غزوۂ تبوک اور بعض سرایہ کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان ٭… غزوۂ تبوک کا سفر ایسا پُر حکمت اور بابرکت ثابت ہو اکہ سارے عرب میں مسلمانوں کا رعب بیٹھ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں سارے عرب پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا ٭… آنحضرتﷺکا آخری غزوہ ، غزوہ تبوک تھا اور آخری سریہ جسے آپؐ نے روانہ فرمایا وہ لشکرِ اسامہ تھا ٭… مکرم عزیز الرحمٰن خالد صاحب مربی سلسلہ آف امریکہ اور مکرم ایدھی حمیدی صاحب آف انڈونیشیا کاذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍دسمبر ۲۰۲۵ء بمطابق ۵؍فتح ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۵؍دسمبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔ جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصور صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: گذشتہ خطبے میں حضرت کعب بن مالک ؓاور بعض دوسرے صحابہؓ کا غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانےا ور اس پر آنحضرتﷺ کی ناراضی کا ذکر ہوا تھا۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ذکر فرمایا ہے اور جماعت کو نصیحت فرمائی ہے۔یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے۔ آپؓ اس واقعہ کا ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ یہاں (قادیان) میںتو مَیں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں سے بات چیت منع ہے وہ محلوں میں احمدیوں کے محلے میں بھی چلے جاتے ہیں، محلے والے سوئے رہتے ہیں کہ ان کو پتا ہی نہیں لگتا۔ یہاں کے بعض احمدی سانپوں کو پالتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ یہ سانپ نہ خدا کو ڈس سکتے ہیں، نہ خدا کے رسول کو اور نہ خلیفہ کو۔ یہ انہی کو ڈسیں گے جو ان کو پالتے ہیں۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہیں کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں لے لے اس کو کون ڈس سکتا ہے۔ حضورانور نے فرمایا کہ اُس زمانے میں بعض فتنے اٹھے تھے جس وجہ سے حضورؓ کو یہ فرمانا پڑا۔ غزوۂ تبوک کا سفر ایسا پُر حکمت اور بابرکت ثابت ہو اکہ سارے عرب میں مسلمانوں کا رعب بیٹھ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں سارے عرب پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ تبوک سے واپسی کے بعد طائف کے لوگوں نے بھی اطاعت قبول کرلی اور اس کے بعد عرب کے متفرق قبائل نے بھی باری باری آکر اسلامی حکومت میں داخلے کی اجازت چاہی اور سارے عرب پر اسلامی جھنڈا لہرانے لگا۔ واپسی کے بعد ایک سریہ بھی ہوا تھا جسے سریہ خالد بن ولید کہا جاتا ہے۔ جسے نجران کے ایک حصےبنو حارث کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔ایک روایت کےمطابق یہ سریہ ربیع الاوّل ۱۰؍ہجری میں پیش آیا۔ اس سریے پر روانگی کےوقت رسول اللہﷺنے خالد بن ولیدؓ کو یہ ہدایت کی تھی کہ اُس قبیلے پر حملے سے قبل تین دفعہ انہیں اسلام کی دعوت دینا، اگر وہ قبول نہ کریں تو تب ان سے لڑائی کرنا۔ حضرت خالدؓ نے اس ہدایت پر عمل کیا اور وہ تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ حضرت خالدؓ نے ایک خط رسول اللہﷺ کی خدمت میں روانہ کیا جس میں لکھا کہ آپؐ کی ہدایت پرہم نے انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اب مَیں ان میں مقیم ہوں اور انہیں دین کے احکام اور اوامر و نواہی بتا رہا ہوں۔ اگلا جو حکم آپؐ کی جانب سے موصول ہوگا اس کے مطابق عمل کروں گا۔ آنحضورﷺ نے اس خط کے جواب میں فرمایا کہ تمہارے خط سے معلوم ہوا کہ بنو حارث نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ پس تم انہیں ثوابِ الٰہی کی خوش خبری سناؤ اور عذابِ الٰہی سے ڈراؤ اور ان میں سے چند آدمی لے کر تم ہمارے پاس آجاؤ۔ حضرت خالدؓ ان میں سے بعض افراد کو لے کر آنحضورﷺ کے پاس حاضر ہوگئے۔حضورِانور نے آنحضورﷺ کے بنوحارث کے وفد کے ساتھ تفصیلی مکالمے کا ذکر فرمایا۔ آنحضرتﷺ نے قیس بن حسین کو بنو حارث کا امیر مقرر فرمایا اور شوّال یا ذی قعدہ کے آخر میں انہیں واپس رخصت فرمایا۔ ان کی واپسی کے چار ماہ بعد حضورﷺ کا وصال ہوگیا۔ آنحضرتﷺکا آخری غزوہ ، غزوہ تبوک تھا اور آخری سریہ جسے آپؐ نے روانہ فرمایا وہ لشکرِ اسامہ تھا۔ بخاری میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ نبیﷺ نے لوگوں کو حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی شہادت کی خبر دی اور آپؐ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ پھر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے اسلامی جھنڈے کو تھاما اور اللہ نے اُس کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح دی۔ حجة الوداع سے واپسی پر آپؐ جب مدینے واپس پہنچے تو اس وقت مسلمانوں کو جنوب کی جانب سے کسی قسم کا خطرہ باقی نہیں رہا تھا مگر شمال سے اہلِ روم کی طرف سے اب بھی خطرہ باقی تھا، کیونکہ اُن نصرانیوں کو ابھی تک اپنی قوّت پر بڑا ناز تھا۔ اس لیے کسی وقت بھی ان کی جانب سے حملہ ہوسکتا تھا۔ اسی طرح ابھی جنگِ موتہ کے شہداء کا قصاص بھی باقی تھا۔ کیونکہ اس جنگ میں حضرت خالدؓ کی مہارت کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر واپس مدینے آنے میں کامیاب ہوا تھا۔ حج سے واپس آئے ابھی آپؐ کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ آپؐ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں ایک لشکر کو شام پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس لشکر کی تیاری جوحضورؐ کی بیماری سے قبل شروع ہوچکی تھی، آپؐ کی وفات سے دو روز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی۔ آپؐ نے ماہِ صفر کے آخر میں رومیوں سے جنگ کا حکم دیا تھا اور اس موقع پر حضرت اسامہؓ کو بلایا اور فرمایا کہ اپنے والد کی شہادت گاہ کی طرف روانہ ہوجاؤ اور انہیں یعنی دشمنوں کو روند ڈالو۔ مَیں نے تمہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے۔ حضرت اسامہ آنحضورﷺ کے ہاتھ سے بندھا ہواجھنڈا لے کر روانہ ہوئے اور اسے حضرت بریدہ بن حصیبؓ کے سپرد کیا اور جرف مقام پر لشکر کو جمع کیا۔ جرف مدینہ سے تین میل شمال کی جانب ایک جگہ ہے۔ مہاجرین اور انصار کے معززین میں سے تقریباً تمام لوگ اس لشکر میں شامل تھے جن میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت قتادہ بن نعمانؓ اور حضرت سلمہ بن اسلمؓ شامل تھے۔ ان تمام جیّدصحابہؓ پر حضرت اسامہ ؓکو امیر مقرر کیا گیا تھا۔ لوگوں نے اس پر باتیں شروع کردیں کہ اتنے بڑے بڑے صحابہؓ پر ایک لڑکے کو امیر بنا دیا گیا ہے۔ حضورﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپؐ سخت ناراض ہوئے اورمنبر پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب کیا۔ جس میں حضرت اسامہؓ اور اُن کے والد حضرت زیدؓ کے متعلق نہایت عمدہ باتیں فرمائیں۔ ایک جانب آپؐ کی بیماری بڑھ رہی تھی اور دوسری جانب آپؐ یہ اصرار فرما رہے تھے کہ اسامہ کالشکر بہرحال روانہ ہو۔ اتوار کے روز لوگوں نے آپؐ کو دوا پلائی اور اس روز آپؐ کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی۔ اسامہؓ جرف مقام سے واپس آپؐ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ آنحضورﷺ بات نہیں کرسکتے تھے مگر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور اسامہؓ کے سر پر رکھ دیتے گویا آپؐ اسامہؓ کے لیے دعا کر رہے تھے۔ سوموار کو آپؐ کی طبیعت ذرا سنبھل گئی تو آپؐ نے اسامہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے روانہ ہوجاؤ۔ اسامہؓ واپس لشکر میں آئے اور روانگی کا حکم دیا۔ عین اسی وقت حضرت اسامہؓ کو حضورﷺ کے آخری لمحات کے متعلق پیغام ملا۔ آپؓ حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ وغیرہ صحابہ کو ساتھ لے کر واپس آئے اس وقت آپؐ پر نزع کی حالت تھی۔کچھ ہی دیر بعد آنحضورﷺ کا وصال ہوگیا۔ حضرت اسامہ ؓکا لشکر حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کے بعد روانہ ہوا۔ اس لشکر کی تعداد تین ہزار تھی جس میں ایک ہزار گھڑ سوار تھے۔ یہ لشکر کامیابی کے ساتھ واپس آیادشمن یا مارا گیا یا قیدی بنا۔ مسلمانوں میں سے کسی کا کوئی نقصان نہ ہو۔ حضورِانور نے فرمایاکہ یہ غزوات کا سلسلہ ختم ہوا آئندہ سیرت النبیﷺ کے بعض دیگر پہلوؤں کا ذکر دیکھوں گا۔ خطبے کے آخری حصے میں حضورانور نے دو مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ ٭…مکرم عزیز الرحمٰن خالد صاحب مربی سلسلہ جو ۷۹؍سال کی عمر میں امریکہ میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ٭…مکرم ایدھی حمیدی صاحب آف انڈونیشیا جو گذشتہ دنوں ۷۷؍سال کی عمر میں عمرے کی سعادت کے بعد بیمار ہوکر مدینہ منورہ میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنت البقیع میں ان کی تدفین ہوئی۔ حضورانور نے دونوں مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: غزوۂ تبوک کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۸؍نومبر ۲۰۲۵ء