٭…یہ ضروری ہے کہ خلیہ کی ایک باہر کی دیوار ہو۔ جسے Cell wall کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ سے جاندار باہر کے خراب اثرات سے محفوظ رہتا ہے اور ایک خلیہ یا سیل کے جانور کے اندر کے تمام حصے اچھی طرح کام کر سکیں ۔ یہ چربی کی بنی ہوتی ہے جس میں کاربن ( Carbon) کا عنصر استعمال ہوتا ہے ۔ ٭…ایک خلیہ کے جاندار کو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر ایسا انتظام موجود ہو جو توانائی پیدا کر سکے اور ایک خلیے کا جاندار اپنا کام کر سکے۔ توانائی پیدا کرنے کے لیے خلیے کو protein یعنی لحمیات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ٭…ایک خلیہ کے جاندار کو زندہ رہنے کے لیے اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنی نسل کی افزائش کرنے کے قابل ہوں ۔ اس کے لیے ایک خلیہ کے جانور کو DNA اور Genes کی ضرورت ہوتی ہے یہ Nucleic acid سے بنے ہوتے ہیں ۔ گویا ایک سیل یا خلیے کے جاندار کو زندہ رہنے کے لیے چربی، لحمیات اور DNA کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ کم سے کم چیزیں ہیں جو درکار ہیں ۔ سائنسی تجربات سے یہ ممکن ہے کہ لحمیات کے اجزا امینو ایسڈ (Amino Acid) لیبارٹری میں بنائے جا سکیں ۔ جیسے کہ ۱۹۵۲ء میں شکاگو میں IXIlliam+Utey کے ٹیسٹ ٹیوب میں امینو ایسڈ بنا کر دکھایا پھر کیمبرج کی لیبارٹری میں Sutherland کی ریسرچ ٹیم نے دکھایا کہ لیبارٹری میں خلیے کے کچھ اور اجزابھی بنائے جا سکتے ہیں ۔ جیسے کہ DNA کے اجزا Nucleic acid اور ایسے مالیکیول جو کہ چربی میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ ان تجربات کو ایسے انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے کہ اس زمین پر زندگی کے وجود میں آنے کے سارے سوالات کا جواب مل گیا ہے ۔ اگر سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ہمیں زندگی کے لیے کم از کم تین چیزیں چاہئیں ۔ ایک بیرونی دیوار ، امینو ایسڈ سے بنی لحمیات اور Nucleic acidسے بنیDNA۔ یہ ساری چیزیں اکٹھی ہوںگی تو زندگی وجود میں آئے گی اور ان سب چیزوں میں سائنس ہمیں دکھاتی ہے کہ کچھ امینو ایسڈ اور کچھ Nucleic acid لیبارٹری میں بن سکتے ہیں ۔ اور اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ ہمیں زندگی کے آغاز کے سارے سوالوں کا جواب مل گیا ہے،خدا کی اب کوئی ضرورت نہیں۔اس کی مثال تو ایسی ہے کہ ہمیں کار کے بننے کا راز معلوم ہوگیا ہے۔ کار کے ہونے کے لیے انجن، کار کا ڈھانچہ اور ٹائروں کا ہونا ضروری ہے ۔ اس کے بغیر کار نامکمل ہے ۔ اسی طرح زندگی کے ہونے کے لیے صرف چند مالیکیول کو لے کر دعویٰ کرنا کہ ہمیں زندگی کے آغاز کی کڑی مل گئی ہے نادانئ طفل ہے۔ نئی پود کو احترام اور محبت سے پوچھیں کہ اگر ارتقا کی وجہ سے خدا کے وجود کی ضرورت نہیں تو سائنس زندگی کے آغاز کے لیے کیا ثبوت پیش کرتی ہے؟ ان سے پوچھیں کہ ایک معمولی جاندار کوزندگی کے لیے دو سو (۲۰۰) ،تین سو (۳۰۰) جینز کی ضرورت ہوتی ہے۔ حساب کتاب لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ کام بغیر کسی منصوبہ بندی اور راہنمائی کے ہو تو اس قسم کے جینز بننے کے امکانات ۱۲۰۰×۱ ہیں ۔ اس قسم کے عمل کے لیے لاکھوں صدیاں درکارہیں اور زمین تو صرف ۴۔۵؍بلین سال پرانی ہے۔