https://youtu.be/wMpExBW1vE8 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ مرزا سلطان احمد صاحب ادبی دنیا کے ایک روشن ستارے تھے۔ ان کو قلم پر پوری حکومت اور قدرت تھی۔ مرحوم ایک پٹواری کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے۔ ان کی ملازمت کا عہد نہایت کامیاب اور شاندار تھا۔وہ اپنی صحیح قوتِ فیصلہ اور دیانتداری اور جفاکشی کے لیے مشہور اور ممتاز تھے۔ مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلو نہایت پُرسوز اور مؤثر ہیں نوٹ: حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ جلیل القدر صحابی تھے جنہیں جماعت کی تاریخ کو محفوظ کرنے کی جو توفیق ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکی اور اس وجہ سے آپؓ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت مرزا سلطان احمد صاحبؒ کی وفات کے وقت حضرت عرفانی صاحبؓ بمبئی سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالتے تھے جس کا نام ’’سالار‘‘ تھا۔ اُس میں آپ نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کا اعلان شائع کیا جس میں لکھا کہ وہ مرحوم کی زندگی پر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کریں گے۔ چنانچہ آپ نے حسبِ وعدہ ’’سالار‘‘ اخبار میں یہ مضامین قسط وار شائع کیے، مگر افسوس کہ ان مضامین کی سب اقساط دستیاب نہیں ہوسکیں۔ پہلی دستیاب قسط نمبرتین ہے۔ قارئینِ الفضل کی خدمت میں پہلے وفات کا اعلان اور پھر دستیاب اقساط پیش کی جارہی ہیں، اس گزارش کے ساتھ کہ اگر کسی کو اس کی مفقود اقساط مل جائیں تو وہ درج ذیل ای میل پر ارسال کرکے عند اللہ ماجور اور عندنا ممنون ہو۔ meeranjum78@gmail.com (میر انجم پرویز۔مربی سلسلہ عربک ڈیسک۔ یوکے) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی وفات پر درج ذیل اعلان شائع کیا: خان بہادر مرزا سلطان احمدصاحب کی وفات خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کی وفات جو ۲؍جولائی۱۹۳۱ء کو واقع ہوئی۔ یہ خبر میرے لیے گو غیرمتوقع نہ تھی مگر ہوش رُبا ضرور تھی۔ مرحوم کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات گذشتہ ۳۳ سال سے چلے آتے ہیں اور اس لمبے زمانہ میں بحیثیت ایک نادراورغمگسار دوست اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام میں ہو کر معزز و محترم بھائی کے میں نےانہیں مختلف رنگوں میں دیکھا اور ایک بے نظیر انسان پایا۔ ان کی وفات اگر چہ ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ وہ اپنی عمر کے قریباً اسی سال طے کر چکے تھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی اولاد کو انہوں نے کامیاب و بامراد دیکھا اور بیماری کے ایک لمبے سلسلہ میں وہ مبتلا رہے ہیں، موت نے گویا اس سے نجات دی، مگربااین ان کی وفات ایک صدمہ اور ایک نقصان بھی ہے۔ مرزا سلطان احمد صاحب ادبی دنیا کے ایک روشن ستارے تھے۔ ان کو قلم پر پوری حکومت اور قدرت تھی۔ مرحوم ایک پٹواری کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے۔ ان کی ملازمت کا عہد نہایت کامیاب اور شاندار تھا۔وہ اپنی صحیح قوتِ فیصلہ اور دیانتداری اور جفاکشی کے لیے مشہور اور ممتاز تھے۔ مرحوم کی زندگی کے مختلف پہلو نہایت پُرسوز اور مؤثر ہیں۔ میں ’سالار‘ میں ان شاء اللہ مسلسل اس پر تبصرہ کروں گا۔ مرحوم نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر سلسلہ احمدیہ میں بیعت کی اور آخر مرکر مقبرہ بہشتی کے اس حصّہ میں جگہ ملی جہاں خدا کا پیارا مسیح مو عود علیہ السلام آرام کر رہے ہیں۔ یہ بڑی سعادت ہے۔ مرحوم کی یادگار میں سے بڑے بیٹے مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے، ای اے سی ہیں اوردوسرے بیٹے مرزا رشید احمد صاحب اپنی اراضی کا انتظام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرحوم نے اپنی علمی یادگاروں میں ہزاروں صفحات کی تصنیفات چھوڑی ہیں۔ وہ ایک کامیاب زندگی اور کامیاب موت کے بعد جو مقام انہیں میسر آیا ہے اسے دیکھ کر میں کہتا ہوں کہ ان کی موت سلامتی اور برکت کی موت تھی۔اللہ تعالیٰ ان کے خاندان پر برکات نازل کرے۔ (آمین) (ہفتہ وار ’سالار‘، شمارہ نمبر ۹ جلد نمبر۱ ، ۷؍ جولائی ۱۹۳۱ء، صفحہ نمبر ۹) قسط نمبر ۱ اور ۲: نہیں ملی قسط نمبر۳ حالات زندگی پہلی شادی: اس خاندان کا اب تک یہ معمول چلا آتا تھا کہ یہ ایک خاص خاندان ہی میں شادیاں کرتے تھے اورجناب مرز اغلام قادر صاحب مرحوم کی شادی اپنے حقیقی چچا جناب مرزا غلام محی الدین صاحب مرحوم و مغفور کی صاحبزادی سے ہوئی تھی جو سارے قادیان میں تائی صاحبہ کے نام سے مشہور ہوئیں اس لیے کہ وہ مرزا سلطان احمد صاحب کی تائی تھیں۔ تائی صاحبہ کو طبعی طور پر یہ خیال تھا کہ مرزا سلطان احمد صاحب کی شادی ان کےبھائی مرزا امام الدین صاحب کی صاحبزادی سے ہو جائے۔ چنانچہ اس کے لیے تحریک کی گئی لیکن مرزا امام الدین صاحب نے نہایت حقارت کےساتھ اس پیغام کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ کھدرکاپاجامہ پہننے والے لڑکے کو میں رشتہ نہیں دیتا۔ یہ اشاره حضرت اقدسؑ کی طرف تھا۔ اور اس لڑکی کا رشتہ سانیان کر دیا گیا۔ خدا تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات ہیں کہ ایک زمانہ گزر نےکےبعد وہی رد کیا ہؤا سراکونے کا پتھر ہو گیا۔ مرزا امام الدین صاحب نے خود تحریک کی باوجود یکہ مرزا سلطان احمد صاحب کی پہلی شادی ہو چکی ہوئی تھی اور وہ صاحبِ اولاد تھے مگر مرزا صاحب کو اپنی لڑ کی دینے کے لیے درخواست کی اور مرز اسلطان احمد صاحب نے اس تحریک کو رد نہیں کیا۔ مرزا سلطان احمد صاحب کہا کرتے تھے کہ میں نے جس وقت یہ دوسری شادی کی تو محض اسی خیال سے کی تھی کہ خدا تعالیٰ نے اس بڑے بول کا جواب دیا ہے خدا کی قدرت ہے کہ وہ خوش بخت لڑکی جس کو مرزا سلطان احمد صاحب کی زوجیت میں آنے کی سعادت حاصل ہوئی بہت خوش قسمت ثابت ہوئی کہ اس کے ذریعہ سے خاندان میں دینی اخوت اور تعلقات کا سلسلہ بھی مضبوط ہو گیا۔ غرض یہ ہے کہ جب مرزا امام الدین صاحب نے اس تحریک کو پہلی مرتبہ حقارت سے ردکر دیا تومرزا سلطان احمد صاحب کی شادی اپنے ننھیال کے معزز خاندان میں ہو گئی۔ اورعجیب اتفاق یہ ہے کہ اس دن یہ شادی ہوئی جبکہ حضرت اقدس نےدہلی دوسری شادی اللہ تعالیٰ کے وعدے کے موافق کی اور وہ ایک ہی دن آگے پیچھے قادیان میں وارد ہوئے۔ اس بیوی سے اللہ نے انہیں ایک صاحبِ جمال و اقبال بچہ دیا جو علی گڑھ کالج کے گریجوایٹ اور پنجاب میں ای-اے-سی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بیش از پیش ترقیات دے۔ (آمین) لیکھرام سے مباحثہ: ابھی تک مرزا صاحب گھر ہی میں تھے۔ براہینِ احمد یہ شائع ہو چکی تھی اور حضرت اقدس ؑ کی شہرت قادیان سے باہر نکل رہی تھی۔ صداقتِ اسلام کے ثبوت کے لیے تائیدی نشانات کے دکھانے کے اعلان ہو چکے تھے۔لیکھرام قادیان آیااور اس نے بازار میں اسلام کے خلاف ایک لیکچر دیا۔ اس میں اپنی عادت کے موافق سخت زبانی بھی کی۔ یہ جرات اسے قادیان میں نہ ہوتی لیکن مرزا امام الدین صاحب ان کے مؤیّد تھے اور در اصل وہی اس کے محرک بھی تھے۔ قادیان کے مسلمانوں کی ایک جماعت مرزا سلطان احمد صاحب کے پاس آئی اور واقعات کا اظہار کیا۔ مرزا صاحب غیرتِ اسلامی سے، جو فطرتی خاصہ تھا، جو ش میں آگئے اور اسی وقت اس جماعت کے ساتھ بازار پہنچے اور وہاں جا کر لیکھر ام کو للکارا اور مباحثہ کے لیےچیلنج دے دیا۔ قادیان کے ہندوؤں نے موقع کی نزاکت کو دیکھا اور جھٹ لیکھر ام کو اس مقام سے ہٹاکرلےگئے۔ اس وقت مرزا صاحب نے غیرتِ اسلامی کا ایک ایسا مظاہرہ کیاکہ جن لوگوں نے اس واقعہ کو دیکھا تھا اور ان میں سے بعض اب تک زندہ ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ مرزا سلطان احمدصاحب کو اتنے جوش میں ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مرزا سلطان احمد صاحب کوئی لڑائی کرنےنہ گئے تھے، مگر وہ اسلامی عقائد کی سچائی کوثا بت کرنے کے لیے جو جوش رکھتے تھے اس روز اس کا مظاہرہ ہو گیا۔ مختصر یہ کہ ان حالات میں مرزا صاحب اپنی ز ندگی گزار رہے تھے کہ و ہ وقت آپہنچا کہ مرزا صاحب کی قابلیت ان کے لیے ترقیات کے دروازوں کو کھول دے۔ ملازمت کا آغاز: وہ خود کسی افسر سے جا کر ملنے اور درخواست کرنے کی روح ہی نہیں رکھتے تھے، اس لیے کہ خاندانی تربیت اس رنگ پر ہوئی تھی اور کوئی آدمی ایسا تھا نہیں جو ان کے لیے افسرانِ با لادست کو کہے اور دوسری طرف خاندانی مقدمات کا جو سلسلہ مرزاغلام قادر مرحوم کی زندگی میں شروع ہو کر ان کی موت پر ختم ہوا تھا اس میں اس خاندان کی دولت وثروت اور قادیان سے باہر کی جائیدادِغیرمنقولہ سب ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ قادیان کی زمین کا بہت بڑا حصہ بھی یونہی جا چکا تھا۔ مالی اعتبار سے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ با لکل تہی دست ہو چکے تھے اور ہزاروں روپیہ کا بار سرپر تھا مگر ایک چیز تھی، جو اس خاندان کی مورثی دولت ہے، کہ ہمت بلند تھی۔ اس خاندان سے ارادت ر کھنے والوں میں ایک شخص شیخ عزیز الدین صاحب دینانگری، جو تحصیلدار تھے اور اس وقت بٹالہ میں تحصیلدار تھے۔ ضلع گورداسپور کا بندوبست شروع ہو چکا تھا اور مسٹرلوئیس ڈین جو بعد میں سرلوئیس ڈین (Sir Louis Dane) ٭ ہو کر پنجاب کے گورنر ہوئے اور ابھی تک خدا کے فضل سے زندہ ہیں وہ مہتمم بندوبست ہو ئے۔ شیخ عزیز الدین صاحب مرزا سلطان احمد کو لےکر مقام ڈیرہ بابا نانک لوئیس ڈین سےملے اور مرزا سلطان احمد کو پیش کیا۔ لوئیس ڈین اس خاندان کی عظمت، اس کی خدمات سے واقف تھا اورجب مرزا سلطان احمد صاحب پیش ہوئے تو اب تک ملازم نہ ہونے پر افسوس کرتے ہوئے اس نے مرزا صاحب سے دریافت کیا کہ تم نےکیا امتحان پاس کیا ہے؟ مرزا سلطان احمد صاحب کہتے تھے کہ شیخ عزیز الدین صاحب کچھ کہنا چاہتے تھےمگر میں نے جرأت سے خود ہی جواب دیا اور کہا کہ اگر امتحان پاس کیا ہوتا تو کیا اِس وقت تک یونہی پھرتا؟ آپ کے پاس آنےکی کیاضرورت تھی؟ لہجہ اس وقت قدرتی طور پر سخت ہو گیا تھا اور جی میں آتا تھا کہ یہاں سے چلا جاؤں اور اپنے لیے کوئی اور میدان پیدا کروں، مگر ڈین صاحب میرے اس جواب پر مسکرائے اور کہا کہ پھر میں پٹوار دے سکتا ہوں۔ اگر منظور ہو تومیں حکم جاری کر د یتا ہوں۔ مرزا صاحب نے کہا کہ پٹوارنہیں، اگراس سے بھی کوئی کم جگہ ہو تو میں کرنے کے لیےتیار ہوں۔ میرا کام بتا دے گا کہ مجھے کہاں لگانا چاہیے۔ ڈین صاحب کو یہ جواب سن کر حیرت ہوئی۔ شیخ عزیز الدین صاحب کو بھی تعجب ہؤا اور کچھ خطرہ بھی ہؤا کہ ایسا نہ ہو اس بےباکی کو نا پسند کرے مگر وہ خاندان کی طبیعت سے واقف تھا۔ شیخ صاحب نےسفارش میں بہترسے بہتر الفاظ کہے۔ خاندان کی عظمت، خدمات اور خود مرزا سلطان احمدصاحب کے ہونہار ہونے کایقین دلایا اور آخر اسی ملاقات میں مرزا صاحب پٹواری ہو گئے۔ اور جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرا کام بتا دے گا کہ مجھے کہاں لگانا چاہیے۔ واقعات مابعد نے بتا دیا کہ وہ قانونی اور انتظامی قابلیتوں میں کسی سے پیچھےنہ تھا اور پٹواری سے ڈپٹی کمشنری کے عہدے تک پہنچا۔ میں نے سر لوئیس ڈین سے ملاقات کی۔ میں اپنے ایک صمیم دوست اور مخلص برا درِ طریقت سیدخصیلت علی شاہ مرحوم کے پوتے کو ان کے پاس سفارش کے لیے لے گیا تھا اور اسی سلسلہ میں مرزا سلطان احمد صاحب والے الفا ظ دُہرائے تو ڈین صاحب نے سن کر کہا کہ یہ الفاظ مرزا سلطان احمد کو ہی سمجھتے تھے اور ہم بھی اُس وقت اختیار رکھتے تھے۔ اب میرے ہاتھ میں کچھ نہیں اور مرزا سلطان احمد کی قابلیت اور جرأت کا آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ القصہ مرزا صاحب ڈیرہ بابا نانک کے مقام پر پٹواری مقرر ہو کر آگئے تاکہ کچھ ضروری سامان وغیرہ لےکر اپنےکام پر چلے جاویں۔ مرزا صاحب نے اس مو قع پر نہ تو اپنے خاندانی کیریکٹر اور وقار کو ہاتھ سے دیا اورنہ کسی قسم کے تکلف اور نمائش سے کام لیا اور اپنی محنت اور قابلیت پر جو اعتماد تھا اسےپیش کرنے میں مضائقہ نہ کیا اور بڑے خاندانوں کے نوجوانوں کی طرح اس میں کوئی ہتک نہیں سمجھی کہ وہ اس زمانہ کی پٹوار، جس کی تنخواہ آٹھ دس روپیہ ہو، کا عہدہ قبول کر لیں۔ یہ ان کی عالی ہمتی اور بلندنظری کا ایک مظاہرہ تھا۔ انہوں نے اپنی اس زندگی میں بتایا کہ انسان اگر محنت اور جفا کشتی سے کام لے تو اپنے چھوٹے سے چھوٹے حلقہ میں اپنے لیے بہت بڑا مقام پیدا کر سکتا ہے۔ عہدِ ملازمت کی داستان آئندہ پڑھیے۔ (ہفتہ وار ’’سالار‘‘، شمارہ نمبر ۱۹ جلد نمبر۱ ، ۲۳ ستمبر ۱۹۳۱ء، صفحہ نمبر۱۱-۱۲) ٭ ان کا پورا نام Sir Louis William Dane تھا۔ پیدائش۱۸۵۶ء،وفات ۱۹۴۶ء۔ ۲۵؍مئی۱۹۰۸ء کو پنجاب کے گورنر بنے اور ۲۸؍ اپریل ۱۹۱۱ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ پھر دوبارہ ۴؍ اگست ۱۹۱۱ء سے ۲۶ مئی ۱۹۱۳ء تک گورنرپنجاب رہے۔ ٭…٭…٭