https://youtu.be/tXAwXbqr3oM ٭… جنگِ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں پر الله تعالیٰ نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا، اِن لوگوں کو فاسق قرار دیا، نبی اکرمؐ کو اِن کی نمازِ جنازہ پڑھنے اور اِن کی قبر پر دعا کرنے سے منع فرما دیا اور یہ پابندی بھی لگا دی کہ آئندہ وہ کسی تحریک میں حصّہ نہ لیں گے اور نہ ہی کسی جنگ میں شامل ہوں گے ٭…حضرت کعب بن مالک ؓکہتے ہیں کہ جب مَیں نے رسول اللهؐ کو السلام علیکم کہاتو رسول اللهؐ نے فرمایا اور آپؐ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا کہ تمہیں بشارت ہو !نہایت ہی خوش اچھے دن کی، اُن دنوں میں سے ، جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے، تم پر گزرے ہیں ٭… حافظ محمد ابراہیم عابد صاحب مربی سلسلہ، شیخ ابوبکر جارج صاحب معلّمِ سلسلہ لائبیریا اور ثمینہ بھنوں صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر فضل محمود بھنوں صاحب آف لائبیریا کاذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍نومبر۲۰۲۵ء بمطابق ۲۸؍نبوت۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۸؍نومبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔ جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تبوک کے سفر کی مزید تفصیلات جو ملتی ہیں وہ آج بیان کروں گا۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ بعض منافقین نے غزوہ پر جانے سے انکار کیا تھا اور مختلف عُذر بیان کیے تھے۔ لیکن مدینہ تشریف آوری کے بعد بھی منافقین کے ساتھ نہ جانے پر عُذر اور بہانوں کا ذکر ملتا ہے۔ بلکہ قرآنِ شریف میں بھی اِس کا ذکر ہے۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سُنّت تھی کہ جب سفر سے مدینہ واپس تشریف لاتےتو پہلے مسجد میں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کرتے۔چنانچہ نوافل سے فارغ ہو کر آپؐ مسجد میں ہی تشریف فرما ہو گئے۔ اور لوگ آپؐ کی ملاقات اور زیارت کے لیے حاضر ہونے لگے۔اسی طرح وہ لوگ جو اپنی کمزوریٔ ایمان اور نفاق کی وجہ سے ساتھ نہیں گئے تھے وہ بھی آنے لگے۔سیرت نگار لکھتے ہیں کہ یہ لوگ تقریباً اَسّی تھے لیکن بعض روایات کے مطابق اس سے بھی زیادہ لوگ تھے۔رسول اللهؐ نے اُن سے اُن کے ظاہری عُذر مان لیے اور اُن سے بیعت لی اور اُن کے لیے مغفرت کی دعا کی اور اُن کا اندرونہ الله کے سپرد کیا۔ لیکن اِن منافقین کا یہ جرم ناقابلِ معافی تھا۔ اِس لیے الله تعالیٰ نے اِن کے بارے میں نبی اکرمؐ کو بذریعہ وحی فرما دیا تھا کہ یہ ایسے ناپاک لوگ ہیں کہ خدا اِن سے اب راضی نہیں ہو گا۔ چنانچہ اِن لوگوں کی نسبت الله تعالیٰ نے سورۃ التّوبہ میں خبر دی۔ جنگِ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں پر الله تعالیٰ نے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا، اِن لوگوں کو فاسق قرار دیا، نبی اکرمؐ کو اِن کی نمازِ جنازہ پڑھنے اور اِن کی قبر پر دعا کرنے سے منع فرما دیا اور یہ پابندی بھی لگا دی کہ آئندہ وہ کسی تحریک میں حصّہ نہ لیں گے اور نہ ہی کسی جنگ میں شامل ہوں گے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ جنگِ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے چارطرح کے لوگ تھے۔ وہ خوش نصیب افراد جو رسول اللهؐ کے ارشاد پر کسی فرض کی ادائیگی کے لیے پیچھے رہے جیسے حضرت علی رضی الله عنہ، ابنِ اُمِّ مکتومؓ اور محمد بن مَسْلَمَہؓ وغیرہ۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں، جو معذور ، بیمار اور کمزور تھے یا بہت ہی نادار اور غریب تھے اور سواری وغیرہ کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ آنحضرتؐ نے اِن کے بارے میں فرمایا کہ وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ساتھ ہی تھے ۔ تیسرے منافق، جن کے کردار کی سخت مذمت کی گئی اور قرآنِ کریم میں ہمیشہ ہمیش کے لیے اُن کے لیے ناراضگی اور سخت سزا اَور وعید کا حکم نازل ہوا۔ چوتھے وہ لوگ تھے، جو محض سُستی کی وجہ سے شامل نہ ہوئے تھے اور پیچھے رہ گئے تھے۔ اِن میں تین اصحابؓ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں اور وہ ہیں حضرت کَعْب بن مالکؓ، حضرت مُرارہ بن ربیعؓ اور حضرت ہلال بن اُمَیَّہؓ۔ اِن تین صحابہؓ کے متعلق قرآنِ کریم میں آیت بھی نازل ہوئی۔حضورِ انور نے فرمایا کہ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا یعنی وہ تین جو پیچھے چھوڑ دیے گئے، اِن کے واقعے کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے، بخاری کی ایک روایت میں حضرت کَعْب بن مالکؓ نے خود یہ سارا واقعہ بیان کیا ہے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول اللهؐ سے کسی غزوے میں پیچھے نہیں رہا، جو آپؐ نے کیا ہو، سوائے غزوۂ تبوک کے۔ غزوۂ تبوک کے حوالے سے اپنا حال بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللهؐ نے سفر کی تیاری شروع کر دی اور آپؐ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی۔ مَیں صبح کو جاتا تاکہ مَیں اُن کے ساتھ سامانِ سفر کی تیاری کروں، اِرادہ پکّا تھا، مَیں واپس لَوٹتا اور کچھ بھی نہ کیا ہوتا، لیکن سُستی تھی تیاری نہیں ہوتی تھی۔مَیں اپنے دل میں کہتا کہ مَیں تیاری کر سکتا ہوں کل کر لوں گا۔ یہ خیال مجھے لَیت و لَعَلّ میں رکھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا کہ لوگوں کو سفر کی جلدی پڑی اور رسول اللهؐ ایک صبح روانہ ہو گئے اور مسلمان بھی آپؐ کے ساتھ روانہ ہوئےاور مَیں نے اپنے سامانِ سفر کی تیاری میں سے کچھ بھی نہ نمٹایا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ آپؐ کے جانے کے ایک دن یا دو دن بعد تیاری کر لوں گا اور پھر اُن سے جا ملوں گا۔اُن کے چلے جانے کے بعد دوسری صبح باہر گیا کہ سامان تیار کر لوں، مگر پھر واپس آ گیا اور کچھ بھی نہ کیا۔ یہی حال رہا ، یہاں تک کہ تیزی سے سفر کرتے ہوئے لشکر بہت آگے نکل گیا۔ رسول اللهؐ کے جانے کے بعد جب بھی مَیں لوگوں میں نکلتا اور اُن میں چکر لگاتاتو مجھے یہ بات غمگین کر دیتی کہ مَیں ایسے ہی شخص کو دیکھتا جن پر نفاق کا عیب دھرا جاتا تھا یا کمزوروں میں سے ایسا شخص جس کو الله نے معذور ٹھہرایا تھا۔ حضرت کَعْب بن مالکؓ کہتے تھے کہ جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ آپؐ واپس آ رہے ہیں، مجھے فکر ہوئی اور مَیں جھوٹی باتیں سوچنے لگا کہ کس بات سے کل آپؐ کی ناراضگی سے بچ جاؤں۔ جب یہ کہا گیا کہ رسول اللهؐ آن پہنچے، میرے دل سے سارے جھوٹے خیالات کافور ہو گئے اور مَیں نے سمجھ لیا کہ مَیں کبھی بھی ، آپؐ کے غصّے سے ایسی بات سے بچنے کا نہیںجس میں جھوٹ ہو۔ اِس لیے مَیں نے آپؐ سے سچ سچ بیان کرنے کی ٹھان لی۔ رسول اللهؐ تشریف لے آئےتو پیچھے رہے ہوئے لوگ آپؐ کے پاس آ گئے اور آپؐ سے معذرتیں کرنے اور قسمیں کھانے لگے۔ایسے لوگ اَسّی سے کچھ اُوپر تھے۔ رسول اللهؐ نے اُن سے اُن کے ظاہری عُذر مان لیے اور اُن سے بیعت لی۔ پھر مَیں آپؐ کے پاس آیا، جب مَیں نے آپؐ کو سلام کیا، تو آپؐ ناراض شخص کی طرح مُسکرائے۔ پھر آپؐ نے فرمایا آگے آؤ، مَیں چل کر آیا اور آپؐ کے سامنے بیٹھ گیا۔آپؐ نے مجھ سے پوچھا کہ کس بات نے تمہیں پیچھے رکھا ہے، کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی؟ مَیں نے کہا کہ جی ہاں! الله کی قسم! مَیں ایسا ہوں کہ اگر آپؐ کے سوا دنیا کے لوگوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا، تو مَیں سمجھتا ہوں کہ مَیں ضرور ہی اِس کی ناراضگی سے عُذر کر کے بچ جاتا۔ مجھے خوش بیانی دی گئی ہے، مگر الله کی قسم! مَیں خوب سمجھ چکا ہوں اگر مَیں نے آج آپؐ سے کوئی ایسی جھوٹی بات بیان کی، جس سے آپؐ مجھ پر راضی ہو جائیںتو الله عنقریب مجھ پر آپؐ کو ناراض کر دے گا۔ اور اگر آپؐ سے سچی بات بیان کروں گا، جس پر آپؐ مجھ پر ناراض ہوںتو مَیں اِس میں الله کے عفّو کی اُمید رکھتا ہوں۔ کہنے لگے کہ الله کی قسم! میرے لیے کوئی عُذر نہیں تھا، الله کی قسم! مَیں کبھی بھی ایسا تنو مند اور آسودہ حال نہیں ہوا، جتنا کہ اُس وقت تھا، جبکہ آپؐ سے پیچھے رہ گیا تھا۔ رسول اللهؐ نے یہ سُن کر فرمایا: اِس نے تو سچ بیان کر دیا ہے، اُٹھو جاؤ، یہاں تک کہ الله تمہارے متعلق کوئی فیصلہ کرے۔ پھر مَیں نے اِن سے پوچھا کہ کیا کوئی میرے ساتھ اور بھی ہے، جس نے آپؐ سے اِس قسم کا اقرار کیا ہو؟ اُنہوں نے کہا کہ ہاں! دو اور شخص ہیں، اُنہوں نے بھی وہی کہا ہے کہ جو تم نے کہا ہےاور اُن کو بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں دیا گیا ہے۔ مَیں نے کہا کہ وہ کون ہیں؟ تو کہنے لگے کہ مُرارہ بن ربیع عمری اور ہلال بن اُمَیَّہ ۔ حضرت کَعْبؓ کہتے ہیں کہ اِس اثنا میں کہ مَیں مدینے کے بازار میں چلا جارہا تھا، کیا دیکھتا ہوں کہ اہلِ شام کے نبطیوں سے ایک نبطی، جو مدینے میں غلّہ لے کر بیچنے کے لیے آئے تھے، کہہ رہا تھا کہ کَعْب بن مالک کا کون بتائے گا؟ یہ سُن کر لوگ اُس کو اشارے سے بتانے لگے، جب وہ میرے پاس آیا، تو اُس نے غسّان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط مجھے دیا۔ اِس میں یہ مضمون تھا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے ساتھی نے تمہارے ساتھ سختی کا معاملہ کر کے تمہیں الگ تھلگ چھوڑ دیا ہے اور تمہیں تو الله نے کسی ایسے گھر میں پیدا نہیں کیا تھا کہ جہاں ذلّت ہو اَور تمہیں ضائع کر دیا جائے، تم ہم سے آ کر ملو، ہم تمہاری خاطر مدارت کریں گے۔ جب مَیں نے یہ خط پڑھا تو مَیں نے کہا کہ یہ خط ایک اور آزمائش ہے، مَیں خط لے کر ایک تندور کی طرف گیا اور اُس میں اِس خط کو پھینک دیا۔ جب پچاس راتوں میں سے چالیس راتیں گزریں، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول الله ؐکا پیغام لانے والا میرے پاس آ رہا ہے، اُس نے کہا کہ رسول اللهؐ تم سے فرماتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ ہو جاؤ! مَیں نے پوچھا کہ کیا مَیں اُسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟اُس نے کہا کہ اِس سے الگ رہو اور اِس کے قریب نہ جاؤ۔آپؐ نے میرے دونوں ساتھیوں کو بھی ایسا ہی کہلا بھیجا۔ جب پچاسویں رات کی صبح کو فجر کی نماز پڑھ چکا اور مَیں اُس وقت اپنے گھروں کی چھت میں سے ایک چھت پر تھا اور مَیں اِسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا، جس کا الله نے ذکر کیا ہے ، یعنی مجھ پر میری جان تنگ ہو چکی تھی اور مجھ پر زمین بھی باوجود کُشادہ ہونے کے تنگ ہو گئی تھی۔ اِس اثنا میں مَیں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی ، جو سلع پہاڑ پر چڑھ کے بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کَعْب بن مالک ! تمہیں بشارت ہو! مَیں یہ سُن کر سجدے میں گر پڑا اَور سمجھ گیا کہ مصیبت دُور ہو گئی۔اور رسول اللهؐ نے، جب آپؐ فجر کی نماز پڑھ چکے، اعلان فرمایا کہ الله نے مہربانی کر کے ہماری غلطی کو معاف کر دیا ہے۔یہ سُن کر سب لوگ ہمیں خوشخبری دینے لگے اور میرے دونوں ساتھیوں کی طرف بھی خوشخبری دینے والے گئے۔ حضرت کَعْب کہتے تھے کہ آخر مَیں مسجد میں پہنچا ۔جب مَیں نے رسول اللهؐ کو السلام علیکم کہاتو رسول اللهؐ نے فرمایا اور آپؐ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا کہ تمہیں بشارت ہو !نہایت ہی خوش اچھے دن کی، اُن دنوں میں سے ، جب سے تمہاری ماں نے تمہیں جنا ہے، تم پر گزرے ہیں۔ مَیں نے پوچھا کہ یا رسول اللهؐ! کیا یہ بشارت آپؐ کی طرف سے ہے یا الله کی طرف سے؟آپؐ نے فرمایا کہ نہیں! بلکہ الله کی طرف سے ۔ خطبہ کے دوسرے حصے میں حضورِ انور نے تین مرحومین کا ذکر خیر فرمایا اور ان کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا کہ مرحومین کے ذکر میں جو پہلا ذکر ہے، وہ حافظ محمد ابراہیم عابد صاحبکا ہےجو مربی سلسلہ تھے۔ گذشتہ دنوں بہتّر سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ ۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ الله کے ہاتھ پر بیعت کر کےجماعت میں داخل ہوئے۔ مرحوم پیدائشی نابینا تھے۔ ۱۹۶۷ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۷۷ء میں جامعہ سے شاہد کی ڈگری کے ساتھ عربی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی اِن پر خاص شفقت تھی اور اِسی وجہ سے اِن کو جامعہ میں داخلہ ملا تھا۔تقریباً سینتالیس سال تک اِن کو خدمت کی توفیق ملی۔خلافت سے بڑا گہرا عقیدت کا تعلق تھا۔ اِن کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ دوسرا ذکر ہے، شیخ ابوبکر جارج صاحب معلّم سلسلہ لائبیریا کا، اِن کی بھی گذشتہ دنوں ستّر سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد وفات ہو گئی۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔۱۹۸۰ء میں سیرالیون میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ دنیاوی لحاظ سے بڑے آسودہ حال تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد الله تعالیٰ نے آپ کے دل میں خدمتِ دین کا غیر معمولی جذبہ پیدا کیا۔ اگرچہ واقفِ زندگی نہیں تھے، لیکن عملاً آپ نے وہ رنگ دکھایا، جو واقفینِ زندگی سے بھی بڑھ کر تھا۔پسماندگان میں دو اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ تیسرا ذکر ثمینہ بھنوں صاحبہ کا ہےجو ڈاکٹر فضل محمود بھنوں صاحب لائبیریا کی اہلیہ تھیں، اِن کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی حضرت مولانا عبدالرّحیم درد صاحبؓ کی نواسی تھیں۔ مرحومہ نے بی اے کی تعلیم ربوہ سے حاصل کی، پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی کیا، تقریباً پینتیس سال کا عرصہ افریقہ میں اپنے واقفِ زندگی شوہر کے ساتھ ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے نہایت بہادری سے گزارا اور ہر حال میں ثابت قدم رہیں۔ زندگی کے ہر مرحلے میں آپ نے وقف کے تقاضے خوشدلی اور پوری بشاشت کے ساتھ پورے کیے۔پسماندگان میں خاوند کے علاوہ ایک بیٹی شامل ہیں۔ حضور انور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔ ٭…٭…٭