تو بغیر کسی راہنمائی اور ڈیزائن کے زندگی ممکن ہی نہیں کہ بے جان چیزوں سے مل کر بن سکے۔سائنس ایک بھی مثال نہیں پیش کر سکتی جہاں زندگی بے جان چیزوں کو ملانے سے بن سکے۔لہٰذا ارتقا پر بہت زیادہ یقین کرنے سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ سائنس زندگی کے آغاز کے بارے میں کوئی سائنسی یا تحقیقاتی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ پھر ارتقا کے ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جانوروں کی ایک قسم وقت کے ساتھ ارتقا کے تحت تھوڑی تھوڑی بدل کر ایک دوسری قسم کے جانوروں میں بدل جاتی ہے جیسے کہ ڈائینوسار سے آج کل کے پرندے ارتقائی مراحل سے بنے ہیں۔سائنس ایک بھی مثال دینے سے قاصر ہے جہاں چھوٹی چھوٹی جینیٹک تبدیلیاں جنہیںMutations کہا جاتا ہے ہوتی رہیں اور ایک جانور دوسرے جانور میں تبدیل ہوجائے ۔ یہ ایک تھیوری ہے اور بے حد اعتماد سے پیش کی جاتی ہے۔ ایک جاندار سے دوسرے جاندار کی شکل میں بدلنے کے لیے جو ارتقائی عوامل درکار ہیں ان کے لیے New Genetic Information یعنی جینیاتی تبدیلی کی ضرورت ہوتی۔ان کو New functional genesکہا جاتا ہے اور ان کے بغیر نئی شکل کا جاندار نہیں بن سکتا۔مثلاً مجھلی کی گردن نہیں ہوتی اور کچھوے کی گردن ہوتی ہے۔ اس گردن کے بننے کے لیے جانداروں کو genesمیں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ گردن بن سکے۔ بغیر کسی تخلیقی قوّت کے random selectionسے جینز میں ایسی تبدیلی ہو کہ آہستہ آہستہ گردن بن جائے، اس کی کوئی بھی مثال نہیں ملتی۔ اگر جینز میں تبدیلی بہت تیز ہو تو نیا جانور پیدا ہی نہیں ہوتا اور اگر یہ تبدیلی بہت آہستہ ہو تو اس کے لیے اتنا عرصہ درکار ہے کہ زمین کے وجود آنے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں کہ یہ تبدیلیاں ہو سکیں۔سائنسی طور پر ایسی کوئی مثال عاجزہ کے علم میں نہیں ہے کہ ایک جانور دوسرے جانور میں تبدیل ہوجائے۔ارتقا کے طور پر نئی فنکشنل جینز کے بننے کے امکانات(۶۰۰)۱×۱ ہیں ۔ یعنی کہ ناممکن ۔ یہ ایک ایسی مثال ہے کہ انسان ریت کا ایک خاص ذرّہ پہلی ہی دفعہ میں ڈھونڈ لے ۔ جب کہ وہ دنیا کے سارے ساحلوں میں ریت کا یہ ذرہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر ڈھونڈے۔ ہم سب سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے ۔ یہ انسان کی حماقت اور تکبر ہے کہ وہ تھوڑی سی سمجھ بوجھ حاصل کر کےیہ مان لیتا ہے کہ یہی سب سچ ہے اور خدا کی ضرورت نہیں ہے ۔ خدا کو نہ ماننے والے سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ دنیا بنائی نہیں گئی بلکہ صرف یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ بنائی گئی ہے۔ سائنس کی بات تو تجربہ، نتائج اور ثبوت پر ہوتی ہے۔ ہر قسم کی منطق ، تجربہ اور اعداد و شمار دیکھ لیں توخدا کے بغیر زندگی کا آغاز ناممکن ہےاور خدا کے بغیر زندگی کا تغیر، قسم قسم کے جاندار کا ہونا ناممکن ہے۔ اگر پھر بھی ضد کر کے کوئی اس نظریہ پر قائم رہنا چاہے تو ہمارا کام تو پیار اور محبت سے حقیقت کا بتا دینا ہے ۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو سیدھی راہ پہ رکھے ۔ آمین ۔ (ڈاکٹر امۃ الرزاق کارمائیکل۔یوکے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا ترجمہ قرآن بمع تفسیری نوٹس