آنحضرتﷺ نے فرمایا: اے اللہ! مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ اے اللہ! مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ اے اللہ! مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ آپؐ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ پھر فرمایا میں اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ’’وہ لوگ تھے جنہوں نے ہر خطرہ کے موقع پر اپنی جان کو بلا دریغ خطرہ میں ڈال دیا۔ کوئی تکلیف اور دکھ انہیں نہیں پہنچا جسے انہوں نے تکلیف اور دکھ جانا ہو بلکہ جب بھی کوئی خدمت کا موقع آتا وہ اپنی جان بخوشی پیش کر دیتے۔‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ) نبی کریمﷺ نے فرمایا: لوگوں میں وہ آدمی بے مثال ہے جو اپنے گھوڑے پر سوار اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہو اور لوگوں کے شر سے بچ کے رہتا ہو اور دوسرا وہ آدمی بے نظیر ہے جو اپنی فراخی اور کشائش میں نمایاں ہو اور اپنے مہمان کی ضیافت و تکریم کرتا ہو اور اسے اس کا حق دیتا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے حضرت عبداللہ ذُوالْبِجَادَیْن کی میت کو قبر میں رکھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَمْسَیْتُ رَاضِیًا عَنْہُ فَارْضَ عَنْہُ کہ اے اللہ! میں نے اس حال میں شام کی ہے کہ میں اس سے راضی تھا پس تو بھی اس سے راضی ہو جا۔حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس وقت تمنا کی کہ کاش! یہ قبر میں اتارا جانے والا میں ہوتا اور یہ دعائیں لیتا بنگلہ دیش، پاکستان اور افریقہ کے احمدیوں نیز فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعاؤں کی تحریک مکرم محمد حسین صاحب ابن محمد اسماعیل صاحب آف ربوہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب غزوۂ تبوک میں پیش آمدہ واقعات کے تناظر میں سیرتِ نبویؐ کا پاکیزہ بیان خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ نومبر2025ء بمطابق 14؍نبوت 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور غزوات میں آپؐ کی سیرت کے حوالے سے گذشتہ خطبوں میں ذکر ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں غزوۂ تبوک کی تفصیل بیان ہو رہی تھی۔ اس کی مزید تفصیل یہ ہے۔ لکھا ہے کہ اس موقع پر ایک خاتون نے بڑے اخلاص اور جوش کا اظہار کیا۔ اس کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ جنگ کے لیے خواتین نے بھی جس طرح بھی ہوا کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ مالی قربانی میں بھی پیش پیش رہیں جس میں انہوں نے اپنے زیورات اتار اتار کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے۔ (کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 380-381، غزوہ تبوک، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2013ء) ایسا ہی جذبات کی قربانی کا ایک واقعہ بھی تاریخ کی کتب میں محفوظ رہ گیا جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ چونکہ لشکر کو شام کی طرف جانا تھا اور موتہ کی جنگ کا نظارہ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ اس لیے ہر مسلمان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کا خیال سب خیالوں پر مقدم تھا۔ عورتیں تک بھی اس خطرہ کو محسوس کررہی تھیں اور اپنے خاوندوں اور اپنے بیٹوں کو جنگ پر جانے کی تلقین کر رہی تھیں۔ اس اخلاص اور اس جوش کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی جو کسی کام کے لیے باہر گئے ہوئے تھے اس وقت واپس لوٹے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت مدینہ سے روانہ ہو چکے تھے۔ ایک عرصہ کی جدائی کے بعد جب وہ اِس خیال سے اپنے گھر میں داخل ہوئے کہ اپنی بیوی کو جا کر دیکھیں گے اور خوش ہو ں گے تو انہوں نے اپنی بیوی کو صحن میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور محبت سے آگے بڑھے پیار کرنے کے لیے۔ جب وہ بیوی کے قریب آگئے تو ان کی بیوی نے دونوں ہاتھوں سے ان کو دھکا دے دیا اور پیچھے ہٹا دیا۔ اس صحابی نے حیرت سے اپنی بیوی کا منہ دیکھا اور پوچھا اتنی مدت کے بعد ملنے پر آخر یہ سلوک کیوں ہے؟ بیوی نے کہا کیا تمہیں شرم نہیں آتی۔ خدا کا رسول اس خطرہ کی جگہ پر جار ہا ہے اور تم اپنی بیوی سے پیار کرنے کی جرأت کرتے ہو! پہلے جاؤ اور اپنا فرض ادا کرو اس کے بعد یہ باتیں دیکھی جائیں گی۔ وہ صحابی فوراً گھر سے باہر نکل گئے۔ اپنی سواری پر زین کسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین منزل پر جا کر مل گئے۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 361-362) اس واقعہ کو ایک دوسری جگہ بھی حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے۔ پہلا تو دیباچہ تفسیر القرآن میں اس کا ذکر ہے اور دوسرا خدام الاحمدیہ کے اجتماع پہ ایک تقریر میں ذکر کیا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو کسی کام کے لیے باہر بھیجا۔ بعد میں جنگ تبوک کا واقعہ پیش آ گیا۔ یہ جگہ نہایت خطرناک تھی۔ رومی حکومت اس وقت ایسی ہی طاقتور تھی جیسے آجکل امریکہ اور روس کی حکومتیں ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چھوٹی سی فوج لے کر اتنی بڑی حکومت کے مقابلہ میں جانا پڑا۔ مدینہ میں بہت تھوڑے مسلمان تھے اور پھر ارد گرد کے لوگ بھی اکٹھے نہیں تھے لیکن اگر وہ اکٹھے ہوتے بھی تو قیصر روما کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام لوگ جنگ کے لیے چلیں۔ جب اسلامی لشکر روانہ ہو گیا تو وہ صحابی جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر کام کے لیے بھیجا ہوا تھا واپس آئے۔ جوان آدمی تھے۔ نئی نئی شادی ہوئی ہوئی تھی۔ ایک عرصہ کی جدائی کے بعد جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنی بیوی کو صحن میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ وہ سیدھے اس کی طرف گئے اور اس سے بغل گیر ہونا چاہا مگر بیوی نے ان کی محبت کا جواب دینے کی بجائے ان کے سینہ پر زور سے دوہتڑ مارا اور پیچھے دھکا دے کر کہا خدا کا رسول تو میدان جنگ میں گیا ہوا ہے اور تمہیں اپنی بیوی سے پیار سوجھ رہا ہے۔ خدا کی قسم! جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت واپس نہیں آ جاتے میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گی۔ وہ صحابی اسی وقت گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور مدینہ سے تین منزل کے فاصلہ پر اسلامی لشکر سے جاملے اور پھر اسی وقت گھر واپس آئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوسرے صحابہ کے ساتھ مدینہ واپس لوٹے۔ غرض یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہر خطرہ کے موقع پر اپنی جان کو بلا دریغ خطرہ میں ڈال دیا۔ کوئی تکلیف اور دکھ انہیں نہیں پہنچا جسے انہوں نے تکلیف اور دکھ جانا ہو بلکہ جب بھی کوئی خدمت کا موقع آتا وہ اپنی جان بخوشی پیش کر دیتے۔‘‘ (مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب، انوار العلوم جلد 26 صفحہ 214 - 215) بہرحال اس کی تفصیلات میں مزید یہ لکھا ہے کہ پندرہ یا بعض روایات کے مطابق انیس مقامات پر پڑاؤ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سمیت تبوک کے مقام پر پہنچ گئے۔ تبوک کے اس سفر میں جن جگہوں پر پڑاؤ کیا گیا اس کی الگ سے تفصیل نہیں ملتی۔ البتہ بعد میں ان جگہوں پر مساجد تعمیر کی گئیں اور ان مقامات کے نام پر مساجد کے نام رکھے گئے تو مؤرخین نے اس سے یہ تفصیل بیان کی کہ انہی جگہوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا ہو گا۔ ان جگہوں کے نام بھی کتب میں بیان ہوئے ہیں جو پندرہ سے بائیس تک بیان ہوتے ہیں۔ سیرت ابن اسحاق اور ابن ہشام میں جن سترہ مقامات پر مساجد بنانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔ ذُوْخُشُبْ، فَیْفَاءْ، ذُوالْمَرْوَہْ، رُقْعَہْ، وَادِی الْقُرٰی، صَعِیْد، حِجْر، صَدْرِحَوْضٰی، ذُوالْجِیْفَہْ، شِقّ تَارَا، اَلْبَتْرَا، اَلَاء، ذَاتُ الْخِطْمِیْ، أَخْضَرْ، ذَاتُ الزِّرَابْ، ثَنِیَّۃُ مِدْرَانْ، اور تبوک۔ (اللؤلؤالمکنون،سیرت انسائیکلوپیڈیا،جلد9صفحہ499) ( دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہ ﷺ جلد9صفحہ485) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد 2۔جزء 3۔4صفحہ 449-450 دار المعرفہ بیروت2000ء) (السیرۃ النبویہ لابن اسحاق جلد 2 صفحہ 609 دارالکتب العلمیۃ2004ء) (وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ الجزء الثالث صفحہ 174 تا 176 مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ2011ء) حضرت عُقْبَہْ بن عَامِرؓ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات سو گئے۔ (کافی لمبا سفر تھا، تھکاوٹ تھی) اور اس وقت بیدار ہوئے جب سورج نیزہ بھر بلند ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بلال!کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ ہمارے لیے فجر کا انتظار کرنا۔ جاگتے رہنا اور ہمیں جگا دینا۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐآپ کی طرح نیند مجھے بھی لے گئی۔ مجھ پر بھی نیند کا غلبہ ہو گیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو روانگی کا حکم دیا اور پھر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد سواری سے اتر کر سنتیں ادا کیں اور صحابہ کو نماز پڑھائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارا دن اور ساری رات سفر کرتے رہے یہاں تک کہ اگلے روز صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچ گئے۔ اس عرصہ میں لکھا تو نہیں ہوا لیکن بہرحال نمازوں کے وقت میں نمازیں ادا کی گئی ہوں گی۔ اس کا وقفہ ہوا ہو گا۔ وہاں جا کے، تبوک پہنچ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا۔ اے لوگو !سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے اور مضبوط ترین کڑا تقویٰ کی بات ہے اور بہترین مذہب حضرت ابراہیم کا مذہب ہے اور بہترین سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سب سے بلند بات ذکرِ الٰہی ہے اور بہترین قصہ یہ قرآن ہے اور بہترین امور وہ ہیں جن کو پختہ ارادے سے کیا جائے اور بدترین امور بدعات ہیں اور بہترین ہدایت انبیاء کی ہدایت ہے اور سب سے افضل موت شہادت کی موت ہے اور ہدایت کے بعد سب سے بڑا اندھا پن ضلالت ہے، گمراہی ہے اور بہترین اعمال وہ ہیں جو نفع مند ہوں اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کی پیروی کی جائے اور سب سے بُرا اندھا پن دل کا اندھا ہونا ہے۔ آنکھوں کا اندھا نہیں دل کا اندھا ہونا ہے جب اللہ تعالیٰ کی باتیں سمجھ نہ آئیں۔ پھر فرمایا کہ اوپر کا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے اور جو تھوڑا اور کفایت کرنے والا ہو وہ زیادہ اور غافل کر دینے والے سے بہتر ہے اور سب سے بری معذرت وہ ہے جو موت کے وقت کی جائے اور سب سے بری شرمندگی قیامت کے روز ہوگی اور کچھ لوگ نماز جمعہ کے لیے بہت دیر سے آتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو چھوڑ چھوڑ کر ذکر الٰہی کرتے ہیں اور سب سے عظیم گناہوں میں سے ایک گناہ جھوٹی زبان ہے اور بہترین دولت مندی تو دل کا دولت مند ہونا ہے۔ یعنی کہ چھوڑ چھوڑ کے نماز ادا کرنے اور دیر سے آنے والوں کو بھی آپؐ نے پسند نہیں فرمایا۔ آپ نے کہا یہ بہت بری بات ہے۔ فرمایا کہ عظیم گناہوں میں سے ایک گناہ جھوٹی زبان ہے اور بہترین دولتمندی تو دل کا دولتمند ہونا ہے اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور دانائی کا کمال اللہ کا خوف ہے اور بہترین بات وہ ہے جو دلوں میں یقین کو جاگزین کرے اور شک کرنا کفر کا حصہ ہے اور نوحہ کرنا جاہلیت کا عمل ہے اور خیانت جہنم کی آگ ہے اور بُرا شعر ابلیس کی جانب سے ہے اور شراب گناہ کی جامع ہے اور عورتیں شیطان کے جال ہیں اور جوانی جنون کا ایک حصہ ہے اور سب سے بُری کمائی سود کی کمائی ہے اور سب سے برا کھانا یتیم کا مال کھانا ہے اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی بدبخت ہو اور تم میں سے ہر ایک آدمی چار ہاتھ جگہ کی طرف جانے والا ہے یعنی آخر میں مرنا ہی ہے قبر میں جانا ہے اور معاملہ آخرت پر موقوف ہے اور کام کا دارومدار انجام پر موقوف ہے اور سب سے برے راوی جھوٹے راوی ہیں اور جو کچھ آنے والا ہے وہ قریب ہے اور مومن کو گالی دینا فسق ہے اور مومن سے جنگ کرنا کفر ہے اور مومن کی غیبت کرنا اللہ کی معصیت ہے اور اس کے مال کی حرمت اس کے خون کی طرح ہے اور جو اللہ کے مقابل پر قَسم کھائے گا وہ اس کی تکذیب کرے گا اور جو اس سے مغفرت طلب کرے گا وہ اسے بخش دے گا اور جو اپنے بھائی کو معاف کرے گا اللہ اسے معاف کر دے گا اور جو غصہ کو پی جائے گا اللہ اسے اجر دے گا اور جو مصیبت پر صبر کرے گا اللہ اسے اس کا بدلہ دے گا اور جو شہرت پسند ہو گا اللہ اسے شہرت دے گا اور جو صبر کرے گا اللہ اسے دگنا دے گااور جو اللہ کی نافرمانی کرے گا اللہ اسے عذاب دے گا۔ پھر آگے فرمایا کہ اے اللہ! مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ اے اللہ! مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ اے اللہ! مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ آپؐ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ پھر فرمایا میں اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ (البدایۃ و النھایۃ لابن کثیر جلد5 صفحہ14-15 ذکرخطبتہ علیہ السلام الیٰ تبوک الیٰ نخلۃ ھناک، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) (کتاب المغازی للواقدی جلد 3 صفحہ 1015-1016 عالم الکتب1984ء ) (سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 صفحہ 451 دار الکتب العلمیۃ بیروت1993ء) سفر تبوک میں صحابہ ؓکو بعض نصائح بھی آپؐ نے کیں۔ تبوک کے سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کو انفرادی یا اجتماعی نصائح فرمائیں جن میں سے بعض کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوسَعید خُدْرِی نے بیان کیا کہ تبوک کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں بہترین اور بدترین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں! یقینا ًلوگوں میں سے بہترین آدمی وہ آدمی ہے جو اپنے گھوڑے یا اونٹ کی پشت پر سوار ہو کر یا پیدل ہی اللہ کے راستے میں کام کرے یہاں تک کہ اسے موت آ جائے اور یقیناً لوگوں میں سے بدترین وہ گناہگار آدمی ہے جو اللہ کی کتاب تو پڑھتا ہے مگر اپنی جہالت کو چھوڑ کر اس کی کسی بات کی طرف رجوع نہیں کرتا۔(سنن النسائی کتاب الجہاد باب فضل من عمل فی سبیل اللہ علیٰ قدمہ، حدیث 3108)اب دیکھیں بہت سارے لوگ آجکل قرآن کریم پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں۔ حضرت اِبْنِ عَبَّاسْؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: لوگوں میں وہ آدمی بے مثال ہے جو اپنے گھوڑے پر سوار اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہو اور لوگوں کے شر سے بچ کے رہتا ہو اور دوسرا وہ آدمی بے نظیر ہے جو اپنی فراخی اور کشائش میں نمایاں ہو اور اپنے مہمان کی ضیافت و تکریم کرتا ہو اور اسے اس کا حق دیتا ہو۔ (ماخوذ از مسند الامام احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 602 مسند عبد اللہ بن عباسؓ حدیث1987مطبوعہ عالم الکتب بیروت لبنان1998ء) اس موقع پر ہِرَقْل کو دعوت اسلام کے لیے خط کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک پہنچے تو ہِرَقْل یعنی قیصر روم، ہِرَقْل اس کا نام تھا، اس وقت حِمْص میں موجود تھا۔ آپ نے فرمایا جو میرا مکتوب قیصر تک لے جائے گا اس کے لیے جنت ہے۔ ایک شخص نے عرض کی کہ اگر وہ اس خط کو قبول نہ بھی کرے۔ آپؐ نے فرمایا وہ اسے قبول نہ بھی کرے تو بھی۔ بہرحال لے کر جاؤ۔ چنانچہ وہ شخص آپ کا خط لے کر گیا اور ہِرَقْل کو دے دیا۔ اس نے اسے پڑھا اور کہا تم اپنے نبی کے پاس چلے جاؤ اور اسے بتا دو کہ میں اس کا پیروکار ہوں لیکن میں اپنی سلطنت کو نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس نے کچھ دینار بھی آپ کی خدمت میں بھیجے۔ وہ شخص واپس آیا۔ آپؐ کو اس کے متعلق بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے۔ اس نے یہ سچی بات نہیں کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینار لوگوں میں تقسیم کر دیے۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 457۔ دار الکتب العلمیۃ1993ء) ہِرَقْل کی جانب یہ خط حضرت دِحْیَہْ لے کر گئے۔ یہ اس مکتوب کے علاوہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دِحْیَہْ کے ہاتھ چھ ہجری کے آخر میں بھجوایا تھا جو محرم سات ہجری میں اسے ملا۔ (ماخوذ از شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 4 صفحہ 94 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996) امام اِبْنِ حَجَرْ نے کتاب مغازی اور سیرت کی روایات کے حوالے سے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تھے تو آپؐ نے قیصر وغیرہ کو دوسری بار خط لکھے۔ (فتح الباری جلد 8 صفحہ 161 قدیمی کتب خانہ۔ سن طباعت) ان کے خیال کی تصدیق ان خطوط سے بھی ہوتی ہے جو کتابی صورت میں 1941ء میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب کا نام ’’مَجْمُوْعَہْ اَلْوَثَائِقُ السِّیَاسِیَّۃ لِلْعَهْدِ النَّبْوِيّ وَالْخِلَافَةُ الرَّاشِدَة‘‘ ہے اس کے مصنف ڈاکٹر حمید اللہ ہیں۔ اس میں عہدِ نبویؐ سے لے کر خلفائے راشدین کے زمانے تک کے تاریخی اور سیاسی وثائق کا ذکر ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ مصر سے 1941ء میں شائع ہوئی تھی۔ بہر حال یہ اس کتاب کا حوالہ ہے اور اس کے مطابق دو خط قیصر روم کو بھیجے گئے تھے۔ پہلے خط میں یہ تھا کہ وہ اپنی رعایا کے اسلام قبول کرنے میں روک نہ بنے ورنہ اس کی رعایا کے گناہ کا وبال بھی اسی پر پڑے گا اور یہ خط قیصر کو چھ ہجری کے آخر میں دِحْیَہْ کَلْبِیْ کے ہاتھ بھیجا گیا تھا جبکہ دوسرے خط میں تھا کہ اسلام قبول کر لو ورنہ انکار کی صورت میں جزیہ دینا ہو گا۔ یہ خط بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دِحْیَہْ کے ہاتھ جنگ تبوک کے وقت قیصر کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ (مجموعہ الوثائق السياسيۃ للعهد النبوى والخلافۃ الراشدة، جلد1 صفحہ107تا 110دارالنفائس 1987ء) (رسول اکرمؐ کی سیاسی زندگی از محمد حمید اللہ، صفحہ 158، 166دارالاشاعت کراچی 2003ء) تاریخ میں اہلِ اَیْلَہْ سے مصالحت کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک تک پہنچ گئے تو اردگرد کے عیسائی حکمران خوفزدہ ہو گئے اور ان پر اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب طاری کر دیا کہ جو ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تک مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے تھے اب انہیں اپنی بقا کی فکر ہونے لگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر صلح کی درخواست کرنے لگے۔ ان میں سے سب سے پہلے اَیْلَہْ کا حاکم حاضر خدمت ہوا۔ اَیْلَہْ بحر قلزم کے ساحل پر شام کے قریب ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہ حجاز کی آخری حد اور سرزمین شام کے شروع میں واقع ہے۔ تبوک میں قیام کے دوران اَیْلَہْ کا حاکم يُحَنَّہ بِنْ رُؤْبَہْ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے ساتھ اہل شام، اہل یمن اور اہل بحر اور اہل جَرْبَاء اور اَذْرُحبھی آئے اور انہوں نے بھی مصالحت کی درخواست کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک امان نامہ تحریر فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریر فرمایا۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے يُحَنَّہ بِنْ رُؤْبَہْ اور اہل اَیْلَہْ کی سمندر میں چلنے والی کشتیوں اور ان کے خشکی پر آنے جانےوالےقافلوں کے لیے امان نامہ ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اس طرح ان کے ساتھ اہلِ شام، اہلِ یمن اور اہلِ بحر کو بھی مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ جس نے بھی کوئی خلاف ورزی کی اس کا مال قبضہ میں کرنا جائز ہو گا۔ جس نے بھی ایسے آدمی کا مال چھین لیا یعنی خلاف ورزی کرنے والے کا تو وہ اس کے لیے حلال ہو گا اور انہیں نہ تو کسی چشمہ اور کنوئیں کا پانی استعمال کرنے سے روکا جائے گا اور نہ بحر و بر کے کسی رستے سے انہیں منع کیا جائے گا۔ (ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1 صفحہ 221، ذکر بعثۃ رسول اللہ ﷺ الرسل بکتبہ الی الملوک۔ دارالکتب العلمیۃ 1990ء) (دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد 9صفحہ 542-543 ناشر: بزم اقبال لاہور 2022ء) (فرہنگ سیرت صفحہ 50۔ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی۔ 2003ء) اہل اَیْلَہْ اور يُحَنَّہ بِنْ رُؤْبَہْ کے لیے یہ امان نامہ حضرت جُہَیْم بِن صَلتْ اور حضرت شُرَحْبِیْل بِن حَسَنَہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر تحریر کیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1 صفحہ 221، ذکر بعثۃ رسول اللہ ﷺ الرسل بکتبہ الی الملوک۔ دارالکتب العلمیۃ، بیروت1990ء) يُحَنَّہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید خچر تحفہ دیا اور آپ کو ایک پہننے کی چادر پیش کی۔ (صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب خرص التمر حدیث 1481) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یمنی چادر اوڑھائی اور حضرت بلالؓ کے ساتھ اسے ٹھہرانے کا ارشاد فرمایا۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 4 صفحہ 91۔ ثم غزوۃ تبوک۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) پھر اہلِ مَقْنَاءسے معاہدۂ صلح ہوا۔ اہل مَقْنَاء یہودی تھے اور یہ بستی ساحل سمندر پر اَیْلَة کے قریب آباد تھی۔ (ماخوذازفرہنگ سیرت صفحہ 283 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء) ( سبل الھدیٰ والرشاد جلد 5 ص 494 دارالکتب العلمیۃ1993ء) یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انہیں بھی امان نامہ لکھ کر دیا کہ اَنَّھُمْ آمِنُوْنَ بِاَمَانِ اللّٰہِ وَ اَمَانِ مُحَمَّدٍ وَ اَنَّ عَلَیْھِمْ رُبْعَ غُزُوْلِھِمْ وَرُبْعَ ثِمَارِھِمْ۔ یہ لوگ اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امان میں ہیں۔ ان پر بطور جزیہ ان کے کاتے ہوئے سوت اور کپڑے کا اور ان کے پھلوں کا چوتھائی حصہ ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد1 صفحہ 221، ذکر بعثۃ رسول اللہ ﷺ الرسل بکتبہ الی الملوک۔ دارالکتب العلمیۃ، بیروت1990ء) اسی طرح اہلِ جَرْبَاء اور اَذْرُح کے لیے امان نامہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جَرْبَاء اور اَذْرُح یہ دونوں ملک شام میں بَلْقَاء کے علاقے میں دو شہر تھے جو آپس میں بالکل قریب تھے۔ ان کے درمیان صرف تین میل کا فاصلہ تھا جبکہ ایک قول کے مطابق ایک میل سے بھی کم فاصلہ تھا۔ (معجم البلدان جلد 1 صفحہ 157 دارالکتب العلمیۃ) (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 4 صفحہ91 دارالکتب العلمیۃ1996ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جَرْبَاء اور اَذْرُحکو بھی امان نامہ لکھ کر عنایت فرمایاکہ ھٰذَا کِتَابٌ مِّنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ لِاَھْلِ جَرْبَاءَ وَ اَذْرُحَ اَنَّھُمْ اٰمِنُوْنَ بِاَمَانِ اللّٰہِ وَ اَمَانِ مُحَمَّدٍ وَاَنَّ عَلَیْھِمْ مِائَةَ دِیْنَارٍ فِیْ کُلِّ رَجَبٍ وَ افِیَةً طَیِّبَةً وَاللّٰہُ کَفِیْلٌ عَلَیْھِمْ یہ تحریر اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اہل جَرْبَاء اور اہل اَذْرُحکے نام ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امان میں ہیں۔ ان کے ذمہ ہر سال رجب میں خالص سونے کے مکمل سو دینار بطور جزیہ ادا کرنا واجب ہے۔ اللہ ہی ان کا نگہبان ہے۔ (ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء1 صفحہ 221دارالکتب العلمیۃ1990ء) غزوۂ تبوک کے حوالے سے ہی ایک سریہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ یہ سریّہ حضرت خالد بن ولیدؓ بطرف اُکَیْدِر بن عَبْدِالْمَلِک کہلاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک ہی میں حضرت خالد بن ولید کو رجب نو ہجری میں چار سو بیس سواروں کا ایک لشکر دے کر اُکَیْدِر بن عَبْدِ الْمَلِک کی طرف دُوْمَۃُ الْجَنْدَلْ روانہ کیا۔ دُوْمَةُ الْجَنْدَل شام اور مدینہ کے درمیان ایک قلعہ ہے اور بستی ہے جو مدینہ منورہ سے پندرہ سے سولہ دن کی مسافت پر واقع ہے۔ (فرہنگ سیرت صفحہ123 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء) تبوک سے چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر یہ قلعہ تھا۔ (اللؤلؤالمکنون سیرت انسائیکلوپیڈیا، جلد9صفحہ526) اُکَیْدِر قبیلہ بنو کِنْدَہ میں سے تھا اور اس کا بادشاہ تھا۔ وہ عیسائی تھا۔ ( الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ125-126 دارالکتب العلمیۃ بیروت، لبنان 1990ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ سے فرمایا تم اسے رات کے وقت دیکھو گے جب وہ گائے کا شکار کر رہا ہو گا تو تم اسے پکڑ لینا یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھایا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ یہ حالت ہوگی اور اس وقت تم حملہ کرو گے تو پکڑ لو گے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے دُوْمَة کو فتح کرا دے گا۔ اگر تم اس پر غلبہ پا لو تو اسے قتل نہ کرنا اسے میرے پاس لے آنا۔ اگر وہ انکار کرے، لڑائی کرے تو پھر اسے قتل کر دینا۔ حضرت خالد ؓکی روانگی کے بارے میں لکھا ہے۔ حضرت خالدؓ اس طرف روانہ ہوئے اور اس قلعہ کے اس قدر قریب پہنچے کہ سامنے وہ دکھائی دینے لگا۔ چاندنی رات تھی۔ اُکَیْدِر اپنی بیوی رِبَابْ بِنت اُنَیْف کِنْدِیَّہ کے ساتھ چھت پر تھا تو ایک جنگلی گائے آئی۔ وہ اپنے سینگوں سے قلعہ کے دروازے کو مارنے لگی۔ اُکَیْدِر کی بیوی نے اسے کہا کہ تم نے کبھی ایسا واقعہ دیکھا ہے کہ جنگل سے گائے اس طرح آ کر محل کے دروازے پر اپنے سینگوں سے ٹکریں مارے۔ اُکَیْدِر نے کہا اللہ کی قسم! میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا۔ اس پر اس عورت نے کہا: کون اس کو چھوڑ سکتا ہے؟ تو اس نے کہا کوئی بھی نہیں۔ بادشاہ نے کہ میں ابھی شکار کر کے لاتا ہوں۔ چنانچہ وہ اترا اور اپنے گھوڑوں پر سوار ہونے کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ اس کے اہل و عیال کا ایک گروہ بھی سوار ہوا۔ ان میں حَسَّان نام کا اس کا ایک بھائی بھی تھا۔ پس وہ سوار ہوا اور وہ اس کے ساتھ اس گائے کے تعاقب میں نکلے۔ بے دھڑک یہ شکاری شکار کے پیچھے جاتے تھے کہ سامنے سے اچانک حضرت خالدؓ کا گھڑ سوار دستہ نمودار ہوا اور انہوں نے ان کو پکڑ لیا۔ اُکَیْدِر کو گرفتار کر لیا مگر حَسَّان نے قیدی بننے سے انکار کیا اور مزاحمت کی۔ آگے سے لڑائی کی۔ اس پر اس کو قتل کر دیا گیا۔ (ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 220، 221 دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء) حَسَّان مارا گیا اس کے سر پر دیباج یعنی موٹی ریشمی چادر تھی جس میں سونے کی تاریں لگی ہوئی تھیں۔ خالد بن ولید نے اس چادر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا اور پھر خود اُکَیْدِر کو لے کر روانہ ہوئے۔ (تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 185، دارالکتب العلمیۃ بیروت1987ء) اس کی تفصیل میں مزید لکھا ہے کہ جب اُکَیْدِر قید کر لیا گیا اور اس کا بھائی حَسَّان قتل کر دیا گیا تو حضرت خالد نے اُکَیْدِر سے کہا کیا میں تمہیں اس شرط پر پناہ نہ دوں کہ تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دوں اور تم مجھے دُوْمَةُ الْجَنْدَل فتح کرا دو۔ اُکَیْدِر نے کہا ہاں۔ اس پر حضرت خالدؓ اسے لے کر چلے حتٰی کہ قلعہ کے قریب آ گئے۔ اُکَیْدِر نے اپنے اہل خانہ کو آواز دی کہ دروازہ کھولیں جب انہوں نے دروازہ کھولنے کا ارادہ کیا تو اُکَیْدِر کے بھائی مُضَادْنے انکار کر دیا۔ اُکَیْدِر نے حضرت خالد سے کہا کہ تم جان گئے ہو کہ وہ اس لیے دروازہ نہیں کھول رہے کہ انہوں نے وہ بیڑیاں دیکھ لی ہیں جو تم نے مجھے پہنائی ہوئی ہیں۔ تم مجھے چھوڑ دو میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور امانت کے نام پر کہتا ہوں کہ میں تمہارے لیے قلعہ کا دروازہ کھول دوں گا بشرطیکہ تم میرے اہل خانہ پر مجھ سے صلح کر لو۔ حضرت خالدؓ نے فرمایا میں تیرے ساتھ صلح کر لوں گا۔ اُکَیْدِر نے کہا اگر تم پسند کرو تو میں تمہیں ثالث بنا لیتا ہوں اور اگر چاہو تو تم مجھے ثالث بنا لو۔ حضرت خالد نے فرمایا۔ ہم تجھ سے وہی قبول کریں گے جو کچھ تو دے گا چنانچہ حضرت خالد نے اسے چھوڑ دیا۔ اُکَیْدِر نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ اُکَیْدِر کے بھائی مُضَادْکو بھی گرفتار کر لیا گیا اور وہ سب چیزیں حاصل کر لی گئیں جن پر صلح ہوئی تھی۔ (ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 221 دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء) مسلمانوں کو اس معرکے میں دو ہزار اونٹ، آٹھ سو غلام، چار سو زرہیں اور چار سو نیزے حاصل ہوئے۔ اس مال غنیمت میں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پانچواں حصہ الگ کر کے باقی اموال ساتھ جانے والے مجاہدوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اُکَیْدِر اور اس کے بھائی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے اور یہ اس طرح ملتا ہے کہ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت خالد اُکَیْدِر کو لے کر آئے تو میں نے اسے دیکھا۔ اس نے سونے کی صلیب اور ریشمی لباس پہن رکھا تھا۔ جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تو وہ آپؐ کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔ آپؐ نے دو بار فرمایا نہیں نہیں۔ یہ سجدہ نہیں کرنا۔ اس نے چند اشیاء آپؐ کو بطور ہدیہ پیش کیں جن میں ایک زیبائش کا کپڑا اور خچر تھے۔ جزیہ پر آپؐ نے صلح کر لی۔اِبنِ اَثِیر کے مطابق ان کے جزیہ کی رقم تین سو دینار تھی۔ اس کا اور اس کے بھائی کا خون معاف کر دیا اور انہیں آزاد کر دیا۔ آپؐ نے ان کے لیے امان نامہ لکھوایا۔ وہ شرائط لکھوائیں جن پر صلح کی تھی۔ امان نامہ یہ تھا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یہ مکتوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت خالد کے ساتھ اُکَیْدِر کے لیے ہے جس نے اسلام قبول کر لیا اور بتوں سے اپنا تعلق توڑ لیا۔ اس نے تو اسلام بھی قبول کر لیا تھا اس کے مطابق۔ یہ احکام دُوْمَةُ الْجَنْدَل اور اس کے اردگرد کے لوگوں کے لیے ہیں۔ ہمارے لیے وہ زمین جو کاشتکاری کے قابل نہ ہو مجہول زمین ہے۔ بےآباد زمین، اسلحہ اور اونٹ اور قلعے ہوں گے یعنی جو یہ چیزیں تھیں یہ مسلمانوں کو ملیں گی جبکہ باقی شہر کے اندرونی حصےکی کھجوریں، چشموں والی آباد زمین یہ تمہارے لیے ہوگی علیحدہ جانوروں کو گنا نہیں جائے گا۔ تمہیں یہاں تمہارے جانور چرانے سے نہیں روکا جائے گا۔ تم وقت پر نماز ادا کرو گے۔ پوری زکوٰة دو گے۔ اللہ تعالیٰ کا تمہارے ساتھ یہ عہد ہے۔ تمہارے لیے سچ اور وفا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اور حاضر مسلمان اس پر گواہ ہیں۔ ( الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ126 دارالکتب العلمیۃ بیروت،1990ء) (سبل الھدیٰ والرشاد جلد 6 صفحہ 221-222 دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء) تبوک کے موقع پر ایک صحابیؓ کی وفات کا ذکر بھی ملتا ہے اور اس کی تدفین کا بھی ذکر ملتا ہے جس کو دیکھ کر بعض بڑے صحابہ نے خواہش کی کہ کاش! اس دفن ہونے والے کی جگہ وہ خود ہوتے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ا یک مرتبہ میں آدھی رات کے وقت اٹھا تو میں نے لشکر کے ایک طرف آگ کی روشنی دیکھی۔ چنانچہ میں اس کی طرف گیا کہ دیکھوں کیا ہے؟ تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور میں نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ ذُوالْبِجَادَیْن مُزَنِیؓ وفات پا چکے ہیں اور یہ لوگ ان کی قبر کھود چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے اندر تھے جبکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اُن کی میت آپ کو دے رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے کہ تم دونوں اپنے اس بھائی کو میرے قریب کرو۔ پس ان دونوں نے حضرت عبداللہ ذُوالْبِجَادَیْن کی میت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اس میت کو قبر میں رکھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَمْسَیْتُ رَاضِیًا عَنْہُ فَارْضَ عَنْہُ کہ اے اللہ! میں نے اس حال میں شام کی ہے کہ میں اس سے راضی تھا پس تو بھی اس سے راضی ہو جا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس وقت تمنا کی کہ کاش! یہ قبر میں اتارا جانے والا میں ہوتا اور یہ دعائیں لیتا۔ ( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 822، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء) حضرت عبداللہ ذُوالْبِجَادَیْن کا تعلق قبیلہ بنو مُزَیْنَہ سے تھا۔ یہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ان کے والد فوت ہو گئے۔ انہیں وراثت میں سے کچھ بھی نہ ملا۔ ان کے چچا مالدار تھے۔ اس چچا نے ان کی کفالت کی حتٰی کہ یہ بھی مالدار ہو گئے اور ان کے ساتھ کاروبار شروع کر دیا۔ اور فتح مکہ کے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ جب اسلام قبول کر لیا تو ان کے چچا نے ان سے سب کچھ لے لیا، سب کچھ چھین لیا یہاں تک کہ ان کا ازار بھی کھینچ لیا، کمر پہ باندھنے والا کپڑا بھی لے لیا۔ پھر ان کی والدہ آئیں اور انہوں نے اپنی چادر کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور حضرت عبداللہ نے ایک حصہ کو بطور ازار استعمال کر لیا اور دوسرے حصے کو اپنے اوپر اوڑھ لیا۔ پھر یہ مدینہ آئے اور مسجد میں لیٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ یہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو لوگوں کو غور سے دیکھتے تھے کہ کون لوگ ہیں۔ کوئی نیا آدمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ کی طرف دیکھا تو انہیں اجنبی سمجھا اور حضرت عبداللہ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ حضرت عبداللہ نے اپنا نسب بیان کیا۔ ایک روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے عرض کیا کہ میرا نام عبدالعزّٰی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عبداللہ ذُوالْبِجَادَیْن یعنی دو چادروں والے ہو۔ پھر فرمایا تم میرے قریب رہا کرو۔ چنانچہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں میں شامل ہو گئے اور آپؐ انہیں قرآن کریم سکھاتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے بہت سا قرآن یاد کر لیا۔ جب آپؐ تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے لیے شہادت کی دعا کریں۔ آپؐ نے دعا کی کہ اے اللہ! میں اس کے خون کو کفار پر حرام کرتا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا ارادہ یہ تو نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو اور تمہیں بخار ہو جائے جس کی وجہ سے تم وفات پا جاؤ تو بھی تم شہید ہو۔ اگر تمہاری سواری تمہیں گرا دے جس کی وجہ سے تمہاری گردن ٹوٹ جائے تو بھی تم شہید ہو۔ یہ پرواہ نہ کرو کہ شہادت کس طریقے سے ملتی ہے۔ چنانچہ تبوک پہنچنے کے کچھ دن بعد ہی بیماری کی وجہ سے ان کی وفات ہو گئی۔ (اسدالغابہ جلد3 صفحہ 229، دارالکتب العلمیۃ بیروت2003ء) (ماخوذ از سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ 459-460،دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء) حضرت مُعَاوِیَہ بن مُعَاوِیَہ مُزَنِیْؓ کی نماز جنازہ کا بھی اس سفر میں ذکر ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تھے کہ جبرئیل آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مُعَاوِیَہ مُزَنِیْ مدینہ میں فوت ہو گئے ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کے ذریعہ اطلاع دی۔ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔ پھر کشفاً ان کی چارپائی جس پر ان کا جنازہ تھا ہوا میں بلند کی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ آپ نے نماز جنازہ ادا کی۔ آپ کے سامنے فرشتوں کی صفیں بھی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل سے دریافت کیا: یہ مقام اسے کیسے حاصل ہوا؟ یہ جو اتنا اس کو لایا گیا ہے اور مجھے کہا گیا ہے جنازہ پڑھو۔ جبرئیل نے جواب دیا کہ سورة قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ سے محبت کرنے کی وجہ سے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے، سوار اور پیدل ہر حالت میں اس کی تلاوت کرتے تھے۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 456۔ دار الکتب العلمیۃ1993ء) (ماخوذ از اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 206-207، دارالکتب العلمیۃ بیروت2003ء) اب یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ تبوک میں پہنچنے کے بعد مزید پیش قدمی کے لیےصحابہؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش قدمی کے متعلق صحابہ سے مشاورت کی۔ حضرت عمرؓنے عرض کی یا رسول اللہ! اگر آپ کو آگے بڑھنے کا حکم ہے تو ٹھیک ہے آپؐ ضرور تشریف لے چلیں۔ ہم ساتھ چلیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے آگے جانے کا حکم اللہ کی طرف سے ہوتا تو میں تم سے مشاورت نہ کرتا۔ تو حضرت عمرؓ نے پھر یہ عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اہلِ روم کے پاس بہت سے لشکر ہیں۔ ان میں اہلِ اسلام میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ ہم ان کے قریب آ گئے ہیں۔ آپؐ کے قریب آنے نے ہی ان کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ ہم اس سال واپس چلے جاتے ہیں حتی کہ کوئی رائے پیدا کر لیں یا اللہ تعالیٰ کوئی صورتحال پیدا فرما دے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 461-462۔ دار الکتب العلمیۃ1993ء)بہرحال اس بات کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا اور پھر جانے کا فیصلہ کیا (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب اذا اقام بارض العدو یقصر۔ حدیث 1235) اور ایک دوسرے قول کے مطابق آپؐ نے بیس سے کم دن تبوک میں قیام فرمایا۔ ان دو مختلف روایات میں تطبیق کی گئی ہے۔ بیس والے قول میں تبوک پہنچنے اور تبوک سے رخت سفر باندھنے والے دو دن بھی شمار ہوئے ہیں جبکہ دوسرے قول میں یہ دونوں دن شمار نہیں کیے گئے۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 4 صفحہ 96 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء) مدینہ سے روانگی اور مدینہ واپسی تک دو ماہ یا اس سے زائد عرصہ لگا ہے۔ چنانچہ ابن سعد کے مطابق رجب 9؍ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ کے لیے روانہ ہوئے اور رمضان 9؍ہجری میں مدینہ واپس تشریف لائے۔ ان دونوں کے درمیان میں شعبان کا مہینہ ہے۔ اس طرح دو ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر رہے۔ واللہ اعلم۔ (ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 125-126 دار الکتب العلمیۃ 1990ء) حضرت مصلح موعود ؓنے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ ’’جب آپ شام کے قریب تبوک مقام پر پہنچے تو آپ نے اِدھر ادھر آدمی بھیجے تاکہ وہ معلوم کریں کہ حقیقت کیا ہے اور یہ سُفَرَاء متفقہ طور پر یہ خبریں لائے کہ کوئی شامی لشکر اِس وقت جمع نہیں ہو رہا۔‘‘ حضرت عمر نے بھی یہی کہا تھا کہ کوئی جنگ کے لیے تو آ نہیں رہا اور اردگرد کے بعض علاقے ابھی خوفزدہ ہیں تو پھر ضرورت کیا ہے جنگ کی۔ ’’اِس پر کچھ دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہرے اور اِردگرد کے بعض قبائل سے معاہدات کر کے بغیر لڑائی کے واپس آگئے۔یہ کُل سفر آپ کا دو اڑھائی مہینے کا تھا۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ362) اس سے واپسی، مدینہ تک آنے کے سفر کی وضاحت و تفصیل ان شاء اللہ آئندہ۔ بنگلہ دیش کے بارے میں میں نے پہلے بھی دعا کے لیے کہا تھا۔ وہاں مولوی طبقہ، احمدیت مخالف طبقہ کافی شور مچا رہا ہے۔ کل ان کا ایک جلسہ بھی ہے شاید تو ان کے لیے خاص طور پہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محفوظ رکھے۔ ان کے شر سے بچائے۔ اسی طرح پاکستان کےاحمدیوں کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں بھی محفوظ رکھے۔ اب بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ جب مخالفین کو کسی بھی طریقے سے دبایا جائے۔ قانوناً بھی اگر دبایا جاتا ہے تو ان کی تان احمدیوں پہ آ کے ٹوٹتی ہے۔ اس لیے احمدیوں کو زیادہ دعاؤں کی طرف اور احتیاط کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ اسی طرح فلسطینیوں کے لیے بھی دعا کریں۔ معاہدات کے باوجود، ceasefireکے باوجود ان کا اسی طرح قتل عام ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اسی طرح افریقہ کے احمدیوں کے لیے دعا کریں ان میں بھی بعض جگہ حکومتیں ان پر ظلم کر رہی ہیں بعض جگہ دہشت گرد مختلف جگہوں پہ حملے کر رہے ہیں اور بعض دفعہ احمدی بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام دنیا میں امن اور سلامتی قائم کرے۔ نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو محمد حسین صاحب ابن محمد اسماعیل صاحب ربوہ کا ہے جو گذشتہ دنوں اسّی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھے اور زندگی میں ہی حصہ جائیداد ادا کر دیا تھا۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے شامل ہیں۔ آپ کے بیٹے محمد عمران صاحب مبلغ سلسلہ نائیجر ہیں۔ اور وہاں مغربی افریقہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے والد کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔ اسی طرح ایک اَور بیٹے بھی واقف زندگی ہیں جو معلم سلسلہ ہیں محمد لقمان صاحب۔ ان کے خاندان میں احمدیت 1956ء میں ان کے والد محمد اسماعیل صاحب کے ذریعہ سے آئی تھی اور پھر یہ دو سال بعد ربوہ بھی شفٹ ہو گئے۔ خود مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند، تلاوت قرآن کریم باقاعدہ کرنے والے، تہجد گزار، نیک مخلص، دعا گو انسان تھے۔ معلم محسن طیب صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے ان کے محلے میںپانچ سال خدمت کا موقع ملا۔ ایک بات جو ان میں نمایاں میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ مالی قربانی میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ جب بھی کسی تحریک کا، نئے سال کا آغاز ہوتا تو ان کی کوشش ہوتی کہ پہلی رسید ان کی کاٹی جائے۔ بعض اوقات تو اعلان سے قبل ہی چندے کے لیے پیسے دینے کی کوشش کرتے تھے اور ایسے ہی بعض اوقات جب سال کے اختتام پر اضافی چندے کا کہا جاتا تو حسب توفیق پھر مزید ادائیگی بھی کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ لواحقین کو صبر و حوصلہ عطا فرمائے اور خاص طور پہ ان کے جو بیٹے باہر ہیں ان کو اللہ تعالیٰ صبر دے، حوصلہ دے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍ نومبر2025ء