https://youtu.be/6etNMZM6pcw از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ مرزا صاحب کو انہوں نے بلایا اور کہا: کاش میرا ایک ہی لڑکا ہوتا اور سلطان احمد جیسا ہوتا قسط نمبر۴ مرزا صاحب پٹواری ہوگئے اور انہوں نے ایک موضع کی پیمائش وغیرہ کی اور اس سے ہی ان کی قابلیت کا ثبوت ملنے لگا۔ مسٹر لوئس ڈین پر اس ملاقات کا خاص اثر تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ مرزا صاحب نہایت محنت اور مستعدی سے کام کررہے ہیں جھٹ پٹواری سے ترقی دےکر قانون گو اور پھرنائب تحصیلدار بنا دیا اور بہت ہی جلد وہ بندوبست کے محکمہ سے نکل کر لاہور میں نائب تحصیلدارہوکر آگئے اور آتے ہی دو بڑے کام ان کے سپرد ہوئے۔ جو نہ صرف ان کے تدبر و معاملہ فہمی کے امتحانی پرچہ تھے بلکہ ان کے اخلاق و سیرت کا بھی اندازہ ہوجانے والا تھا۔ یہ کام اس حیثیت سے ان کے سپرد نہیں ہوئے، میں جو انہیں امتحانی پرچے کہتا ہوں یہ اپنے نقطۂ خیال سے۔ بلند ہمتی کی مثال: خان بہادر مرزا اعظم بیگ پنجاب کے مشہور و معروف ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ مرزا صاحب کے خاندان پر اقتصادی بلا اِن کے ذریعہ نازل ہوئی۔ گو اس مصیبت کی تَہ میں خاندان کی خانہ جنگی تھی، لیکن اگر مرزا اعظم بیگ اس میں حصہ نہ لیتے تو نوبت اس حد تک نہ پہنچتی۔ قادیان کی زمین جو ایک شریک خاندان کی طرف سے مرزا امام الدین صاحب وغیرہ کی تحریک سے فروخت ہوئی وہ مرزا اعظم بیگ ہی نے خریدی تھی اور اس زمین کے مقدمات کا سلسلہ اس خاندان کی جائیداد کے ضائع ہونے کا باعث ہؤا، بلکہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات کے اسباب میں یہ صدمہ بھی تھا۔ ان جھگڑوں کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ انہی مرزا اعظم بیگ صاحب کی ایک زرعی جائیداد کا انتقال سب سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے سامنے پیش ہؤا اور ایک عرصہ سے یہ معلق چلا آتا تھا۔ کسی نائب تحصیلدار کو یہ جرأت نہ ہوتی تھی کہ اس کا فیصلہ کرے۔ اس میں مختلف قسم کی قانونی پیچیدگیاں تھیں اس لیے مرزا صاحب کے پیشرو نائب تحصیلدار اسے معلق رکھتے چلے آئے۔ مرزا صاحب فرماتے تھے کہ میرے سامنے جب یہ انتقال آیا تو میں نے اس کی ساری مَسل کو پڑھا اور فیصلہ کرلیا کہ میں انتقال کی تصدیق کروں گا۔ سررشتہ دار نے منع کیا کہ آج تک کسی نے اس کو نہیں کیا۔ یہ بڑے جھگڑے کی چیز ہے۔ آپ بھی رہنے دیں۔ مرزا صاحب کہتے تھے کہ میں نے اپنےدل میں کہا کہ یہ انتقال اس شخص کا ہے جس نے مجھے اور میرے خاندان کو نقصان پہنچایا ہے۔ میں اگر اسے ملتوی کرتا ہوں تو یہ میرے نفس کی شرارت ہوگی اور انتقامی سپرٹ کا ظہور ہوگا۔ اس لیے میں اس کو کل پر بھی ملتوی نہیں کروں گا۔ میں نے فیصلہ توکرہی لیا تھا۔ فریقین کو بلایا ان کے عذرات کو پھر سنا اور انتقال تصدیق کر دیا۔ مرزا اعظم بیگ صاحب کو جب خبر پہنچی تو ان کی حیرت کی حد نہ رہی، اس لیے کہ ان کو یہ توقع نہ تھی اور علاوہ بریں اب تک یہ تنازعہ چلا آتا تھا۔ مرزا صاحب کو انہوں نے بلایا اور کہا: کاش میرا ایک ہی لڑکا ہوتا اور سلطان احمد جیسا ہوتا۔ پھر انہوں نے تعلقات کی پیچیدگیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر تم اسے معلق رکھتے یا میرےخلاف بھی کردیتے تو تم معذور ہوتے اور شکایت کا موقع بھی نہ ہوتا، مگر تمہاری عالی حوصلگی کا آج ثبوت مل گیا۔ تم نے اپنے خاندان کے دشمن کے ساتھ یہ نیکی کی۔ مرزا سلطان احمد صاحب کا یہ فعل کس قدر بلندہمتی اور دشمن سے نیکی کرنے کی شان کا مظہر ہے ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ ہاں جسے یہ معلوم ہو کہ ان مقدمات نے خاندان کو کس قدر نقصان پہنچایا وہ کہےگا کہ مرزا سلطان احمد کے سینے میں بہت بڑا دل تھا۔ اور یہ ایک صداقت ہے۔ اور اس خاندان کی خصوصیات میں یہ داخل ہے کہ وہ اپنے دشمنوں سے جب انہیں موقع ملا انتقام نہیں لیتے بلکہ نیکی کرتے ہیں۔ خاندان کے تمام افراد کی یہی حالت ہے اور یہ روایتی چیز ہے جو برابر چلی جارہی ہے۔ اس کے بعدزندگی بھر مرزا اعظم بیگ مرزا سلطا ن احمدصاحب سے بہت محبت کرتے رہے اور اس خاندان کے تعلقات مضبوط ہوتے چلے گئے۔ گو پہلے بھی رشتہ داری تھی مگر بعد میں مرزا عزیز احمد صاحب کی شادی بھی مرزا اعظم بیگ صاحب کی پڑپوتی سے ہوگئی۔ ایک اور واقعہ سیرچشمی اور عالی ہمتی: انہی دنوں میں دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ مریدکے کے قریب ایک موضع کی زمین سرکاری ضروریات کے لیے لینے کےاحکام جاری ہوئے اور اس کی قیمت کی تشخیص وغیرہ کے لیے مرزا سلطان احمد صاحب ہی نامزد ہوئے۔ یہ ظاہرتھا ہی کہ جو قیمت انہوں نے مقرر کرنی تھی وہی مل جانی تھی۔ ایک شخص مرزا سلطان احمد صاحب کے پاس آیا۔ وہ عوام اور حکام میں ایک رسوخ رکھتا تھا اور بڑا ہوشیار اور مدبر مانا جاتاتھا۔ مرزا صاحب کے پاس بھی آمدورفت تھی۔ اس نے آکر کہا کہ میں ایک تجویز بتاتا ہوں، اس سے بہت سا روپیہ مل جاوے گا۔آدھا آپ لے لیں اور آدھا میں اپنی تجویز کے معاوضہ میں لے لوں گا اور یہ نہ رشوت ہے نہ کچھ اور ہے۔مرزا صاحب نے تجویز پوچھی تو اس نے کہا کہ ایک لاکھ قیمت زیادہ تشخیص کردیں۔ اس میں سے آدھا آپ لے لینا اور آدھا میں لے لوں گا۔ رسیدات میں حاصل کرلوں گا۔ مرزا صاحب کہتے تھے کہ مجھے یہ تجویز سن کر خوشی ہوئی اس لیے نہیں کہ روپیہ ملےگا بلکہ اس لیے کہ میں ان لوگوں کی بہتر مدد کرسکوں گا جن کے زمانہ دراز کے بسائے ہوئے گھروں کو میں اجاڑ رہا ہوں۔ میں نے اس شخص کو کہا روپیہ کی تو بے شک ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے۔ جائیداد کے مقدمات کے سلسلہ میں ڈگریاں ہوچکی ہیں، قرضہ کا بار ہے مگر باوجود ضرورت کے میں اس قسم کا روپیہ لینا نہیں چاہتا۔ البتہ بہت زیادہ تشخیص کرکے مدد کروں گا۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے قیمت زیادہ تشخیص کرنےمیں رعایت کی یا انصاف ؟ کہنے لگے کہ ان کی جو بھی قیمت تشخیص کی جاتی وہ انصاف تھا۔ اس لیے کہ جو تکلیف ان کو پشتوں کے آباد گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی کرنے میں ہوئی اس کی تلافی تو ہوہی نہیں سکتی تھی۔ اس لیے میں نے کوئی بےانصافی نہیں کی اور قواعد کے موافق ان کی قیمت تشخیص کرکے دِلا دی۔ یہ واقعہ معمولی نہیں۔ ایک لاکھ یا پچاس ہزارجس شخص کو ایسے وقت میں ملتا ہو کہ ضرورت رکھتا ہے اور وہ محض اس وجہ سے اسے چھوڑتا ہے کہ اس کا یہ حق نہ تھا، اس سے بڑھ کر بہادر اور عظیم الحوصلہ کون ہوگا۔ یہ ان کی ملازمت کی زندگی کی ابتدائی منزل تھی۔ پچاس ہزار کے لالچ نے ان کو اپنی طرف متوجہ نہیں کیا۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں بیسیوں نہیں سینکڑوں مواقع ایسے آئے کہ اگر وہ بعض دوسرے لوگوں کی طرح بے احتیاطی کرتے تو لاکھوں روپے پیدا کر لیتے۔ ان کے عہدِ ملازمت کا یہ اخلاقی زریں کارنامہ ہے کہ انہوں نے کبھی رشوت نہیں لی۔ نہ کبھی رشوت لی اورنہ کبھی شراب پی: میرے ساتھ ان کےبےتکلف تعلقات تھے اور میں ان کی زندگی کے نشیب وفراز سے واقف ہوں۔ کبھی کبھی فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں نے ساری عمر میں کبھی رشوت نہیں لی باوجود اس کے کہ روپیہ کی ہمیشہ ضرورت رہی۔ ایسے موقع تھے کہ وہ رشوت بھی نہ سمجھی جاتی۔ اور باوجود میرے دوستوں میں بڑی شراب پینے والے تھے مگر میں نے کبھی اس کو منہ نہ لگایا اورساتھ ہی کہتے کہ یہ میں صاف کہتا ہوں کہ یہ نہیں کہ خدا سے ڈر کر میں نے شراب نہ پی یا رشوت نہ لی۔ اگر خدا ہی کے خوف کی بات ہوتی تومیں ہزاروں دوسرے گناہ کیوں کرتا۔نہیں، میری فطرت مجھے ہمیشہ نفرت دلاتی تھی اور وہ نفرت کا جذبہ غالب تھا۔ اس لیے طبیعت میں حرص اور مے نوشی کا شوق پیدا ہی نہ ہؤا۔ (ہفتہ وار ’’سالار‘‘، شمارہ نمبر ۱۹ جلد نمبر۱ ، ۳۰ ستمبر ۱۹۳۱ء ،صفحہ نمبر ۱۱) مزید پڑھیں: خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے حالات زندگی(قسط اوّل)